اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

22 جولائی 2023

1:11:36 PM
1381285

نصف رجب سنہ 60ھ کو معاویہ کی موت کے بعد، یزید کو چند افراد کی بیعت کے سوا ـ کوئی دوسری فکر لاحق نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے والیِ مدینہ ایک خط لکھا، اور حکم دیا کہ "امام حسین (ع)، ابن عمر اور ابن زبیر سے زبردستی بیعت لو، جو نہ مانے اس کا سر قلم کرو"۔ یزید نے دوسرے خط میں ولید کو حکم دیا کہ "خط وصول کرتے ہی ۔۔۔ حسین بن علی(ع) کا سر بھی، خط کے جواب کے ساتھ روانہ کرو"۔ چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا؛ اور مروان کی تجویز پر انہيں دارالامارہ بلوایا۔ بہرحال منصوبہ قتل حسین(ع) پہلے سے طے پا چکا تھا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق

امام حسین (علیہ السلام) نے معاویہ کی موت کے بعد یزید کی بیعت کو جائز نہيں سمجھا؛ اور آپ کی حکومت و زمامداری قبول کرنے کے سلسلے میں اہل کوفہ کی دعوت، کے پیش نظر مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے لیکن آپ کو کربلا میں کوفیوں کی عہدشکنی کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں دو لشکروں کے مابین ہونے والی جنگ میں آپ اور آپ کے قلیل ساتھی - جن کی تعداد، بروایتے، 72 تھی - جام شہادت نوش کرگئے اور اہل بیت اور اصحاب میں سے آپ کے پسماندگان کو یزیدی لشکر نے اسیر کرکے کوفہ و شام بھجوایا۔

یزید کی بیعت سے انکار اور اس کے نتائج

نصف رجب سنہ 60ھ کو معاویہ کی موت کے بعد، لوگوں نے (1) یزید کے ساتھ بیعت کی۔ (2) یزید کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے ـ اس کی بیعت کے لئے معاویہ کی دعوت مسترد کرنے والے چند افراد کی بیعت کے سوا ـ کوئی دوسری فکر لاحق نہ تھی۔ (3) چنانچہ اس نے اس وقت کے والیِ مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا، معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک چھوٹا اور مختصر خط بھی بھجوایا جس میں اس نے ولید کو ہدایت کی تھی کہ "امام حسین (علیہ السلام)، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لو اور جو نہ مانے اس کا سر قلم کرو"۔ (4) ان مکتوبات کے پہنچتے ہی ایک اور مکتوب بھی یزید کی طرف سے موصول ہؤا جس میں اس نے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ "خط وصول کرتے ہی میرے حامیوں اور مخالفین کے نام میرے لئے بھجوا دو اور امام حسین (علیہ السلام) کا سر بھی، خط کے جواب کے ساتھ میرے لئے روانہ کرو"۔ (5) چنانچہ ولید نے مروان بن حکم سے مشورہ کیا؛ (6) اور مروان بن حکم کی تجویز پر انہيں دارالامارہ بلوایا۔ (*)

ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کو امام حسین (علیہ السلام)، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس روانہ کیا (7) کہ انہیں حاکمِ مدینہ کے پاس بلا دے؛ تاہم امام حسین (علیہ السلام) اپنے 30 (8) ساتھیوں کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔ (9) ولید نے معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے حکم دیا تھا کہ "حسین (علیہ السلام)، سے میرے لئے بیعت لو"۔ چنانچہ ولید نے امام حسین (علیہ السلام) سے کہا کہ بیعت کریں! لیکن امام حسین (علیہ السلام)، نے مہلت مانگی اور ولید نے بھی مہلت دے دی۔ (10) امام حسین (علیہ السلام) نے ولید سے فرمایا: "کیا تمہیں یہی پسند ہے کہ میں در پردہ، بیعت کروں؟ میرے خیال میں تمہارا مقصد بھی یہ ہے کہ میری بیعت عوام کی آنکھوں کے سامنے ہو"۔ ولید نے کہا: ہاں! میرا مقصد یہی ہے۔ (11) امام حسین (علیہ السلام)، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے فرصت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں۔ (12)

حاکم مدینہ نے دوسرے روز شام کے وقت اپنے گماشتوں کو امام حسین (علیہ السلام) کے ہاں بھجوایا تاکہ آپ سے جواب وصول کرے؛۔ (13) لیکن امام حسین (علیہ السلام) اس رات کے لئے بھی مہلت مانگی اور ولید نے پھر بھی آپ کو مہلت دی۔۔ (14) شہر مدینہ مزید پرامن نہیں رہ سکا تھا چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ (15) امام حسین (علیہ السلام) اسی رات [یعنی شب یک شنبہ [اتوار] کی رات مدینہ ترک کرکے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (16)

مدینہ سے ہجرت مکہ کی طرف عزیمت

واضح رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مشرکین قریش کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تھے اور آج فرزند رسول (علیہ السلام) کو ان ہی وجوہات اور ان ہی مشرکین کی اولاد کی سازشوں کی بنا پر مدینہ چھوڑ کر مکہ ہجرت کرنا پڑ رہی تھی، جس کے بعد آپ کو عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ اور پیغمبر کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کرنے والوں کے بیٹے یزید پلید نے امام حسین (علیہ السلام) کو قتل کرکے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ شل نہ ہوں؛ یعنی مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسین (علیہ السلام) کی ہجرت اسلام کے دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے مختلف مراحل اختصاراً بیان کئے جارہے ہیں:

ترک وطن

امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا؛ رات کے وقت اپنی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت رسول (سلام اللہ علیہا) اور بھائی امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کی قبور پر حاضری دی، نماز بجا لائی اور وداع کیا اور صبح کے وقت گھر لوٹ آئے۔ (17) بعض تاریخی ذرائع نے بیان کیا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) دو شب مسلسل اپنے جد امجد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر کے پاس رہے۔ (18)

وصیت، بھائی محمد بن حنفیہ کے نام

محمد بن حنفیہ کو معلوم ہؤا کہ بھائی حسین (علیہ السلام) عنقریب سفر پر جارہے ہیں تو انھوں نے آ کر وداع کیا۔ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا:

"إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب؛

میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بابا علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں"۔ (19)

مکہ کی طرف روانگی

امام حسین (علیہ السلام) 28 رجب المرجب کو رات کے وقت (20) اور بروایتے تین شعبان المعظم سنہ 60ھ کو (21) اپنے خاندان اور اصحاب کے 82 افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ (*) اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا (22) امام حسین (علیہ السلام) کے اکثر اعزّاء و اقارب ـ منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے۔ (23) بنو ہاشم کے علاوہ، آپ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے تھے۔ (*)

امام حسین (علیہ السلام) اپنے قافلے کے ساتھ مدینہ سے نکل گئے اور اپنے [بعض] قریبی اقرباء کی مخالفت کے باوجود مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (24)

مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسین (علیہ السلام) پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے (25) اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔ (26)

مدینہ سے مکہ کی طرف سفر کا راستہ

15 رجب سنہ 60 ہجری معاویہ کا انتقال بسوئے یوم الحساب؛ 28 رجب سنہ 60 ہجری امام کی مدینہ سے روانگی براستۂ ملل، ذوالحلیفہ، السیالہ، عرق الظبیہ، الروحاء، الإثابہ، العرج، لحى جمل، السقیاء، الأبواء، الہرشا کی گھاٹی، الرابغ، الجحفہ، قدید، خلیص، عسفان، مر الظہران، الثنیتین، مكۃ المكرمہ، یہی وہ راستہ ہے جو امام حسین (علیہ السلام) نے پانچ دن میں طے کیا۔

امام حسین (علیہ السلام) مکہ میں

قافلہ حسینی مدینہ سے عزیمت کے پانچ دن بعد تین شعبان سنہ 60ھ کو مکہ پہنچا۔ (27) مکہ کے باشندے اور بیت اللہ الحرام کے زائرین آپ کی آمد کی خبر سن کر بہت خوش ہوئے۔ شب و روز آپ کی رہائشگاہ میں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور یہ بات عبداللہ بن زبیر پر بہت گراں گذرتی تھی؛ کیونکہ اس کو امید تھی کہ مکی عوام اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور جانتا تھا کہ جب تک امام حسین (علیہ السلام) مکہ میں ہونگے لوگ اس کے ساتھ ببیعت نہیں کریں گے کیونکہ امام حسین (علیہ السلام) کی منزلت مکی عوام کے نزدیک عبداللہ بن زبیر کی منزلت سے بہت بلند تھی۔ (28)

کوفیوں کے خطوط اور امام حسین (علیہ السلام) کو قیام کی دعوت

ابھی ‎امام حسین (علیہ السلام) کی مکہ میں آمد کے چند ہی روز گذرے تھے کہ شیعیان عراق مرگِ معاویہ کی خبر ملی اور یزید کی بیعت سے امام حسین (علیہ السلام) اور ابن زبیر کے انکار سے بھی آگاہ ہوئے؛ چنانچہ وہ سليمان بن صُرَد خزاعی کے گھر میں جمع ہوئے اور امام حسین (علیہ السلام) کے لئے خط لکھ کر آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (29)

انھوں نے خط عبداللہ بن سَبعِ ہَمْدانى اور عبداللہ بن وال ہاتھوں مکہ روانہ کیا۔ (30) ان دو افراد نے کوفیوں کا خط 10 رمضان المبارک کو مکہ میں امام حسین (علیہ السلام) تک پہنچا دیا۔ (31) پہلے خط کے دو روز بعد انھوں نے قيس بن مُسہِر الصيداوى، عبدالرحمن بن عبدالله بن كَدِنِ اَرحَبى اور عُمارَة بن عُبَيد سَلولى کو 150 خطوط دے کر مکہ روانہ کیا۔ ہر خط پر ایک سے چار افراد تک کے دستخط تھے۔ (32) یہ سارے خطوط امام حسین (علیہ السلام) کو کوفہ آنے کی دعوت پر مشتمل تھے۔ ان خطوط کے دو روز بعد کوفیوں نے مزید خطوط دو قاصدوں ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں امام حسین (علیہ السلام) کے کے لئے روانہ کئے اور آپ سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔ (33)

دلچسپ یہ کہ اموی حکومت کے حامیوں کے سرکردہ افراد شَبَث بن رِبعى، حَجّار بن اَبجَر، يزيد بن حارث بن يزيد بن رُوَيم، عَزْرَة بن قيس، عمرو بن حَجّاج زُبَيدى اور محمّد بن عُمَير تميمى، نے بھی امام کو خط لکھا (34) اور آپ سے کوفہ آنے کی درخواست کی۔ (35) لیکن اس کے باوجود امام حسین (علیہ السلام) اتنے سارے خطوط کا جواب دینے میں صبر و تامل سے کامل لے رہے تھے حتی کہ ایک دن کوفیوں کی طرف سے 600 خطوط امام حسین (علیہ السلام) کو خطوط موصول ہوئے (36) اور اس کے بعد بھی متعدد خطوط یکے بعد از دیگر موصول ہوتے رہے۔ (37) تب جاکر امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خط لکھ کر ہانی بن ہانی السبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی (38) کو دیا۔ اس خط میں آپ نے لکھا: ۔۔۔ میں نے اپنے بھائی، ابن عم، معتمد اور اہل خاندان کو تمہاری طرف بھیجا اور ان سے کہا کہ تمہارے احوال، تمہارے امور اور تمہاری رائے کے بارے میں مجھے لکھ دیں؛ اگر وہ لکھیں کہ جماعت اور عقلمندوں کی رائے وہی ہے جو یہ [قاصد] مجھے بتا چکے ہیں تو میں بہت جلد تمہاری طرف آتا ہوں۔ (39) چنانچہ آپ نے کوفہ] کا سفر مسلم بن عقیل کی طرف سے اہل کوفہ کے دعؤوں اور وعدوں کی تائید سے مشروط کیا۔

 کوفہ کے لئے اامام حسین (علیہ السلام) کے سفیر

امام حسین (علیہ السلام) نے کوفیوں کے نام ایک خط دے کر (40) اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو عراق روانہ کیا؛ تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیں اور آپ کو حالات کی خبر دیں۔ (41) مسلم (علیہ السلام) 15 رمضان المبارک کو خفیہ طور پر مکہ سے نکلے اور 5 شوال المکرم کو کوفہ پہنچ کر (42) مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر میں مقیم ہوئے۔ (43) اس وقت اموی حکومت کا گورنر اور امیر کوفہ نعمان بن بشیر انصاری تھا۔ شیعیان کوفہ مسلم (علیہ السلام) کی آمد سے مطلع ہونے کے بعد ان کے پاس حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ 18000 افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (44)

عبداللہ بن مسلم، اس کے بعد عُمارة بن عُقبہ اور اس کے بعد عمر بن سعد نے یزید کو خط لکھ کر کوفہ کے حاکم کو معاملات و انتظامات حکومت کے حوالے سے کمزور قرار دیا اور اس سے درخواست کی کہ کوفہ کے لئے کوئی فوری اور مؤثر اقدام کرے۔ (45) یزید نے اپنے مشیر سرجون نصرانی سے مشورہ کیا اور اس کے مشورے پر کوفہ اور بصرہ کی حکومت عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کردی۔ (46) عبید اللہ بن زیاد بھیس بدل کر کوفہ میں داخل ہؤا اور دارالعمارہ پہنچ کر اپنا تعارف کرایا۔ (47)

ابن زیاد نے مسجد کوفہ میں لوگوں سے خطاب کیا، انہیں اپنی مخالفت سے خوفزدہ کیا، قبائل کے سربراہوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آیا اور اپنے مخالفین کو شدید دھمکیاں دیں۔ (48) مسلم بن عقيل، ابن زیاد کی آمد اور اس کے خطاب سے باخبر ہوئے، اور قبائل کے سربراہوں کے ساتھ اس کے سخت رویئے سے آگاہ ہوئے تو مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر سے نکل کوفہ کے ایک زعیم ہانی بن عروہ مرادی کے گھر میں پناہ لی۔ (49) انھوں نے اپنا خط عابس بن ابى شَبيبِ شاكرى، (*) کو دے کر امام حسین (علیہ السلام) کو بھجوایا، (50) جس میں انھوں نے لکھا تھا: "18000 افراد نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے، میرا خط وصول کرکے آنے میں عجلت کریں"۔ (51) ابن زیاد نے کسی حد تک کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد، مسلم (علیہ السلام) کا خفیہ ٹھکانہ معلوم کرنے کے لئے اپنے غلام معقل کو مسلم (علیہ السلام) کے حامیوں کے درمیان بھیج دیا۔ (52) ابن زیاد نے مسلم (علیہ السلام) کا ٹھکانہ معلوم کرنے کے بعد ہانی بن عروہ کو دھوکے سے دارالامارہ لے گیا اور انہیں قید کرلیا۔ (53)

ہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد مسلم (علیہ السلام) نے اپنے انصار کو "یا منصورُ أَمِت" ("یا منصورُ أَمِت" یعنی اے نصرت پانے والے مار دو۔ یہ نعرہ مسلم بن عقیل کے انصار و اعوان نے کوفہ میں اپنایا تھا۔ (54)۔ یہ پہلی مرتبہ غزوہ بدر میں مسلمانوں نے لگایا تھا اور اس کے ذریعے مسلم مجاہدین ایک دوسرے کو اندھیرے میں بھی پہچان لیتے تھے۔ (55)۔ مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے ساتھیو ںنے بھی اپنی تحریک کے آغاز پر "یا منصورُ اَمِت؛ کا نعرہ لگایا۔ (56) کے شعار کے ساتھ قیام کی دعوت دی (57) اور چار ہزار افراد لے کر دارالامارہ کو گھیر لیا۔ (58) ابن زیاد نے كثير بن شهاب بن حُصَين الحارثى، محمّد بن اشعث، قَعقاع بن شَور ذُهْلى، شَبَث بن رِبعى تميمى، حَجّار بن اَبجَر عِجلى اور شمر بن ذی الجوشن العامرى (59) جیسے سربراہان قبائل سے کہا کہ اپنے قبائل کے افراد کو مسلم (علیہ السلام) سے دور کریں اور اس راہ میں اس (ابن زیاد) کی طرف سے مال و منال کے وعدوں سے دریغ نہ کریں اور انہیں لشکر شام سے خوفزدہ کریں جو عنقریب کوفہ کی طرف آرہا ہے۔ (60) کوفی عمائدین کی تقاریر کے بعد مسلم (علیہ السلام) کے ساتھی منتشر ہونا شروع ہوئے۔ (61) حتی کہ جب رات ہوئی تو مسلم (علیہ السلام) کے ساتھ تیس افراد کے سوا کوئی نہ تھا۔ (62) مسلم بن عقیل نے مسجد کوفہ میں نماز پڑھائی اور نماز مغرب و نعشاء کے بعد مسجد سے نکلے تو باقیماندہ افراد نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور یوں سفیر امام حسین (علیہ السلام) تنہا رہ گئے۔ (63)

مسلم (علیہ السلام) جو تنہا رہ گئے تھے، ایسے حال میں کہ گلیوں کوچوں میں حیران و پریشان تھے، نے "طوعہ" نامی خاتون کے گھر میں پناہ لی۔ (64) ابن زیاد قیام مسلم کے خاتمے کے بعد مسجد گیا اور نماز اور خطاب کے بعد مسلم (علیہ السلام) کی گرفتاری کے لئے گھر گھر تلاشی کا حکم جاری کیا۔ (65) دریں اثناء طوعہ کا بیٹا مسلم (علیہ السلام) کے ٹھکانے سے آگاہ ہوچکا تھا چنانچہ اس نے حکومت کے کارگزاروں کو اس کی اطلاع دی۔ (66) عبید اللہ نے محمد بن اشعث کو ستر آدمیوں کے ہمراہ طوعہ کے گھر کی طرف روانہ کیا۔ (67) جب مسلم (علیہ السلام) کو معلوم ہؤا کہ گھر کو گھیرے میں لیا گیا ہے تو تلوار لے کر باہر آئے اور ان کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوئے۔ (68) حتی کہ شدید زخمی ہوکر اسیر ہوگئے۔ (69) گرفتاری کے بعد انھوں نے محمّد بن اشعث اور عمر بن سعد سے کہا کہ قاصد بھیج امام حسین (علیہ السلام) کو کوفہ کے حالات سے آگاہ کریں۔ (70) کوفہ میں چونسٹھ روز قیام کے بعد جام شہادت نوش کرگئے۔ (71)

محمد بن اشعث اور عمر بن سعد کا قاصد منزل زبالہ میں امام حسین (علیہ السلام) کے قافلے سے جا ملا اور آپ کو مسلم (علیہ السلام) کا پیغام پہنچایا کہ "اہل کوفہ بیعت کے بعد منتشر ہوگئے"۔ (72) مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت سے امام حسین (علیہ السلام) کو شدید صدمہ ہؤا۔ (73)

 مکہ سے کوفہ روانگی

 امام حسین (علیہ السلام) کی کوفہ عزیمت

امام حسین (علیہ السلام) کی عزیمتِ کی خبر کوفہ مکی عوام میں پھیل گئی اور ان میں سے بہت سوں کو تشویش لاحق ہوئی۔ عبداللہ بن عباس اور محمد بن حنفیہ آپ کے پاس پہنچے اور آپ کو کوفہ کے سفر سے باز رکھنے کی کوشش کی۔

 مام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب نے طوافِ خانۂ خدا اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد روانگی کے لئے تیار ہوئے۔ (74) آخر کار مکہ میں 4 مہینے اور پانچ روز قیام کے بعد سہ شنبہ (منگل) آٹھ ذوالحجہ روز ترویہ (75) اور ایک قول کے مطابق اہل بیت اور کوفی بزرگوں کے 60 افراد کے ساتھ، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (76)

 امام حسین (علیہ السلام) کو روکنے میں عمرو بن سعید کی ناكامى

مکہ سے امام حسین (علیہ السلام) اور اصحاب کی کوفہ عزیمت کے بعد پاسبانوں کے سربراہ یحیی بن سعید اور مکہ کے حاکم عمرو بن سعید بن العاص نے اپنے اعوان و انصار کے ساتھ مل کر امام حسین (علیہ السلام) کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر امام حسین (علیہ السلام) نے توجہ دیئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ (77)

 مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کی منازل

مکہ مکرمہ سے آٹھ ذوالحجہ کو امام حسین (علیہ السلام) کی روانگی اور 15 رمضان سنہ 60 ہجری مسلم (علیہ السلام) کو کوفہ بھجوانا)، بستان بنی عامر، تنعیم (یمن میں یزیدی کارگزار بحیر بن ریسان حمیری کی طرف سے شام کی طرف بھیجے ہوئے صفایا کے منتخب جنگی غنائم کے قافلے کو اپنی تحویل میں لینا)، صفاح (امام حسین (علیہ السلام) فرزدق شاعر سے ملاقات)، ذات العرق (امام حسین (علیہ السلام) کی بشر بن غالب نیز عون بن عبداللہ بن جعفر۔۔۔ سے ملاقات)، وادی عقیق، غمرہ، ام خرمان، سلح، افیعیہ، معدن فزان، عمق، سلیلیہ، مغیثہ ماوان، نقرہ، حاجز (امام حسین (علیہ السلام) نے یہیں سے قیس بن مسہر کو کوفہ روانہ کیا)، سمیراء، توز، اجفر (امام حسین (علیہ السلام) کا سامنا عبداللہ بن مطیع عدوی سے، جس نے امام حسین (علیہ السلام) کو واپسی کا مشورہ دیا)، خزیمیہ، زرود (9 ذی الحجہ، زہیر بن قین کا قافلۂ حسینی سے جاملنا اور فرزندان مسلم سے ملاقات اور مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت کی خبر کی وصولی)، ثعلبیہ، بطان، شقوق، زبالہ (قیس بن مسہر کی شہادت پانا اور نافع بن ہلال سمیت چند افراد کا قافلہ حسینی میں شامل ہونا)، بطن العقبہ (امام حسین (علیہ السلام) کی عمرو بن لوزان سے ملاقات اور عمر کا آپ کو واپسی کا مشورہ)۔ عمیہ، واقصہ، شراف، تالاب ابومسک، جبل ذی حم (امام حسین (علیہ السلام) کو حر بر یزید ریاحی سے سامنا کرنا)۔ بیضہ (امام حسین (علیہ السلام) کا اپنے اصحاب اور حر کو مشہور خطبہ دینا)، مسیجد، حمام، مغیثہ، ام قرون، عذیب (کوفہ کا راستہ عذیب سے قادسیہ اور حیرہ کی جانب تھا۔ لیکن امام حسین (علیہ السلام) نے راستہ بدل دیا اور کربلا میں اترے)۔ قصر بنی مقاتل (امام حسین (علیہ السلام) کی عبید اللہ بن حرّ جعفی سے ملاقات؛ عبید اللہ بن حر نے امام حسین (علیہ السلام) کی طرف سے نصرت کی دعوت رد کردی)، قطقطانہ، کربلا -وادی طَفّ- (دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین (علیہ السلام) کربلا میں اترے)۔ (78)

 قیس بن مسہر صیداوی کو کوفہ روانہ کرنا

مروی ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) بطن الرمہ کے علاقے میں پہنچے تو کوفیوں کو خط لکھا اور انہیں کوفہ کی طرف سے اپنی روانگی کی اطلاع دی۔ (79) امام حسین (علیہ السلام) نے خط قیس بن مسہر صیداوی کو دیا۔ سپرد۔ قیس قادسیہ پہنچے تو ابن زیاد کے گماشتوں نے ان کا راستہ روکا اور قیس بن مسہر نے بھی مجبور ہوکر خط پھاڑ دیا تا کہ دشمن اس کے مضمون سے باخبر نہ ہوسکیں۔ ابن زیاد غضبناک ہؤا اور چلا کر کہا: "خدا کی قسم! تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ ان افراد کے نام بتا دو جنہیں امام حسین (علیہ السلام) نے خط لکھا تھا؛ یا یہ کہ منبر پر جا کر حسین اور ان کے باپ کو برا بھلا کہو!؛ اسی صورت میں میں تمہیں رہا کروں گا ورنہ تمہیں مار دوں گا"۔

قیس بن مسہر نے قبول کیا اور منبر پر جاکر امام حسین (علیہ السلام) کو برا بھلا کہنے کے بجائے کہا: اے لوگو! میں حسین بن علی (علیہما السلام) کا ایلچی ہوں اور تمہاری طرف آیا ہوں تا کہ آپ کا پیغام تم کو پہنچا دوں؛ اپنے امام کی ندا کو لبیک کہو"۔

ابن زیاد آگ بگولہ ہوگیا اور حکم دیا کہ قیس بن مسہر کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا جائے۔ اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس جسم بےجان کی تمام ہڈیاں توڑ دیں۔ (80)

فرستادن عبدالله بن یَقطُر به کوفه

مروی ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے مسلم (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر پانے سے قبل اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن یقطر حمیری ـ (81) کو مسلم (علیہ السلام) کی طرف بھجوایا لیکن وہ حصین بن نمیر کے ہاتھوں گرفتار ہوکر ابن زیاد کے پاس لے جائے گئے۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں دارالعمارہ کی چھت پر لے جایا جائے تاکہ کوفیوں کے سامنے امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے والد بزرگوار پر سبّ و لعن کریں۔ عبداللہ بن یقطر حمیری نے دارالامارہ کی چھت سے کوفی عوام سے مخاطب ہوکر کہا: "اے لوگو! میں تہمارے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹی کے فرزند حسین کا ایلچی ہوں؛ اپنے امام کی مدد کو دوڑو اور ابن مرجانہ کے خلاف بغاوت کرو"۔ (82)

ابن زیاد نے جب یہ دیکھا تو حکم دیا کہ انہيں چھت سے نیچے گرا دیا جائے، اور اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا۔ عبداللہ بن یقطر جانکنی کی حالت میں تھی کہ ایک شخص نے آکر انہیں قتل کردیا۔ (83)

 عبداللہ بن یقطر حمیری کی شہادت کی خبر مسلم (علیہ السلام) اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے خبر کے ہمراہ زبالہ کے مقام پر امام حسین (علیہ السلام) کو ملی۔ (84)

 سفیر امام حسین (علیہ السلام) بصرہ میں

امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خط لکھ کر اپنے ایک موالی (آزاد کردہ) سلیمان بن زرین (یہ سعادتمند انسان حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے موالی اور معتمدین میں سے تھے ان کی والدہ کا نام کبشہ تھا جو ایک کنیز تھیں اور امام حسین (علیہ السلام) نے انہیں ایک ہزار درہم دے کر خریدا تھا اور اپنی زوجہ مکرمہ ام اسحق کی خدمت پر مامور کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد امام حسین (علیہ السلام) نے ان کا نکاح ابو زرین سے کرایا اور اس ازدواجی تعلق سے سلیمان بن زرین متولد ہوئے۔ زیارت ناحیہ میں امام زمانہ (علیہ السلام) نے ان کو بھی سلام کیا ہے اور فرمایا ہے: '''"السلام علی سليمان مولی الحسين بن اميرالمؤمنين ولعن الله قاتله سليمان بن عوف الحضرمي"۔''' (85) کے توسط سے بصرہ کے پانچ قبائل (عاليہ، بكر بن وائل، تمیم، عبد القيس اور اَزْد) کے سربراہوں کے لئے روانہ کیا۔ (86) سلیمان نے پانچوں قبائل کے سربراہوں "مالک بن مِسمَع بَكرى، أَحنَف بنِ قیس، مُنذِر بن جارود العبدی، (87) مسعود بن عمرو، قيس بن هَيثَم اور عمرو بن عبيدالله بن مَعمَر" میں سے ہر ایک کو خط کا نسخہ دیا۔ (88) اس خط کا مضمون اور متن ایک ہی تھا جو کچھ یوں تھا: <font colorred '''"۔۔۔ اَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلی کِتاب اللّه ِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ صلی الله علیه و آله، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمیْتَتْ وَ اِنَّ البِدْعَةَ قَدْ اُحْیِیَتْ وَ اِنْ تَسْمَعُوا قَوْلی وَ تُطیعُوا اَمْری اَهْدِکُمْ سَبیلَ الرَّشادِ"۔'''</font> (ترجمہ:۔۔۔میں تمہیں كتاب خدا اور سنّت رسول(ص) کی طرف بلاتا ہوں۔ بےشک سنت نیست و نابود ہوگئی ہے اور بدعتیں زندہ ہوگئی ہیں؛ تم میری بات سنوگے اور میرے فرمان کی پیروی کروگے تو میں راہ راست کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا)۔ (*)

بصری قبائل کے تمام سربراہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کے خط کا موصولہ نسخہ چھپا کر رکھ دیا سوائے منذر بن جارود عبدی کے جس نے [مبینہ طور پر] گمان کیا کہ یہ ابن زیاد کی ایک چال ہے۔ (90) چنانچہ اس نے اگلے روز ابن زیاد کو ـ جو کوفہ جانا چاہتا تھا ـ حقیقت حال بتا دی (91) ابن زیاد نے امام حسین (علیہ السلام) کے قاصد کو اپنے پاس بلوایا اور ان کا سر قلم کروایا۔ (92)

حر بن یزید ریاحی کی سپاہ کا سامنا

عبیداللہ بن زیاد کو امام حسین (علیہ السلام) کی کوفہ عزیمت کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی کوتوالی کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو چارہزار کا لشکر دے کر "قادسیہ" روانہ کیا تا کہ "قادسیہ" سے "خفان" اور "قُطقُطانیّه" سے "لعلع" تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کرے تا کہ ان علاقوں سے آمد و رفت کرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے آگہی حاصل کرسکے۔ (93) حر بن یزید ریاحی کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین بن نمیر تمیمی کے لشکر کا حصہ تھا جو قافلۂ حسینی کا راستہ روکنے کے لئے روانہ کیا گیا تھا۔ (94)

حرّ اور قافلہ حسینی کا راستہ روکنا

ابو مِخنف نے اس سفر میں امام حسین (علیہ السلام) کے قافلے میں شامل دو بنو اسد کے افراد سے نقل کیا ہے کہ "جب قافلۂ حسینی "شراف" کی منزل سے روانہ ہؤا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں آن پہنچیں"۔ "پس امام حسین (علیہ السلام) نے "ذو حُسَم" کا رخ کیا۔ (95)

 حر بن یزید ریاحی اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب کے آمنے سامنے آگئے؛ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ حر اور اس کے سپاہیوں کو اور گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ آپ نے نہ صرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی!

حر کی نماز حسین (علیہ السلام) کی امامت میں

نماز ظہر کا وقت ہؤا تو امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے مؤذن حَجّاج بن مسروق جعفی حکمِ اذان دیا، چنانچہ انھوں نے اذان دی اور اذان اقامہ کا وقت ہؤا تو امام حسین (علیہ السلام) نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:

"أَیُّهَا النّاسُ! إنَّها مَعْذِرَةٌ إِلَى اللّهِ وَإِلى مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمینَ، إِنِّی لَمْ أَقْدِمْ عَلى هذَا الْبَلَدِ حَتّى أَتَتْنِی کُتُبُکُمْ وَقَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ أَنْ اَقْدِمَ إِلَیْنا إِنَّهُ لَیْسَ عَلَیْنا إِمامٌ، فَلَعَلَّ اللّهُ أَنْ یَجْمَعَنا بِکَ عَلَى الْهُدى، فَإِنْ کُنْتُمْ عَلى ذلِکَ فَقَدْ جِئْتُکُمْ، فَإِنْ تُعْطُونِی ما یَثِقُ بِهِ قَلْبِی مِنْ عُهُودِکُمْ وَ مِنْ مَواثیقِکُمْ دَخَلْتُ مَعَکُمْ إِلى مِصْرِکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَکُنْتُمْ کارِهینَ لِقُدوُمی عَلَیْکُمْ اِنْصَرَفْتُ إِلَى الْمَکانِ الَّذِی أَقْبَلْتُ مِنْهُ إِلَیْکُمْ؛

یہ ایک عذر ہے اللہ کی بارگاہ میں اور تمہارے ہاں؛ "لوگو! میں تمہارے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ تمہارے خطوط موصول ہوئے اور تمہارے قاصد اور ایلچی میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کی کہ تمہاری طرف آجاؤں اور تم نے کہا کہ "ہمارا امام نہیں ہے؛ شاید اللہ تمہیں میرے وسیلے سے راہ راست پر گامزن کردے، پس اگر تم اپنے عہد و پیمان پر استوار ہو تو میں تمہارے شہر میں آتا ہوں، بصورت دیگر تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔

حر اور اس کے سپاہیوں نے خاموشی اختیار کی اور کسی نے کچھ نہیں کہا۔ بعدازاں امام حسین (علیہ السلام) نے نماز ظہر کے لئے اذان اقامہ پڑھنے کا حکم دیا [اور نماز ادا کی] اور حر اور اس کے سپاہیوں نے بھی امام حسین (علیہ السلام) کی امامت میں نماز پڑھی۔ (96)

اسی دن عصر کے وقت امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو روانگی کے لئے تیاری کرنے کا حکم دیا؛ اور نماز عصر کے وقت امام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو اذان عصر دینے کی ہدایت کی اور نماز عصر ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:

"ايها الناس، فانكم ان تتقوا الله وتعرفوا الحق لاهله يكن ارضى لله عنكم، ونحن اهل بيت محمد اولى بولاية هذا الامر عليكم من هؤلاء المدعين ما ليس لهم، والسائرين فيكم بالجور والعدوان۔ فان ابيتم الا الكراهة لنا، والجهل بحقنا، وكان رأيكم الان غير ما اتتني به كتبكم، وقدمت على به رسلكم، انصرفت عنكم؛

اے لوگو! خدا سے ڈروگے اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم اہل بیتِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) منصب خلافت اور تمہاری ولایت و امامت کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حق دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہمارے اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوط میں لکھے ہوئے مضمون سے ہم آہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں"۔

حر بن یزید نے کہا: "مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جائیں"۔ (97)

امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!"، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا ہے!"۔

امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "امام(ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا"۔

حر نے کہا: "میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛ لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو کوفہ لے جاؤں؛ پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو کوفہ کی طرف جارہا ہو نہ ہی مدینہ کی طرف؛ تا کہ میں ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے روانہ کروں؛ آپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط یزید بن معاویہ کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر منتج ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں"۔ (98)

امام حسین (علیہ السلام) کی دوبارہ روانگی

امام حسین (علیہ السلام) "عذیب" اور "قادسیہ" کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ آپ عذیب سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور حر امام حسین (علیہ السلام) |آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ (99)

ابن زیاد کے قاصد کی آمد

پو پھٹتے وقت امام حسین (علیہ السلام) البیضہ کی منزل (100) پر رک گئے اور نماز صبح ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ظہر کے وقت سرزمین نینوا|نیوی' میں پہنچے۔ (101) ابن زیاد کے قاصد نے خط حر کے حوالے کیا جس میں اس نے لکھا تھا: "میرا خط تم تک پہنچے، میرا قاصد تمہارے پاس آئے تو امام حسین (علیہ السلام) |حسین پر سختی کرو اور انہیں مت اتارو مگر لق و دق اور بےآب و گیاہ زمین پر! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو تاکہ وہ میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔ والسلام"۔ (102)

حر نے ابن زیاد کا خط امام حسین (علیہ السلام) کو پڑھ کر سنایا، امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہمیں "نینوا|نینوی'" یا "غاضریہ" (103) میں اترنے دو"۔ (104)

حر نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عبید اللہ یہ خط پہنچانے والے قاصد کو مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے!"

زہیر بن قین|زہیر نے کہا:"خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ یابن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولِ اللہ! اس وقت اس گروہ (حر اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو ان کے پیچھے آرہے ہیں؛ میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے"۔

امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "درست کہہ رہے ہو اے زہیر؛ لیکن میں جنگ شروع کرنے والا نہ ہونگا"۔ (105)

زہیر بن قین|زہیر قریب ہی فرات کے کنارے ایک بستی ہے جہاں حفاظت کے لئے قدرتی انتظام موجود ہے اور اس کو ایک طرف کے ساتھ تمام اطراف سے فرات نے گھیر لیا ہے"۔

امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "اس بستی کا نام کیا ہے؟"

عرض کیا: [اس کا نام] "عقر" [ہے] (106)

امام حسین (علیہ السلام) |امام (ع) نے فرمایا: "خدا کی پناہ مانگتا ہوں عقر سے!"۔ (107)

پس ساتھ ساتھ چلتے رہے حتی کہ "کربلا" پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسین (علیہ السلام) کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔ (108)

 امام حسین (علیہ السلام) کربلا میں

بیشتر تاریخی منابع نے اپنی روایات میں پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) |آپ کے اصحاب کے کربلا میں اترنے کی تاریخ قرار دیا ہے۔ (109) تاہم دینوری نے کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کی آمد کی تاریخ چہار شنبہ (بدھ) یکم محرم الحرام، قرار دی ہے۔ (110) اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

جب حر نے امام حسین (علیہ السلام) سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے"۔

امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔

سب نے کہا: كربلا۔

فرمایا: یہاں كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ امام علی علیہ السلام|میرے والد جنگ صفین|صفین کی طرف عزیمت کرتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اور امام علی علیہ السلام|آپ نے فرمایا: "یہاں، یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو امام علی علیہ السلام|آپ نے فرمایا: "خاندان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد(ص) کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔ (111)

امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ (112) اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام|محرم کا دن تھا۔ (113) و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم محرم الحرام|محرم سنہ 61 کا دن تھا۔ (114)

منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:

اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين؛

خداوندا! ہم تیرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی(ص) کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!] بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔

اس کے بعد امام حسین (علیہ السلام) |آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

"إن الناس عبيد الدنيا، والدين لعق (115) على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون؛

ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں کا چٹخارہ ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک کہ وہ ان کی زندگی فلاح و رفاہ کا باعث ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔ (116)

اس کے بعد امام حسین (علیہ السلام) نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4x4 میل تھا ـ نینوا|نینوی' اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ امام حسین (علیہ السلام) |آپ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔ (117)

دو محرم الحرام|محرم سنہ 61 ہجری کو امام حسین (علیہ السلام) اور اصحاب کربلا میں حسین (علیہ السلام) کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، (118) حر بن يزيد ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔ (119) حر کا خط موصول ہونے پر ابن زیادعبید اللہ نے ایک خط امام حسین (علیہ السلام) کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:

"امّا بعد، اے حسین (علیہ السلام)! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔

مروی ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:

"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا"۔

قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسین (علیہ السلام) کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امام حسین (علیہ السلام) کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔ (120)

 عمر بن سعد کی کربلا آمد

عمر بن سعد بن ابی وقاص امام حسین (علیہ السلام) کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز ـ یعنی تین محرم الحرام کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔ (121) عمر بن سعد کی کربلا آمد کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:

"عبید اللہ بن زياد نے عمر بن سعد کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کوفیوں کو رے اور دَستَبی" (یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج2، ص454۔) لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ عبید اللہ نے [قبل ازیں] رے کی حکومت کا حکم عمر بن سعد کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو رے کا والی مقرر کیا تھا۔ عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے باہر نکلا اور "حمام اعین" کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ رے جانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کا مسئلہ پیش آیا؛ اور جب امام حسین (علیہ السلام) نے کوفہ کی طرف عزیمت کی تو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے امام حسین (علیہ السلام) کی جنگ پر جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد '''اپنی حکومت''' کے مقام کی طرف کوچ کرو"۔ عمر بن سعد امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ جنگ کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا چنانچہ اس نے عبید اللہ بن زیاد سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو"؛ لیکن ابن زیاد نے اس جنگ سے ابن سعد کی معافی کو رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔ (122)

عمر بن سعد نے جب چون اصرار ابن زیاد کا اصرار دیکھا تو کہا: (میں کربلا) جاتا ہوں"۔ (123) چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور نینوی' کے مقام پر امام حسین (علیہ السلام) کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔ (124)

امام حسین (علیہ السلام) اور عمر بن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز

عمر بن سعد نے کربلا پہنچتے ہی امام حسین (علیہ السلام) کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ آپ سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟"۔ اس نے یہ کام عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی اور امام حسین (علیہ السلام) کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔ (125) تاہم كثير بن عبداللہ شعیبہ نے تجویز مان لی اور خیام حسینی کی جانب روانہ ہؤا، لیکن او ثمامہ صا‏ئدی نے اس کو ہتھیار لے کر امام حسین (علیہ السلام) کے حضور پنچنے سے روک لیا، کثیر نامراد ہوکر عمر بن سعد کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔ (126) کثیر کی واپسی پر عمر بن سعد نے قرة بن قيس حنظلى سے (127) امام حسین (علیہ السلام) کے پاس جانے کی درخواست کی۔

 امام حسین (علیہ السلام) نے عمر کے پیغام کے جواب میں قروہ بن قیس سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہيں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔ عمر ابن سعد اس جواب سے خوش ہؤا (128) پس ایک خط ابن زیاد کو لکھا اور اس کو امام حسین (علیہ السلام) کے اس کلام سے آگاہ کیا۔ (129)

ابن زیادابن زياد نے عمر بن سعد کے خط کے جواب میں اس سے تقاضا کیا کہ امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب سے یزید کے لئے بیعت لے۔ (130)

  ابن زیاد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش

کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کی آمد کے بعد ابن زیاد نے کوفیوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان کے زعماء کے درمیان یزید کے ارسال کردہ تحائف تقسیم کئے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انہیں دعوت دی کہ کربلا جاکر امام حسین (علیہ السلام) کے خلاف جنک میں عمر بن سعد کی مدد کریں۔ (131)

ابن زیاد نے کوفہ کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔ (132) اور کوفیوں کو کربلا جاکر امام حسین (علیہ السلام) سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل کوفہ پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔ (133)

ابن زیاد نے حصین بن نمیرکو 4000 کے لشکر کے ساتھ قادسیہ سے نخیلہ بلوایا۔ (134) ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی اور کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو ابو عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کی جنگ کے لؤے تیار کریں۔ (135) ابن زیاد نے سويد بن عبدالرحمن منقرى کو چند سوار دے کر کوفہ میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو ابو عبداللہ الحسین(ع) کی جنگ پر جانے سے اجتناب کررہے تھے۔ سوید بن عبدالرحمن منقری نے کوفہ میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شام|شامی مرد کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوایا جو اپنی میراث طلب کرنے کوفہ آیا تھا۔ ابن زیاد نے کوفیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (136)

نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو ابن زیاد نے حصين بن نمير، حجار بن أبجر، شبث بن ربعى اور شمر بن ذی الجوشن کو ابن سعد کی مدد کے لئے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔ (137) شمر نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لئے تیار ہؤا۔ (138) شمر کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مُصاب مارى (مُضاير بن رہینہ مازِنى) 3000 کے لشکر کے ساتھ (139) اور حصين بن تميم طہوى (140) وہی ہے جس کو بعض کتب میں "حصین بن نمیر" کہا گیا ہے (141) اور بعض کتب میں "حصین بن تمیم " کہلایا ہے (142) دو ہزار کے لشکر کے ساتھ (143) اور نصر بن حَربہ (حَرَشه) 2000 کے لشکر کے ساتھ عمر بن سعد سے جا ملے۔ (144) اس کے بعد ابن زیاد ایک آدمی شبث بن ربعی ریاحی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ عمر بن سعد سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر عمر بن سعد کی لشکر گاہ میں پہنچا۔ (145) اور اس کے بعد محمد بن اشعث بن قيس كِنْدى ایک ہزار سوار (146) لے کر کربلا پہنچا اور ان کے بعد حارث بن يزيد بن رويم بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے کربلا روانہ ہؤا۔ (147)

ابن زیاد ہر روز صبح اور شام کوفیوں فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے کربلا روانہ کرتا تھا (148) حتی کہ چھ محرم الحرام کو عمر بن سعد کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔ (149) ابن زیاد نے عمر بن سعد کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔

حبیب بن مظاہر اسدی اور امام حسین (علیہ السلام) کے لئے لشکر جمع کرنے کی کوشش

کربلا میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد حبيب بن مظاہر امام(ع( کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر، امام حسین (علیہ السلام) کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ بنی اسد پہنچے اور ان سے بنت رسول(ص) کے لئے مدد کی درخواست کی۔

بنی اسد رات کے وقت خیام امام حسین (علیہ السلام) کی جانب رواں دواں تھے کہ عمر بن سعد نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا؛ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور بنی اسد جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے؛ چنانچہ حبیب بن مظاہر اکیلے واپس آگئے۔ (150)

 سات محرم اور پانی کی بندش

سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حسین(ع) اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔

خط وصول کرتے ہی عمر بن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسین (علیہ السلام) اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔ (151)

بعض منابع میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، امام حسین (علیہ السلام) نے بھائی عباس کو بلوایا اور انہیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی پانی کے حصول کی خاطر فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نافع بن ہلال جملی پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جارہے تھے؛ یہ افراد عباس(ع) کی قیادت میں] شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، ـ جو فرات کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب حسین (علیہ السلام) کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب حسین (علیہ السلام) کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور علمدار حسین(ع) اور نافع بن ہلال سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں حسین (علیہ السلام) کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہؤا۔ (152)

 عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین (علیہ السلام) کے آخری مذاکرات

عمر بن سعد کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد امام حسین (علیہ السلام) عمرو بن قرظہ انصارى کو عمر بن سعد کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا"، امام حسین (علیہ السلام) اور عمر بن سعد دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ امام حسین (علیہ السلام) نے بھائی ابوالفضل العباس اور بیٹے علی اکبر(ع) کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ عمر بن سعد نے بھی بیٹے حفص بن عمر سعد اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں امام حسین (علیہ السلام) نے عمر بن سعد سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور اخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔"۔ (153) عمر نہ مانا۔ امام(ع) جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم عراق کی گندم نہ کھا سکوگے"۔ (154)

امام حسین (علیہ السلام) اور عمر بن سعد کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔ (155)

ایک افسانوی روایت

کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں عمر بن سعد نے ایک خط میں میں ابن زیاد کو لکھا:

"۔۔۔ حسین بن علی(ع) نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود یزید کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!" (156)

خط ابن زیاد نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ ابن زیاد اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ شمر بن ذی الجوشن ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط عمر بن سعد کو پہنچا دو تا کہ وہ حسین بن علی(ع) اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو حسین بن علی(ع) کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد عمر بن سعد کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔" (157)

اس کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:

"۔۔۔ میں نے تمہیں (کربلا) نہیں بھیجا کہ حسین بن علی(ع) سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر حسین بن علی(ع) اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب حسین مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کو بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو شمر بن ذی الجوشن کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔ (158)

حقیقت کیا ہے

اس روایت میں کچھ حقائق بھی ہیں؛ یہ بات روایات میں منقول ہے کہ عمرسعد نے مسئلے کو بغیر جنگ کے حل کرنے اور اپنے، ابن زیاد اور یزید کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی درست ہے کہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کے لئے غیر انسانی احکامات بھجوائے (اور البتہ یہ بھی درست ہے کہ (عمر بن سعد نے ان احکامات پر من و عن عملدرآمد کیا) لیکن یہ دعوی درست نہیں ہوسکتا کہ امام حسین (علیہ السلام) یزید کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی خواہش کی تھی اور اس کے ثبوت ایک سے زیادہ ہیں:

معاویہ کی موت اور مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے یزید کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد ولید بن عتبہ اور مروان بن حکم نے سید الشہداء سے کہا کہ یزید کی بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:

"يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق ومثلى لايبايع مثله؛

یزید ایک فاسق، شرابی، قاتل شخص ہے جو اعلانیہ فسق و گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا کوئی اس جیسے کسی کی بیعت نہیں کرتا"۔ (159) بے شک اگر تحریک عاشورا کا ایک ہدف و مقصد یہی تھا تو یہ ابھی اپنی جگہ قائم تھا اور کسی نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ یزید اس عرصے میں توبہ کرکے اسلامی شریعت کا تابع مطلق بن چکا تھا۔ چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) کے یزید کے پاس جانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

اور پھر امام حسین (علیہ السلام) یزید کو پہلے سے جانتے تھے۔ حتی ایک مرتبہ جب معاویہ نے ایک مجلس میں یزید کی تعریف کی تو آپ نے شدید احتجاج کیا، اس کی برائیاں بیان کردیں اور یزید کے لئے بیعت لینے کے سلسلے میں معاویہ کی کوششوں کی مذمت کی۔ (160)

امام حسین (علیہ السلام) نے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: '''"اللهم إنك تعلم إنه لم يكن ما كان منا تنافسا في سلطان، ولا التماسا من فضول الحطام، ولكن لنري المعالم من دينك، ونظهر الاصلاح في بلادك، ويأمن المظلومون من عبادك، ويعمل بفرائضك وسنتك وأحكامك"۔'''

ترجمہ: "خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری طرف سے انجام پایا ہے (منجملہ اموی حکمرانوں کے خلاف خطبات اور اقدامات)؛ فرمانروائی کے لئے مسابقت اور دنیا کی ناچیز متاع کے حصول میں سبقت لینے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں لوگوں کو دکھا دیں اور بپا کریں اور تیری سرزمینوں میں اصلاح کے آشکار کردیں۔ ہم چاہتے ہيں کہ تیرے مظلوم بندے امان میں ہوں اور تیرے واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جاتا رہے"۔ (161)

امام(ع) نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمایا: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ(ص) اور بابا علی بن ابی طالب(ع) کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔ (162)

"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا"۔ (علی بن الحسین مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ص68۔) "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسین(ع) اور اہل بیت رسول(ص) کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خدا(ص) (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔ (163) یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسین(ع) کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔

شمر کی کربلا آمد

شمر پنج شنبہ (جمعرات) 9 محرم سنہ 61 ہجری کی شام کے وقت کربلا پہنچا؛ نماز عصر کے بعد ابن زیاد کا فرمان عمر بن سعد کے سپرد کیا۔ (164) عمر بن سعد نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔ (165)

ام البنین(س) کے بیٹوں کے لئے امان نامہ

شمر اور حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا) کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل نے اپنے بھانجوں کے لئے امان مانگی تو ابن زیاد نے یہ تجویز قبول کرکے (166) امان نامہ لکھ کر عبداللہ بن ابی المحل کو دیا۔ عبداللہ بن ابی المحل نے عبید اللہ کا امان نامہ اپنے غلام کزمان یا عرفان (یا کرمان) کے توسط سے کربلا بھجوایا اور اس نے کربلا پہنچتے ہی امان نامے کا متن ام البنین(س) کے بیٹوں عباس بن علی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی) کو پڑھ کر سنایا؛ تاہم انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔ (167) ایک روایت یہ بھی ہے کہ شمر نے ابن زیاد کا امان نامہ خود پہنچایا اور امیرالمؤمنین(ع) اور ام البنین(س) کے بیٹوں یعنی) عباس بن علی عبداللہ بن علی، جعفر بن علی اور عثمان بن علی کو پڑھ کر سنایا، (168) تاہم عباس(ع) اور ان کے [سگے] بھائیوں نے اتفاق رائے سے امان نامہ مسترد کیا۔ (169)

امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد نے اپنی کو حکم دیا کہ جنگ کی تیاری کرے؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور نو محرم {یعنی تاسوعا کے دن) حسین (علیہ السلام) اور اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ شروع کرنے کے لئے تیار ہوئے۔ (170)

واقعۂ کربلا

ابن زیاد مکر و فریب کے ذریعے نیز خوف و ہراس پھیلا کر کوفہ پر مسلط ہونے میں کامیاب ہؤا اور پھر امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے مٹھی بھر جانباز ساتھیوں کو کربلا میں گھیرے میں لے کر، سب کو روز عاشورا المناک انداز سے شہید کردیا اور آپ خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کچھ دن کوفہ میں قید کرلیا اور پھر یزید کو خط لکھا اور اس کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ [یزید نے بھی خط لکھ کر ابن زیاد کو حکم دیا کہ اسیران آل محمد(ص) کو شہداء کے سروں کے ہمراہ دمشق روانہ کرے۔ (171)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ ابن سعد؛ الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص442؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔

2۔ ابن سعد (محمد بن سعد بن منیع بغدادی)، الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص442؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص32۔

3۔ محمد بن جریرالطبری، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، ج5، ص338۔

4۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)،ص3؛ تاریخ الطبری، ج3، ص338؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص180؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔

5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص152؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص18؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص185۔

6۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، صص3-4؛ ابو حنیفہ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ الطبری، تاریخ، صص338-339 اور دیکھئے: ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص181؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔

*۔ تاریخ الطبری، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص10؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص181؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔

7۔ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ تاریخ الطبری، ج3، ص339؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص11؛ ابن اثیر، الکامل، ص14۔

8۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص18؛ سید بن طاوس، اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔

9۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص183؛ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص227؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص183؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص88۔

10۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص33۔

11۔ الدینوری، الامامۃ والسیاسۃ، ص228؛ شیخ مفید، الارشاد، ص32؛ عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔

12۔ ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، ص5؛ شیخ مفید، الارشاد، ص33؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص19۔

13۔ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔

14۔ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔

15۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص19؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص187۔

16۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160۔

17۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص19- 20؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص187۔

18۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص18-19۔

19۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص21و الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص188-189۔

20۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ شیخ مفید، الارشاد، ص34۔

21۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص21-22؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص189۔

*۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔

22۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ تاریخ الطبری، ج3، ص341؛ ابن اثیر، الکامل، ص16۔

23۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ شیخ صدوق، الامالی، صص152-153۔

*۔ شیخ صدوق، الامالی، ص152۔

24۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص22؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص189۔

25۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ شیخ مفید، الارشاد، ص35۔

26۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص156؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص23؛ شیخ مفید، الارشاد، ص36۔

27۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160؛ تاریخ الطبری، ج5، ص381؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص35۔

28۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص156؛ شیخ مفید، الارشاد، ص36؛ ابن اثیر، الکامل، ص20؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)،ج1، ص190۔

29۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص157-158؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص27-28؛ شیخ مفید، الارشاد، صص36-37؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔

30۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص157-158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص352؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص28؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38؛ ابن اثیر، الکامل، ص20۔

31۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص229؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ ابوالفداءاسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج8، ص151۔

32۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص352؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص29؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔

33۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص158؛ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص29؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔

34۔ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔

35۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص158-159؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص37-38۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ یہ افراد منافق تھے جنہوں نے خطوط کی لہر کھڑی کردی تھی۔ رجوع کریں: شیخ مفید، الارشاد، مؤسسة ال البيت (ع) لتحقيق التراث دار المفيد، ج2، ص38۔

36۔ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص24۔

37۔ سید بن طاوس؛ اللہوف، ص24۔

38۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37؛ تاریخ الطبری، ج3، ص353؛ احمد بن ابی یعقوب الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص241؛ شیخ مفید، الارشاد، ص38۔

39۔ تاریخ الطبری، ص353؛ ابن اثیر، الکامل، ص21۔

40۔ محمد بن جریر تاریخ الطبری، ج5، ص353؛ ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص21۔

41۔ ابوحنیفہ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص230؛ تاریخ الطبری، ج3، ص347؛ الفتوح، ص39و ابن اثیر، الکامل، ص21۔

42۔ علی بن الحسین المسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص54۔

43۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص231؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص77؛ تاریخ الطبری، ج5، ص355۔

44۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص459؛ تاریخ الطبری، ج5، ص375؛ الدینوری، الاخبار الطوال، ص243؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص33۔

45۔ تاریخ الطبری، ج3، ص356؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص35-36؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص198۔

46۔ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ ابوعلی مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص41؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص91؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ص152؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج5، ص379۔

47۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص232؛ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص41؛ عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم، ج5، ص325۔

48۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص232-233؛ تاریخ الطبری، ج3، ص360؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص42۔

49۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص233؛ تاریخ الطبری، ج3، ص348؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص40۔

*۔ عابس شہدائے کربلا میں شامل ہیں۔

50۔ تاریخ الطبری، ج3، ص375۔

51۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص243؛ تاریخ الطبری، ج3، ص375؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص33۔

52۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص235-237؛ تاریخ الطبری، ج3، ص362؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص41۔

53۔ تاریخ الطبری، ج3، صص348-349؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص44؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص45-46؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص203-204۔

54۔ رجوع کریں سید عبدالرزاق المقرم الموسوی، مقتل الحسين(ع)، ص427۔

55۔ رجوع کریں: المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58، كامل ابن اثير، ج2، ص540، مع الحسين فى نہضتہ، اسد حيدر، ص108۔ محدث نوری، مستدرك الوسائل، ج2، ص265؛ الکلینی، فروع كافى، ج5، ص47۔ ابن ہشام حیاة محمد(ص) فارسی ترجمہ، رسولى، سید ہاشم، ج‏2، ص95، انتشارات کتابچى، تہران، چاپ پنجم، 1375 ہجری شمسی۔

56۔ رجوع کریں: تاریخ طبرى، ج6، ص20؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص218)۔ زید بن علی بن الحسین علیہ السلام نے بھی بنو امیہ کے خلاف قیام کیا تو ان کے لشکر کا شعار بھی یہی تھا۔

57۔ شیخ مفید، الارشاد، ص52؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص48-49؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔

58۔ شیخ مفید، الارشاد، ص52؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص48-49؛ ابن اثیر، الکامل، ص30۔

59۔ شمر بن ذی الجوشن الضبابی، رجوع کریں: ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبيين، دار الكتاب للطباعة والنشر قم - ايران منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتہا في النجف ت (368) 1385ھ - 1965 م، ص76۔

60۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ ابن اثیر، الکامل، ص31؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص206-207۔

61۔ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص49؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص207۔

62۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ شیخ مفید، الارشاد، ص54۔

63۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص239؛ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص49۔

64۔ تاریخ الطبری، ج3، ص350؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص62؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص50۔

65۔ تاریخ الطبری، ج3، صص372-373؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص51-52؛ ابن اثیر، الکامل، ص32۔

66۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص240؛ تاریخ الطبری ج3، ص350؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص63؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص208؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص58؛ ابن اثیر، الکامل، صص 33-34۔

67۔ تاریخ الطبری، ج3، ص373؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص52؛ ابن اثیر، الکامل، ص32۔

68۔ المسعودی، مروج الذہب، ماخذ، ص58؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص209؛ ابن اثیر، الکامل، صص33-34۔

69۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص54-55؛ ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج5، ص127۔

70۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص247۔) بالآخر مسلم (علیہ السلام) چہار شنبہ 9 ذو الحجۃ الحرام (یوم عرفہ) (تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص60؛ ابوالفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ؛ النہایہ، ج8، ص158۔) سنہ 60 ہجری (تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص60؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ص158۔

71۔ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص54۔

 72۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص247-248۔

73۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص247 - 248۔

74۔ تاریخ الطبری، ج3، ص385؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔

75۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص160؛ تاریخ الطبری، ج3، ص381؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص81۔) 82 افراد کے ہمراہ (الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص220؛ علی بن عیسی إربلی، کشف الغمہ، ج2، ص43۔

76۔ ابن سعد، الطبقات، تحقیق محمد بن صامل السلمی، خامسہ1، ص451۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص69۔

77۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص244؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص164؛ تاریخ الطبری، ج3، ص385۔

78۔ رسول جعفریان، اطلس شیعہ، ص66۔

79۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص245؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص167۔

80۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص167؛ تاریخ الطبری، ج3، ص405؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص60۔

81۔ محمد السماوی، ابصار العین فی انصار الحسین(ع)، ص93۔

82۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص168 - 169؛ تاریخ الطبری، ج3، ص398؛ ابن اثیر، الکامل، ج4، ص42۔

83۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص169؛ تاریخ الطبری، ج3، ص398؛ ابن اثیر، الکامل، ص43۔

84۔ تاریخ الطبری، ج3، ص398؛ ابن اثیر، الکامل، ص42۔

85۔ سلام ہو حسین بن امیرالمؤمنین پر اور خدا لعنت کرے ان کے قاتل "سلیمان بن عوف حضرمی" پر)۔ رجوع کریں: ابصار العین محمد بن طاھر السماوی، ابصار العین في انصار الحسین علیہ السلام۔ص94۔

86۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ الکوفی، الفتوح، ج5، ص37۔

87۔ منذر بن جارود عبدی نے اس زمانے میں اپنی بیٹی ابن زیاد سےبیاہی تھی۔ رجوع کریں: الأخبار الطوال:231، الفتوح:37/5۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس صوبہ فارس کے علاقے اصطخر کا حاکم قرار دیا اور۔۔۔ (رجوع کریں:الطبقات الکبري:561/5، المعارف:339، تاريخ دمشق:281/60۔) وہ ظاہری طور پر مقبول لگتا تھا لیکن اس کا باطن ناہنجار و ناہموار تھا۔ چنانچہ اس نے بیت المال میں خیانت کرکے کچھ رقم اپنے لئے اٹھا لی جس پر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس کو برطرف کرکے اس پر 30 ہزار درہم جرمانہ عائد کیا اور اسے قیدخانے میں ڈال دیا اور صعصعہ بن صوحان کے کہنے پر اس کو اصلاح احوال کی شرط پر رہا کردیا۔ (أنساب الأشراف:391/2، تاريخ اليعقوبي:203/2) یا بقول اعمش، امیرالمؤمنین(ع) نے اس کو فارس کی حکومت سونپ دی تو اس نے چار لاکھ درہم کی رقم اپنے لئے اٹھا لی اور۔۔۔ (الغارات:522/2۔ نيز، رجوع کریں:أنساب الأشراف:391/2)۔

88۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص37؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص199۔

*۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج8، ص157 - 158۔

89۔ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص37؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص199۔

90۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص231؛ تاریخ الطبری، ج3، ص357؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37 و الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص199۔

91۔ تاریخ الطبری، ج3، ص358۔

92۔ تاریخ الطبری، ج3، ص358؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص37۔

93۔ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص166؛ محمد بن جریر تاریخ الطبری، ج5، ص401؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص62؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص41۔

94۔ تاریخ الطبری،ج5، ص401؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص62۔

95۔ تاریخ الطبری، ج5، ص400؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص63؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص77-78؛ ابن اثیر، الکامل، ص46۔

96۔ تاریخ الطبری، ج3، ص401-402؛ شیخ مفید، الارشاد، ص78-79؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص76؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ماخذ، ص62؛ ابن اثیر، الکامل، ص47۔

97۔ تاریخ الطبری، ج3، ص402؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص232؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص78؛ شیخ مفید، الارشاد، ص79-80؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص62-63؛ ابن اثیر، الکامل، ص47۔

98۔ تاریخ الطبری، ج3، ص402-403؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص81؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص64؛ ابن اثیر، الکامل، ص48۔

99۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص251؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص171؛ تاریخ الطبری، ج3، ص404۔

100۔ یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج1، ص532؛ صفی الدین عبدالمؤمن البغدادی، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنة و البقاع، ج1، ص243۔

101۔ تاریخ الطبری، ج3، ص403۔

102۔ تاریخ الطبری، ج3، ص408؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص67؛ ابن اثیر، الکامل، ص51۔

103۔ الحموی، یاقوت، معجم البلدان، ج4، ص183۔

104۔ شیخ مفید، الارشاد، ص84؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔

105۔ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔

106۔ الحموی، معجم البلدان، ماخذ، ج4، ص136، الفراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج1، صص149-150۔

107۔ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔

108۔ عبدالرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص192۔

109۔ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص84؛ تاریخ الطبری، ج5، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص52؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص96۔

110۔ الدینوری،الاخبار الطوال، ص53۔

111۔ عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص192۔

112۔ سید بن طاوس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ص68؛ إربلی، کشف الغمہ، ج2، ص47؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص97۔

113۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص83؛ ابن اثیر، الکامل، ص52؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص181؛ شیخ مفید، الارشاد، ص84؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص96۔

114۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص53۔

115- لعق علی السنتہم سے مراد یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ لوگ دین کو ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا مزہ چاٹ اور چکھ کر معلوم کیا جاتا ہے؛ اور جب تک اس کا مزہ محسوس کرتے ہیں اس کو پاس رکھتے ہیں لیکن جب آزمائش کی گھڑی آن پہنچتی ہے؛ دینداروں کی تعداد گھٹ جاتی ہے[www۔ghorany۔com/karbala1۔htm|وبسایت ختم قرآن کریم]۔

116۔ بحار الانوار ج44 ح383 ج75 ص116، بحوالہ تحف العقول۔ الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص193۔

117۔ المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص196۔

118۔ تاریخ الطبری، ج5، ص409؛ الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص84۔

120۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص85؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص239؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب،ج4، ص98۔

119۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص84؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص239۔

121۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔

122۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص176؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409۔

123۔ تاریخ الطبری، ج3، ص410؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص86؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص239-240۔

124۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176و تاریخ الطبری، ج3، ص409۔

125۔ تاریخ الطبری، ج3، ص410؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص86؛ شیخ مفید، الارشاد، صص84-85۔

126۔ تاریخ الطبری، ج3، ص410؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص86-87؛ شیخ مفید، الارشاد، ص85؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص240۔

127۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253۔

128۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص253-254؛ تاریخ الطبری، ج3، ص411؛ شیخ مفید، الارشاد، صص85-86۔

129۔ تاریخ الطبری، ج3، ص411؛ شیخ مفید، الارشاد، ص86؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص241۔

130۔ تاریخ الطبری، ج3، ص411؛ شیخ مفید، الارشاد، ص86۔

131۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص178؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص242۔

132۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص466؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص178۔

133۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص466۔

134۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص178۔

135۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔

136۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص254-255؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔

137۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254و البلاذری، انساب الاشراف، ص178۔

138۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254؛ ابن اعثم، ج5، الفتوح، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔

139۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔

140۔ مقاتل، تراجم اور تواریخ کی کتب میں حُصَیْنُ بْنُ نُمَیْرٍ (بحارالأنوار، ج45، ص335۔

141۔ الدینورى ابو حنیفہ احمد بن داود (م 282) الأخبارالطوال،ص246۔

142۔ الطبری أبو جعفر محمد بن جریر (م 310) تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ‏الطبری، (مطبوعہ دارالتراث)، ج‏5، ص439۔

143۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص466۔

144۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔

145۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص178؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔) شبث کےبعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار (البلاذری، انساب الاشراف، ص178؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔

146۔ شیخ صدوق، الامالی، ص155۔

147۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔

148۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔

149۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص90؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص242-243؛ سید بن طاؤس؛ اللہوف، ص85؛ حلی، ابن نما، مثیر الاحزان، ص50۔

150۔ ابصار العين ص85-78؛ اسدالغابہ؛ الاصابہ؛ تاريخ طبري؛ رجال کشي ص191۔

151۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص255؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص180؛ تاریخ الطبری، ج5، ص412؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص86۔

152۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص181؛ تاریخ الطبری، ج3، صص412-413؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، صص117-118؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص244۔

153۔ تاریخ الطبری، ج3، ص413؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص92-93؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص70-71؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص245۔

154۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص245؛ با اختلاف در مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ماخذ، صص71-72۔

155۔ تاریخ الطبری، ج3، ص414؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص71۔

156۔ تاریخ الطبری، ج3، ص414؛ شیخ مفید، الارشاد، ص87؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص71؛ ابن اثیر، الکامل، ص55۔

157۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص182؛ تاریخ الطبری، ج3، ص414؛ شیخ مفید، الارشاد، ص89۔ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص71-72؛ ابن اثیر، الکامل، ص55۔

158۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص183؛ تاریخ الطبری، ج3، ص415؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص93۔ شیخ مفید، الارشاد، صص88۔

159۔ مروج الذہب، ج3، ص67۔ حضرت سید الشہداء نے اس مختصر جملے میں ایک قانون اور قاعدہ متعارف کرایا ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ جیسے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ نہ صرف یزید بلکہ یزید جیسے کسی بھی شخص کی بیعت کرے۔

160۔ بحارالانوار، ج44، ص325۔

161۔ ابن‌شعبہ حراني، تحف العقول، ص239‎؛ مجلسي، بحارالانوار، ج97، ص81 ـ 80‎۔

162۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص21و الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص188-189۔

163۔ تاریخ الیعقوبی، سابقہ ماخذ، ص253؛ ابن الطقطقی؛ الفخری فی الآداب السلطانیہ؛ الدول الاسلامیہ، ص116۔سبط بن جوزی کا لکھتا ہے: ایسے شخص کی حکومت کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنی حکومت کے پہلے سال امام حسین(ع) کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت کا نشانہ بنایا اور اسے اپنے سپاہیوں کے لئے حلال کیا اور تیسرے سال کعبہ کو منجنیقوں کے ذریعے سنگ باری کا نشانہ بنا کر ویراں کیا۔ حوالہ از عبدالحسین امینی، الغدير، ج1، ص248۔

164۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، خامسہ1، ص466؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص94؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔

165۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص183؛ تاریخ الطبری، ج3، ص415؛ شیخ مفید، الارشاد، ص89۔ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص73؛ ابن اثیر، الکامل، ص56۔

166۔ تاریخ الطبری، ج3، ص415؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246؛ ابن اثیر، الکامل، ص56۔

167۔ تاریخ الطبری، ج3، ص415؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص93-94؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246؛ ابن اثیر، الکامل، ص56۔

168۔ حسنی، ابن عنبہ، عمدة الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص327؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246۔

169۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص184؛ تاریخ الطبری، ج3، ص416؛ شیخ مفید، الارشاد، ص89۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص249-250؛ ابن اثیر، الکامل، ص56۔

170۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص184؛ تاریخ الطبری، ج3، ص416؛ شیخ مفید، الارشاد، ص89۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص249؛ طبرسی، اعلام الوری بأعلام الہدیٰ، ج1، ص454۔

171۔ تاریخ الطبری، ج3، ص463؛ ابن اثیر، الکامل، ص84۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مقالہ چند سال قبل ویکی شیعہ کے لئے لکھا گیا تھا، جو مختصر اصلاحات کے ساتھ ابنا کے صارفین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110