اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

10 مئی 2023

5:58:47 AM
1364318

سانحہ پارہ چنار۔۔۔ آسان ٹارگٹ

کسی میڈیا چینل نے اس سانحے کو کوریج نہیں دی اور نہ ہی قاتلوں کے خلاف کوئی آپریشن کیا گیا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں دہشت گردوں کے سہولتکاروں کو سرکاری و سکیورٹی اداروں میں بھرتی کیا جاتا ہے اور دہشت گردوں کو قومی اسمبلی تک پہنچایا جاتا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔  رسول خدا (ص) مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ مدینے اور اس کے اردگرد کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں نے مختصر ساز و سامان اور قلیل تعداد کے ساتھ بڑے لشکر کو ناکوں چنے چبوا کر نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس عظیم اور تاریخی کامیابی سے ابوسفیان سخت نالاں ہوا اور اُس نے رسول خدا (ص) کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرنا شروع کر دیں۔ اُس نے قبیلہ عضل اور قارہ کو اکسایا کہ اگر کسی طریقے سے پیغمبر خدا (ص) کے خاص افراد کو پکڑ کر قریش کے حوالے کریں تو انہیں بڑے انعامات سے نوازا جائے گا۔ ان دو قبائل کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور رسول خدا (ص) سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لوگ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ چیدہ چیدہ افراد پر مشتمل ایک ٹیم تبلیغ کے لیے روانہ کر دیں۔ آپ (ص) نے سات افراد پر مشتمل حفاظِ قرآن کی ایک ٹیم اسلام کی تبلیغ و ترویج کی خاطر ان کے ساتھ روانہ کردی۔

مبلغین اسلام جب "رجیع" نامی جگہ پر پہنچے جو طائف اور مکے کا ایک درمیانی علاقہ ہے تو وہاں پر چھپے ہوئے دشمن قبائل کے لوگ کمین گاہوں سے نکل کر ان پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے مبلغین میں سے تین کو اسیر اور باقی سب کو تہہ تیغ کر دیا۔ رسول خدا (ص) کو اس واقعے کی خبر دی گئی تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ نے ایک مہینے تک نماز کی قنوت میں قاتلین پر لعنت کی۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ بئر معونہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعے میں سَتَّر(70) صحابہ ِکرام شہید ہوئے۔ یہ سب کے سب مبلغ اور قرآن مجید کے حافظ تھے۔ نَجد کی قوم بنی عامر کا ایک شخص عامر بن مالک جس کی کنیت ابو بَراء تھی، وہ مبلغین کو اپنی پناہ میں تبلیغ اور وعظ کے لئے لے کر آیا تھا۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: ’’مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میرے اَصحاب کو نقصان نہ پہنچے‘‘؛ مگر اُس شخص نے اطمینان دلایا۔ آپ نے اِن ستَّر حفاظ کو ابو براء کے ہمراہ بھیج دیا۔

معلمین کا گروہ مدینہ سے رخصت ہوکر ’’بِئرِ مَعونہ‘‘ پہنچا اور وہاں استراحت کی غرض سے ٹھہرا۔ اسی اثناء میں آس پاس کے لوگ جمع ہوئے اور ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ ان ستَّر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے اور سب مبلغین کو شہید کر دیا۔ ان میں ایک شخص زخمی حالت میں رسول خدا (ص) تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور اس نے سب کو اس واقعے کی خبر دی۔ آپ بہت غمگین ہوئے اور قاتلین پر لعنت بھیجی۔ گذشتہ دنوں کرم ایجنسی کے مرکزی شہر پاراچنار کے مضافات میں واقع گاؤں تری منگل میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا۔ سات اساتذہ کرام کو حکومت نے وہاں تعلیم دینے کیلئے متعین کیا تھا۔ ان کی ڈیوٹی کے دوران وہاں کے ایک جاہل قبیلے نے اُن کے ساتھ وہی سلوک کیا، جو رسول خدا (ص) کے دشمن مبلغین اور صحابہ کرام کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

کسی میڈیا چینل نے اس سانحے کو کوریج نہیں دی اور نہ ہی قاتلوں کے خلاف کوئی آپریشن کیا گیا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں دہشت گردوں کے سہولتکاروں کو سرکاری و سکیورٹی اداروں میں بھرتی کیا جاتا ہے اور دہشت گردوں کو قومی اسمبلی تک پہنچایا جاتا ہے۔ سُنا ہے کہ ابھی احتجاج کرنے والے اہل تشیع کے خلاف ایف آئی آر درج ہو رہی ہیں۔ اب پکڑ دھکڑ بھی اہل تشیع کی ہی ہونی چاہیئے، چونکہ اس ملک میں شیعہ ایک آسان شکار ہیں۔ دہشت گرد ہوں یا حکومتی ادارے، دونوں کیلئے آسان ٹارگٹ شیعہ ہی ہیں۔ یہ جُرمِ ضعیفی کی سزا ہے، اسلام آباد سے لے کر خیبر پختونخواہ تک اب اہل تشیع کو یہ سزا تو بھگتنی ہی پڑے گی۔

  بقلم چمن آبادی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242