اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

21 فروری 2023

1:59:17 PM
1347974

بسلسلۂ یوم بعثت؛

بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے سات اہم نکتے از آیت اللہ جوادی آملی

اللہ کے انبیاء و رسل - بالخصوص پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) - کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ اکمل و اتمّ طریقے سے امانت دار (امین) تھے۔ اور امین کامل کے معنی یہ ہیں کہ وہ امانت اور عاریت (ادھار) کی پہچان میں اشتباہ سے دوچار نہیں ہوتا [اور ان دو کے درمیان تمیز دینے میں خطا نہیں کرتا)۔ اور امانت اور عاریت کو اپنا باضابطہ مال نہيں سمجھتا یا اور اسے غصب کرنے کے لئے قدم نہیں بڑھاتا اور اس کے استعمال میں اصل مالک کے مقرر کردہ دائرے سے تجاوز نہیں کرتا۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا کی رپورٹ کے مطابق، عالم اسلام کے مشہور فلسفی، فقیہ، مفسر قرآن اور مرجع تقلید آیت اللہ العظمی عبداللہ جوادی آملی نے بعثت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سلسلے ذیل کے سات اہم نکات بیان کئے ہیں جنہیں ابنا کے محترم صارقین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

پہلا نکتہ:

لفظ "بعث" کبھی مردوں کو جِلانے یا سوئے ہؤوں کو بیدار جگانے کے معنی میں ہے آیا ہے، جیسے:

"وَالْمَوْتَى‏ یَبْعَثُهُمُ اللّهُ ثُمَّ إِلَیْهِ یُرْجَعُونَ؛ اور جو مردے ہیں، انہیں تو اللہ جلائے گا۔ (سورہ انعام، آیت 36)  

"وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ؛ اور وہ، وہ ہے جو رات کے وقت تمہاری روح کو لے لیتا ہے اور جو کچھ تم نے دن میں کیا ہے اسے جانتا ہے۔ پھر تمہیں اس میں اٹھاتا (یعنی جگاتا) ہے"۔  (سورہ انعام، آیت 60)

اور کبھی یہ کسی کو پروردگار کی طرف سے بھیجنے کے معنی میں ہے جو اللہ کے خلیفہ کے طور پر مردوں کو جلا دے یا سوئے ہؤوں کو جگا دے۔ انبیاء (علیہم السلام) بالخصوص ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اصل مشن ایک گروہ کا احیاء اور ایک گروہ کا ایقاظ (اور بیدار سازی) ہے۔ انسانی معاشرے کی حیات کا دارومدار "علم الصائب" (حقیقی علم) پر اور اس کی بیدار سازی کا دارومدار "عمل صالح" ہر ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ایک طرف سے کتاب و حکمت کی تعلیم اور دوسری طرف سے تزکیۂ نفوس، کے ذریعے امت کو "حی بن یقظان" کریں گے سوا جاہلیت کے فرسودہ لوگ جو "وَلَٰكِن كَرِهَ ٱللَّهُ ٱنۢبِعَاثَهُمۡ" (سورہ توبہ، آیت 46) کے قہر کے زمرے میں آئیں گے اور انسانیت کے زمرے سے باہر چلے جائیں گے۔  

 دوسرا نکتہ:

انسان کے دو بنیادی عناصر میں سے ایک "خالص تفکر" اور دوسرا "خالص محرک" ہے۔ یہ دو حیاتی عوامل، علمی جہل کی تیرگی اور عملی جہالت کے اندھیرے کے زیر اثر، چاہ (کنویں) اور جاہ (جلال و شوکت) اور سراب اور آب (پانی) میں تمیز نہیں کرسکتے۔ جو کچھ قدیم یا جدید جاہلیت میں جو چیز مرکزی حیثیت رکھتی ہے وہ یہی ہے کہ اس میں مبتلا شخص بے لگامی کو آزادی سمجھتا ہے اور ہوائے نفس کی غلامی کو خودمختاری اور استقلال سمجھتا ہے، اور رسالت مآب (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حرم امن اور شان اقدس میں بے گستاخی کرتا ہے جو بنی نوع انسان کو "خالص تفکر" اور "خالص محرک" عطا کرنا چاہتے تھے، اور اپنے زندہ جاوید مکتب کے ساتھ آج بھی اپنے اسی مشن پر ہیں۔ جنگی قیدیوں کو دست بستہ لے جایا جا رہا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) دیکھ کر مسکرائے۔ قیدی بڑبڑا کر زیر لب کہہ رہے تھے کہ "محمد (ص) رحمۃ للعالمین ہوے کے دعویدار ہیں اور ہماری اسیری سے لذت اٹھا رہے ہیں! آنحضرت نے فرمایا: میں ہرگز تمہاری اسیری پر نہیں مسکرایا، بلکہ اس لئے مسکرایا کہ میں تمہیں زنجیروں کے ذریعے جہنم کی آگ سے چھڑا رہا ہوں اور تمہیں بوستان میں پہنچا رہا ہوں اور تم بدستور ہٹ دھرمی دکھا رہے ہو۔

 پس رسول آن گفتشان را فهم کرد

گفت آن خنده نبودم از نبرد

زان نمی خندم من از زنجیرتان

که بکردم ناگهان شبگیرتان

زان همی خندم که با زنجیر و غل

می کشمتان سوی سروستان و گل

ترجمہ:

تو رسول (ص) نے ان کے اس کلام کو سمجھ لیا

فرمایا میری وہ مسکراہٹ جنگ [اور تمہارے اسیر ہونے) کے لئے نہیں تھی

میں اس لئے نہیں مسکرا رہا ہوں کہ تم زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے

[یا] کہ میں نے اچانک رات کو جگا [کر گرفتار] کر دیا

اس لئے مسکرا رہا ہوں کہ غل کے زنجیر کے ذریعے تمہیں سرو کے باغ اور پھولوں کے باغیچے کی طرف کھینچ کر لے جا رہا ہوں۔

(جلال الدین رومی، مثنوی معنوی - دفتر سوئم)

 تیسرا نکتہ:

اسوۂ وحی (وحی کے نمونوں) کی پیروی تمام انسانوں، بالخصوص علماء اور اسلامی نظام کے اعلیٰ اہلکاروں، کا بنیادی فریضہ ہے؛ اور اسوۂ وحی کا اتباع علمی جزم (علمی استحکام) اور عملی عزم میں متجلی ہوتا ہے۔ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے الٰہی شُہود کے ساتھ (اور عینی طور پر) تمام وحیانی معارف و تعلیمات کا ادراک فرمایا۔ چنانچہ معصوم ہر لحاظ سے جہل سے معصوم، خطا سے محفوظ اور غلطی سے مأمون ہے، اور اس طرح کی عالی شان بارگاہ قدرت (Nature) کے نظام میں مبتلا [خالص زمینی] لوگوں کے کام نہیں آ سکے کی۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مکتب کے شاگرد اور قرآن و عترت کے وارثوں میں سے ہر ایک، اپنے ایمانی درجے کے تناسب سے، اس عالی شان بارگاہ سے فیض یاب ہوگا اور علم و عمل میں اپنے اکتساب اور دستیابی (Acquisition) کے حد تک، آنحضرت کی پیروی کرے گا۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے - ایک طرف سے - عصر رسالت اور - دوسری طرف سے - جہالت کے ازالے اور ضلالت و گمراہی کے خاتمے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اہم کردار، کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

"وَأَهْلُ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُتَفَرِّقَةٌ وَأَهْوَاءٌ مُنْتَشِرَةٌ وَطَرَائِقُ مُتَشَتِّتَةٌ بَيْنَ مُشَبِّهٍ لِلَّهِ بِخَلْقِهِ أَوْ مُلْحِدٍ فِي اسْمِهِ أَوْ مُشِيرٍ إِلَى غَيْرِهِ فَهَدَاهُمْ بِهِ مِنَ الضَّلَالَةِ وَأَنْقَذَهُمْ بِمَكَانِهِ مِنَ الْجَهَالَةِ؛ اور [یہ وہ زمانہ تھا کہ] روئے زمین بسنے والے لوگ بکھرے ہوئے مذاہب، مختلف النوع خواہشوں اور متصاد روشوں میں الجھے ہوئے تھے، کوئی اللہ کو مخلوقات سے تشبیہ دیتا تھا، کوئی اللہ کے قابل قدر اسماء گرامی کا انکار کرتا تھا اور کوئی غیر اللہ کی طرف اشارہ کرتا [اور بت پرستی، آتش پرستی، سورج پرستی وغیرہ کرتا] تھا۔ تو خدائے سبحان نے لوگوں کو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وسیلے سے گمراہی سے نجات دلائی اور ہدایت دی اور جہالت کی قید سے چھڑا دیا"۔ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 1).

چوتھا نکتہ:

اگرچہ نظام خلقت سراپا اللہ کی جلوہ گریوں کا جلوہ ہے، جیسا کہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الْمُتَجَلِّي لِخَلْقِهِ بِخَلْقِهِ؛ تمام حمد اس کے لئے ہے جو اپنی مخلوقات کے آئینے میں مخلوقات پر عیاں ہے"۔ (نہج البلاغہ - خطبہ نمبر 108)

لیکن خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت عظیم ترین تجلی ہے، جیسا کہ شب بعثت کی دعا میں آیا ہے: "اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْئَلُكَ بِالتَّجَلِّي اَلْأَعْظَمِ فِي هَذِهِ اللَّيلَةِ مِنَ الشَّهرِ المُعَظَّمِ وَالمُرسَلِ المُكَرَّمِ؛ اے میرے معبود! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں اس عظیم مہینے کی اس رات کی تیری عظیم ترین تجلی کے واسطے اور تیرے بڑی عزت والے رسول کے واسطے"۔ (کفعمی، ابراہیم بن علی، البلد الامین، ص183). اللہ کی تجلی کی عظمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خلقت میں عظمت کے متجلی ہونے کا سبب بنی ہے: "وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ؛ اور بے شک آپ اخلاقِ عظیم کے مرتبے پر فائز ہیں"۔ (سورہ قلم، آیت 4)۔

عظیم وہ چیز ہے جو عظم (اور ہڈی) کا مالک ہو اور مستحکم اور با دوام شیئے کو "استخوان دار" (ہڈیوں والا) کہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے - کہ کوئی قدرتی یا صناعی (اور بنی بنائی) رکاوٹ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خلقت پر اثرانداز نہیں ہو سکتی تھی، چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کا اخلاقی ڈھانچہ تعظّم اور استخوان بندی کے لحاظ سے بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔

پانچواں نکتہ:

ہر نبی اپنی امت کو اپنی آسمانی کتاب کے رتبے کے تناسب سے دعوت دیتا ہے، اور اس کے دعوے اور دعوت اس کی کتاب کے دائرۂ اثر سے آگے نہیں بڑھتی۔ سابقہ انبیاء کی کتابیں ایک دوسرے کی تصدیق بھی کرتی تھیں [بعد میں آنے والی ہر کتاب پچھلی کتاب کی مصدّق تھی] لیکن قرآن حکیم سابقہ کی تصدیق اور ان میں غیر تحریف شدہ وحیانی معارف و تعلیمات کی تصدیق بھی کرتا ہے اور ان پر حاکم و نگران بھی ہے: "وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِناً عَلَيْهِ؛ اور ہم نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے جو حق پر مبنی ہے، تصدیق کرتی ہے اپنے سے پہلے والی کتابوں کی، اور ان پر حاکم و نگران ہے"۔ (سورہ مائدہ، آیت 48)۔ چونکہ ہر نبی کا درجہ اس کی آسمانی کتاب کے برابر ہے، چنانچہ جب سابقہ آسمانی کتب قرآن کریم کی حاکمیت اور  نگرانی کے تحت ہونگی، تو یقینا سابقہ آسمانی ادیان و مذاہب بھی پیغمبر اعظم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زیر نگرانی ہونگے اور اس وقت تک ان کے تقدس کا تحفظ ممکن ہوگا جب تک کہ حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نزاہت و قداست شک و ریب کی ہر ناپسندیدگی اور عیب کے ہر دھبے سے محفوظ ہوگی۔ اس بلند مرتبہ حقیقت کو ملک شرف کے بزرگ، سمجھتے ہیں، نہ کہ گھاس پھونس کے بیوپاری، جو [یورپ میں] آنحضرت کے توہین آمیز خاکوں میں اپنا کریہ چہرہ دکھا رہے ہیں۔

چھٹا نکتہ:

موجودہ زمانے کو پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لائے ہوئے مکتب کی طرف لوٹ آنے کی ضرورت ویسی ہی ہے کہ نزول وحی کے وقت آنحضرت کے توشۂ راہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کی مانند ہے، کیونکہ موجودہ زمانے کے بنیادی عناصر اقوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے، سامراجیت، استحصال، ملتوں کو بے وقوف بنانے، اور آخرکار عالمی استکبار اور بین الاقوامی صہیونیت کی عالمی استبدادیت اور مطلق العنانیت سے عبارت ہے؛ اور جو کچھ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے جمہوریت کے نام پر - وسیع پیمانے پر ہونے والے بے گناہ انسانوں بالخصوص بچوں اور خواتین کے قتل عام کی صورت میں - ظلم و جبر کا ایک تلخ اشاریہ ہے۔ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو بھیجا گیا تا کہ معاشروں کو جابر قوتوں کی غلامی سے نجات دلائیں۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَبَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّداً (صلى الله عليه وآله) بِالْحَقِّ لِيُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ إِلَى عِبَادَتِهِ وَمِنْ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ إِلَى طَاعَتِهِ بِقُرْآنٍ قَدْ بَيَّنَهُ وَأَحْكَمَهُ لِيَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ وَلِيُقِرُّوا بِهِ بَعْدَ إِذْ جَحَدُوهُ وَلِيُثْبِتُوهُ بَعْدَ إِذْ أَنْكَرُوهُ فَتَجَلَّى لَهُمْ سُبْحَانَهُ فِي كِتَابِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا رَأَوْهُ بِمَا أَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِهِ وَخَوَّفَهُمْ مِنْ سَطْوَتِهِ وَكَيْفَ مَحَقَ مَنْ مَحَقَ بِالْمَثُلَاتِ وَاحْتَصَدَ مَنِ احْتَصَدَ بِالنَّقِمَاتِ؛

اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعے سے بتوں کی پرستش سے خدا کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لائیں تا کہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد، اسے جان لیں، اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں، اللہ کے سامنے، بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہو، قدرت کی (نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے، کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے؛ اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں اسے مٹانا تھا، انہیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنہیں تہس نہس کرنا تھا انہیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کر دیا"۔ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 147)

ہر قسم کے ظاہری صنم اور وثن (بت اور مورتی) سے آزادی، اس راستے کا آغاز ہے جس کی قیادت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمائی، کیونکہ اندر سے آزاد ہونا، کوئے وصال (دیدار کے کوچے) کے، راہ پانے والے انسانوں کی بھاری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے صدر اول کے شہداء کے جھیلے ہوئے ناقابل برداشت مصائب کو نہیں دیکھا ہے، اور بہت آسانی کے ساتھ قرآن و عترت کے خوانِ کرم اور فیض عام سے فیضیاب ہوئے ہیں (اسلامی انقلاب کی تیسری نسل کے لوگ)۔

انقلاب اسلامی (کو بعثت کا تسلسل ماننے والے) تاریخ کا تجزیہ کریں اور انقلاب اور دفاع مقدس (آٹھ سالہ جنگ) کے عینی شاہدین کی بیان کردہ عالمانہ اور عادلانہ رودادوں کو سن لیں اور یوں ااپنے باطن سے شرک آلود اوصاف کی دھول جھاڑنے کی کیفیت کو سمجھ لیں اور اپنے آپ سے باہر، خود کو اجنبی تسلط سے چھڑانے کا انداز سیکھ لیں۔

گر نبودی کوشش احمد تو هم

می پرستیدی چو اجدادت صنم

گر توانی شکر این رستن بگو

کز بت باطن همت برهاند او

سر ز شکر دین از آن برتافتی

کز پدر میراث ارزان یافتی

ترجمہ:

اگر احمد مرسل (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی کوشش نہ ہوتی

تم بھی [آج] اپنے اجداد کی طرح بت پرست ہوتے

اگر کر سکو تو اس رہائی کا شکر ادا کرو

تاکہ وہ تمہیں باطن کے بت سے بھی رہا کر دیں

تو نے دین کا شکر ادا کرنے سے اس وجہ سے سرتابی کی

کہ تم نے باپ سے سستی میراث پا لی ہے (اور دین کا ورثہ تمہیں سستا ملا ہے)۔

(جلال الدین رومی، مثنوی معنوی - دفتر دوئم)

ساتواں اور آخری نکتہ:  

انبیا‏ء اللہ - بالخصوص پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) - کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ اکمل و اتمّ طریقے سے امانت دار (امین) تھے۔ اور امین کامل کے معنی یہ ہیں کہ وہ امانت اور عاریت (ادھار) کی پہچان میں اشتباہ سے دوچار نہیں ہوتا [اور ان دو کے درمیان تمیز دینے میں خطا نہیں کرتا)۔ اور امانت اور عاریت کو اپنا باضابطہ مال نہيں سمجھتا یا اور اسے غصب کرنے کے لئے قدم نہیں بڑھاتا اور اس کے استعمال میں اصل مالک کے مقرر کردہ دائرے سے تجاوز نہیں کرتا۔ انسان کی ایک روح ہے جو "اصل" ہے اور اس کا بدن ہے جو "فرع" ہے اور زندگی کے مختلف النوع امور ہیں، جو اس کے باقی فروع ہیں۔ ان تمام تکوینی اور اعتباری (حقیقی اور مجازی) امور کا مالک خدائے سبحان ہے؛ جان، بدن، جاہ و منصب، جو بھی انسان کو دیا گیا، یہ سب امانت ہے اور عاریت (یا ادھار) کی ایک صورت۔ رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان تمام امور میں خالصتا امین ہیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں آپ نے ابلاغ کے تمام مراحل کو پوری امانت داری کے ساتھ طے کیا؛ یعنی تمام وحیانی علوم کو خدائے سبحان سے سیکھ لیا؛ ارشاد ربانی ہے: "وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ؛ اور بلاشبہ یہ قرآن آپ کو سکھایا جاتا ہے ایک بڑے حکمت والے، صاحب علم (خدا) کی طرف سے"۔ (سورہ نمل، آیت 6)؛ اور پوری عصمت کے ساتھ اس کی حفاظت کی: "سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَٰى؛ عنقریب ہم آپ کو پڑھائیں کے، تو آپ نہيں بھولیں گے"۔ (سورہ اعلیٰ، آیت 6)؛ اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر حصے کو بوقت مناسب، بحفاظت ابلاغ یا املاء فرمایا: "وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى؛ اور وہ نفسانی خواہشوں سے بات نہیں کرتے * نہیں ہوتی وہ (بات) مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے"۔ (سورہ نجم، آیات 3-4)۔ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی محفوظ سیرت و سنت آپ کی پیغمبرانہ راہنمائیوں اور ہدایتوں کی علمی اور عملی تکیہ گاہ تھی اور معاشرے کی عقول تزکیہ اور ان کے نفوس مسئولہ اور نفوس امارہ کی قربانی دینے کے بعد ان کی روحوں کا تزکیہ کرکے، ایسے رجالِ عظیم اور بزرگ انسانوں کی تربیت فرمائی کہ جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: " "مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلً؛ مؤمنوں میں سے کچھ ایسے اشخاص (رجال) ہیں جنہوں نے نبھایا اس عہد و پیمان کو جو انہوں نے اللہ کے ساتھ باندھا تھا،  تو ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا (اور جام شہادت نوش) کر لیا اور ان میں سے کچھ انتظار کر رہے ہیں؛ اور انھوں نے (اپنے عقیدے اور عہد و پیمان) میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی"۔ (سورہ احزاب، آیت 23)۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110