اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ABNA خصوصی
پیر

15 جون 2009

7:30:00 PM
134118

سابق سی آئی اے ایجنٹ رابرٹ بائر کا مکالمہ

ایران پر حملہ؛ ناممکن

مشرق وسطی میں ایران اور امریکہ کے درمیان طاقت کا توازن موجود ہے

1

سابق سی آئی اے ایجنٹ رابرٹ بائر (Robert Baer) نے انٹرپریس نیوز سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ پر 34 روزہ جنگ تھونپنے کے دو سال بعد اسرائیل کا غزہ پر اسرائیلی حملہ در حقیقت ایران کے خلاف ایک بڑے منصوبے کا حصہ نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایران کے خلاف حملہ ناممکن ہے. اس لئے کہ ایران خلیج کے پورے خطے میں اپنا رد عمل ظاہر کرے گا. ایران پر حملہ حماس پر حملے کی طرح نہیں ہوگا جس نے مقامی سطح پر حملوں کا جواب دیا بلکہ ایران بین الاقوامی سطح پر حملوں کا جواب دے گا. ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اور یہ ان کی مزاحمتی قوت (deterrence power) ہے. یہ بات بہت اہم ہے کہ ایران میں بہت سے ایسے سبق ہیں جنہیں سیکھ لینا چاہئے. اگر آپ ایران کے پاسداران انقلاب اسلامی ویب سائٹ کا مشاہدہ کریں گے تو آپ ان سارے درسوں کا وہاں مشاہدہ کرسکیں گے جو انہوں نے ایران – عراق جنگ سے سیکھے ہیں. یہ جنگیں فرسودگی اور گھسائی سے دوچارکردینے والی جنگیں ہیں. وہ - خاص طور پر امریکہ کے خلاف - دائمی طور پر اس طرح کی (طویل المدت) جنگوں کی جانب گامزن ہوجائیں گے. آپ ان سے ہرگز جیت نہیں سکیں گی. انہوں نے غیر متناسب اور نامتقارن جنگی قوت (Asymmetrical Warfare Ability)، اور گوریلا وار فئیر، کو ترقی دی ہے جو کہ بہت مؤثر اور کامیاب ہے.

آپ جانتے ہیں کہ بہترین اور لائق ترین افراد ایران کی پاسداران فورس میں کام کررہے ہیں جو لازمی طور پر انتہاپسند نہیں ہیں بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ قوم پرست لوگ ہیں! اور میرے تجربے کے مطابق قوی امکان یہ ہے کہ پاسداران میں یہ لوگ اردن اور اسرائیل سمیت پورے مشرق وسطی میں سب سے زیادہ عملیاتی (operational)، ذہین سیاسی مفکریں اور گوریلا فورسز ہیں اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کر کیا رہے ہیں! اور (ہم امریکیوں کی نظر میں) وہ ایران کے اندر کسی بھی سیاسی تعریف کے زمرے میں نہیں آتی!.

کیا اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر محدود اسرائیلی حملہ بھی ممکن نہیں ہے؟ البتہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیل نے گذشتہ سال بش سے ایران پر حملے کی منظوری کی درخواست کی تھی اور بش نے یہ درخواست مسترد کی تھی؟

رابرٹ بائر نے اس سوال کے جواب میں کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ حتی کہ بش بھی یہ جان گئے تھے. نیویارک ٹائمز کی یہ بات درست کہ بش نے اس سوال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھا کیونکہ مشرق وسطی میں ایران اور امریکہ کے درمیان طاقت کا توازن برقرار ہے اور یہ بالکل حقیقی توازن ہے؛ البتہ طاقت کے توازن سے میری مراد ٹینکوں، جنگی طیاروں اور آبدوزوں کی تعداد نہیں ہے بلکہ یہ توازن تشدد پر کنٹرول کے حوالے سے ہے! اور اس حوالے سے ایران اور امریکہ بالکل برابر ہیں.

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں فریقین میں برابری اور توازن ہے. ہم تہران پر بمباری کرسکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے آپ کو ملے گا کیا؟ کچھ بھی نہیں ملے گا. یہ بمباری بالکل اسی قسم کی بمباری ہوگی جو اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ پر کی تھی. سوال یہ ہی کہ اس بمباری نے اسرائیل کو کیا دیا؟ کچھ بھی نہیں؛ جی! وہ اس کمپاؤنڈ کو تو تباہ کرسکے مگر اس عمل نے انہیں کچھ بھی نہیں دیا اور حماس اب بھی زندہ اور موجود ہے.

آپ صرف دو ہفتوں کی مدت میں ایران میں تمام فوجی تنصیبات پر بمباری کرسکتے ہیں لیکن ایران پھر بھی اپنے مقام پر موجود رہے گا؛ ایران میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ طاقت کی تولید کرے اور اسے پیدا کرے اور آگے بڑھائے. اپنی قوت ارادی کی تولید کرے، اور ممکن ہے کہ اس قسم کی کشمکش اور جنگ سے زیادہ طاقت کے ساتھ عہدہ برآ ہوجائے اور جنگ کے بعد بہلے سے بھی زیادہ طاقتور بن کر ابھرے اور پھر ایران کی طاقت بہت ہی اقتصادی ہے. تیل کی قیمتوں سے ایران پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اگر فی بیرل کی قیمت 10 ڈالر بھی ہوجائے ایران کے لئے یہ ایک اہم ذریعہ ہے اور حزب اللہ اور حماس کو تقویت پہنچانے کے حوالے سے بھی ایران پسپائی اختیار نہیں کرے گا جو البتہ یہ تقویت رقم اور پیسوں پر منحصر نہیں ہے.

-    اوباما نے بار بار ایران کے ساتھ بات چیت اور امریکہ کی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کے سلسلے میں اپنی عزم کو دہرایا ہے اور انہوں نے ڈینس راس (Dennis Ross) کو ایران کے حوالے سے اپنا کلیدی مشیر مقرر کیا ہے؛ ایسی صورت میں اوباما اپنے وعدوں پر کیونکر عمل کرسکیں گی؟

رابرٹ بائر کہتے ہیں: اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی راس کے ساتھ بہتر محسوس کرتے ہیں. اگر ایران کے ساتھ کوئی گفتگو ہوئی تو اسرائیلی جانتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ دھوکہ نہیں کریں گے! میری بات کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلوں نے بڑی مدت سے ڈینس راس کو آزمایا ہؤا ہے. وہ یہودی ہیں؛ وہ اسرائیل کے لئے ہر وقت مخلص رہے ہیں؛ وہ ہمیشہ اسرائیلیوں کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ چلے ہیں؛ حتی ان کے دیوانہ وار منصوبوں کی بھی انہوں نے ہمراہی کی ہے. اگر مذاکرات ہوئے تو اسرائیلی جانتے ہیں کہ انہیں کسی حیرت کا سامنا نہیں ہوگا. اگر اوبا کسی اور شخص کو اس قضیئے میں لے آتے مثلاً اگر وہ ہاروارڈ کا کوئی پروفیسر ہوتا اور اسرائیلی اسے نہ جانتے تو وہ (صہیونی) اسے فوری طور پر منجمد کرکے باہر پہینکتے اور اس عمل کا نتیجہ بہت بڑی سیاسی رکاوٹ کی صورت میں نکلتا.

- مشرق وسطی میں خاص طور ایران کے حوالے سے گذشتہ ایک عشرے میں ڈینس راس کے موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اوباما خارجہ پالیسی کو اس خطے میں نئے ڈگر پر ڈال دیں؟

رابرٹ اس سوال کا یوں جواب دیتے ہیں: اوباما کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی پشت پناہی کی ضرورت ہے؛ اسی وجہ سے انہوں نے ڈینس راس اور قومی انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ڈینی بلیئر (Denny Blair) جیسے افراد کا تقرر کیا ہے؛ صاف سی بات ہے کہ انہیں اس سیاسی پشت پناہی کی ضرورت ہے. وہ غیرآزمودہ افراد کو میدان میں لاکر ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے؛ کیونکہ اگر ایران کے ساتھ کسی سرآغاز کے لئے اقدام کرنا ہے تو اسرائیل کی بھی اس میں مداخلت ہوگی اور یہ مداخلت شاید خاموش سی مداخلت ہی ہو؛ وجہ یہ ہے کہ اسرائیلیوں کو اس امریکی اقدام کی ہمراہی کرنی ہے!.

امریکی سیاست کے سلسلے میں - کم از کم کسی حد تک - آپ تل ابیب کی منظوری کے بغیر مشرق وسطی میں کچھ بھی نہیں کرسکتے!. یہ بالکل ناممکن ہے. میرا مطلب ہے کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ پوری تاریخ میں دنیا کا کوئی ملک اس (اسرائیل) جیسی چھوٹی ریاست کا اتنی حدتک ممنون اور مرہون منت رہا ہو! [جیسا کہ امریکہ اسرائیل کا مرہون منت اور احسانمند ہے]. چہ جائےکہ یہ ملک ایک بڑی طاقت ہو!. میں حتی سوچ بھی نہیں سکتا.

- ایسا کیوں ہے؟

رابرٹ کہتے ہیں: آپ ذرا نیویارک سٹی پر نظر ڈالیں. بڑے بڑے اخبارات کا حال دیکھیں. ان سب کا ایجنڈا ہی صہیونی ایجنڈا ہے. وہ سب اس ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں. میں یہودی نہیں ہوں؛ میں کچھ بھی نہیں ہوں؛ میں اسرائیلیوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا اور میں یہود دشمن (anti-Semitic) بھی نہیں ہوں. میں نے اپنے ناشر کو تجویز دی کہ میں اسرائیل کے بارے میں کتاب لکھنا