31 اگست 2022 - 16:45
امریکی زوال کا صہیونی زوال سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟

بین الاقوامی امور کا تجزیہ کار: آج کی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی مزید یہ کہتے ہوئے نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیلی فوج "ناقابل شکست" ہے؛ بلکہ آج ایک "ناقابل شکست عزم" کی بات ہو رہی ہے جو مقاومت (مزاحمت) کی صورت میں ظہور پذیر ہؤا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ رہبو انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) فلسطین کے بارے میں بات کرتے ہوئے اللہ کے وعدوں اور زمینی حقائق کی روشنی میں امید افزا موقف اپناتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ فلسطین کا مستقبل روشن ہے۔ رہبر انقلاب کے دفتر سے وابستہ ویب گاہ (KHAMENEI.IR) نے اس موضوع اور اس امید افزا نگاہ پر تبصرہ کرنے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار مسعود اسداللّٰہی کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ اسداللّٰہی کا خیال ہے کہ مغربی ایشیا میں محور مقاومت کی فتوحات نے فلسطین کے وقائع کی رفتار کو مقاومت کے مفاد میں تیزرفتار کر دیا ہے۔

انٹرویو کا پورا متن:

سوال: ہمارا پہلا سوال "ناقابل شکست فوج" کے نعرے کے متبادل کے طور پر "ناقابل شکست عزم" کے ابھر کر آنے کے مسئلے سے تعلق رکھتا ہے، سوال یہ ہے کہ محاذ مقاومت کے عزم و ارادے کا متبادل کے طور پر کیونکر ابھرا؟ عزم مقاومت کن مراحل سے گذر کر ناقابل شکست اسرائیلی فوج کا متبادل بنا؟

جواب: جعلی صہیونی ریاست سنہ 1948ع‍ میں اس وقت کی اقوام متحدہ اور چند ہی مغربی ممالک کی مدد سے قائم ہوئی، تو اس نے کچھ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا اور جن مستکبر قوتوں نے اسے قائم کیا ان ہی نے اس کی پشت پناہی کی۔ سنہ 1948، 1956، 1967، 1973 و 1982 میں کچھ جنگیں ہوئیں۔ ان تمام جنگوں میں صہیونی فوج نے عرب ممالک کی افواج کو شکست ہی نہیں دی بلکہ انہیں درہم برہم کرکے بکھیر دیا۔

چنانچہ صہیونی فوج نے اپنی ایک تصویر فراہم کی ایسی فوج کے طور پر جس کو کسی جنگ میں بھی شکست کا سامنا نہیں ہوتا! اور وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتی ہے اور عربی میں اس کو "الجَيشُ الَّذِي لا يُقهَزُ" کہا جانے لگا تھا یعنی "ایسی فوج جو کبھی مقہور اور مغنوب نہیں ہوتی"۔ صہیونیوں نے 1948 سے 1982ع‍ تک اس عنوان کی کامیابی سے حفاظت کی، اور مغرب کی ابلاغی مشینری نفسیاتی جنگ کے ایک موضوع کے تحت اس تاثر کا پرچار کیا اور تابع مہمل عرب ذرائع نے بھی ان کی پیروی میں اس کی تشہیر کی [صہیونی-انگریزی پالیسی کے تحت، خوف پھیلا کر تسلط جمانے کی غرض سے]؛ اور یوں یہ ہرزہ سرائی ایک قابل قبول کہاوت اور پھر مسلّمہ قاعدے میں بدل گئی۔ جس کی بنا پر عربوں میں یہ تصور عام ہؤا کہ "اسرائیل کے ساتھ لڑائی ایک بیہودہ فعل ہے، کیونکہ اسے شکست نہیں دی جا سکتی"۔ بہرحال صہیونی فوج نے آخری باقاعدہ جنگ سنہ 1982ع‍ میں لڑی اور لبنان پر حملہ کیا، جنگ میں لبنانی فوج ہار گئی اور غاصب فوج دارالحکومت بیروت تک پہنچ گئی، لیکن اس بار وہاں کے عوام گویا خوفزدہ نہیں تھے، چنانچہ صہیونی قابضوں کے خلاف ایک مزاحمت و مقاومت تشکیل پائی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اور ہاں یہ درست ہے کہ فلسطینیوں کے ہاں کئی جماعتیں تھیں جو مقاومتی جماعتیں کہلواتی تھیں، لیکن چونکہ ان کا نظریہ بائیں بازو کا کمیونسٹ نظریہ تھا اور وہ عربی قوم پرستی کو اپنا عقیدہ بنائے ہوئے تھیں لہذا وہ مقاومت کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل نہیں دیتے تھے؛ اور باوجود اس کے، کہ ان میں سے بعض گروہوں نے ابتداء میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی تھیں، لیکن وہ وقت گذرنے کے ساتھ فکری اور نظریاتی لحاظ سے بدل جاتی تھیں اور اپنا نظریہ اور مقصد کھو جاتی تھیں اور پڑوسی ممالک کے اندر ملیشیاؤں میں بدل کر ان ممالک کے اندرونی تنازعات میں ملوث ہوجاتی تھیں جیسا کہ تاریخ نے لبنان اور اردن میں دیکھا۔

گوکہ اردن میں خانہ جنگی نہیں ہوئی لیکن فلسطینی جماعتیں اس ملک کے اندرونی مسائل میں الجھ جاتی تھیں اور اس کی ایک جماعت کے حق میں دوسری جماعت کی مخالفت کرتی تھیں اور یوں وہ اس ملک میں قابل نفرت بن جاتی تھیں۔ عراق میں بھی فلسطینی جماعتوں نے عراقی قوم کے کچلنے میں صدام کا ساتھ دیا۔ لیکن 1982ع‍ میں لبنان کی سرزمین پر اسلامی مقاومت تشکیل پائی جس کا غالب نظریہ تعلیمات محمد و آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین) سے ماخوذ تھا۔

یہ مقاومت اسلامی رفتہ رفتہ طاقتور ہوئی، اس نے تجربہ حاصل کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے ایسی طاقت میں بدل گئی جس نے بہت سے مسلط کردہ قواعد کو بدل کر رکھ دیا اور یوں 1980ع‍ کی دہائی میں ہی صہیونی فوج پہلی بار، لبنان میں پسپائی پر مجبور ہوئی۔ لبنان کی مقاومت اسلامی نے سنہ 1985ع‍ میں صہیونی فوج کو بیروت اور جنوبی لبنان کے بہت سے علاقوں سے سے نکال باہر کیا۔ صہیونیوں کو جنوبی لبنان میں "امن کی پٹی" میں پناہ لینا پڑی۔ یہ یہودی ریاست کی فوج کی پہلی بڑی شکست تھی اور عرصہ 15 سال بعد بھی اسلامی مقاومت اور حزب اللہ لبنان نے سنہ 2000ع‍ میں اسے پہلی شکست سے بھی زیادہ بڑی شکست سے دوچار کیا؛ البتہ سنہ 1993ع‍ اور سنہ 1996ع‍ کی جنگوں میں بھی صہیونیوں کو منہ کی کھانا پڑی تھی اور غاصب ریاست کو اس حفاظتی پٹی میں رہنے کی بہت بڑی جانی اور مالی قیمت چکانا پڑی، چنانچہ مئی سنہ 2000ع‍ میں حزب اللہ نے حملہ کیا تو انھوں نے مزاحمت کے بغیر ہی پسپائی اختیار کی۔ یہ ان کی دوسری بڑی پسپائی تھی۔

لبنان کے جنوب میں کچھ علاقوں پر تنازعہ پایا جاتا ہے لیکن لبنان بحیثیت ایک عرب ملک، صہیونیوں کے قبضے سے مکمل طور پر آزا ہو گیا۔ 1982ع‍ سے 1985ع‍ تک، مقاومت اسلامی نے وہ کچھ کرکے دکھایا جو کوئی بھی باقاعدہ عرب فوج نہيں کر سکی تھی؛ اور عارضی اسرائیلی ریاست کو پہلی بار کوئی بھی رعایت لئے بغیر کسی عرب ملک سے بھاگنا پڑا۔ یہ عرب-اسرائیل تنازعے کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔ چنانچہ مسلمانوں اور عرب نوجوانوں نے جنگ کے لئے نئی روشیں اختیار کیں اور مقاومتی جماعتوں کی شکل میں صہیونیوں کے خلاف نبردآزما ہوئے۔ ان نئی جماعتوں کے سیاسی اور مزاحمتی نظریات بھی اسلامی تعلیمات اور بالخصوص تعلیمات اہل بیت (علیہم السلام) سے ماخوذ ہیں۔

محور مقاومت کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا اور لبنان سے صہیونیوں کے بھاگ جانے کے بعد مقبوضہ فلسطینی سرزمین دوسری انتفاضہ تحریک کا آغاز ہؤا اور یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ فلسطینیوں نے لبنانی نوجوانوں کی عظیم فتوحات سے یہ سب سیکھ لیا تھا۔ الاقصیٰ انتفاضہ نے صہیونی ریاست کی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے۔ اس وقت صبرا اور شتیلا کا قصائی کہلانے والا جرائم پیشہ صہیونی آنجہانی ایریل شیرون (ariel Sharon) غاصب ریاست کا وزیر اعظم تھا جو کسی صورت میں بھی عربوں کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا، لیکن اسی شخص کو سنہ 2005ع‍ میں غزہ کی پٹی خالی کرنے کا حکم دینا پڑا۔ غاصب ریاست کی دوسری اہل پسپائی غزہ سے انخلاء کی صورت میں انجام کو پہنچی۔ یہ مقاومت اسلامی کی دوسری بڑی کامیابی تھی جو حاصل ہوئی اور ایک بار پھر ثابت ہؤا کہ "ناقابل شکست فوج" کا عنوان ایک جھوٹا عنوان تھا۔

"ناقابل شکست عزم" کی تخلیق لبنان میں ہوئی اور اس عزم نے مقاومتی تحریکوں کی صورت میں، فلسطین میں بڑی کامیابیوں کو رقم کیا۔ گذشتہ سال فلسطینیوں نے پہلی بار ایک جنگ کا آغاز کیا جس کا عنوان "سیف القدس" (قدس کی تلوار) تھا۔ اس جنگ میں صہیونیوں کے پاس کوئی طاقت نہیں رہی تھی اور وہ صرف جرائم اور عام لوگوں اور بچوں اور خواتین کے قتل میں مصروف رہے۔ یہ جنگ صرف گیارہ دن تک جاری رہی اور صہیونی جنگ بندی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔ اس جنگ میں ان کو مطلق شکست ہوئی اور یہ 2006ع‍ کی 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی عظیم کامیابی کے بعد محور مقاومت کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔

لبنانی مقاومت نے اسرائیل فوجی کا افسانہ باطل کردیا، اور جس ٹینک "میرکاوا" پر صہیونی دنیا بھر میں فخر کرتے تھے، اس کی ساکھ خاک میں ملاتے ہوئے کئی میرکاوا ٹینکوں کو تباہ کردیا۔ اس فتح نے غزہ میں فلسطینی مجاہدین کو بھی حوصلہ دیا۔ غزہ کو صہیونی فوج سے خالی کرایا گیا تھا اور اس محصور علاقے کے مجاہدین نے حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد اور بطور خاص شہید لیفٹیننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے منفرد کردار کی برکت سے، صہیونیوں کو کئی بار شکست دے کر صہیونی افسانوی طاقت کو قصہ پارینہ میں تبدیل کردیا۔

اگست سنہ 2022ع‍ کے دوسرے ہفتے میں صہیونیوں کی آخری لڑائی غزہ میں سرگرم عمل اسلامی جہاد تحریک کے خلاف لڑی گئی۔ جہاد اسلامی نے صرف دو دن کے عرصے میں 950 میزائل اور راکٹ اور سینکڑوں مارٹر گولے اسرائیلوں پر داغے اور مقبوضہ قدس شریف اور تل ابیب میں اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، اور غزہ کے قریب کے واقع مقبوضہ شہروں "عسقلان، اسدود اور سیدروت" میزائلوں کا نشانہ بنے اور یہ ایک چھوٹی سی تحریک کے لئے بہت عظیم کامیابی ہے۔ تحریک جہاد اسلامی نے تھوڑے سے وسائل بروئے کار لا کر بڑی فتح حاصل کی، اس نے تمام رائج تصورات کو درہم برہم کرکے اور خوف و ہراس کو برآمد کرکے غاصبوں پر مسلط کردیا۔

آج کی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی مزید یہ کہتے ہوئے نہیں دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیلی فوج "ناقابل شکست" ہے؛ بلکہ آج ایک "ناقابل شکست عزم" کی بات ہو رہی ہے جو مقاومت (مزاحمت) کی صورت میں ظہور پذیر ہؤا ہے۔

ان ہی حقائق کی رو سے صہیونی ریاست نیل سے فرات کے دعؤوں سے دستبردار ہوکر مقاومت کے حملوں سے بچنے کے لئے مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی کنکریٹ کی اونچی دیواریں تعمیر کرنے پر مجبور ہوئی ہے؛ لیکن غاصب یہودیوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ لبنان اور غزہ میں اسلامی مقاومت کی تنظیمیں ہزاروں میزائلوں، راکٹوں، توپوں اور ڈرون طیاروں سے لیس ہو چکی ہیں چنانچہ یہ دیواریں بھی اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ صہیونی غاصب 1948ع‍ کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اپنے لئے دار الامان سمجھتے تھے لیکن رمضان سنہ 1443ھ میں فلسطینی نوجوانوں نے ان علاقوں میں پے درپے درجنوں حملے کرکے اس تصور کو بھی باطل کردیا۔ یہ نوجوان مذکورہ دیواروں کو پھلانگ کر صہیونی دشمن پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ان حملوں نے غاصبوں کو گھروں میں محصور ہونے پر مجبور کردیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کے زوال کا اسرائیل کے زوال سے کیا تعلق ہے؟

اس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ کا زوال اسرائیل کے زوال پر بلا واسطہ اثرات مرتب کر رہا ہے؛ کیونکہ غاصب اسرائیل کی بقاء اور کامیابیوں میں امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں کی مدد بنیادی کردار ادا کرتی تھی۔ صہیونی فوج امریکی، برطانوی اور فرانسیسی ہتھیاروں اور گولہ بارود سے وابستہ ہے۔ 33 روزہ جنگ میں صہیونیوں کے گولہ بارود کے گودام کئی مرتبہ خالی ہوئے اور امریکہ نے بھاری طیاروں کے ذریعے ان کی کمی پوری کردی۔ امریکہ کی سالانہ کے حساب سے اربوں ڈالر کی امداد نے صہیونی فوج کو سنبھالا دیئے رکھا تھا۔

امریکہ کو گذشتہ سال ان ہی دنوں اربوں ڈالر کے ہتھیار چھوڑ کر نہایت ذلت آمیز انداز سے افغانستان سے فرار ہونا پڑا؛ امریکہ کے جو یار تھے وہ امریکہ پر اعتماد کھو گئے، اور امریکیوں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی، اسرائیل سمیت کئی دوسرے امریکی حواری مایوسی کا شکار ہوئے۔ غاصب ریاست پر اس امریکی شکست کے اثرات دوسروں سے کہیں زیادہ تھے۔ امریکی ہیبت کے سہارے رعب جمانے والی اسرائیلی ریاست کا دبدبہ بھی خاک میں مل گیا۔ ہم سب نے دیکھا کہ امریکی، صہیونی ریاست، صہیونیوں اور مغربیوں کے عرب حواریوں اور پورے یورپ نے شام کے قانونی حکومتی نظام ختم کرکے اس ملک کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے کی کوششیں کیں، لیکن محور مقاومت نے ان کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنایا۔ اس دوران امریکہ نے کئی مرتبہ شام پر حملے کا اعلان کیا لیکن اسے یہ اعلان --- امریکی استعماری تاریخ میں پہلی مرتبہ ۔۔۔ واپس لینا پڑا! جس سے اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور اس کے حواری مشکل حالات میں امریکہ کی بروقت امداد سے مایوس ہوگئے۔

شام کے خلاف مغرب اور اسرائیل کی جنگ اور حالیہ برسوں میں داعش کے نام پر عظیم ترین امریکی سازش ناکام ہوئی۔ ان واقعات نے یہ دو ٹوک پیغام دنیا والوں تک پہنچایا کہ کہ امریکہ مزید وہ طاقت نہیں رہی ہے جس کا وہ دعویٰ کر رہی تھی۔ جب آقا کا حال یہ ہو تو غلاموں کا حال کیا ہوگا؟ چنانچہ سب سے پہلے اس صورت حال نے سب سے پہلے جعلی ریاست اسرائیل کو متاثر کیا؛ اور حتیٰ اسرائیل اور امریکہ نیز ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تناؤ کی کیفیات سامنے آئیں۔ اسرائیل کو اندرونی لحاظ سے عدم استحکام کی بدترین صورت حال کا سامنا ہے، چار سال کے عرصے میں پانچویں انتخابات کا اعلان ہؤا ہے اور مستحکم حکومت تشکیل نہیں پا سکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ بہت سے مواقع اور مقامات پر صہیونی ریاست کی حمایت نہیں کر سکتا گوکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسرائیلی ریاست بھی اپنی تشکیل کے فلسفے کے مطابق مغربی مفادات کا تحفظ کرنے سے عاجز ہو چکی ہے۔ البتہ غاصب اسرائیل کچھ عرب ریاستوں کی طرح، ہنوز امریکہ سے "سوپر پاور" یا "واحد سوپر پاور" کا کردار ادا کرنے اور اس ریاست کی حمایت میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کرنے کی توقع رکھتی ہے؛ لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ میں اب ان صلاحیتوں کا فقدان ہے جو وہ انہیں بچانے کے لئے بروئے کار لاتا تھا؛ امریکہ ماضی والا امریکہ نہیں ہے؛ امریکہ کو ان حمایتوں کے عوض بہت بڑی قیمت چکانا پڑی ہے؛ اور شاید اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک اسرائیل کی حمایت ہی ہے۔ چنانچہ یہ کہنے کے لئے مزید کوئی سند و ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ کا زوال اسرائیل کے زوال پر براہ راست اثر رکھتا ہے۔

صہیونی ریاست کا زوال کن شعبوں میں زیادہ نمایاں ہے؟

جعلی اسرائیل میں بہت سے شعبوں میں زوال کے اثرات نمایاں ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی متعدد ماہرین، مبصرین، سیاستدان، قلمکار اور حتیٰ کہ اسرائیلی حکام، کا اعتراف ہے کہ اسرائیل کے دن گنے جا چکے ہیں۔ یہودی ایجنسی نے دو چیزوں جھانسہ دے کر یہودیوں کو فلسطین میں آنے پر آمادہ کیا تھا؛ 1۔ خوشحالی، 2۔ امن و سلامتی۔ ایجنسی نے دنیا کے یہودیوں سے کہا تھا کہ "اگر تم اپنے آبائی وطن چھوڑ کر ارضِ موعود (فلسطین) میں آؤگے تو اپنے وطن سے کہیں زیادہ امن و خوشحالی سے ہم کنار ہوجاؤگے، کیونکہ تم اپنے آبائی ملکوں میں مطلق اقلیت ہو، لیکن صہیونی ریاست میں اکثریت تمہاری ہوگی، اور ایک بہت طاقتور فوج تمہاری حفاظت کرے گی"۔

لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد - جس نے فلسطین کو ایک بار پھر بین الاقوامی مسئلے میں تبدیل کر دیا - حالیہ دہائیوں میں مقبوضہ سرزمین پر قائم غاصب ریاست کی عملداری میں نہ امن و سکون ہے اور نہ ہی خوشحالی۔ حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت اور صہیونی ریاست کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں صہیونی ریاست کا اندرونی محاذ نشانے پر رہا ہے۔

اصولی طور پر سنہ 2006ع‍ کی 33 روزہ جنگ کے بعد ہی صہیونی ریاست کا اندرونی محاذ کھل گیا۔ 2006ع‍ سے پہلے صہیونی ریاست کو اس بات پر فخر تھا کہ اس کی تاسیس سے لے کر اب (2006ع‍ کے آغاز) تک کوئی بھی اس ریاست کے اندر تک حملہ نہیں کر سکا ہے اور یہ ریاست جنگوں کو ہمیشہ پڑوسی ممالک کی حدود میں لڑتی رہی ہے۔ 33 روزہ جنگ میں غاصب ریاست کے بہت سے علاقے حزب اللہ کے میزائلوں کا نشانہ بنے اور اس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ کئی جنگوں میں بھی غاصب یہودیوں نے پناہ گاہوں میں طویل عرصہ گذار کر بمباریوں اور میزائلوں کے حملوں کا نشانہ بننے کا مزہ چکھ لیا اور اپنے گھروں اور فوجی اور سرکاری ٹھکانوں کو تباہ ہوتے دیکھا اور انہیں پہلی مرتبہ اپنے غاصب باشندوں کی لاشیں اٹھانا پڑیں؛ جبکہ اس سے پہلے پڑوسی ممالک اور مسلم عرب اقوام کو یہ تمام مصیبتیں برداشت کرنا پڑتی رہی تھیں۔

چنانچہ 2006ع‍ کے بعد غاصب ریاست کو اندرونی محاذ کی تقویت پر توجہ مبذول کرنا پڑی۔ تاہم صہیونی فوجی اور سیکورٹی اداروں کو بےشمار فوجی مشقوں کے دوران معلوم ہؤا کہ اندرونی محاذ کی کمزوریاں دور کرنا گویا ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ اس کا امن و سکون کا وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔

معاشرہ سازی ایک ریاست کا بنیادی جزو ہے لیکن غاصب ریاست کو دنیا بھر کو ان یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا پرا جو غیر متجانس تھے، مختلف ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھتے تھے جن سے بے شمار ٹکڑیوں سے تشکیل یافتہ موزائیک معاشرہ (Mosaic society) تشکیل پایا، جس کے اجزاء بالکل متفاوت اور زبان اور رنگ و نسل کے لحاظ سے بالکل مختلف ہیں، اور اب غاصب ریاست کے اندر ان ٹکڑیوں کے درمیان نسلی امتیازی رویے دکھائی دے رہے ہیں۔ مثال کے طور ایتھوپیا سے آنے والے فلاشا یہودی ہر وقت نسلی امتیاز کا بنتے آ رہے ہیں، کیونکہ یہودی تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی یہودی سیاہ فام بھی ہو سکتا ہے! اور پھر روسی یہودی، یورپی یہودی، جنوبی امریکی یہودی، ایشیائی یہودی اور افریقی یہودی بھی ہیں جن کے درمیان مختلف قسم کے نسلی تنازعات چل رہے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ صہیونی ریاست میں مختلف ممالک سے آنے والے یہودیوں کی اپنی اپنی سیاسی جماعتیں ہیں اور ان جماعتوں نے صہیونی ریاست کے سیاسی نظام کو زد پذیر کر دیا ہے۔ یہ جماعتیں اتنی زیادہ ہیں کہ صہیونیوں کے کم آبادی ولے معاشرے میں اب کوئی بڑی جماعت بنانا ممکن نہیں ہے لہٰذا کوئی بھی جماعت دوسروں سے اتحاد کئے بغیر حکومت تشکیل دینے پر قادر نہیں ہے؛ اور اتحادی حکومتیں بھی دیرپا نہیں ہیں اور حکومتیں اپنی چار سالہ مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی تحلیل ہو جاتی ہیں؛ اتحاد بھی تحلیل ہو جاتے ہیں اور دوبارہ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان کرنا پڑتا ہے؛ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریاست اندر سے عدم استحکام اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہاں کی اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمان کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود اتحاد سے الگ ہو کر حکومت کی تحلیل کے اسباب فراہم کر سکتے ہیں؛ اور یہ کسی حکومت کے لئے المیے سے کم نہیں ہے۔

مذکورہ بالا صورت حال کے ہوتے ہوئے، صہیونی ریاست کی بقاء کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، نئے پناہ گزینوں کے مقبوضہ فلسطین میں آنے کی طرف راغب کرنا، ناممکن ہو جاتا ہے؛ ان حقائق کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ اسرائیل رو بہ زوال ہے۔ صہیونی کسی وقت غزہ اور لبنان پر آسانی سے حملہ کر سکتے تھے لیکن آج - امام خامنہ ای کے مطابق، - مار کر بھاگنے کا دور گذر گیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے اقدام کا پورا پورا حساب دینا پڑتا ہے۔ جعلی ریاست سنہ 2006ع‍ کے بعد لبنان پر حملے کی ہمت نہیں کر سکی ہے؛ غزہ کے مجاہدین کی سیف القدس نامی کاروائی کے بعد، اسے غزہ کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتا ہے اور آخرکار بھی فیصلہ یہی ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی کاروائیوں کا جواب نہ دیا جائے اور مسئلے کے بھلا دیا جائے۔ اب حالیہ تین روزہ جنگ میں ایک چھوٹی سی مجاہد جماعت "جہاد اسلام" کے ہاتھوں پٹائی کے بعد تو اسے مزید خفتیں اٹھانا پڑیں گی۔ صہیونی اس وقت اس مکمل یقین تک پہنچ گئے ہیں کہ حتی اگر ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ بھی لڑنا پڑے تو اسے ہزاروں نئے میزائلوں کی بارش کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 سوال: سازباز کے منصوبوں کے باطل ہونے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے اور یہ کہ یہ صورت حال کس طرح، ایک زمینی کی صورت میں ابھر آئی؟

جواب: ہم نے مختلف عشروں میں سازباز کے منصوبوں کو مختلف شکلوں میں دیکھا جن میں شاید سے اہم منصوبہ مصر اور اسرائیل کے ما بین کیمپ ڈیویڈ سمجھوتے (Camp David Accord) کا منصوبہ ہے۔ یہ سمجھوتہ ایسے انداز سے دنیا کے سامنے رکھا گیا کہ گویا یہ اہم عربوں اور اسرائیل کے درمیان سب سے اہم سمجھوتہ ہے، اور مصر کے بعد اب دوسرے عرب ممالک کے سوا سازباز کے اس عمل میں شامل ہونے کے سوا کوئی دوسرا چارہ کار نہیں ہے۔ لیکن 1970ع‍ کے عشرے کے اواخر مین منعقدہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نتیجے میں مصر کے آمر انور السادات قاتلانہ حملے میں مارے گئے، اور لبنان اور فلسطین میں اسلامی مقاومت ظہور پذیر ہوئی۔

اس کے بعد اوسلو معاہدہ (Oslo Accord) سامنے آیا جو فلسطینی اتھارٹی کے قیام پر منتج ہؤا؛ لیکن اس کے بعد انتفاضۂ مسجد الاقصیٰ نے ثابت کیا کہ اوسلو معاہدے پر منتج ہونے والا پورا سفارتکارانہ عمل بے ثمر اور بے فائدہ تھا اور "فلسطینی اتھارٹی" ایک مہمل اصطلاح میں بدل گئی۔ عرب ليک کی کانفرنسوں اور سعودی بادشاہت کی مرکزیت سے ابھرنے والے سفارتی سلسلے اور ان سے حاصل ہونے والے سمجھوتے بھی یکے بعد دیگرے ناکام ہو گئے؛ کیونکہ صہیونی غاصب ان معاہدوں اور سمجھوتوں کے ذریعے وقت خرید رہے تھے اور انھوں نے کبھی بھی کسی معاہدے کو اہمیت نہیں دی، کیونکہ وہ اپنے آپ کو غالب طاقت اور فلسطینیوں اور دوسرے عربوں کو مغلوب سمجھتے تھے۔

ساز باز کا آخری منصوبہ "ابراہیم سمحھوتوں" (Abraham Accords) کے ضمن میں سامنے آیا ہے، اور ان سمجھوتوں پر ایسے حال میں دستخط ہوئے ہیں جب غاصب اسرائیلی کی پوزیشن بہت زیادہ کمزور تھی۔ ابراہیم سمجھوتے پر ٹرمپ کے زمانے میں غاصب ریاست اور امارات اور بحرین نے، امریکہ کی وساطت سے، دستخط کئے۔ وہ البتہ بلندبانگ تشہیری مہم کے باوجود اس حقیقت کے چھپانے سے عاجز رہے کہ صہیونی ریاست کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے؛ کیونکہ غاصب ریاست بہت زور و شور اور جوش و جذبے کے ساتھ ایسی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا پرچار کر رہی تھی جنہیں خوردبین سے بھی نقشے پر تلاش کرنا، دشوار ہے؛ چنانچہ مکار صہیونیوں نے اس تشہیری مہم سے محض یکطرفہ ابلاغیاتی فائدہ اٹھایا؛ ثبوت یہ مشہور صہیونی ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ "ابراہیم سمجھوتوں کا عمل، ایک مرا ہؤا عمل ہے جو بہت زیادہ شور و غل کسی قسم کی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکا ہے، اور اسرائیل کو عملی فائدہ نہیں پہنچا سکا ہے۔ حتیٰ کہ گذشتہ رمضان (1443ھ) کے مہینے میں قدس شریف میں صہیونیوں کی توہین آمیز کاروائیوں پر سعودیوں، ترکوں اور اماراتیوں کو امت مسلمہ کے رد عمل سے محفوظ رہنے کی غرض سے - صہیونیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی دوڑ میں شریک ہونے کے باوجود - صہیونی ریاست کے خلاف مذمتی بیانات جاری کئے؛ جو صہیونیوں کے لئے مایوس کن تھے۔

واضح رہے کہ ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور ریاست ہائے متحدہ کا ایک مشترکہ بیان تھا جس پر 13 اگست 2020 کو کئے گئے تھے، اور "ابراہیم معاہدہ" کی اصطلاح بالترتیب اسرائیل-متحدہ عرب امارات امن معاہدے اور بحرین-اسرائیل بحالی تعلقات کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ سنہ 1979ع‍ میں مصر کے ساتھ امن اور 1994ع‍ میں اردن کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے، یہ اب تک کسی عرب ملک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا پہلا معادہ ہے۔ ان معاہدوں پر - 15 ستمبر 2020 کو وائٹ ہاؤس میں - بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزیانی، متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے دستخط کئے تھے۔ مراکش اور سوڈان بھی ان معاہدوں میں شامل ہوئے اور یوں ان ممالک نے صہیونی غاصبوں کے ساتھ طویل عرصے سے قائم خفیہ تعاون کو بر ملا کر دیا، گوکہ سعودیوں کو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ 1948ع‍ سے قائم خفیہ تعلقات آشکار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ہے، البتہ ان کے درمیان تعاون اب خفیہ نہیں رہا ہے۔

حرمین شریفین اور حجاز شریف پر قابض سعودی قبیلے کو البتہ یہ بھی خدشہ تھا کہ ابراہام سمجھوتوں کی وجہ سے کہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ہاں اس کا ریاکارانہ چہرہ بے نقاب اور اس کی منافقت عیاں نہ ہوجائے۔ کیونکہ یہ قبیلہ اپنے آپ کو خادم الحرمین کے طور پر متعارف کراتا اور اہلیت کے فقدان کے باوجود "دنیا اسلام کی قیادت کا حقدار" سمجھتا ہے؛ اور اسے دین اور دینداری سے دور ہو کر بھی حجاج کرام اور عمرہ گزاروں کی جیبوں سے اربوں ڈالر کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے اور اگر اس کی حقیقت کھل جائے، تو وہ مزید یہ دعوے نہیں کر سکے گا اور مسلمہ امہ اس سے حج کے انتظآم کا حق چھین بھی سکتی ہے۔

گوکہ سب جانتے ہیں کہ سعودی-صہیونی تعلقات کافی حد تک عیاں ہو چکے ہیں، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سمیت حجاز کے دوسرے شہروں میں یہودیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، انہیں مکہ اور مدینہ میں املاک خریدنے کی اجازت دی گئی ہے، دو ریاستوں کے خفیہ اداروں کے حکام کے دو طرفہ دورے جاری ہیں، بحیرہ احمر کے ساحل پر سعودی ولی عہد کے ساتھ بنیامین نیتن یاہو کی ملاقاتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں، صہیونی طیاروں کو حجاز شریف کی فضا سے گذر کر مشرقی اور جنوبی ایشیا جانے کی اجازت دے دی گئی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کو پہلی بار تل ابیب سے پرواز کرکے براہ راست ریاض تک آنے کا اذن دیا جا چکا ہے جس کے بعد دوطرفہ پروازوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن امارات اور بحرین نے تعلقات عیاں کرکے جو رسوائی کمائی ہے، وہ اس قدر بڑی تھی کہ سعودی بھانپ گئے کہ یہ سمجھوتہ اسلامی مقاومت (Islamic Resistance) کے حق میں جا رہا ہے اور عرب اقوام کے نوجوان صہیونی دشمن کے خلاف جدوجہد کی طرف زیادہ راغب ہو رہے ہیں؛ اور مقاومت کے نوجوان مجاہدین کا عزم پہلے سے زیادہ پختہ ہو رہا ہے اور عرب ریاستوں پر مسلط غیر منتخب حکمرانوں کے خلاف ہو رہے ہیں اور یہ سب مقاومت کے مفاد میں ہے۔ چنانچہ سعودیوں نے بھی ترکی اور امارات کی طرح ایک خالی خولی بیان جاری کرکے نوجوانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہم اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ ہیں! گوکہ اس کے عملی اقدامات اس کے بیان کی سچائی کو ثابت نہیں کر رہے ہیں لیکن اس سے مقاومت کی طاقت اور اثر و رسوخ کی تائید ضرور ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں نے البتہ ان حقائق کو نظر انداز کرکے ابراہیم سمجھوتے کو کامیاب قرار دینے کی کوشش کی اور کہا کہ صہیونی ریاست خلیج فارس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، اور دوسرے عرب ممالک بھی یہودی غاصبوں کے ساتھ بیعت کے لئے قطار لگائے کھڑے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یا سمجھانا چاہتے ہیں کہ گویا اسرائیلی خلیج فارس آنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے بلکہ اسرائیلی کئی عشروں سے عرب درباروں میں موجود تھے اور خفیہ طور پر وہ سب کچھ کر رہے تھے جو وہ اب بھی خفیہ طور پر ہی کرتے رہیں گے۔

اسی اثناء میں ذرائع ابلاغ کی خبروں اور رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم معاہدہ بھی صدی کی ڈیل کی طرح ناکام ہو چکا ہے، بطور مثال حال ہی میں اماراتی یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالخالق عبداللہ نے کہا کہ ان کے ملک میں اسرائیلی قابضوں کو خوش آمدید کہنے کی نمائش اختتام پذیر ہو چکی ہے۔

صہیونی اخبار اسرائیل ہیوم نے حال ہی میں لکھا کہ صہیونی امارات کے ساتھ تعلقات کا ہنی مون کا اختتام دیکھ سے ناامید ہو گئے ہیں اور ابتدائی جوش و خروش کے باوجود، اب انہیں پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے اور سمجھوتے کے ثمرات مبہم ہیں۔

ادھر ترکی اور صہیونی ریاست کے تعلقات کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کے خدشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ صہیونی حکام کے ساتھ رجب طیب اردوگان کے ذاتی حب و بغض سے قطع نظر، وہ ترکی کی رائے عامہ کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ترکی کے ناگفتہ اقتصادی حالات کو سنبھالا دینے کے لئے انھوں نے اسرائیلیوں کا استقبال ضرور کیا لیکن اسرائیلی بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے یہی سلوک قطر اور امارات کے ساتھ بھی کرتے آئے ہیں۔

یاد رہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے قبل تہران میں صہیونیوں کا سفارت خانہ تھا لیکن شاہ میں اتنی ہمت نہيں تھی کہ تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کو آشکار کردے۔ لیکن ان تعلقات سے شاہ ایران کو کوئی فائدہ نہ ملا اور جب ملت ایران نے انقلاب بپا کیا تو تل ابیب تو کیا اس کے مغربی مالکین بھی شاہ کو نجات نہ دلا سکے اور تل ابیب کا سفارت خانہ انقلاب کے بعد فلسطینیوں کو واگذار کرایا گیا۔

خلیج فارس کی ریاستوں کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہاں کے عرب ریاستوں کے حکمران بلاجواز ان ریاستوں پر مسلط ہیں اور عوام کے منتخب کردہ نہیں ہے چنانچہ انہیں برسراقتدار رہنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے کرنش کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اسرائیلی ریاست انہیں نجات نہيں دلا سکتی چنانچہ یہ تفکر بہت خطرناک ہے۔ اسرائیل کا مالک اور آقا امریکہ افغانستان میں خوار و ذلیل ہوکر بھاگا ہے اور وہ اپنی حمایت یافتہ افغان حکومت کو نہیں بچا سکا ہے کیونکہ وہ رو بہ زوال ہے، تو رو بہ زوال اسرائیل کیونکر فلسطین کے خائن عرب حکمرانوں کو بچا سکے گا؟

اسرائیل رو بہ زوال ہے، وہ ہر روز پہلے سے زیادہ، اپنی تسدیدی قوت کھو رہا ہے اور حتیٰ کہ اپنی حفاظت کرنے اور مقاومت کو براہ راست جواب دینے سے عاجز ہے؛ وہ لبنان کی حزب اللہ کے سامنے بے بس ہوچکا ہے وہ غزہ کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کرنے سے قاصر ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ حملے کی صورت میں اسے دندان شکن جوابی کاروائی کا سامنا ہوگا۔ عراق کی رضا کار فوج "الحشد الشعبی" بھی اب مقاومت کا حصہ بن چکی ہے اور صہیونیوں کو عراق کی طرف کے حملوں سے بھی خطرہ لاحق ہے، یمن کی انصار اللہ بھی اسرائیل مخالف محاذ کا حصہ ہیں اور وہ فلسطین سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے اور صہیونی ماہرین کے اعتراف کے مطابق، یمنیوں کے میزائل مقبوضہ فلسطین میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، اور یہ سب اسلامی مقاومت کی طاقت اور صہیونی ریاست کے زوال کا ثبوت ہے۔ لہٰذا گرتے پڑتے دشمن سے ڈرنے کے بجائے، مسلمانوں کو اللہ پر توکل اور مقاومت پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جو کچھ امریکہ اور اسرائیل اور ان کے عرب حواری نفسیاتی کاروائی کے ضمن میں کہہ رہے ہیں، درست نہيں ہے اور صورت حال بالکل برعکس ہے۔

سوال: فلسطین کے 1948ع‍ اور 1967ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں صہیونیوں کے خلاف جدوجہد کے سلسلے میں فلسطینیوں کی سوچ میں ایسی کونسی تبدیلی آئی ہے جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہو؟

جواب: مذکورہ دو علاقوں کی صورت حال غزہ کی صورت حال سے مختلف ہے۔ غزہ اپنی گنجان آبادی اور ارضی نوعیت کے بل بوتے پر مقاومت کی تنظیموں کو مزاحمت اور شہری لڑائی کا امکان فراہم کرتا تھا لہٰذا ایریل شارون نے سنہ 2005ع‍ میں غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا حکم دیا کیونکہ غاصب ریاست وہاں اپنی رٹ قائم کرنے سے عاجز تھی۔ مقتول صہیونی وزیر اعظم اسحاق رابین کا ایک جملہ مشہور ہے کہ "مجھے امید ہے کہ ایک دن بستر سے اٹھوں اور دیکھ لوں کہ غزب سمندر میں ڈوب گیا ہے"؛

یہ موقف بجائے خود غزہ کے مقابلے میں صہیونیوں کی بے بسی کا ترجمان ہے، لیکن مغربی کنارے اور 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں صورت حال مختلف ہے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے سمیت 1967ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں آبادیوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے اور یہاں کھلے علاقے بھی زیادہ ہیں جہاں صہیونی افواج کو نقل و حرکت کا امکان فراہم ہے۔ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں پر صہیونیوں کی مطلق عملداری قائم ہے اور وہاں مقاومتی تنظیموں کی تشکیل کی اجازت نہیں دی جاتی، لیکن فلسطینیوں نے ان علاقوں میں بھی مقاومت سے سبق لے کر جدوجہد کی نئی روشیں ایجاد کی ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے بھی چند سال قبل فرمایا تھا کہ "مغربی کنارے کو مسلح ہونا چاہئے؛ اگر وہ کسی وقت پتھروں کے ساتھ جدوجہد کرسکتے تھے تو اب انہیں مناسب، جدید اور مؤثر ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہئے"۔

اب کچھ عرصے سے 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں بھی اور 1967ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں بھی ایک نئی تحریک شروع ہوئی ہے، ان علاقوں میں فلسطین نوجوان انفرادی کاروائیاں کرتے ہیں، ان کاروائیوں میں ایک یا دو افراد شامل ہوتے ہیں جن کا کسی بھی مقاومتی تنظیم سے تعلق نہیں ہوتا اور ان کا کوئی کمانڈنگ مرکز نہیں ہوتا۔ یہ مقاومت پر یقین رکھنے والے نوجوان ہیں اور بہت سی مشکلات سے گذر کر صہیونیوں پر ضرب لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کاروائیاں مذکورہ علاقوں کے طول و عرض میں انجام پاتی ہیں۔ ان حملوں میں انتہاپسند صہیونیوں کو خنجروں اور چاقؤوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر انہیں گاڑیوں سے کچل دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کاروائیاں تل ابیب، بئر سبع، قدس شریف اور دوسرے علاقوں میں انجام دی جاتی ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

حال ہی میں 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں ایک بڑی تبدیلی نظر آئی اور فلسطینی نوجوان چھوٹے ہتھیار حاصل کرکے غاصب صہیونیوں کے خلاف مؤثر کاروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئے؛ اور یوں غاصب صہیونیوں کو شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان علاقوں میں فلسطینی ہتھیاروں سے بھی لیس ہو سکتے ہیں اور یوں اور الٹی نقل مکانی کے عمل میں تیزی آئی اور یہ سلسلہ تحریک جہاد اسلامی اور صہیونی ریاست کے درمیان حالیہ تین روزہ جنگ میں شدیدتر ہؤا ہے۔ صہیونیوں کا تصور یہ تھا کہ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں عربوں کی نئی نسل مبینہ جمہوری ماحول میں پروان چڑھے ہیں اور وہ جدوجہد پر یقین ہی نہیں رکھتے اور صہیونی حکمرانی کو عرب حکمرانوں کی استبدادیت پر ترجیح دیتے ہیں! لیکن اس لحاظ سے بھی انہیں مایوسی ہوئی۔

اب ثابت ہؤا ہے کہ صہیونیوں کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا تھا کیونکہ اسی علاقے میں پیدا ہو کر پروان چڑھنے والے اور فلسطینی حکمرانی سے دور صہیونیوں کی عملداری میں رہنے والے نوجوان ہتھیار اٹھا کر فوجی کاروائیاں کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ اگرچہ 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں پر صہیونیوں کی گرفت بہت مضبوط ہے لیکن چونکہ ان علاقوں کے فلسطینی، اسرائیلی شہری سمجھے جاتے ہیں لہٰذا انہیں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہے اور اسی سہولت نے انہيں دشمن پر ضرب لگانے کا امکان فراہم کیا ہے؛ وہ کسی فلسطینی جماعت کے حامی نہیں ہیں چنانچہ انفرادی طور پر مؤثر کاروائیاں کر سکتے ہیں اور ان کی کاروائیاں صہیونی ریاست کی سلامتی اور غاصب یہودیوں کی نفسیاتی آسائش کو زیادہ مؤثر انداز سے درہم برہم کر سکتے ہیں۔ گذشتہ رمضان کے دوران 1948ع‍ کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں کی کاروائیوں کے بعد صہیونی ماؤں نے بچوں کو اسکول بھجنے سے انکار کردیا تھا گوکہ فلسطینی مجاہدین بچوں اور عورتوں پر حملہ نہیں کرتے جبکہ حالیہ جنگ میں صہیونیوں نے رہائشی علاقوں پر حملے کرکے کئی فلسطینی بچوں کو شہید کیا۔

یہ صحیح ہے کہ صہیونیوں کو امن و خوشحالی کا جھانسہ دے کر دنیا بھر سے فلسطین میں بلایا گیا تھا اور اب ان کی سلامتی غارت ہوچکا ہے اور خوشحالی بھی بدامنی سے متصادم ہے، چنانچہ فلسطینیوں کی یہ کاروائیاں فلسطینی کاز اور عالم اسلام کے مقدس مقامات کی آزادی کے حوالے سے بہت مثبت نتائج کی حامل ہیں اور انہیں مزید پھیلنا چاہئے اور فلسطینیوں کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا اہتمام ہونا چاہئے، تاکہ صہیونی ریاست کے اندرونی علاقوں میں اپنی کاروائیوں کو جاری رکھ سکیں۔ بے شک فلسطینیوں کو ہتھیار کی فراہمی پورے عالم اسلام کی ذمہ داری ہے۔

سوال: مغرب ایشیا میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے اور فروغ پانے سے فلسطینی مقاومت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

جواب: مغربی ایشیا کے مختلف ممالک میں مقاومت کے معرض وجود میں آنے کی برکت سے محور مقاومت نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں؛ شام کے خلاف بین الاقوامی سازش مقاومت کی مدد سے ناکام ہوگئی اور امریکہ، یورپ، ترکی اور سازشی عرب حکمرانوں سے وابستہ مسلح ٹولوں کو شکست ہوئی۔

امریکہ نے عراق میں داعش کی بنیاد رکھی اور عراق پر داعش کو مسلط کرنا چاہا، لیکن داعش کو شکست ہوئی اور اب وہ حکومت نہیں کہلوا سکتی اور ایک منتشر دہشت گرد ٹولے میں تبدیل ہوئی جو صحراؤں اور دشوار گذار گھاٹیوں میں رہنے پر مجبور ہے یا پھر افغانستان پہنچ کر امریکی مقاصد کے حصول کے لئے وہاں کی مرکزیت (طالبان کی عبوری حکومت) کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں کر رہی ہے۔

یمن امریکہ، یورپ، صہیونی ریاست اور سعودیوں کی قیادت میں نام نہاد اتحاد میں شامل بعض عرب ریاستوں کی طرف سے بین الاقوامی سطح کی جارحیت کا شکار ہؤا لیکن اس نے محور مقاومت کی مدد سے عظیم ترین کامیابیاں حاصل کیں یہاں تک کہ جارح ممالک کو مجبور ہو کر گذشتہ رمضان سے پہلے یمن کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کی اب تک کئی مرتبہ توسیع ہوئی ہے اور جنگ بندی ہنوز جاری ہے۔

سعودی اتحاد نے جنگ بندی کا اعلان کرکے ضمنی طور پر یمنیوں کے خلاف جنگ میں اپنی شکست کا اعتراف کرلیا ہے اور یہ بھی فلسطینی مقاومت کے لئے ایک بڑا سبق ہے۔ کیونکہ محور مقاومت نے شام، عراق اور یمن میں اپنی دفاعی جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، فلسطین کی حمایت بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب بھی مقاومت کوئی کامیابی حاصل کرتی ہے فلسطینی مقاومت کے لئے اس کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ "اے فلسطینی مجاہدو! تم تنہا نہیں ہو اور ہم آپ کے طاقتور حامی ہیں اور آپ کے ساتھ قریبی تعلق و تعاون کرکے تمہیں تقویت پہنچا سکتے ہیں اور تم اور ہم مل کر عظیم کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔

سنہ 2011ع‍ میں عالم عرب [تیونس، مصر، لیبیا، بحرین، اور یمن) میں عظیم تحریکوں کا آغاز کیا جس کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ عرب دنیا کا پہلے نمبر پر آیا اور عرب حکمران فلسطینیوں کی حمایت پر مجبور ہوئے لیکن عوامی انقلابات سعودیہ اور امارات پیٹرو ڈالروں کی ندیاں بہا کر ان ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، اور انقلاب کی لہروں پر سوار ہوکر انہيں اپنے راستے سے ہٹایا اور یوں مسئلۂ فلسطین بھی ان ممالک میں کافی حد تک اپنی اہمیت کھو گیا۔

باعث افسوس ہے کہ بہت سی عرب اور مسلم اقوام فلسطین کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی تھیں، لیکن مقاومت اسلامی کی مسلسل کامیابیوں کی وجہ سے فلسطین ایک بار پھر عرب اور اسلامی دنیا کا پہلے درجے کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگرچہ عرب حکمران حمایت نہیں کر رہے ہیں لیکن عرب اور مسلم اقوام حقیقتا حمایت کررہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی مقاومت مغربی ایشیا میں مقاومت اسلامی کی کامیابیوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہی ہے؛ یعنی یہ کہ مقاومت اسلامی کی کامیابیاں در حقیقت فلسطینیوں کی کامیابیاں ہیں اور دوسری طرف سے فلسطینی مقاومت کی کامیابیاں اسلامی مقاومت محاذ کی کی کامیابیوں میں شمار ہوتی ہیں۔

فلسطین کے مسئلے پر رہبر انقلاب کی گہری نظر

حالیہ رمضان میں یوم القدس کے پیغام اور فلسطین کے حوالے سے مختلف خطابات میں قدس شریف کے سلسلے میں رہبر انقلاب امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے دیئے گئے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عرب زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، فلسطین اور قدس کے حوالے سے عربی مصادر و منابع سے رجوع کرتے ہیں، اور خاص چینلوں سے خصوصی معلومات حاصل کرتے ہیں چنانچہ آپ کی معلومات بالکل درست، تازہ اور حقیقی ہیں۔

آپ حقیقت پسندی کی بنیاد پر ایک انتہائی پرامید نگاہ کے ساتھ فلسطین کے لئے روشن مستقبل کی نوید دیتے ہيں۔ اکتوبر 2011ع‍ میں تہران میں حمایتِ فلسطین کانفرنس رہبر انقلاب کا خطاب شروع سے لے کر اُس وقت تک کے فلسطینی مسائل اور حالات و واقعات کی تشریح کے حوالےسے ایک اہم تاریخی موڑ ثابت ہؤا۔ میں خود کانفرنس کی افتتاحی نشست میں حاضر تھا۔ رہبر انقلاب کا وہ خطاب اس قدر جامع، دلچسپ اور گہرائی کا حامل تھا کہ کانفرنس میں موجود ایک فلسطینی تجزیہ نگار "منیر شفیق" نے آپ کے خطاب کے اختتام پذیر ہونے پر کہہ دیا: "اے آقا! یہ کانفرنس بس اختتام پذیر ہو گئی"! اور جن ان سے ان کے اس رد عمل کا سبب پوچھا گیا کہ "حقیقت یہ کہ یہ افتتاحی خطاب در حقیقت اختتامی اجلاس تھا، اور ہمارے پاس کہنے کو مزید کچھ نہیں ہے، مگر یہ کہ آقا کے خطاب کو دہرائیں"۔

میرے خیال میں رہبر انقلاب کے اس خطاب پر زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس خطاب کے متن کو ہر سال یوم القدس پر شائع کرنا چاہئے کیونکہ یہ فلسطین کے مسئلے پر بہت جامع اور دقیق تجزیہ ہے جس میں فلسطینی کاز کے تمام مراحل کو زیر بحث لایا گیا ہے اور اس کی روشنی میں فلسطین کے روشن مستقبل کے پیش منظر کو حقیقت پسندانہ انداز سے دکھایا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجزیہ نگار: مسعود اسداللّٰہی

ترجمہ: ابو فروہ مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲