اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

4 جنوری 2022

2:40:35 PM
1215552

یزید نے سیدالشہداء (علیہ السلام) کی زندگی کا چراغ گل کرکے طاغوت کی حکمرانی کے بچاؤ کا انتظام کیا مگر امام نے موت کے اس بیوپاری کو تا ابد ناکام بنایا، اور یزید کی موت سفیانی سلسلۂ سلطنت کی موت ثابت ہوئی؛ اس شہادت عظمیٰ نے سلسلۂ ستم کی جڑیں اکھاڑ دیں، اور اس کے بعد آج تک جہاں بھی ستم نے سر اٹھایا ہے عاشورا کے امینوں نے اس کا سکون چھین لیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آل عمران کی آیت 169 میں ارشاد ربانی ہے کہ شہداء کو مردہ نہ سمجھو؛ وہ زندہ ہیں، اور اپنے ربّ کے یہاں رزق پاتے ہیں"۔ اور سورہ بقرہ کی آیت 154 میں ارشاد ہے کہ شہداء کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں ہے"۔ جس کا مطلب ہے کہ شہداء "موت سے مستثنیٰ" ہیں۔ نیز سورہ آل عمران کی آیت 151 میں اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ: " عنقریب ہم رعب ڈال دیں گے ان کے دلوں میں کہ جنہوں نے کفر اختیار کیا،" اور سورہ انفال کی آیت 12 میں فرمایا: "میں تمہارے ساتھ ہوں، تم ثابت قدم رہو، میں تمہارے دشمن کافروں کے دلوں میں خوف اور رعب ڈال دوں گا"۔ چنانچہ شہید قاسم جو زندہ ہیں اور انہیں مردہ کہنا حکم خدا کے مطابق، ممنوع ہے، ہنوز کفر و استکبار کے اکابرین کو ستا رہے ہیں۔
اگرچہ گویا طاغوت بھی اپنی طاقت کو اپنی لافانیت کی علامت اور اپنے منصوبوں کے نفاذ کا اوزار سمجھتے ہیں؛ لیکن اس اوزار کی افادیت ہر جگہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ قتل و تخریب نیز تخویف [اور ڈرانے کا] طاغوتی اوزار صاحب ایمان مجاہدین کو فنا یا خوفزدہ نہیں کرسکتا؛ گوکہ کفار اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں۔ وہ حکام جو کئی صدیوں سے اقوام کو خوفزدہ کرتے رہے ہیں اور قتل و غارت اور تخریب کو بطور اوزار استعمال کرتے ہیں ان اوزاروں کے استعمال میں، بڑی غلطیاں کر بھی کر ڈالتے ہیں جو ان کی ناکامیوں کا سبب بن جاتی ہیں؛ وجہ یہ ہے کہ - قرآن کی گواہی کے مطابق - شہید کی حیات کا ادراک ان کی سمجھ سے بالاتر ہے؛ جس طرح کہ عصر جدید میں - اسلامی انقلاب کے بعد - تمام طاغوتی قوتوں کے موت سے خائف نہ ہونے کا راز جاننا بھی گویا ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔
بےشک جہاں جابر طاغوت کبھی بھی "بنی نوعی انسان" کے خلاف شرانگیزیوں سے غافل نہيں ہوتے وہاں پرعزم مجاہدین بھی مقابلے کے لئے پا بہ رکاب رہتے ہیں؛ بقول مشہور "ہر فرعونے را موسیٰ"؛ یعنی ہر طاقتور طاغوت سے نمٹنے کے لئے ایک طاقتور خدائی مجاہد ضرور ہوتا ہے۔ اور جب یہ مجاہدین جہد مسلسل کرکے عظمت کی بلندیوں پر فائز ہو جاتے ہیں، طاغوت سامنے سے آکر لڑنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے اور اسے منظر سے ہٹانے کے لئے بزدلی اور دہشت گردی کا سہارا لیتا ہے؛ یہ سمجھ کر، کہ ان سے چھٹکارا حاصل ہوگا لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ بلکہ وہ مجاہد خالص خدائی حیات پاتا ہے؛ ایسی حیات جو عام حیات سے بالکل مختلف اور صرف لاہوتیوں کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ چنانچہ ان بزرگ شہیدوں سے موت کے بیوپاریوں کا خوف، فطری امر ہے، جو کلام پروردگار کی رو سے، "موت کا شکار ہی نہیں ہوتے" اور انہیں میت اور مردہ کہنا ہی حرام ہے۔
یزید نے سیدالشہداء (علیہ السلام) کی زندگی کا چراغ گل کرکے طاغوت کی حکمرانی کے بچاؤ کا انتظام کیا مگر امام نے موت کے اس بیوپاری کو تا ابد ناکام بنایا، اور یزید کی موت سفیانی سلسلۂ سلطنت کی موت ثابت ہوئی؛ اس شہادت عظمیٰ نے سلسلۂ ستم کی جڑیں اکھاڑ دیں، اور اس کے بعد آج تک جہاں بھی ستم نے سر اٹھایا ہے عاشورا کے امینوں نے اس کا سکون چھین لیا ہے؛ اگر ذلت بانٹنے والے طاغوتیوں کا استمراری ظہور ناقابل انکار ہے تو ذلت کے علمبرداروں کا گریبان پکڑنے کے لئے حسینیت کی صدائے "ہیہات منا الذلۃ" تا قیامت باقی ہے اسی لئے یزیدیت کے پوجاریوں کو تا ابد خوفزدہ رہنا پڑتا ہے سوا اس وقت کے جب مؤمنین و مجاہدین شہادت کو موت سمجھنا شروع کریں اور دشمن کے ہاتھوں قتل ہونے سے خائف ہوجائیں۔
آج اگر رو بہ زوال استکبار اور رو بہ انحطاط صہیونیت میدان میں موجود ہے تو وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد جنگ پر رکھی گئی ہے اور ہتھیار ایک طرف رکھنے کا مطلب ان کے ہاں ان کی موت کا اعلان ہے، لیکن آج مسلسل شکستوں کے بعد ان کی حالت کافی نازک ہوچکی ہے اور اس کے مقابلے میں مقاومت اسلامیہ جم کر کھڑی ہے؛ وہی مقاومت اسلامیہ جو عصر جدید میں ظلم و جبر اور کفر و شرک کے خلاف مکتب عاشورا کا تسلسل ہے؛ قبلۂ اول کے غاصبوں کے خلاف جدوجہد اور امت کے دفاع کی واحد مؤثر قوت کے طور پر پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ میدان میں موجود ہے اور اسلام، عروبت (عربیت) اور خدمت حرمین کے جھوٹے دعویداروں کے دامن میں پناہ لینے کے والوں کی جگہ بھی جنگ و جہاد میں مصروف ہے؛ اور اس نے آج کے تیز رفتار مواصلاتی دور میں پوری دنیا اور بالخصوص امت مسلمہ کو ثابت کرکے دکھایا ہے کہ امت اور اس کے مقدسات کے تحفظ کا کام بالآخر حسینیت کے پیروکاروں کے سپرد ہوگا اور مختلف بہانوں سے امت کی زعامت سنبھالنے والوں کو آخرکار یہود و نصاری کی خوش آمد کے لئے، اعلانیہ طور پر بیزاری کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ گویا یہ لوگ امت کو عرصے سے بہکا رہے تھے اور اب بہکاوے کا دور ختم ہوچکا اور دکھاوا اپنانے والوں کو پروردگار کے دشمنوں کے مفاد میں اسلام اور ایمان کا نقاب ہٹانا پڑا ہے۔ شاید انہیں ان آیات کریمہ کا مصداق قرار دینا ہی مناسب ہو:
"وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ * اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ؛ (بقرہ 14-15)
اور جب وہ ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے ایمان اختیار کیا اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یقین جانو ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو ان کے ساتھ مسخرہ پن کر رہے تھے * اللہ خود بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سر کشی میں ڈھیل دیتا ہے کہ یہ اندھے پن میں مبتلا رہیں"۔
بے شک اگر ابتداء سے ہی محاذ حق میں موجود لوگ ولایت کی پیروی کو نصب العین بناتے اور اپنی مرضی کی تاویلوں سے رسول خدا اور ائمہ (سلام اللہ علیہم اجمعین) کے کلام میں عملی تحریف نہ کرتے تو نہ خلافت کا رخ مڑ جاتا، نہ باب ولایت کو آگ لگتی، نہ مادر ولایت شہید ہوتیں، نہ مسجد کوفہ کا محراب رنگیں ہوتا، نہ رومی زہر سے امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کا کلیجہ پارہ پارہ ہوتا، نہ ولایت کا سر کربلا میں نوک نیزہ پر دکھائی دیتا، نہ ہی گیارہ امام یکے بعد دیگرے قید و قتل کا نشانہ بنتے، نہ خاتم الاولیاء مہدی آخر الزمان (علیہ السلام) کو غائب ہوجاتے، نہ امت کو 12 صدیوں سے "میدان تیہ" میں سرگرداں ہونا پڑتا، اور نہ ہی دنیا پر آج طاغوت کا راج ہوتا اور نہ شیخ راغب حرب، سید عباس موسوی، الحاج عماد، سید حسین الحوثی، باقر الصدر اور باقر الحکیم اور سید عارف حسینی اور آخرکار الحاج قاسم سلیمانی جیسے اکابرین امت اپنی ہی سرزمینوں میں کفر کے چیلوں کے ہاتھوں شہید ہوتے۔
بہرحال تاریخ میں جو ولایت کا مطیع رہا وہ امت کا ہیرو بنا؛ شہدائے کربلا سے لے کر شہید قاسم سلیمانی تک، سب اس قاعدے کے مصادیق ہیں۔
وضاحت یہ کہ اگر الحاج قاسم سلیمانی کو آج مالک اشتر کہا جارہا ہے تو اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس طرح کہ مالک اشتر کا نام امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے نام کے نیچے لکھا جاتا ہے، اسی طرح اس عصر کے مالک اشتر الحاج قاسم سلیمانی کا نام بھی فرزند رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) امام سید علی الحسینی الخامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) کے نام کے نیچے آئے گا اور اگر الحاج قاسم کی عظمت کا چرچا ہے تو وہ خود ولایت پذیری کو انجام بخیر ہونے کا سبب گردانتے ہوئے فرماتے ہیں:
"۔۔۔ واللہ واللہ واللہ انجام بخیر ہونے کے اہم ترین اسباب میں سے ایک اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای کے ساتھ قلبی اور سچا رابطہ برقرار کرنے میں مضمر ہے"۔

جاری۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110