اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

3 جنوری 2022

2:46:12 PM
1215127

جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملوں کے بعد؛ (۱)

امریکہ کو تزویراتی نقصانات اور مسلسل پسپائیوں کا سامنا ہے

جنرل سلیمانی پر حملے کا فیصلہ امریکی خارجہ پالیسی کے ان فیصلوں میں سے ایک ہے جس کے انجام اور عواقب کو کسی قسم کی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ امریکی حکام پر لازم ہے کہ اس سادہ لوحانہ سوچ کو ترک کر دینا چاہئے کہ اگر کوئی ان کے مفادات کے خلاف ہے تو اسے مار دینا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امریکی مجلے نیشنل انٹرسٹ نے شہید جنرل سلیمانی پر امریکی دہشت گردانہ حملے کے دوسال پورے ہونے پر اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: ایران اس حملے کے بعد کمزور نہیں بلکہ کئی گنا طاقتور ہوگیا۔
نیشنل انٹرسٹ نے لکھا:
جنرل سلیمانی پر حملے کا فیصلہ امریکی خارجہ پالیسی کے ان فیصلوں میں سے ایک ہے جس کے انجام اور عواقب کو کسی قسم کی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ امریکی حکام پر لازم ہے کہ اس سادہ لوحانہ سوچ کو ترک کر دینا چاہئے کہ اگر کوئی ان کے مفادات کے خلاف ہے تو اسے مار دینا چاہئے۔
جنوری سنہ 2020ع‍ میں شہید سلیمانی پر امریکی دہشت گردانہ حملے کے چند ہی روز بعد، ایران کی سپاہ قدس نے امریکی اقدام کا جواب دیتے ہوئے عراق میں عین الاسد فوجی اڈے کو درجنوں بیلسٹیک میزائلوں سے حملہ کیا جس سے امریکیوں کا اڈہ منہدم ہؤا اور امریکیوں کے دعوے کے مطابق 100 سے زائد امریکی "زخمی" ہوئے۔ اور اس کے بعد - وقت کے امریکی وزیر خارجہ - مائیک پامپیو نے "تسدید کی بحالی: ایرانی نمونہ" (The Restoration of Deterrence: The Iranian Example) کے عنوان سے ایک خطاب کیا۔ پامپیو نے دعوی کیا کہ "جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملے نے ایک بار پھر ایران کے مقابلے میں امریکی تسدیدی صلاحیت کو متوازن کرلیا ہے"؛ تاہم، عراق میں امریکی افواج پر حملے بڑھ گئے اور واضح ہو گیا کہ پامپیو کا دعوی غیر معتبر اور ناقابل توجہ تھا۔ اب بہت سے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملے کے امریکی صدر ٹرمپ کے حکم کے اجراء سے امریکہ کو مسلسل اور بڑے پیمانے پر بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتائج موجودہ حالات میں بھی امریکہ کو شدید مشکلات سے دوچار کررہے ہیں۔
عراق اور خطے میں تعینات امریکی فوجیوں پر حملوں میں روزافزوں اضافے نے پامپیو کے اس دعوے کو - کہ جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملے نے ایک بار پھر ایران کے مقابلے میں امریکی تسدیدی توازن کو بحال کردیا ہے اور امریکیوں اور امریکی مفادات پر ہونے والے حملوں کو کم تر کردیا ہے، - مزید بےبنیاد ثابت کیا ہے۔ ایران نے عین الاسد میں امریکی فوجی اڈے کو درجنوں میزائلوں کا نشانہ بنایا بلکہ اس نے علاقے میں اپنی تزویراتی حکمت عملی کو "علاقے سے امریکی افواج کے انخلاء" کی بنیاد پر متعین کیا۔ علاوہ ازیں جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملے نے عراق کے اندرونی اختلاف کو شدید تر کردیا۔ حالانکہ جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی حیات کے دوران یہ دونوں کمانڈرعراقی عسکریت پسند گروپوں کے انتظام اور ان پر قابو پانے کی نمایاں صلاحیت رکھتے تھے اور ملک میں مشکل واقعات کا راستہ روک سکتے تھے۔ لیکن ان کمانڈروں کے قتل کے بعد بعض عراقی تنظیموں نے خودسرانہ طور پر عراق میں امریکی مفادات کے خلاف کاروائیاں کیں، عراق کے استحکام کو خطرے میں ڈالا، اور امریکی افواج کی سلامتی کو بھی شدید ترین خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔
ماننا پڑے گا کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس پر قاتلانہ حملہ نہ صرف عراق اور دنیا میں امریکی مفادات کی تقویت پر منتج نہیں ہؤا بلکہ اس حملے نے عملی طور پر امریکہ کو ان دو کمانڈروں کے ایام حیات سے کہیں زیادہ خطرناک صورت حال سے دوچار کیا ہے۔
موجودہ صورت حال میں امریکہ اپنی زیادہ تر توجہ عراق میں قائم اپنے فوجی اڈوں اور اپنے فوجیوں کی حفاظت پر مرکوز کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ عراق کے اندر سلامتی کے حوالے سے وجود میں آنے والی کشیدگی میں اضافے نے بھی امریکی مفادات کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملہ بہت حد تک ادھر جنرل سلیمانی کے قتل کی وجہ سے ایران نے اپنی جوہری صلاحیتوں کے حصول کی سنجیدہ کوششوں میں بہت اضافہ کیا؛ جامع مشترکہ منصوبۂ عمل (The Joint Comprehensive Plan of Action [JCPOA]) کے تحت کی پابندیوں سے علیحدگی اختیار کی اور جنرل سلیمانی کے قتل کی پہلی برسی کے موقع پر، یورینیم کی افزودگی میں مزید اضافے اور مزید جوہری ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔ موجودہ حالات میں، - جبکہ جنرل سلیمان کے قتل کے دو برس پورے ہو رہے ہیں - ویانا جوہری مذاکرات سست روی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور بائیڈن انتظامیہ کو ایک طاقتور جوہری ایران کے چیلنج کا سامنا ہے؛ جبکہ اس کے پاس ایران کے خلاف سنجیدہ آپشن نہیں ہیں۔
خطے اور دنیا میں امریکہ اور اس کے مفادات کے لئے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے ناخوشگوار نتائج بہت اچھی طرح اس تعطل اور رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا غیر متناسب خطرات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے امریکی فوج کا سامنا ہے۔ جنرل سلیمانی کو قتل کر کے امریکہ نے اپنے لئے محفوظ ماحول پیدا کرنے کے بجائے درحقیقت ایران کو مزید طاقت حاصل کرنے پر اکسایا؛ اور اپنے آس پاس کی بدامنی میں بڑی حد تک اضافہ کیا؛ یہاں تک کہ آج امریکیوں کو متعدد نیم فوجی تنظیموں کا سامنا ہے جو اپنی پوری قوت سے امریکی افواج کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتی ہیں۔
خطے میں تعینات امریکی سینٹکام کے کمانڈر کینتھ فرانک مک کینزی (Kenneth F. McKenzie Jr) نے حال میں کہا ہے کہ انہیں اگلے ہفتوں میں امریکی افواج کے خلاف حملوں میں اضافے کی توقع ہے۔ موجودہ حالات میں عراق کی سرزمین میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اور ان کے خودسرانہ اقدامات کے خلاف مختلف سطوح پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے؛ اور یہ صورت حال عراق میں بڑی حد تک امریکی فوجیوں پر حملوں کی ترغیب کا باعث بن رہی ہے۔
سابق وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے ابتدائے سال میں "قدامت پسند پولیٹیکل ایکشن کانفرنس" (CPAC 2021) کے دوران دعوی کیا کہ "جنرل سلیمانی قتل ہوجانے کے بعد، مزید امریکہ کے لئے خطرناک نہیں ہیں"، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پامپیو کے اس دعوے کے برعکس، امریکہ کو جنرل سلیمانی پر دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے، متعدد سنگین اور ناخوشگوار نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ یہاں تک کہ آج بھی امریکی ان خطرات اور خوفناک عواقب سے نبردآزما ہیں۔ یہ بات بھولنا مناسب نہیں ہے کہ ایران نے پامپیو کے 12 مطالبات میں سے کسی ایک کو برآوردہ نہیں کیا اور زیادہ سے زیادہ امریکی دباؤ کا اپنی "زیادہ سے زیادہ مقاومت [مزاحمت]" کے ساتھ جواب دیا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران جوہری میدان میں بھی اور دوسری صلاحیتوں اور طاقت کے عناصر میں، بہت زیادہ آگے بڑھ گیا ہے اور بہت زیادہ طاقتور ہوچکا ہے اور دوسری طرف سے ان کے مقابلے میں امریکی موقف بھی بہت زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔

جاری۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110