اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

7 اکتوبر 2020

12:18:33 PM
1076443

رہبر انقلاب کے مشیر برائے بین الاقوامی امور؛

آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں سے ارمینیا کا انخلاء چاہتے ہیں، لیکن مسئلے کا حل فوجی نہیں ہے

دہشت گردوں کی تعیناتی اور شرارتوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹ لیں گے

ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا: ہمیں ہر لحاظ سے آذربائیجان کے سلسلے میں تشویش ہے، آذربائیجان کی ارضی سالمیت کا تحفظ ہونا چاہئے اور اس کے مقبوضہ علاقوں کو فورا خالی ہونا چاہئے / ارمینیا بھی ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور پڑوسی ہونے کے ناطے ہماری مشترکہ تاریخ بہت طویل ہے/ ہم نہیں چاہتے کہ ان دو ملکوں کو کوئی جانی نقصان پہنچے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر برائے بین الاقوامی امور، ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے قرہ باغ کے مسئلے پر آذربائی جان اور ارمینیا کے باہمی تنازعے کے سلسلے میں روزنامہ کیہان کے نمائندے سے بات چیت کی ہے جس کا اردو ترجمہ یہاں پیش خدمت ہے:
سوال: ظاہری طور پر قرہ باغ کی مالکیت کے بارے میں آذربائی جان اور ارمینیا کے درمیان پرانا تنازعہ ان دنوں جنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے لیکن اور ترکی اور یہودی ریاست (اسرائیل) کی براہ راست مداخلت نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے؛ اس بیرونی مداخلت کے محرکات اور ان کے مقاصد، آپ کے خیال میں، کیا ہوسکتے ہیں؟
جواب: ہم ایک معقول اور منطقی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم تمام ملکوں کی ملکی اور ارضی سالمیت کو محترم سمجھتے ہیں، اور یہ اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں میں سے ایک ہے اور ہم بھی اقوام متحدہ کے رکن کے مطابق اس اصول پر زور دیتے ہیں۔ یہاں ہمارے دو شمالی پڑوسی ممالک کے درمیان تنازعہ جنگ پر منتج ہؤا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی آذربائی جان کے سات شہروں پر ارمینیا کا قبضہ ہے اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں 4 قراردادیں منظور کرلی ہیں جو ارمینیا کو مقبوضہ علاقوں سے انخلاء اور بین الاقوامی سرحد تک پسپائی کا پابند بناتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک پر لازم ہے کہ اس اصول کو تسلیم کریں؛ چنانچہ ہم ارمینیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آذربائی جان کے مقبوضہ علاقوں سے پسپا ہو جائے۔ 10 لاکھ سے زائد آذری عوام ان علاقوں پر ارمینیائی قبضے کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں؛ جس طرح کہ ہم فلسطین پر یہودی قبضے کے خلاف ہیں، یہاں بھی ہمارا موقف یہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل ہرگز ہرگز فوجی راہ حل نہیں ہے، بلکہ اس کو سیاسی روشوں سے حل کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہم کسی بھی ملک کے کسی بھی فوجی اقدام کے خلاف ہیں؛ کیونکہ کوئی بھی فتح و کامیابی کا دعوی کرسکتا ہے لیکن اس جنگ میں ہارنے والے نہتے عوام ہیں جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ رہائشی علاقوں پر بھی بمباریاں ہورہی ہیں، یہ جنگ دو ملکوں کے مفادات کے منافی اور علاقے کی سلامتی سے متصادم ہے۔ اب یہودی ریاست اور ترکی بھی اس میدان میں کود آئے ہیں، تو ہم پوچھتے ہیں کہ ترکی کس لئے اس جنگ میں آ کودا ہے؟ ترکی جنگ کے خاتمے میں کردار ادا کرسکتا ہے تو یہ کردار کیوں ادا نہیں کرتا؟ بہرحال آذربائی جان کے مقبوضہ علاقوں کو ہر حال میں آزاد ہونا چاہئے۔
ادھر صہیونی ریاست کا وجود ہی بنیادی طور پر ناجائز ہے اور فلسطین سمیت دوسری سرزمینوں کے غصب پر استوار ہوئی ہے چنانچہ اس کو نہ صرف ایسے تنازعات میں مداخلت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ اسے ان مسائل کے بارے میں اظہار خیال کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔ یہودی ریاست کا کام ہی اس علاقے میں فتنہ انگیزی کرنا ہے اور اس کو اس علاقے اس کو ہونا ہی نہیں چاہئے۔
ہم ترکی میں بھی اپنے دوستوں کو پیشکش کرتے ہیں کہ آگ پر تیل چھڑکنے کے بجائے، مدد کریں تا کہ ہم اور آپ اور علاقے کے دوسرے ممالک مل کر مظلوم کی حمایت کرسکیں؛ آذربائی جان کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی میں مدد دیں اور نہتے اور مظلوم انسانوں کو جنگ و ہلاکت کا شکار نہ ہونے دیں۔
یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم ارمینیا اور جمہوریہ آذربائی جان کے پڑوسی ہیں، اور مصلحت کا تقاضا ہے کہ ہمارے پڑوسی آپس میں نہ لڑیں۔ ارمینیا ہمارا پڑوسی ہے اور آذربائی جان کے ساتھ ہمارے اشتراکات بہت زیادہ ہیں: دین و مذہب کے لحاظ سے، تاریخ اور تہذیب کے لحاظ، بہت کم ایسے ممالک ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران اور جمہوریہ آذربائی جان کی مانند ہوں اور ان میں اس قدر اشتراکات ہیں اور اس قدر وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں۔
ہم آذربائی جان کے مسائل کے حوالے سے فکرمند ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ اس کی ارضی سالمیت کا تحفظ ہونا چاہئے، اس کے مقبوضہ علاقوں کو خالی کیا جائے، ارمینیان بھی ہمارا پڑوسی ملک ہے، جس کے ساتھ پڑوس کے لحاظ سے ہماری مشترکہ تاریخ بہت طویل ہے، اور ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ آذریوں اور ارمنیوں کو جانی نقصانات سے دوچار ہونا پڑے۔ ان دو ممالک کے عوام خواہ مسلمان ہوں، خواہ عیسائی ہوں، ان کی سلامتی کا تحفظ ہونا چاہئے۔ اسی اثناء میں جمہوریہ آذربائی جان کے ضائع ہونے والے حقوق دے دیئے جائیں، اس کے مقبوضہ علاقوں کو پلٹا دیا جائے، اور کشت و خون کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان دو ملکوں کے درمیان ثالثی اور امن و آشتی کی بحالی کے لئے کسی بھی مدد سے دریغ نہیں کرے گا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرانس بھی دنیا کے اُس گوشے سے مداخلت کررہا ہے اور ان مسائل میں اظہار خیال کررہا ہے! تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس مسئلے کا فرانس سے کیا تعلق ہے؟ اگر ہم بات کرتے ہیں تو ان دونوں ملکوں کے پڑوسی ہیں اور ان ممالک کے عوام کے امن و سلامتی کے حوالے سے فکرمند ہیں؛ ہم علاقے کو بدامنی کا شکار نہیں ہونے دیں گے اور دنیا کے دوسرے گوشوں سے کچھ ممالک آ کر جنوبی قفقاز میں ایران کے شمالی علاقوں کے امن کو خطرے سے دوچار کریں؛ ہم ان کی پیدا کردہ بدامنیوں سے نمٹنے کے لئے پر عزم ہیں۔ ہمیں قوی یقین ہے کہ دونوں ملکوں کے مفادات کے موافق، صلح و آشتی بحال ہوگی اور مقبوضہ علاقے بھی آزاد ہوجائیں گے۔
سوال: شام اور عراق میں ترکی کا ریکارڈ بالکل سیاہ ہے، اور کچھ عرصے سے مختلف بہانوں سے لیبیا کی خانہ جنگی میں بھی بےجا مداخلت کر رہا ہے اور اب ارمینیا اور آذربائی جان کی جنگ میں بھی ٹانگ اڑا رہا ہے؛ ان مہم جوئیوں سے رجب اردوان کا مقصد کیا ہے؟
ہمارے ترکی کے ساتھ ـ دو پڑوسی ممالک کے طور پر ـ اچھے تعلقات ہیں۔ ہمیں امید بھی اور ہماری خواہش بھی ہے کہ ترکی کے مسائل حل ہوجائیں، لیکن ایک دوست کے طور پر ترکی کو پیشکش کرتے ہیں کہ اس جنگ کے ایک فریق یا دونوں کو جنگ کی ترغیب دلانے کے بجائے فریقین کو صلح و آشتی کی ترغیب دلائے لیکن یہ صلح و آشتی اس طرح سے ہو کہ فریقین کے پامال شدہ انہیں پلٹا دیئے جائیں۔ بالخصوص اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی جائے کہ آذریوں کو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اور لاکھوں آذری بےگھر ہوچکے ہیں اور ان کے شہروں پر ارمینیا نے قبضہ کیا ہؤا ہے جن سے ارمینیائی افواج کو پسپا ہونا چاہئے۔
بہرحال یہ معقول پالیسی نہیں ہے کہ ترکی ایک فریق کی عسکری مدد کرے اور دوسرا فریق بھی دوسروں کو اپنی حمایت کے لئے میدان میں لائے اور علاقے سے باہر کے اغیار کو علاقے میں مداخلت کا موقع دیا جائے اور اس علاقے کو بحران کے مرکز میں تبدیل کیا جائے۔
قفقاز کا علاقہ دوسرے بہت سے علاقوں کے ساتھ قابل قیاس نہیں ہے؛ یہ بہت حساس علاقہ ہے۔ اس علاقے کی سلامتی ایک آسان مسئلہ نہیں ہے جس کے بارے میں اس طرح بغیر سوچے سمجھے فیصلہ کیا جاسکے! ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف ممالک عقلمندانہ رویہ اپنائیں اور آگ پر تیل چھڑکنے سے پرہیز کریں۔
سوال: حالیہ ایام میں گردش کرنے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں افغانی اور شامی تکفیری دہشت گردوں کو [ترکی سے] آذربائی جان ـ بالخصوص ایران کے پڑوسی جنوبی علاقوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ تکفیری ٹولوں کے قیام کا فلسفہ ہے "شیعہ نسل کشی ہے"، تو کیا یہ تکفیری آذربائی جان میں آکر، اس شیعہ ملک کی مدد کے لئے آئے ہیں؟
جواب: ہمیں امید ہے کہ تکفیری دہشت گردوں کی آذربائی جان منتقلی کی خبر صحیح نہ ہو؛ اور اگر یہ بات صحیح ہو تو اس کی ذمہ داری وہ تمام لوگ اس حساس علاقے میں القاعدہ اور داعش کے دہشت گردوں کے آنے کے محرکین ہی پر عائد ہوتی ہے۔
داعش اور وہابی تشدد پسند امریکیوں کے ہاتھوں کے کھلونے ہیں۔ ان کا سد باب ہونا چاہئے اور یقینی امر ہے کہ آذربائی جان سمیت علاقے کے دوسرے ممالک کے عوام ہرگز نہیں چاہتے کہ جن وہابی تکفیریوں نے عراق اور شام میں جرائم کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں، وہ اپنے اس کالے کرتوتوں کے ہوتے ہوئے اس حساس علاقے میں داخل ہوجائیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں یہاں پہنچایا ہے ان کی نیت خیر نہیں ہے، اور ان کی موجودگی کسی کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ جو لوگ انہیں یہاں لائے ہیں وہ ان سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔
میں البتہ یقین سے نہیں جانتا کہ کیا واقعی دہشت گردوں کو شام سے آذربائی جان منتقل کیا گیا ہے یا نہیں لیکن قطعی طور پر اگر یہ بات صحیح ہے تو ہم اپنی سلامتی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں بہت سنجیدہ ہیں اور ہم کسی صورت میں بھی امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں میں کھیلنے والے دہشت گرد تنظیموں کو اپنی سرحدوں کے قریب گھونسلا نہیں بنانے دیں گے اور یقینا ان سے آہنی ہاتھ سے نمٹ لیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے عملی طور پر عراق اور شام میں ثابت کرکے دکھایا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ شہید الحاج قاسم سلیمانی نے ایک موقع پر فرمایا کہ تین مہینوں میں داعش تکفیری خلافت کی جڑی اکھاڑ دی جائیں گے اور پھر انھوں نے خود ہی اس سے کم عرصے میں ان کی بیخ کنی کردی۔ آج بھی ہمارا ملک وہی ہے، ہمارے عوام وہی ہیں اور افواج اور ان کے کمانڈر وہی ہیں۔
چنانچہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کا تصور یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اکسا کر ہمیں نقصان پہنچائیں گے تو جان لیں کہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ ہماری برداشت کی ایک حد ہے؛ یہ جو کبھی ایک گولی یا ایک گولہ ہماری سرزمین میں گرتا ہے، یہ سلسلہ بھی جاری نہیں رہ سکے گا؛ ہم اس علاقے کے امن و سکون کے دشمنوں کی ان بدخواہیوں کا زبردست مقابلہ کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
/110