اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

4 اکتوبر 2020

9:07:46 PM
1075758

آیت اللہ تسخیری کے چالیسویں کی مناسبت سے؛

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لیے انتخاب سے قبل آیت اللہ تسخیری کا عجیب خواب

جب عراق کا راستہ بند تھا، ایک رات کو عالم خواب میں دیکھا کہ میں کربلا جا رہا ہوں اور جونہی بارڈر پر پہنچا تو بارڈر کھل گئی، میں کربلا پہنچا باب اباعبد اللہ الحسین سے حرم میں داخل ہوا اور پورے خلوص سے زیارت کی۔ یہ خواب رات کو میں نے دیکھا اور صبح بہت خوش تھا کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مرحوم آیت اللہ تسخیری کے چالیسویں کے موقع پر KHAMENEI.IR  نے مرحوم کا ایک ایسا انٹرویو شائع کیا ہے جس میں آپ اس خواب کا تذکرہ کرتے ہیں جو اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے سیکرٹری جنرل کے عہدہ پر فائز ہونے سے قبل انہوں نے دیکھا تھا۔
انٹرویو کا مکمل ترجمہ حسب ذیل ہے؛

۔ پہلے آپ آیت اللہ خامنہ ای سے اپنے تعارف کے حوالے سے کچھ وضاحت کریں۔
میں انقلاب سے پہلے حضرت آغا سے پوری طرح واقف نہیں تھا۔ کیونکہ ہم نجف میں تھے اور زیادہ تر نجف کے حالات، شخصیات اور فقہاء کے حوالے سے واقفیت رکھتے تھے۔ صدام کے زمانے میں ہمیں جیل رکھنے کے کچھ عرصہ بعد جلاوطن کر دیا گیا۔ اگرچہ ہمارے والدین ایرانی تھے ، لیکن ہم اکثر عرب علماء سے اٹھنا بیٹھنا رکھتے تھے۔ ہمارے والد آیت اللہ شیخ علی اکبر تنکابنی، ایک باصلاحیت عالم تھے جنہوں نے نجف میں بزرگ علماء جیسے آیت اللہ العظمیٰ عراقی، آیت اللہ العظمیٰ نائینی اور آیت اللہ العظمیٰ خوئی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے تھے۔ والد مرحوم نے نجف اشرف میں ہی ایک اصفہانی گھرانے کی لڑکی سے شادی کی تھی، والدہ فارسی کی نسبت زیادہ عربی بولتی تھی اور والد فارسی، اس وجہ سے ہم نے ماں سے متاثر ہو کر عربی بولنا شروع کر دی اور پھر نجف میں ہمارے اطراف کا ماحول بھی عربی کا تھا۔ اساتید بھی عربی میں درس دیتے تھے مرحوم آیت اللہ خوئی اور مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی حکیم کے دروس بھی عربی میں ہوا کرتے تھے۔

۔ ایران میں آپ کی موجودگی اور دفتر رہبری کے دفتر کے ساتھ تعاون کی بنیاد کیا تھی؟
میری عربی زبان اور وہاں کے عربی ماحول سے واقفیت کی وجہ سے، میں مرحوم استاد شہید سید محمد باقر صدر کی تنظیم میں شامل ہوا۔ اس تنظیم کی اساس صدام اور بعثی حکومت کے خلاف جدوجہد تھی۔ اس پارٹی میں بہت سی سرگرمیوں کے بعد، ہمیں ایک خطرناک جیل میں جانا پڑا جس کا نام قصر النھایہ تھا۔ خدا کے فضل و کرم اور امام خمینی (رہ) کے اثر و رسوخ اور بعثی حکومت میں امام رحمت اللہ علیہ کا جو خوف  و دبدبہ پایا جاتا تھا، اس نے ہمیں بچا لیا اور ہمیں ایران جلاوطن کردیا گیا۔ انقلاب سے لگ بھگ چھ یا سات سال قبل، میں نے مختلف ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کی، اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، ہم بھی خدا کی مدد سے فتح کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ اس سے پہلے، میں حضرت آغا (آیت اللہ خامنہ ای) سے واقف نہیں تھا، لیکن انقلاب کے بعد واضح سی بات ہے کہ امام اور بالتبع ان کے شاگردوں سے ہماری محبت اور الفت بہت بڑھ گئی۔ امام کے ممتاز شاگردوں میں سے ایک آیت اللہ خامنہ ای تھے ان کی شخصیت اور تقریریں ہر انسان کو اپنی طرف جذب کرتی تھیں۔ اور پھر جب آیت اللہ خامنہ ای کو رہبر انقلاب کے عنوان سے انتخاب کیا گیا تو اس کے بعد ایک دن انہوں نے اپنے حضور میں ہمیں طلب کیا۔ پہلے دن سے ہی آپ ایک وسیع بین الاقوامی دید کے ساتھ اس میدان میں داخل ہوئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اب سے صدور اور اہم شخصیات کی ملاقاتوں کو دیکھوں اور بین الاقوامی امور میں آپ کا معاون رہوں۔

۔ کیا آپ کی مراد وہی بین الاقوامی دفتر کی معاونت ہے؟
نہیں، تب کوئی دفتر نہیں تھا، بعد میں دفتر تشکیل دیا گیا اور بین الاقوامی دفتر کی معاونت میرے حوالے کی گئی۔ مجھ سے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کو کہا گیا۔ میں نے حضرت آغا کے ساتھ اپنی محبت اور ان کی عالمی دید کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا اور اس منصوبہ کی مرکزی توجہ کو عالم اسلام میں ولایت کے عام کرنے کی طرف مرکوز کیا۔

۔ آپ کا نیا منصوبہ کیا تھا؟
اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر ثقافتی تحریک؛ ہماری نظر میں رہبر انقلاب کو پوری دنیا میں ثقافتی تحریک کی رہنمائی کرنا چاہیے اور ہر میدان میں ایک راستہ دکھانا چاہیے۔ بیرون ملک ہمارے بہت سارے اجزاء ہیں جیسے غیر ایرانی شیعہ، زیدی، علوی وغیرہ جو تقریبا دو سو ملین افراد پر مبنی ہیں۔ یہ انقلاب کے مدافع ہیں ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں۔ اور موجودہ حالات میں سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔ دشنوں نے انہیں ہمیشہ دبا کر رکھا۔ ہم بھی انقلاب کے بعد جنگ میں مصروف ہو گئے اور ان کی دستگیری نہیں کر سکے۔ لہذا دنیا کے شیعوں کے لیے سوچنا چاہیے۔ میں نے حضرت آغا کو یہ تجویز دی کہ اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے نام سے ایک اسمبلی کی تشکیل دیتے ہیں۔ آپ نے اس تجویز کا بہت خیر مقدم کیا اور اس نظریہ کو قبول کر لیا۔
سب سے پہلے ملک کے متعدد مفکرین اور منصوبہ ساز مل کر بیٹھے اور اسمبلی کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا۔ اگر چہ بعد میں اس میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس کے بعد ہم نے تہران میں ایک عظیم اجلاس کا انعقاد عمل میں لایا۔ یہ تاریخ تشیع کا سب سے پہلا اجلاس تھا جس میں پچاس سے زائد ممالک کی عظیم شیعہ شخصیتوں نے شرکت کی۔ البتہ بعد میں اس اجلاس میں ایک سو کچھ ممالک کے افراد شرکت کرتے تھے۔ ہم نے مختلف ممالک کی شیعہ شخصتیوں کو تلاش کیا اور انہیں تہران دعوت دی۔ اس اجلاس میں کچھ موضوعات پر گفتگو ہوئی اور آخر میں سب نے اسلامی جمہوریہ ایران کی سرپرستی میں اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی تشکیل پر اتفاق کیا۔

۔ آپ نے بتایا کہ اسمبلی کا آئین نامہ ایک گروپ نے لکھا تھا ، یہ لوگ کون تھے؟
میں خود تھا، حجۃ الاسلام و المسلمین جناب شفیعی نیا تھے اور کچھ اور لوگ بھی تھے جو ابھی مجھے یاد نہیں ہیں۔ یہ اسمبلی رہبر انقلاب کے حکم سے تشکیل پائی، اور حقیقت میں خیر و برکات کا منبع تھی۔ آئین نامہ مکمل ہوا اور سیکرٹری جنرل کی تلاش میں تھے۔ یہاں پر ایک واقعہ نقل کرنا چاہوں گا، جب عراق کا راستہ بند تھا، ایک رات کو عالم خواب میں دیکھا کہ میں کربلا جا رہا ہوں اور جونہی بارڈر پر پہنچا تو بارڈر کھل گئی، میں کربلا پہنچا باب اباعبد اللہ الحسین سے حرم میں داخل ہوا اور پورے خلوص سے زیارت کی۔ یہ خواب رات کو میں نے دیکھا اور صبح بہت خوش تھا کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے۔ اسی سوچ میں تھا کہ حضرت آغا کی طرف سے پیغام آیا اور مجھے کہا گیا کہ آپ کو اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کا سیکرٹری جنرل انتخاب کیا جاتا ہے اور آپ اپنی تمام توانائیوں کے ذریعے شیعیان جہان کی خدمت کریں۔  

۔ اہل بیت عالمی اسمبلی کے قیام کے بعد، امت اسلامیہ کے رابطوں کو بڑھانے کے لئے اور کیا اقدامات اٹھائے گئے؟
ایک اور مشورہ جو حضرت آغا نے دیا وہ اہل سنت کے لئے ایک اسمبلی تشکیل دینے کے حوالے سے تھا جو قاہرہ دار التقریب اسمبلی کی طرح ہو۔  قاہرہ دار التقریب 1940 میں قائم کیا گیا تھا۔ علمائے اہل سنت میں مرحوم شلتوت، مرحوم حسن البنا سربراہ اخوان اور مرحوم شیخ محمد مدنی جیسی شخصیات اس میں شامل تھیں۔  
اس دار التقریب نے شیعہ سنی اتفاق میں کافی مدد کی جو شیخ شلتوت کے معروف فتوے کا سبب بنی، اور مجمع البیان، حدیث الثقلین جیسی کتابیں قاہرہ میں چھپیں۔ اس کے بعد 1970 میں ایک رسالہ وہاں سے نکلنا شروع ہوا لیکن ان بزرگوں کے فوت ہو جانے کے بعد اس دار التقریب کی افادیت بھی ختم ہو گئی۔ شیعوں میں سے مرحوم کاشف الغطا اور مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی اس دار التقریب کا رکن تھے لیکن ان سب کے جانے سے دار التقریب ختم ہو گیا۔
اسی فکر کے احیاء اور اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے "مجمع جہانی تقریب مذاہب" کی تہران میں بنیاد رکھی گئی۔ البتہ یہ دونوں ادارے بالکل ایک دوسرے کے متضاد نہیں تھے اور نہ ہیں۔ دونوں اہل بیت(ع) کی خدمت اور امت اسلامی میں وحدت پیدا کرنے کی راہ میں گامزن ہیں۔ مجمع تقریب مذاہب میں ڈیڑھ ارب اہل سنت اس کے ممبر ہیں۔ ایک اور ادارہ جو رہبر انقلاب اسلامی کے براہ راست حکم سے وجود میں لایا گیا وہ "سازمان مدارس و حوزہ ہائے علمیہ" تھا۔ جو غیر ایرانی طلاب کے لیے ملک کے اندر اور باہر ان کی علمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ سازمان مدارس میں تقریبا سات سو مدارس دنیا کے گوشہ و کنار میں جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا حصہ بنے ، اس غرض سے کہ ان میں استاد کی ضرورت کو پورا کیا جائے، ان کے لیے علمی مواد مہیا کیا جائے اور ان کی مالی امداد کی جائے۔ یہ ادارہ بھی اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے ماتحت کام کر رہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲