اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ABNA24.ir
اتوار

26 اپریل 2020

6:38:11 AM
1029876

جب بھی اسلام کے عظیم جرنیل قاسم سلیمانی کا نام آتا ہے، زیادہ تر افراد کو عراق، شام اور لبنان میں ان کی بہادریاں یاد آتی ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہونگے جو شہید سلیمانی کو عتبات عالیہ کی تعمیر نو کے ادارے کے بانی کے عنوان سے جانتے اور پہچانتے ہوں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔   شہید جنرل سلیمانی 3 جنوری 2003ع‍ کو امریکی دہشت گردی کا نشانہ بن کر بغداد کے ہوائی اڈے کی حدود میں جام شہادت نوش کرگئے۔

جب بھی اسلام کے عظیم جرنیل قاسم سلیمانی کا نام آتا ہے، زیادہ تر افراد کو عراق، شام اور لبنان میں ان کی بہادریاں یاد آتی ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہونگے جو شہید سلیمانی کو عتبات عالیہ کی تعمیر نو کے ادارے کے بانی کے عنوان سے جانتے اور پہچانتے ہوں۔

شہید سلیمانی نے اپنے پر برکت ایام زندگی کے دوران علاقے میں دشمنان اسلام ـ بالخصوص دشمنان اسلام اور صہیونیت اور استکباریت کے کارندے داعش تکفیری ٹولے کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ عراق میں مزارات مقدسہ کی تعمیر نو کے لئے بھی اقدامات کئے اور یوں ائمۂ طاہرین علیہم السلام کے حرم ہائے مقدسہ سے غربت کی دھول جھاڑ دی اور ان کی تعمیر اور توسیع کا اہتمام کیا اور شدید بدامنیوں اور خطرات کے بیچ تمام راستوں کو پرامن بنا کر دنیا بھر کے زائرین اور عاشقان حسینی کے لئے زیارت کی راہیں ہموار کردیں۔

آج شہید لیفٹننٹ جنرل قاسم سلیمانی ظاہری طور پر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی سفارش کے مطابق، ان کے تاسیس کردہ ادارے کی طرف سے عتبات عالیہ کی تعمیر نو کا کام پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے۔

یہاں فارس نیوز ایجنسی کے ساتھ عتبات عالیہ کی تعمیر نو کے ادارے کے ثقافتی معاون اور سپاہ قدس کے سپہ سالار شہید لیفٹننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھی جناب یوسف افضلی کا مکالمہ پیش کیا جارہا ہے؛ پڑھئے اور دیکھ لیجئے کہ عالم اسلام کے عظیم جرنیل ـ جنہیں دنیا کی بدترین شیطانی دہشت گرد قوت نے شہید کردیا ـ نے عتبات عالیہ کی تعمیر نو میں کیا کردار ادا کیا ہے۔

 

تعمیر نو عتبات عالیہ کی تاسیس کی کیفیت / عراق میں 150 عتبات عالیہ کی تعمیر نو اور توسیع کے 150 منصوبوں کی تکمیل

سوال: جنرل سلیمانی ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کے بانی تھے، یہ ادارہ کس طرح تشکیل پایا؟

جواب: جس وقت عتبات عالیہ کی تعمیر نو کی ذمہ داری الحاج قاسم کی دی گئی، تو انھوں نے نجف اشرف مشرف ہوکر امیرالمؤمنین(ع) کے حرم شریف کی زیارت کا فیصلہ کیا۔ حاج قاسم کا کہنا تھا کہ جب میں حرم کی طرف روانہ ہوا تو حرم کا دروازہ بند تھا چنانچہ میں نے خدام سے رابطہ کیا اور انھوں نے حرم کا دروازہ کھول دیا اور میں حرم میں داخل ہوا۔ جب ضریح کی طرف چل دیا تو دیکھا کہ ضریح پر دھول جمی ہوئی ہے۔ میرا دل ٹوٹ گیا اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کی بنیاد رکھوں۔

یہ ادارہ تشکیل پایا اور اب تک مؤمنین کی مدد سے 150 مرمتی اور توسیعی منصوبوں پر کامل مکمل ہوچکا ہے۔ اس منصوبوں میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حرم کے ملحقہ صحن حضرت زہراء سلام اللہ علیہا بھی شامل ہے جو 220000 میٹر مربع (54.3631839 ایکڑ) کے رقبے پر تعمیر ہوا ہے۔ کربلائے معلی میں سید الشہداء علیہ السلام کے حرم شریف سے ملحقہ صحنِ حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی ان منصوبوں میں سے ایک ہے جو 135000 مربع میٹر (33.3592265 ایکڑ) تعمیر کیا جارہا ہے؛ حرمِ کاظمین علیہما السلام کی توسیع کا منصوبہ بھی ان ہی منصوبوں میں شامل ہے۔ حال ہی میں سامرا کے مقام پر حرمین عسکریین کا توسیعی منصوبہ بھی ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کے منصوبوں میں شامل کیا جاچکا ہے۔

 

عراق کے پر آشوب دور میں عتبات عالیہ کی تعمیر نو کے سلسلے میں جنرل شہید سلیمانی کی ہدایات

 

سوال: عراق کے پر آشوب دور میں عتبات عالیہ کی تعمیر نو کے سلسلے میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے شہید سلیمانی کی ہدایات کیا تھیں؟

جواب: جنرل سلیمانی کی شہادت سے تقریبا 20 دن پہلے ہم ایک گھریلو بیٹھک میں شریک تھے تو میں نے ان سے عراق کی موجودہ صورت حال کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ "ایک دن کے لئے بھی ان منصوبوں کو معطل نہيں ہونا چاہئے۔ یہ کام اہل بیت(ع) کے لئے ہیں اور سب سے زیادہ زندہ جاوید کام یہ ہے کہ حرم ہائے مقدسہ کی توسیع اور تعمیر نو کا کام جاری رکھا جائے اور انہيں زائرین کی حاضری کے لئے تیار کیا جائے، خاص طور پر اربعین کے لئے جو جدید اسلامی تہذیب کا آغاز سمجھا جاتا ہے"۔ شہید الحاج قاسم سلیمانی اس ادارے کو ایک کوثرانہ عمل اور صدقۂ جاریہ سمجھتے تھے اور اس کے لئے بہت زیادہ قدر و قیمت کے قائل تھے۔

عراق میں الحاج قاسم کا مشکل ترین جہاد / انہیں حریم اہل بیت(ع) کی بےحرمتی کی فکر لاحق تھی

سوال: ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ داعش کے زمانے میں بھی عراق میں سرگرم عمل تھا اور اس نے عتبات عالیہ کی تعمیر نو کا کام جاری رکھا ہوا تھا۔ شہید جنرل سلیمانی کے لئے ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کے مشکل ترین ایام کون سے تھے؟

جواب: جب داعش نے سامرا پر حملہ کیا اور امامین عسکریین علیہما السلام کی گنبد کو نقصان پہنچایا، ادارہ عتبات کے اراکین نے بندوقیں اٹھا کر داعش کے خلاف جنگ لڑی؛ بالخصوص شہر بلّد میں جہاں ادارے کے اراکین مقدسات کے دفاع کے لئے دشمن کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ ادارہ عتبات کے اراکین بھی مزاحمت اور شجاعت کا عزم رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ شہید جنرل سلیمانی نے کہا تھا کہ عراق میں ان کی شدید ترین جنگ ان ہی دنوں انجام کو پہنچی جب بغداد-سامرا شاہراہ کو خطرہ لاحق تھا، یہاں تک کہ بلد اور سامرا میں داعش اور تکفیریوں کے خلاف جنگ میں شہید جنرل الحاج قاسم سلیمانی کی حالت آگ پر پڑی حرمل کی سی تھی کہ تکفیری دہشت گرد کہیں ائمۂ اطہار کے حریم کی بےحرمتی نہ کریں۔

 

جب داعشیوں نے جنرل سلیمانی کا نام سن کر فرار کو کرار پر ترجیح دی

ایک بار جب داعش نے عراقی کردستان کے مرکزی شہر اربیل پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ جمانا چاہا۔ جب داعش قریب پہنچی تو اس وقت کے کردستان کے گورنر مسعود بارزانی نے سعودیوں، ترکوں اور امریکیوں سے رابطہ کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔ چنانچہ انھوں نے ایران سے رابطہ کیا اور ایرانی حکام نے جوابا کہا کہ"آپ الحاج قاسم سلیمانی سے رابطہ کریں"؛ چنانچہ بارزانی نے الحاج قاسم سے رابطہ کیا اور انھوں نے جواب دیا: "کل تک اپنے ٹھکانوں کی حفاظت کریں، میں کل آرہا ہوں"۔ عراقیوں نے اصرار کیا کہ الحاج قاسم جلد از جلد اربیل پہنچیں۔ بہر حال جنرل سلیمانی اگلے روز دوپہر 2 بجے اربیل پہنچے۔ جنرل سلیمانی کے اربیل پہنچے اور داعشی دم دبا کر بھاگ گئے۔ کرد دستوں نے ایک داعشی کو بھاگتے وقت گرفتار کیا اور اس سے پوچھا: "تم کیوں بھاگے؟ کہنے لگا: ہمیں خبر ملی کہ جنرل قاسم سلیمانی اربیل میں ہیں۔ یہ خبر جب پھیلی تو سب بھاگنے لگے اور اربیل کی طرف پیشقدمی کا ارادہ ترک کردیا۔

جنرل سلیمانی کا نام قدرِ مزید (1) کا حامل تھا۔ دشمن انہیں آمنے سامنے آکر شہید نہیں کرسکتا تھا؛ اسی وجہ سے رات کے وقت اور خفیہ طور پر ایک دہشت گردانہ کاروائی میں انہيں شہید کردیا۔

سارے حکام تصویریں اتروانے کے لئے جاتے ہیں!

سوال: جاری ہجری شمسی سال کے آغاز پر ایران کے مختلف صوبوں کو سیلاب کی وجہ سے بہت نقصانات پہنچے تھے۔ ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کے عوامی موکبوں (اور انجمنوں) نے جنرل سلیمانی کی ہدایت پر سیلاب زدہ عوام کو امداد رسانی کا اہتمام کیا۔ اس اقدام نے عملی صورت کیونکر اختیار کی؟

جواب: جس وقت سیلاب آیا جمعہ کا دن تھا اور ہم نے ادارے کے سربراہ جناب پُلارَک کے ساتھ ہنگامی اجلاس منعقد کیا تا کہ کوششوں کو مربوط بنایا جاسکے۔ جناب پُلارَکنے شہید جنرل کے گھر رابطہ کیا اور کہا: سیلاب آگیا ہے آپ نہیں جانا چاہتے؟ جنرل سلیمانی نے مزاحاً کہا: "سارے حکام جاتے ہیں تصویریں اتروانے کے لئے!" اور بعدازاں انھوں نے ایک بیانیہ جاری کیا اور اربعین کے موکبوں کو ہدایت دی کہ سیلاب زدگان کی امداد کو پہنچیں۔ ہم نے بھی صوبوں کے گورنریٹوں کو ایک سرکولر بھیجا کہ وہ موکبوں کو سیلاب زدہ علاقوں میں روانہ کریں۔ سیلاب کے ایام میں 75 لاکھ گرم کھانے تیار کرکے سیلاب زدگان کے درمیان تقسیم کئے گئے۔ موکبوں نے کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنے کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی اچھی خاصی خدمت رسانی کی، لوگوں کے قالینوں تک کی دھلائی، گھروں کے برقی وسائل حتی کہ گاڑیوں کی مرمت کا اہتمام کیا۔

شہید جنرل سلیمانی نے بعد میں بتایا کہ میں رہبر انقلاب امام خامنہ ای کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: "مجھے بہت خوشی ہے کہ موکبوں نے سیلاب زدگان کی امداد کا بخوبی اہتمام کیا"؛ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رہبر معظم اس اقدام سے راضی اور خوشنود تھے۔

ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کا پرچم اونچا رہے گا

سوال: شہید جنرل سلیمانی عتبات عالیہ کے علمبردار تھے، ان کی شہادت کے بعد اس ادارے کی صورت حال کیا ہوگی؟

جواب: ادارے کے تمام افراد اور کارکنان فکرمند اور سوگوار ہیں۔ ان کا لہرایا ہوا پرچم ایک دن کے لئے بھی نہیں اترے گا اور ہدایت ہوئی ہے کہ تمام اقدامات کو سنجیدگی سے جاری رکھ کر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ لوگوں کی شراکت کا عمل بھی عوام کی معاشی حالت کے پیش نظر، خدا کا شکر، بہت مثبت انداز سے آگے بڑھ رہا ہے۔ صوبوں کو دی ہوئی ذمہ داری کا 65 فیصد حصہ مکمل ہوچکا ہے باوجود اس کے صوبوں کی ذمہ داریوں میں ہر سال کچھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس سال بھی شراکت میں مزید اضافہ ہوگا۔

سوال: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لوگ غربت کا شکار ہیں کچھ لوگوں کے پاس بچیوں کو جہیز کے لئے کچھ نہیں ہے اس کے باوجود آپ عتبات عالیہ کی تعمیر نو کی مدد کیوں کررہے ہیں؟

جواب: اس قسم کے سوالات اور شبہات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ یہی غریب لوگ ہی عتبات عالیہ کی تعمیر نو میں سب سے بڑا کردار ادا کررہے ہیں؛ یہاں تک کہ ایک شہر ـ جہاں زیادہ تر لوگ امام خمینی(رح) امداد کمیٹی کے زیر سرپرستی زندگی بسر کررہے ہیں ـ سب سے زیادہ لوگ عتبات عالیہ کی تعمیر نو میں مدد کررہے ہیں۔

جنرل سلیمانی ایثار اور درگذر کے لحاظ سے بہت صاحب ثروت تھے

 

سوال: جناب افضلی! آپ جنرل سلیمانی کے گھریلو دوست تھے۔ ان کے ساتھ اپنی دوستی کی کیفیت اور یادوں کے بارے میں کچھ بتایئے۔

جواب: میں اور جنرل سلیمانی کرمان کے ضلع رابر کے باسی ہیں اور ہمارے تعلقات لڑکپن کے زمانے سے شروع ہوئے ہیں۔ میں یہاں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ بعض ذرائع ابلاغ کا دعوی ہے کہ شہید سلیمانی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن میں اس دعوے کو جھٹلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ شہید سلیمانی جذبے اور احساس، ایثار اور درگذر اور امر بالمعروف کے لحاظ سے بہت زیادہ صاحب ثروت تھے اور ملک اور دین اسلام کے دفاع اور تحفظ کے راستے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے۔

الحاج قاسم سلیمانی سب کو اول وقت نماز کی ترغیب دلاتے تھے

آپ کے سوال کی طرف پلٹ آتا ہوں۔ چونکہ ہم مڈل تک رابر میں حصول تعلیم میں مصروف تھے اور اس زمانے سے ہماری بہت ساری یادیں وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے خالہ زاد بھائی احمد سلیمانی کے ساتھ ـ جو دفاع مقدس میں شہید ہوئے ـ اپنے چھوٹے بھائی سہراب سلیمانی کے لئے ایک گھڑی خریدی تھی اور اس سے کہا تھا کہ "اگر 5 بجے صبح اٹھ کر گھڑی کو چابی دوگے تو یہ گھڑی کبھی بھی خراب نہيں ہوگی" سہراب بھی ٹائم پیس کی گھنٹی سن کر جاگ جاتا تھا اور گھڑی کو چابی دیتا تھا تا کہ کہیں خراب نہ ہوجائے! سہراب اٹھتا تو الحاج قاسم کہہ دیتے تھے کہ "اب جو اٹھے ہو تو نماز صبح بھی پڑھ کر سوجاؤ"، وہ اس طریقے سے امر بالمعروف کرتے تھے اور سب کو اول وقت نماز کی ترغیب دلاتے تھے۔

جنرل سلیمانی لڑکپن میں کھیل کود کے شوقین تھے اور مارشل آرٹس سے وابستہ تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے انقلابی ثقافتی پروگراموں میں فعالانہ شرکت کرتے تھے۔ پہلی مرتبہ جب امام خمینی (رح) کی تصویر ہمارے شہر "رابر" لائی گئی تو میں مڈل کی کلاسوں میں پڑھ رہا تھا اور الحاج قاسم امام کی تصویریں اسکولوں میں بانٹ دیتے تھے۔ ہائر سیکنڈری تعلیم کے لئے ہم دونوں شہر کرمان میں آگئے جہاں ہمارے قریبی رشتہ دار نہیں تھے۔ اس زمانے میں الحاج قاسم عوامی انقلابی مظاہروں کا انتظام سنبھال لیتے تھے اور ہم بھی ان اجتماعات اور مظاہروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ جس دن ہم کرمان کے آزادی اسکوائر میں شہنشاہ آریا مہر کا مجسمہ اتار رہے تھے، ہماری ساواک کے ایجنٹوں کے ساتھ بحث ہوئی اور مجھ سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا گیا۔ الحاج قاسم ساواک کے ہاتھوں گرفتاری سے ہرگز نہیں ڈرتے تھے، یہاں تک کہ انقلاب سے پہلے ایک بار انہیں گرفتار کیا اور تفتیش کے بعد رہا گیا گیا۔ انقلاب کی کامیابی میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔

سنہ 1981ع‍ میں الحاج قاسم انقلاب سے قلبی لگاؤ کی بنا پر رابر میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی یونٹ میں بھرتی ہوئے اور وہاں سے ثار اللہ ڈویژن میں منتقل ہوئے۔ اسلام کے اس عظیم جرنیل کی جنگی خصوصیات میں سے ان کی شجاعت تھی اور وہ بہت تزویری اور مفکر کمانڈر تھے اور شہداء سے التجا کرتے تھے کہ انہيں اسی راہ میں رتبۂ شہادت حاصل ہو اور آخر کار اپنی آرزو تک پہنچ گئے۔

آٹھ سالہ دفاع مقدس کے بعد الحاج قاسم نے مشرقی ایران کی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالی اور علاقے کے جرائم پیشہ عناصر کو امان نامہ دیا اور سماج دشمن عناصر کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ چونکہ انھوں نے جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر امان نامہ دیا تھا لہذا ان کی کوشش رہتی تھی کہ ان کے خلاف عدالتی کاروائی نہ ہو اور اگر کبھی عدالتی کاروائی ہوتی بھی تھی تو وہ عدالت میں رابطے کرکے ان کو بری کروانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ انہیں کسی قسم کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔ جب امن قائم ہوا تو تحریک مزاحمت کے علمدار اور تعمیر نو عتبات عالیہ کے پرچمدار بنے۔

 

الحاج قاسم کی کار میز دفاع اسلام کے مورچوں میں تھی / جنرل سلیمانی کی سرخ لکیر

جس وقت عراق، لبنان اور شام کی ذمہ داری الحاج قاسم کو سونپی گئی، تو علمدارِ مقاومت کے طور پر ان کی مطمع نظر عالم اسلام کی آزادی اور مسلمانوں کا اتحاد تھا۔ داعش بھی عراق میں اس انداز سے معرض وجود میں آئی کہ انھوں نے اس کی نابودی کے لئے اپنی پوری قوت سے استفادہ کیا۔ اسی بنا پر وہ زیادہ تر شام، لبنان یا عراق میں تھے اور بہت کم ہی ایران میں رہتے تھے۔ اکثر و بیشتر عراق اور شام کے دشت و صحرا میں ہوتے تھے اور ان کے کام کی میز اسلام کے دفاع کے مورچوں میں ہوتی تھی اور کمانڈ کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ایک دوست نے کہا کہ ایک دفعہ داعش کے خلاف میدان جنگ میں لڑ رہے تھے کہ اچانک کسی نے پیچھے سے میرے سر کا بوسہ لیا مجھے حیرت ہوئی اور پیچھے مڑا تو دیکھا کہ جنرل سلیمانی ہیں۔ اور فکرمندی سے پوچھا آپ کیوں یہاں اس خطرناک علاقے میں آئے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا: "اگر آپ کو یہاں خطرہ ہو اور میں پیچھے بیٹھوں تو یہ تو درست نہیں ہے نا، ہم سب کو ساتھ ہونا چاہئے، اگر میں میدان جنگ میں نہ آؤں تو پھر تو میں اسٹاف کمانڈر [[[]]] نہيں ہوں۔ میں اسٹاف کمانڈر بھی ہوں اور آپریشن کمانڈر [[[]]] بھی ہوں"۔ بہت زيادہ شفیق، با رعب اور بہت زیادہ زیرک تھے۔ ان کی سرخ لکیر رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالی) اور اسلامی جمہوری نظام تھا۔

 

مقام تدفین کے لئے شہید سلیمانی کی درخواست

سوال: جنرل سلیمانی نے شہادت سے قبل اپنی اہلیہ کے نام ایک دست نوشت تحریر میں اپنے مقام تدفین کا تعین بھی کیا تھا، وہ بھی شہید کرمان کے گلزار شہداء میں شہید یوسف الہی کے مزار کے ساتھ۔ شہید یوسف الہی کے ساتھ شہید جنرل سلیمانی کا تعلق کیسا تھا کیا آپ کبھی ان کے ساتھ گلزار شہداء کی زيارت کے لئے گئے تھے؟

جواب: جنرل سلیمانی 41 ثار اللہ ڈویژن میں شہید حسین یوسف الہی کے جنگ کے ساتھی تھے اور جب یوسف الہی شہید ہوئے تو کرمان کے گلزار شہداء میں دفن ہوئے۔ ایک دن ہم کرمان کے گلزار شہداء میں تھے کہ میں نے سنا کہ انھوں نے بنیاد شہید کے سربراہ جناب حسنی سے درخواست کررہے تھے کہ انہیں شہید یوسف الہی کے پہلو میں دفنایا جائے۔ اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ ما شاء اللہ اس قد و قامت کے ہوتے ہوئے جنرل صاحب یوسف الہی کے پہلو میں کیونکر دفن ہونگے جبکہ ان کےی قبر کے ساتھ بہت چھوٹی سی جگہ خالی تھی؛ لیکن اب جبکہ جنرل سلیمانی شہید ہوئے ہیں اور ان کے جسم کا مختصر سا حصہ باقی رہ گیا ہے، تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی درخواست کا مطلب کیا تھا! حتی کئی مرتبہ لوگوں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ اس جسامت اور قد و قامت کے ساتھ یہاں کیسے دفنایا جاسکے گا؟ اور انھوں نے کہا تھا: "میں نے اپنی بات کہہ دی ہے"۔

جنرل سلیمانی کسی بھی سیاسی دھارے کی طرف مائل نہيں تھے

سوال: جنرل سلیمانی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ کسی بھی سیاسی دھارے کی طرف مائل نہيں تھے اور کسی بھی جماعت کی حمایت نہيں کرتے تھے۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: کرمان میں دو سیاسی دھارے ہیں۔ جناب حسین مرعشی اصلاح پسندوں کے راہنما اور جناب محمد رضا باہنر اصول پسندوں کے راہنما تھے۔ جنرل سلیمانی کے دونوں سیاسی دھاروں کے اراکین اور بہی خواہوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن کسی بھی صورت میں کسی دھارے کی حمایت نہيں کرتے تھے اور انتخابات میں زیادہ سے زیادہ عوامی شرکت کی سفارش کرتے تھے۔ ان کے اس رویے کا ایک سبب امام خمینی (رح) کی یہ ہدایت تھی کہ فوجیوں سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہئے کیونکہ وہ امام خمینی (رح) اور اسلامی انقلاب میں فنا ہوچکے تھے۔

 

عہدہ قبول کرنے کی پیشکش پر جنرل سلیمانی کا رد عمل / میرا آخری عہدہ سپاہ قدس کی کمان ہے

مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل کرمان کی طرف جارہے تھے۔ الحاج قاسم زیر لب کسی ذکر کا ورد کررہے تھے۔ میں منتظر تھا کہ ان کا ذکر اور دعا ختم ہو تا کہ ان سے اپنا سوال پوچھ لوں، لیکن میں نے دیکھا کہ ذکر و دعا کا سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ میں نے ذکر کے بیچ ہی ان سے سوال پوچھ لیا۔ اس زمانے میں جنرل سلیمانی کو اسلامی جمہوریہ کی سیکورٹی فورس [پولیس] کی سربراہی یا سپاہ پاسداران کی سپہ سالاری کا عہدہ دینے کی بات گردش کررہی تھی۔ میں نے پوچھا: آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے: "جناب افضلی! میرا آخری عہدہ سپاہ قدس کی کمان ہے، خواہ شہید ہوجاؤں خواہ سبکدوش اس کے سوا کوئی ذمہ داری قبول نہيں کروں گا"۔ اسی وقت یہ بھی کہا جارہا تھا کہ شاید جنرل سلیمانی کو صدارتی انتخابات میں شرکت کی دعوت دی جائے چنانچہ میں نے پہلے بھی پوچھا گیا سوال ایک بار پھر ان سے پوچھ لیا تو انھوں نے فرمایا: "میں نے اس سے پہلے آپ کا جواب دےدیا، اب بھی میری بات وہی ہے اور میں صرف سپاہ قدس میں ہی کام کروں گا"۔ آج ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کیا کررہے تھے۔

سوال: آپ کو کب معلوم ہوا کہ جنرل سلیمانی شہید ہو چکے ہیں؟

جواب: مجھے ان کی شہادت کی خبر بروز جمعہ صبح ساڑھے چار بجے ملی۔ اس دن میں کرمان میں تھا۔ خبر سننے کے بعد میں نے ان کے بھائی سہراب سے رابطہ کیا اور معلوم ہوا کہ وہ تہران میں ہیں اور انہیں ڈھائی بجے یہ خبر ملی ہے۔ میں نے اپنے بیٹے سے رابطہ کیا اور کہا کہ جنرل کے گھر چلا جائے اور ان کے بچوں کے ساتھ رہے کیونکہ میرا بیٹا رضا جنرل کے بیٹے کا دوست ہے۔

میں صبح کرمان میں جنرل کے بڑے بھائی حسین کے گھر پہنچا، سوچ رہا تھا کہ شاید میں جلدی جارہا ہوں لیکن جب ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ان کا گھر لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ جنرل سلیمانی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی مجلس عزاء سے بہت لگاؤ رکھتے تھے چنانچہ انھوں نے اپنے گھر کے برابر بیت الزہراء(س) کی بنیاد رکھی تھی۔ میں بیت الزہراء کی طرف گیا تو دیکھا کہ پورے شہر کے عوام حسینیہ کے اندر جمع ہوئے ہیں اور عزاداری کررہے ہیں۔ جنرل سلیمانی کرمانی عوام کے ہر دلعزیز تھےاور ان پر فخر کرتے تھے۔ البتہ نہ صرف کرمان کے عوام بلکہ پورے ایران اور تمام حریت پسند ممالک کے عوام اور آزادی پسند اقوام عالم جنرل سلیمانی سے دلی محبت کرتے تھے۔

بعدازاں ہم نے شہید جنرل کے اہل خاندان کے ساتھ مل کر تہران آنے کا فیصلہ کیا۔ تہران پہنچنے کے بعد شہید کے اہل خانہ کے ساتھ رہے یہاں تک کہ طے پایا کہ شہیدوں کو عراق، خوزستان اور مشہد میں تشییع کے بعد تہران لایا جائے جس کے بعد ایک کروڑ سے زاید افراد نے تہران اور میں شہید کا جنازہ اٹھایا اور قرار پایا کہ بعدازاں شہید جنرل کی وصیت کے مطابق ان کی میت کرمان منتقل کی جائے اور انہيں ان کی وصیت کے مطابق کرمان کے گلزار شہداء میں منتقل کیا جائے۔ صبح تقریبا دو بجے شہید کی میتیں امام خمینی انٹرنیشل ایئرپورٹ کے سلام ٹرمینل سے کرمان منتقل ہوئیں اور میں بھی اس پرواز میں تھا۔ ایک گھنٹہ اور دس منٹ بعد ہم کرمان پہنچے۔ طیارے ہی میں ہم نے شہید الحاج قاسم سلیمانی اور شہید پور جعفری کے زخمی جسموں کی زیارت کی اور یہ دیدار بہت دردناک تھا؛ 03:10 منٹ پر کرمان میں اترے۔

کرمان میں تشییع کا آغاز ہوا۔ مختلف شہروں سے لوگوں کا جم غفیر مختلف شہروں سے آکر کرمان میں موجود تھا۔ گلزار شہداء دامن کوہ میں واقع ہے اور شہید جنرل سلیمانی کے عقیدتمندوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ پہاڑی کی چوٹی پر بھی جمع تھے اور اطراف کے مختلف سایہ دار مقامات پر بھی کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ لوگوں کے عظیم اجتماع کی بنا پر، بدقسمتی سے کچھ لوگ جان کی بازی ہارگئے جن کے اہل خانہ کو ہم بھی تعزیت پیش کرتے ہیں۔

الحاج قاسم سلیمانی سیدہ زہراء (س) کی مجلس کے شیدائی تھے / عجب کہ انہیں عشرہ فاطمیہ کے پہلے دن سپرد خاک کیا گیا!

شدید ہجوم کی بنا پر شہید الحاج قاسم اور شہید پور جعفری کی تدفین اگلے دن تک ملتوی کردی گئی اور عشرہ فاطمیہ کے پہلے دن کی صبح کو انجام پائی۔ تدفین میں یہ تاخیر شاید حاج قاسم کی سیدہ فاطمہ زہراء(س) سے شدید عقیدت کی وجہ تھی کہ جن کی تدفین ایام فاطمیہ کی پہلی صبح کو انجام پائی۔

بیٹی کے لئے شہید جنرل کا آخری تحفہ "تسبیح اور انگشتری"

سوال: جنرل سلیمانی نے اپنی شہادت سے قبل بھی اپنی بیٹی کے لئے ایک خط لکھا تھا، کیا اس خط کے بارے میں آپ بھی کچھ جانتے ہیں؟

جواب: شہادت سے قبل جب جنرل سلیمانی شام میں تھے، بغداد کی طرف روانہ ہونے سے قبل انھوں نے ایک خط بیٹی کے نام لکھ لیتے ہیں اور ایک انگشتری اور ایک تسبیح ان کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے اس خط میں اپنی بیٹی کو ضرروی سفارشات تحریر فرمائی ہیں۔

آخری مشن پر جانے سے قبل شہید کا حیرت انگیز اقدام

شام جانے سے قبل کے واقعات میں سے ایک دلچسپ واقعہ یہ تھا کہ جنرل سلیمانی نے پہلی بار سفر پر جانے سے تین قبل اہل خانہ کو جمع کیا اور ان ایام میں کہیں نہیں گئے، نہ تو دفتر گئے اور نہ ہی رہبر معظم کے دفتر میں۔ پہلی مرتبہ ایسا رویہ اپنائے ہوئے تھے اور یہ صورت حال گھر والوں کے لئے بھی تعجب انگیز تھی؛ گویا جانتے تھے کہ یہ ان کا آخری مشن ہے۔

جناب خالقی صوبہ کرمان کے شہر زرند کے رہائشی ہیں جنہوں نے 30 سال قبل جنرل قاسم کے ساتھ عقد اخوت باندھ لیا تھا اور اب قم مقدسہ میں رہتے ہیں۔ الحاج قاسم نے شہادت سے قبل جناب خالقی سے رابطہ کیا اور ساتھ زیارت پر جانے کے لئے کہا۔

جناب خالقی کا کہنا تھا کہ ہم قم میں سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے حرم چلے گئے؛ الحاج قاسم نے زیارت کی اور خادمین کے بیچ بیٹھ گئے اور ان سے بات چیت کی۔ زیارت کے بعد ہم گھر کی طرف پلٹ آئے۔ گھر کے دروازے پر ایک شخص ان سے آملا جو عربی بول رہا تھا اور انھوں نے اسے گلے لگایا اور مجھے ان کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی اور حاج قاسم نے اپنی چھوٹی انگلی میں پہنی ایک انگشتری اس شخص کو دے دی۔ بعدازاں وہ تہران روانہ ہوئے تو میں نے کہا کہ "میدان 72 تن تک آپ کے ساتھ آنا چاہتا ہوں"، لیکن انھوں نے منع کیا اور کہا کہ "میں خود ہی چلا جاؤں گا"؛ مگر میں نے ان کے ساتھ جانے پر اصرار کیا؛ یہاں تک ہم تہران تک ساتھ گئے۔ تہران کی طرف آتے ہوئے شہید جنرل نے کہا: "میں نے اس انگشتری کے ساتھ طویل عرصے تک نماز تہجد ادا کی ہے، اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آیا تو یہ انگشتری میری قبر میں رکھ لینا"۔ آقای خالقی کا کہنا تھا کہ شاید یہ شہید کا ایک ہاتھ انگشتری کے ساتھ صحیح و سالم رہنے کا راز یہی تھا۔

الحاج قاسم کی شہادت کے لئے سب کچھ تیار ہوچکا تھا۔ انھوں نے اپنے بچوں کو آمادہ کرلیا تھا اور اپنی زوجہ کے نام اپنے خط میں لکھ لیا تھا کہ "میں نے اپنے اخو الزوجہ محمود نامجو کے اپنی تدفین کہ مقام دکھایا ہے"۔ آج امت کا درد سمجھنے والے تمام مسلمانوں کو صدمہ ہوا ہے۔ الحاج قاسم نے ایک بڑا غم ہمارے دلوں پر رقم کیا ہے۔ وہ طاقت کے عروج پر تھے جب جام شہادت نوش کرگئے اور مجھے امید ہے کہ ہم بھی ان کے حقیقی پیروکار بنیں۔

 

شہید سلیمانی اور خدمت اہل بیت(ع) پر تاکید

سوال: سب سے بہترین تحفہ جو آپ نے جنرل سلیمانی سے لیا، کیا تھا؟

جواب: دوستوں کے لئے جنرل سلیمانی کا تحفہ انگشتری ہی پر ہی مشتمل ہوا کرتا تھا اور انھوں نے 5 سال قبل ایک انگشتری بطور تحفہ مجھے عطا کی تھی جو میرے لئے بہت قابل قدر ہے لیکن جو بہترین تحفہ میں نے الحاج قاسم سے وصول کیا ادارہ تعمیرنو عتبات عالیہ میں اہل بیت(ع) کی خدمت کا امکان تھا۔ شہید کے چھوٹے بھائی سہراب سلیمانی ـ جو ہمارے رفیق کار تھے ـ ایک رات ہمارے گھر آئے۔ میری سبکدوشی کے ایام قریب تھے اور جب الحاج قاسم کو معلوم ہوا تو انھوں نے ادارہ تعمیر نو عتبات عالیہ کے اس وقت کے سربراہ جناب پُلارَک کے نام ایک یادداشت لکھی اور مقرر کیا کہ میں عتبات عالیہ میں چلا جاؤں۔۔۔ امید ہے کہ ہم ان کے لئے مناسب اور اچھے پیروکار ہوں، کیونکہ وہ اہل بیت(ع) کی خدمت کو بہت زیادہ دوست رکھتے تھے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے: بہترین کام اہل بیت(ع) کی خدمت ہے اور اس راہ میں ثابت قدم رہنا چاہئے۔

 

الحاج قاسم امام خمینی اور امام خامنہ ای کی ذات اور تفکرات میں محو ہوچکے تھے / انہیں ہر وقت خدمت کی فکر لاحق رہتی تھی

سوال: شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد بہت سے مدافع حرم شہداء کے فرزندوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ "ہم دوبارہ یتیم ہوگئے"؛ شہداء اور بالخصوص ان کے فرزندوں کے ساتھ شہید کا تعلق کیسا تھا؟

جواب: الحاج قاسم سب کے ساتھ شفیق اور مہربان تھے۔ شہداء کے بچوں سے بہت پیار و محبت کرتے تھے، ان کے قریب بیٹھتے تھے اور ان کے ساتھ باپ کی طرح پیش آتے تھے۔ وہ امام خمینی اور امام خامنہ ای کی ذات اور ان کے افکار اور تعلیمات میں محو ہوچکے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ "میں تیار ہوں کہ اپنا سر رہبر معظم اور حتی کہ سید حسن نصر اللہ کے لئے دےدوں"۔ ان کا اصرار رہتا تھا کہ شہداء کے اہل خانہ اور غرباء و مفلسین کی مدد کریں۔ صلہ رحمی پر بہت زور دیتے تھے اور جب بھی انہیں موقع ملتا خانوادہ شہداء کی ملاقات کے لئے چلے جاتے تھے۔ حالیہ برسوں میں کہنے لگے تھے کہ "مزید شہداء کے بچوں کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا؛ ان کا رنج و غم دیکھنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔

سپاہ قدس میں رہبر معظم کے نمائندے جناب حجۃ الاسلام والمسلمین شیرازی نے شہید سلیمانی کی شہادت کے سوئم پر کہا: "ایک دفعہ ایک جلسہ ہورہا تھا جو شام سات بجے تک جاری رہا تھا اور طے پایا کہ مذکورہ جلسہ اگلے روز صبح چھ بجے سے جاری رکھا جائے۔ صبح معلوم ہوا کہ سات بجے جلسے کے اختتام پر الحاج قاسم تہران سے اصفہان روانہ ہوئے ہیں اور وہاں سپاہ قدس کے ایک زخمی مجاہد سے مل کر صبح کے جلسے کے لئے دوبارہ تہران پہنچے ہیں"۔ شب و روز کے دوران شاید دو یا تین گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے تھے اور ہر انہیں ہر وقت خدمت کی فکر لاحق رہتی تھی۔

جنرل سلیمانی بہت پرعزم اور پرحوصلہ تھے۔ جب کہیں ساتھ جاتے تھے تو شہداء کے بچوں کے ساتھ تصویریں اتروانے کے لئے کئی مرتبہ گاڑی سے اترتے تھے، بہت اہل صبر اور شفیق تھے۔ اسی اثناء میں وہ عسکری مسائل میں بہت حساس اور مضبوط و استوار تھے۔ کوئی بھی ایسا فوجی افسر نہیں ہے جس نے اپنے ماتحت افسران یا جوانوں کو تحریری طور پر تنبیہ نہ کی ہو یا اس کی سروس بک میں سرزنش درج نہ کروائی ہو لیکن جنرل قاسم زبانی طور پر سرزنش کرتے تھے اور ضروری نکات کی یاددہانی کرواتے تھے لیکن چند گھنٹے بعد متعلقہ شخص کو گلے لگالیتے تھے۔ جب آپ اس قریب جاتے تو جس طرح کہ وہ خود ولایت اور رہبری کے تابع مطلق تھے، ان کے طرز سلوک سے متاثر ہوکر آپ بھی اسی سمت میں آگے بڑھ جاتے تھے۔ میرے خیال میں اسی خلوص اور طرز سلوک کی وجہ سے اللہ نے یہ رتبہ انہیں عطا کیا۔

جنرل سلیمانی کی ایک خصوصیت ان کی عوامی شخصیت ہے۔ جنرل سلیمانی کرمان کی پروازوں میں عام لوگوں کی طرح سفر کرتے تھے۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کے گاؤں کے لوگ تعزیت کے لئے آتے تھے۔ جب مسجد سے باہر آئے تو انہیں ایک انسپیکشن گیٹ نظر آیا جس کی وجہ سے بہت خفا ہوئے اور گیٹ کو وہاں سے ہٹانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا: "ہم نے 30 سال سے عزت کمائی ہے، اسے اس طرح سے ضائع مت کرو"۔ کسی صورت میں بھی عوام کو تکلیف دینے کے روادار نہیں تھے اور کہا کرتے تھے: "لوگوں کو آزادی کے ساتھ آنے جانے دو، ہم لوگوں کی آسائش کے لئے کام کررہے ہیں نہ یہ کہ انہیں گھٹن سے دوچار کردیں"۔

حتی بعض اوقات ان کی نگاہوں سے ہمیں اپنے عمل اور رویے کی درستی یا نادرستی کا اندازہ لگا لیتے تھے۔ شہید کے والد کا جنازہ اٹھا تو میں ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ ایک شخص نے آکر تصویر بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور میں نے کہا "ٹھیک ہے، بناؤ"، لیکن الحاج قاسم کی نگاہوں سے معلوم ہوا کہ گویا وہ اس کام پر راضی نہیں ہیں۔ چنانچہ میں نے اس شخص کو منع کیا۔ جب تدفین انجام کو پہنچی اور الحاج قاسم حسینیہ سے والد کے گھر جانا چاہتے تھے، تو انھوں نے مجھے بلایا اور کہا: "افضلی جان! وہ جگہ تصویر اتروانے کے لئے مناسب نہیں تھی۔ اس شخص کو تلاش کرو اور کہو کہ اگر تصویر اتارنا چاہتا ہے تو ہم مل کر تصویر اترواتے ہیں"۔

جنرل شہید الحاج قاسم سلیمانی سیدہ بی بی زہراء سلام اللہ علیہا کی مجلس عزاء کو بہت دوست رکھتے تھے۔ بیت الزہراء(س) میں پانچ روز مجالس عزاء بپا ہوتی تھیں اور ان مجالس کے اخراجات کو سلیمانی کا خاندان مشترکہ طور پر برداشت کرتا تھا۔ ایک ذاکر اہل بیت(ع) ان کی شہادت کے بعد شہید کے گھر میں حاضر ہوئے تھے جو کہہ رہے تھے: "میں شہید کے لئے حضرت زہراء اور امام حسین(ع) کی مجلس پڑھنا چاہتا ہوں"، اور مزید بتایا: گذشتہ برس شہید سلیمانی نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ ان کے لئے کرمان کے بیت الزہراء(س) میں مجلس پڑھوں لیکن اس وقت میں ایسا نہ کرسکا؛ لیکن کچھ عرصہ قبل ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ "کرمان آؤں گا اور کمی کو پورا کرتا ہوں" تو انھوں نے کہا: "اس سال کا فاطمیہ کچھ اور ہے"، گویا ان کو الہام ہوچکا تھا کہ اس سال فاطمیہ میں وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔

ان کا خون وحدت مسلمین کا استعارہ

سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت کی وجہ سے دشمن کو خوشی ہوئی ہے، امریکی دہشت گردانہ حملے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: جب بھی کوئی شہید ہوجاتا تھا، الحاج قاسم کا کہنا ہوتا تھا کہ "اس قدر بسیحی اور مخلص افراد اور انقلابی عوام ہمارے پاس ہیں کہ اچھے اچھوں کی جگہ کو پر کرلیتے ہیں، ان شاء اللہ ہمارے نوجوان شہداء کی جگہ کو پر کرلیں گے اور ان کے راستے پر گامزن ہوکر ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔ شہید بریگیڈیئر حسین بادپا جب محاذ کی طرف جارہے تھے تو شہید سلیمانی نے ان سے کہا: "یہ آپ کا آخری مشن ہے، اور ان شاء اللہ شہادت پانے کے بعد میری شہادت کی دعا کرنا"۔

داعشی خونخواروں نے شہادت کے بعد شہید بادپا کا سر تن سے جدا کردیا تھا اور ان کے سر کے عوض کچھ رعایتیں مانگ رہے تھے۔ شہید کی زوجہ کو معلوم ہوا تو انھوں نے شہید سلیمانی سے رابطہ کیا اور کہا کہ "شہید کا سر واپس لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ضروری نہیں ہے کہ داعشیوں کے مطالبات پر عملدرآمد کیا جائے"۔

شہید سلیمانی محرومین اور بےپناہوں کے لئے کام کرنے کے مشتاق تھے؛ دشمن کی آرزؤوں کے برعکس، شہید سلیمانی کا خون مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا باعث بنا اور ہمیں امید ہے کہ ان کے خون سے متعدد سلیمانی اٹھیں گے اور ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔

خداوند متعال لعنت کرے امریکہ پر جس نے امت مسلمہ، شیعیان عالم، ایرانی قوم اور ہم کرمانیوں کو دل کو زخمی کردیا اور میں نہیں سمجھتا کہ ہم ابد تک اس جرم کو فراموش کرسکیں گے۔ امید ہے کہ اہل بیت(ع)، ملت ایران اور محاذ مزاحمت کے مجاہدین اس خون کا بدلہ لیں گے اور مسلمانان عالم بھی شہید جنرل اور ان کے رفقائے شہید کے مشن کو جاری رکھیں گے۔

 

ایک جملہ الحاج قاسم کے بارے میں ۔۔۔

"زمانے کا مالک اشتر"، ایک لقب جو الحاج قاسم کے مناسب ہے بلکہ ان کا حق اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ میں کوئی جملہ ان سے یا ان کے وصف میں، زبان پر نہیں لا سکتا۔ وہ اس قدر عظیم تھے کہ امام خامنہ ای نے ان کے بارے میں فرمایا: "جب بھی یہ شہید عزیز رپورٹ پیش کرتے تھے، میں اپنے قلب اور اپنی زبان سے ان کو خراج تحسین پیش کرتا تھا، لیکن اب میں ان برکات کے سامنے سر تعظیم خم کرتا ہوں جو ان کی شہادت سے حاصل ہوئیں اور ان برکات کے سامنے، جو اس شہادت سے ملک اور علاقے کو حاصل ہوئیں"۔

سوال: شہید بریگیڈیئر پور جعفری پوری زندگی الحاج قاسم کے ساتھ رہے کیا ان کے ساتھ بھی کوئی یادگار واقعہ گذرا ہے؟

کسی بھی فکری پیمانے پر شہید سلیمانی کی شجاعت کی تصویرکشی ممکن نہيں

شہید پور جعفری بتا رہے تھے کہ ایک بار ہم طیارے میں شام کی طرف جارہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ حاجی نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں گویا سو رہے ہیں۔ اسے لمحے میں نے دو امریکی لڑاکا طیاروں کو دیکھا جو ہمارے طیارے کے برابر میں اڑ رہے تھے؛ چنانچہ حاجی کی وجہ سے فکرمند ہوا لیکن دو منٹ بعد حاجی نے آنکھیں کھولیں اور میں کچھ کہنے کے لئے ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے کہا: "فکرمندی کی ضرورت نہیں ہے، امریکی طیارے چند منٹ بعد چلے جائیں گے" اور پھر میں نے دیکھا کہ طیارے چلے گئے۔

شہید بریگیڈیئر پور جعفری بتا رہے تھے: "ایک دفعہ ہم شام کے ہوائے اڈے پر اتر رہے تھے، بہت زیادہ گولیاں برس رہی تھیں جو نہ تو طیارے کو لگ رہی تھیں اور نہ ہمیں لگ رہی تھیں۔ جب ہم قریب ہوئے تو جنرل سلیمانی نے جہاز کے کیپٹن سے کہا کہ ہم جلدی طیارے سے اترتے ہیں اور آپ فوری طور پر دوبارہ ٹیک آف کریں۔ جب ہم اترے اور طیارہ بلندیوں پر پرواز کرنے لگا، اسی جگہ زوردار دھماکہ ہوا جہاں ہم اترے تھے"۔

الحاج قاسم بہت زیادہ زیرک اور با ذکاوت تھے۔ کسی بھی قلم اور کسی بھی زبان سے ان کی یادگاریں لکھنا ممکن نہیں ہے اور کسی بھی فکر و سوچ کے ساتھ ان کی شجاعتوں اور بہادریوں کی تصویر کشی نہیں کی جاسکتی۔ کئی مرتبہ مختلف افراد ان کو تجویز دیتے تھے کہ اپنی یادوں اور یادداشتوں کو لکھ لیں لیکن وہ کہتے تھے میری کوئی یاد اور کوئی یادداشت نہیں ہے۔ اس قدر یہ عظیم انسان متواضع اور منکسر المزاج تھے کہ کبھی بھی اپنے آپ کو جتانا اور دکھانا نہيں چاہتے تھے لیکن خداوند متعال نے انہیں دیکھ لیا اور انھوں نے شہادت کا عظیم ترین رتبہ پایا وہ بھی دنیا کی بدترین اور شیطانی ترین دہشت گرد قوت کو ہاتھوں اور کروڑوں انسانوں نے ان کا جنازہ اٹھایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رپورٹ: مریم سادات آجودانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی