ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے اور بعد کے پہلو اور تفصیلات ایک عالمی بحث کا موضوع بن چکی ہیں جو تمام ایٹمی قوتوں ـ خاص طور پر چین اور شمالی کوریا ـ کے لئے، ایک سادہ سے پیغام کی حامل ہیں: کبھی واشنگٹن پر اعتماد نہ کرو۔
حالیہ جنگ نے صہیونی معاشرے کے اندرونی تضادات، نسلی امتیاز اور سیاسی انتشار کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ پناہ گاہوں تک غیر یہودیوں کی رسائی نہ ہونے جیسے واقعات نے اس ریاست کی بنیادی نسل پرستانہ سوچ کو عیاں کر دیا ہے، جبکہ اقتصادی اور عسکری دباؤ نے اس کے استحکام پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
عمرانیات کے معروف اطالوی پروفیسر نے لکھا: [امام] سید علی خامنہ ای اس لئے لڑ رہے ہیں کہ ایرانی قوم مغرب کے غلام نہ بنے / اٹلی اس سے بہتر کا استحقاق رکھتا تھا۔ بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے عالمی ابلاغیاتی نظام بدعنوان ہے اور دنیا والوں کو [اپنا] انتہائی کریہ اور شرمناک چہرہ دکھا رہا ہے۔ یہ وہی پروپیگنڈا ہے جو ایک خراج گزار کٹھ پتلی ریاست انجام دیتی ہے، اور جس کو بالادست حکومتوں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ ہم ایک خراج گذار ریاست ہیں، ہم وائٹ ہاؤس کے زیر تسلط کٹھ پتلی ریاست ہیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | آیت اللہ سید حسن عاملی نے X نیٹ ورک پر عبرانی زبانی میں ایک پیغام شائع کیا ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے: "محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ اسرائیل میں وسیع پیمانے پر بے چینی کی روشنی میں، ـ عوام میں بھی اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان بھی، جنہیں غزہ کی پٹی میں جنگ کے دوران بہت سارے جسمانی اور ذہنی چوٹیں آئی ہیں، ـ یہ سمجھنا یہ قوی امکان موجود ہے کہ اسرائیلی فوج کا ایک افسر نیتن یاہو کو ہلاک کر دے گا جس کے بعد خطے میں اسرائیل کی شرانگیزیاں ختم ہو جائیں گی"۔
مغربی ایشیائی امور کے ایک تجزیہ کار نے ایران کے خلاف اسرائیل کی 12 روزہ جارحیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: حقیقی تسدید (یا ڈیٹرنس) کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے دل میں خوف و ہراس ڈال دیا جائے یہاں تک کہ کہ وہ ایسی تاریک ڈیوڑھی میں داخل ہو جائے جس سے واپسی ممکن نہ ہو؛ ایسی ڈیوڑھی جس کا اختتامی نقطہ "شکست" ہو، یہ وہی چيز ہے جس نے صہیونیوں کو جنگ بندی پر آمادہ کیا۔