22 جون 2013 - 19:30
معرفت امام کے بغیر موت جاہلیت کی موت / آپ کا امام زمانہ کون ہے؟

علامہ امینی فرماتے ہیں: میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں: "قال رسول اللہ (ص): مَنْ ماتَ وَلَمْ يعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِية = جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے"؟

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || تہران کے ایک امام جماعت کہتے ہیں: کہ میں الغدیر کے مؤلف علامہ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ نجف سے  تہران تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے حاضر ہؤا اور علامہ سے درخواست کی کہ ہمارے غریب خانے بھی تشریف لائیں۔ علامہ نے میری دعوت قبول کرلی۔ میں نے علامہ کے اعزاز میں دیگر افراد کو بھی دعوت دی تھی وہ سب حاضر تھے کہ علامہ تشریف لائے اور ہم نے استقبال کیا۔ رات کو میں نے علامہ سے درخواست کی کہ کوئی ایسا واقعہ سنائیں جس سے ہم بھی مستفیض کر سکیں اور روحانی تسکین کا سبب بنے۔

علامہ امینی نے فرمایا:

"میں نے بعض کتب کا مطالعہ کرنے کی غرض سے شام کے شہر حلب کا سفر اختیار کیا گیا اور وہیں مصروف مطالعہ ہؤا۔ اس دوران ایک سنی تاجر سے شناسائی ہوئی، جو نہایت مہذب اور منطقی انسان تھے اور ان کے ساتھ میری دوستی بڑھتی گئی۔

ایک روز انھوں نے اپنے گھر پر مجھے کھانے کی دعوت دی۔ میں نے دعوت قبول کی اور جب رات کو ان کے گھر میں داخل ہؤا تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہر حلب کی تمام بزرگ شخصیات حاضر ہیں: بلندپایہ علمائے دین، جامعہ حلب کے اساتذہ، وکلاء، تاجر اور دکاندار۔ غرض یہ کہ ہر طبقے کے افراد کے ساتھ ساتھ حلب کے قاضی القضات بھی موجود تھے۔

معرفت امام کے بغیر موت جاہلیت کی موت / آپ کا امام زمانہ کون ہے؟

کھانا کھایا گیا اور مہمانوں کی پذیرایی ہوئی تو قاضی القضات نے میری طرف رخ کیا اور کہا: جناب امینی صاحب! یہ شیعہ کیا مذہب ہے، اس کی بنیاد و اساس کیا ہے جس کا پیچھا تم سے چھوڑا ہی نہیں جارہا؟

میں نے کہا: کیا یہ حدیث آپ کے ہاں قابل قبول ہے یا نہیں:

"قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ): مَنْ ماتَ وَلَمْ يعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِية؛ جس نے اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر موت کو گلے لگایا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔" (1)

انھوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔

میں نے کہا: آج کی بحث جاری رکھنے کے لئے یہی حدیث کافی ہے۔ قاضی القضات نے خاموشی اختیار کرلی۔۔۔

تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا: آپ کی نظر میں حضرت فاطمہ زہراء (علیہا السلام) کس پائے کی خاتون ہیں؟

کہنے لگے: "إِنَّهَا مُطَهَّرَةٌ بِنَصِّ الکِتَابِ؛ یقینا سیدہ (سلام اللہ علیہا) پاک و مطہر خاتون ہیں"، اور کہا: "سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) آل رسول کے عظیم مصادیق میں سے ایک ہیں۔"

میں نے کہا: "حضرت فاطمہ حکام وقت سے ناراض و غضبناک ہوکر کیوں دنیا سے رخصت ہوئیں؟ کیا وہ امام امت اور رسول اللہ کے خلفائے برحق نہ تھے؟ یا پھر (معاذ اللہ) سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) امام وقت کی معرفت حاصل کئے بغیر 'جاہلیت کی موت' مریں!؟

حلب کے عالم حیرت میں ڈوب گئے کیونکہ اگر وہ کہتے کہ کہ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کا غضب اور آپ کی ناراضگی، صحیح تھے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ حکومت وقت باطل تھی۔۔۔ اور اگر کہتے کہ سیدہ (سلام اللہ علیہا) سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور آپ معرفت امام کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں تو یہ فاش غلطی ان کے مقام عصمت کے منافی ہوتی۔ جبکہ آپ کے مقام عصمت و طہارت کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے۔

حلب کے قاضی القضات بحث کی سمت تبدیل کرنے کی غرض سے بولے: جناب امینی! ہماری بحث کا حکامِ عصر کی نسبت سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے غضب و ناراضگی سے کیا تعلق ہے؟

مجلس میں حاضر افراد علم و دانش کے لحاظ سے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے اور انہیں معلوم ہوچکا تھا کہ علامہ امینی نے اس مختصر سی بحث میں ان کے عقائد پر کیا کاری ضرب لگائی ہے!

میں نے کہا: آپ لوگوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا ہے بلکہ ان افراد کی حقانیت کے حوالے سے بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہیں جن کو آپ خلفائے رسولؐ سمجھتے ہیں۔۔۔

ہمارے میزبان جو ایک طرف کھڑے تھے قاضی القضات سے کہنے لگے: "شیخَنا اسكُت؛ قد افتضحنا = ہمارے شیخ! خاموش ہوجاؤ کہ ہم رسوا ہوگئے؛ یعنی آپ نے ہمیں رسوا کردیا."

ہماری بحث صبح تک جاری رہی اور صبح کے قریب جامعہ کے متعدد اساتذہ، قاضی اور تاجر حضرات سجدے میں گر گئے اور مذہب تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد انہوں نے علامہ امینی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انہیں کشتی نجات کا مسافر بنانے کا اہتمام کیا تھا۔

یہ حکایت صرف اس لئے نقل کی گئی کہ اہل سنت بھی اہل تشیع کی مانند حدیث (مَنْ ماتَ وَلَمْ يعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِية) کو قبول کرتے ہیں۔ اور یہ وہ حدیث ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر عصر اور ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے جس کی معرفت کا حصول واجب ہے اور مسلمانوں کو بہرحال معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کس سے حاصل کررہے ہیں اور ان سب کو جاننا چاہئے کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ السيد بن طاؤس، علی بن موسی الحلی، الإقبال بالأعمال الحسنۃ (اقبال الاعمال)، 1415هـ، ج2، ص252؛ الشيخ الصدوق، محمد بن علی بن بابویه قمی، کمال الدين وتمام النعمۃ، 1395هـ، ج2، ص410؛ التفتازانی،مسعود بن عمر بن عبداللہ، شرح المقاصد، 1409 ہجری، ج5، ص239؛ القندوزی الحنفی، سلیمان بن ابراہیم، ينابیع المودۃ، 1413هـ، ج3، ص456. یہ حدیث شیعہ اور سنی مصادر میں مختلف عبارات میں نقل ہوئی منجملہ: "مَنْ مَاتَ بِغَيرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيةً؛ جو امام کے بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔ أحمد بن حنبل، ابن حنبل، احمد بن محمد الشیبانی، مسند أحمد، 1421هـ، ج28، ص88؛ ابو داؤد الطیالسی، سليمان بن داؤد البصری، مسند أبی داؤد، 1419هـ، ج3، ص425؛ الطبرانی،  سليمان بن أحمد اللخمی الشامی، مسند الشامیین، 1405هـ، ج2، ص437.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز