12 مئی 2013 - 19:30
حضرت آیت اللہ جوادی آملی کا درس اخلاق

نفس لوّامہ کہ جسے ذات اقدس الٰہی نے خلق فرمایا اور اس کی قسم اٹھائی ہے، بہترین نعمتوں میں سے ہے / بعض کامل انسان اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں کہ «هوالمميت» کا مظہر بن جاتے ہیں/حضرت زینب کبرٰی (س) کی عقیلہ بنی ہاشم سے شہرت کے راز کی وضاحت

ابنا: نفس لوّامہ کہ جسے ذات اقدس الٰہی نے خلق فرمایا اور اس کی قسم اٹھائی ہے، بہترین نعمتوں میں سے ہے / بعض کامل انسان اس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں کہ «هوالمميت» کا مظہر بن جاتے ہیں

اخلاقی مسائل میں بعض اوقات ذکر ، فکراور شکر جیسے مسائل کی وضاحت کی جاتی ہے ، جو شخص الٰہی اخلاق سے مزیّن ہے وہ ہمیشہ شکر گزار رہتا ہے ، شکر یہ ہے کہ انسان نعمت کو پہچانے (اوّلا) اس سے استفادہ کرنے کی راہ سے واقف ہو ( ثانیا) اس نعمت کو صحیح راستے میں استعمال کرنے سے غفلت نہ برتے (ثالثا) اس راہ پر گامزن رہے ( رابعا) بعض اوقات ایسا بھی ممکن ہوتا ہے کہ اخلاقی مسائل میں سعی و کوشش کرنے والا انسان ظاہری نعمتوں کو پہچان لے اور انہیں صحیح جگہ پر استعمال کرے لیکن باطنی نعمتوں کو نہ پہچان پائے اور ان کے استعمال میں بعض اوقات غلطی کر بیٹھے ۔ ہمارے پاس بعض نعمتیں ظاہری ہیں یعنی آنکھ ، کان اور پاؤں ہم مال و دولت رکھتے ہیں ، ملکیت رکھتے ہیں کہ مال و ملکیت ہم سے جدا ہیں اور ضروری ہے کہ انہیں صحیح راستے میں خرچ کریں (ایک) ضروری ہے کہ اعضاء و جوارح صحیح راہ میں استعمال کریں ( دو) یہ زبان صرف تعلیم کی راہ میں استعمال ہو ، لوگوں کی ہدایت کے لیے استعمال ہو ، لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے استعمال کریں وغیرہ ؛ آنکھ کو صحیح راہ میں استعمال کریں ، اسے کتاب کے مطالعے یا نفع مند کاموں کے لیے استعمال کریں ، اگر کوئی شخص ان نعمتوں میں سے کسی نعمت کا فضول استعمال کرے تو اس نے نعمت کی ناشکری کا ارتکاب کیا ہے یعنی اگر زبان کے ساتھ گناہ کیا یا آنکھ کے ساتھ گناہ کیا تو اس نے نعمت کو غلط جگہ پر استعمال کیا یہ امور واضح ہیں کہ جن سے ہم سب واقف ہیں لیکن اندرونی نعمتوں کے بارے ہم بعض اوقات غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں حالانکہ ان پرتوجہ دینا اشد ضروری ہے ۔ حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے مزید فرمایا : ہمارے اندرونی نظام میں بعض قوّتیں ایسی ہیں کہ جن کا کام تفکراورفکر کرنا ہے جیسے وہم ، خیال ، عقل نظری وغیرہ ، بعض ایسی قوتیں ہیں کہ جو عزم ، ارادے اور فعل کی ذمّہ دار ہیں جیسے شہوت ، غضب ، عقل عملی وغیرہ ۔ ہمارے بیرونی نظام میں عدالتی نظام نہیں ہے یعنی ہماری آنکھ اور کان کہ جو حس کے دائرہ کارکے تحت ہیں ؛ اگر بد کریں ، یا خوب کریں تو ہمارے بیرونی نظام میں کوئی ایسی قوت ہو کہ اگر آنکھ خوب کام کرے تو اس کا شکریہ ادا کرے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے اور اگر بری نگاہ اٹھائے تو اس کی سرزنش کرے ، ہمارے پاس کوئی ایسی بیرونی قوّت نہیں ہے ، اصولی طور پر ہمارے حواسّ خمسہ اسی طرح ہیں اور یاد رہے کہ ہماری حس کے دائرہ کار میں اصلا علم نہیں ہوتا بلکہ فقط تصور ہوتا ہے ۔ چونکہ ہماری بحث اس طرح کے مسائل سے مربوط نہیں ہے اس لیے ہم صرف اشارہ کریں گے یعنی ہماری کوئی ایسی حسّ نہیں ہے کہ جو تصدیق کرے ہم ان تمام حواسّ خمسہ میں فقط تصور کے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں یعنی یہ آنکھ صرف دیکھتی ہے اور بس ، کان صرف سنتے ہیں لیکن اس امر کی تصدیق کرنا کہ یہ آواز اس چیز کی ہے یا یہ چیز وہی ہے کہ جو میں دیکھ رہا ہوں یہ آنکھ کا کام نہیں ہے یہ تصدیق انسان کا باطن کرتا ہے یہ باطن کبھی اشتباہ کر بیٹھتا ہے اور کبھی درست فیصلہ کرتا ہے ۔ ہم اگر کسی لکڑی کو پانی میں دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ ٹوٹی ہوئی ہے یا آسمان میں ستارے کو چھوٹا دیکھتے ہیں تو یہ آنکھ کی غلطی نہیں ہے چونکہ درست اور خطا ، صواب اور ناصواب تصدیق کے ساتھ مخصوص ہے (ایک ) اور تصدیق حسّ کے دائرہ کار میں اصلا موجود نہیں ہے (دو) ہمارے پاس کوئی ایسی حسّ نہیں ہے کہ جو قضیہ رکھتی ہو ، حسّ میں فقط تصور ہوتا ہے اور تصوّر نہ قابل خطا ہے اور نہ ہی قابل صواب بلکہ یہ انسان کا ذہن ہے کہ جو کہتا ہے کہ یہ ستارہ اس طرح سے ہی ہے ، یہ ذہن کا اشتباہ ہے چونکہ اسے حکم لگانا چاہئیے کہ میں اس ستارے کو ایک ارب فرسخ کے فاصلے سے انتا چھوٹا دیکھ رہا ہوں (درحقیقت ایسا نہیں ہے) یا میں اس لکڑی کو متحرّک پانی کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی دیکھ رہا ہوں ، یہ ذہن جو بغیر حساب کے کبھی خیال کرتا ہے کہ ستارہ اتنا ہی ہے (کہ جتنا نظر آ رہا ہے ) یا لکڑی ٹوٹی ہوئی ہے ، یہ ذہن جو تصدیق اور قضیہ کا حامل ہے ، یہ ذہن یا اشتباہ کرتا ہے یا درست حکم لگاتا ہے ۔ حضرت استاد نے یہ نکتہ بیان کرنے کے ساتھ کہ  حسّ کے دائرہ کار میں اصلا قضیہ اور تصدیق کارفرما نہیں ہوتی ، فرمایا : الغرض ہمارے پاس حسّ کے دائرہ کار میں اصلا قضیہ و تصدیق نہیں ہے (ایک) جب قضیہ نہیں ہے تو صدق و کذب بھی نہیں ہے (دو) صواب و خطا بھی نہیں ہے (تین) چونکہ تصوّر محض نہ صواب ہے اور نہ خطا ، یہ ذہن ہے کہ جو اشتباہ کرتا ہے البتّہ ضروری ہے کہ یہ ذہن امانت داری کے ساتھ فیصلہ کرے ، کہے کہ ستارے کو ہم دور سے اتنا چھوٹا دیکھتے ہیں اور اسی طرح ہی نظر آنا چاہئیے ۔ اگر دور سے ہم اسے بڑا دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آنکھ نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی ۔ بہرحال ظاہری حواسّ نہ تصدیق کے لیے ہیں نہ قضیہ کے لیے اور نہ قضا اور فیصلے کے لیے ۔ اصولی طور پر جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ قضیہ کو قضیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ذہن فیصلہ کرتا ہے موضوع کے لیے محمول کے ثابت ہونے کا ، موضوع کا محمول کے ساتھ اتّصاف چونکہ حکم کرتا ہے اور قضاوت کرتا ہے لہٰذا ہم آپس میں مرتبط موضوع اور محمول کو قضیہ کہتے ہیں ۔ قضا فقط ذہن کے لیے ہے ، ہمارے پاس بیرونی فضا میں ایسا قاضی نہیں ہے جو خطا کی نشاندہی کرے یا درستگی کا پتہ دے یعنی اس امر کا حکم کرے کہ فلاں چیز خطا ہے یا صواب ہے لیکن یہ ہمارے اندر اور ہمارے باطن میں موجود ہے ۔بیرونی فضا میں کبھی آنکھ برا کام کرتی ہے اور کبھی اچھا کام کرتی ہے ، کبھی مطالعہ کرتی ہے ، کبھی آثار الٰہی کا نظارہ کرتی ہے ، کبھی قرآن پڑھتی ہے ، کبھی نامحرم پر نگاہ اٹھاتی ہے ، حواس ظاہری میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ جو آنکھ کی سرزنش کرے یا اس کی حوصلہ افزائی کرے یا اسے غلطی کی نشاندہی کرے لیکن ہمارے اندر ایک قاضی موجود ہے ، یہ قاضی حواسّ ظاہری کا فرمانروا ہے اور حکم دیتا ہے کہ فلاں مقام پر آنکھ نے غلطی کی ، فلاں جگہ پر درست دیکھا ، فلاں مقام پر کانوں نے نادرست بات سنی ، برا کیا فلاں مقام پر نصیحت سنی اور اچھا کام کیا ، یہ قاضی ہمارے اندرونی نظام میں ہے (ایک) اس کا حکم بیرونی فضا میں بھی نافذ ہے (دو) اور اندرونی فضا میں بھی (تین) یہ ہمارے حواسّ کے بارے بھی اظہار خیال کرتا ہے کہ جس سے ہم سب واقف ہیں  اور ہمارے باطن کے بارے بھی اظہار نظر کرتا ہے ، مثال کے طور پر کہتا ہے کہ فلاں واقعہ اچھا تھا یا فلاں واقعہ برا تھا ، یا فلاں علم خوب تھا یا فلاں علم بد تھا ۔ خدائے سبحان نے ہمارے اس باطن کو قاضی کے ساتھ خلق کیا ہے جس طرح اس نے ہمیں آنکھ دیکھنے کے لیے دی ہے ، کان سننے کے لیے دئیے ہیں اور پاؤں کام کرنے کے لیے یہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ، اسی طرح اس نے ہمارے باطن میں ایک قاضی بھی خلق کیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے ، یہ قاضی فقہی کام بھی کرتا ہے اور قانونی بھی ، ضروری ہے کہ ایک قاضی کلی مسائل کے عنوان سے شرعی احکام سے بھی واقف ہو ، اسی طرح مسائل پر کلیات کی تطبیق کا ملکہ بھی رکھتا ہو تاکہ ایک اچھا منصف بن سکے ۔ذات اقدس الٰہی نے ہمارے اندر ایک نورانی چراغ روشن کیا ہے کہ یہ چراغ بد کو بھی دیکھتا ہے اور خوب کو بھی دیکھتا ہے اور ایک اچھا منصف ہے ؛ یہ سمجھتا ہے کہ کون سی چیز بد ہے اور کون سی چیز خوب ہے ۔ فرمایا  : ﴿وَنَفْسٍ وَمَاسَوَّاهَا ٭ فَأَلْهَمَهَافُجُورَهَاوَتَقْوَاهَا﴾[1] جس طرح اس نے ہمارے نظام انہضام کو آنتیں اور معدہ عنایت فرمایا ہے کہ جو زہریلی غذا اور صحیح و سالم غذا کے درمیان  تشخیص دیتا ہے ، اگر اسے صحیح و سالم غذا دیں تو قبول کرتا ہے ، ہضم کرتا ہے اور ہمیں چاق و چوبند بناتا ہے اور باسی غذا دی جائے تو قے کر دیتا ہے ، کہتا ہے کہ میں اسے قبول نہیں کروں گا ، ہمارے باطن میں بھی اسی طرح ہے ، ہمارے روحانی نظام میں بھی اسی طرح ہے ، خداوند عالم نے ایک طیب و طاہر قاضی ہمارے لیے خلق کیا ہے ، وہ قاضی، فقہی مسائل سے بھی واقف ہے کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ہے اور یہ بھی تطبیق کرتا ہے کہ اس شخص نے یہ  کام کس کے لیے انجام دیا ہے ، اگر کام اچھا ہو تو یہ خوش ہوتا ہے ، اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور صحت مند ہوتا ہے اور اگر برا کام ہو تو غمگین ہوتا ہے ، افسوس کا اظہار کرتا ہے ، کبھی آنسو بہاتا ہے ، توبہ کرتا ہے یہ قاضی اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ہے کہ جس کو نفس لوّامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اگر کسی کی تربیت صحیح ہو، صحیح طب سے بہرہ مند ہو تو وہ نظام انہضام کی حفاظت کرتا ہے ، اس الٰہی امانت کا خیال رکھتا ہے ، یہ شخص ایک بابرکت عمر سے لطف اٹھاتا ہے ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بیمار ہو چونکہ اس کا نظام انہضام صحیح و سالم ہے ، جانتا ہے کہ کون سی غذا بد ہے اور کون سی غذا خوب ہے ، پیٹ بھر کر نہیں کھاتا ، آلودہ چیزیں نہیں کھاتا ، اس کی عمر بابرکت ہوتی ہے لیکن اگر آلودہ چیزیں کھائے یا پیٹ بھر کر کھائے یا معاذ اللہ منشیات کا استعمال کرے ، تو اس کا نظام انہضام بیکار ہو جاتا ہے ، اسے زہر بھی دے دیا جائے تب بھی خاموش رہتا ہے ، یہ منشیات زہر ہی تو ہیں ، اگر کسی نے نظام انہضام کی درست تربیت نہ کی تو یہ زہر کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے ؛ پھر قے نہیں کرتا ، اچھا ! اگر یہ نظام انہضام صحیح و سالم ہو تو یہ زہر کو دفع کرتا ہے اور قے کرتا ہے ؛ منشیات کا عادی انسان زہر کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے ۔ اگر خدانخواستہ کوئی شخص اخلاقی مسائل میں بھی اپنے اس منصف کو بری چیزوں کا عادی بنا ڈالے یعنی یہ طیب و طاہر قاضی کہ جسے خدا نے عالم اور عادل خلق کیا ہے یہ نفس جو ﴿وَنَفْسٍ وَمَاسَوَّاهَا ٭ فَأَلْهَمَهَافُجُورَهَاوَتَقْوَاهَا﴾[2]کی رو سے سمجھتا ہے کہ کون سی چیز بد ہے اور کون سی خوب (یہ ایک) اگر خوب ہو تو حوصلہ افزائی کرتا ہے (دو) اگر بد ہو تو ملامت اور سرزنش کرتا ہے اسی وجہ سے نفس لوّامہ کہلاتا ہے (یہ تین) اسے خدا نے ہمارے باطن میں خلق کیا ہے یہ ایک بابرکت قاضی ہے اگر کوئی شخص ایک مرتبہ ، دو مرتبہ ، دس مرتبہ یا اس سے کم و بیش رشوت دے کر اس قاضی کو خرید لے تو یہ قاضی پہلے مرحلے میں فاسد فیصلہ کرتا ہے ،رفتہ رفتہ اس کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ اس فقہی حکم کو نہیں سمجھتا ، نہیں سمجھتا کہ کون سی چیز بد ہے اور کون سی چیز خوب ہے ، پہلے پہل جان بوجھ کر غلط کام کرتا ہے پھر غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط سمجھنے لگتا ہے ﴿وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُم ْيُحْسِنُونَ صُنْعاً﴾[3]یہ نفس لوّامہ جسے ذات اقدس الٰہی نے پیدا کیا ہے اور اس کی قسم اٹھائی ہے [4]یہ خدا کی بہترین نعمت ہے کہ جو اس نے ہمیں دیا ، یہ قوی نورانیت کا مالک نفس لوّامہ دو جہتوں یعنی فقہی جہت سے بھی اور جج ہونے کی جہت سے بھی ، یہ سمجھتا ہے کہ کون سی چیز بد ہے اور کون سی چیز خوب ہے ، یہ ہمارے باطن میں بھی ایک اچھا منصف ہے ، ہم نے اگر غلط کام کیا تو ہم کیوں پریشان ہوتے ہیں، کیوں ہمیں نیند نہیں آتی اور اگر اچھا کام کیا تو کیوں خوش ہوتے ہیں ، یہی اندرونی