اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست سے وابستہ اخبار یدیعوت آحارونوت نے صہیونی ریاست کو تسلی دینے کے انداز میں لکھا: اگر یہ ڈرون مقبوضہ سرزمین سے صحیح و سالم واپس نکلتا تو اس سے حزب اللہ کے حوصلے بڑھ سکتے تھے۔اس اخبار نے لکھا: اسرائیلوں کا خیال یہ ہے کہ یہ جہاز ایرانی ساختہ تھا اور اس کو حزب اللہ نے مقبوضہ سرزمین میں بھجوایا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ جہاز مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوکر ڈیمونا ایٹمی تنصیبات کی جانب پرواز کرتا گیا اور ان تنصیبیات سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر صہیونی طیاروں کے میزائل کا نشانہ بن کر تباہ ہوا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس چھوٹے اور بغیر پائلٹ کے طیارے کا اصل مقصد ڈیمونا تک پہنچنا تھا۔ صہیونی ذرائع کے مطابق یہ جہاز ڈیمونا کی طرف جارہا تھا اور اس کو اڑا کر اسرائیل بھیجنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ "اس جہاز کو" آنے والی ممکنہ جنگ میں اسی روٹ پر بھجوا دیا کریں۔واضح رہے کہ کہ اسرائیلی ریاست اس ڈرون کے داخلے سے سخت خوفزدہ ہے اور صہیونی تشہیری اداروں کی طرف سے "ماضی کے صیغے" کے صیغے استعمال کرنے کا مقصد ریاست کے حکمرانوں کے خوف کو کم کرنا ہے۔ صہیونیوں کے اندازوں کے مطابق یہ جہاز مقبوضہ فلسطین سے معلومات اکٹھی کرنے اور اسرائیل کا رد عمل جاننے کے لئے آیا تھا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے لکھا ہے کہ طویل عرصے تک پرواز کرنے کے لئے اس ڈرون کی تیاری کے لئے نہایت جدید قسم کے سازو سامان اور آلات کی ضرورت ہے؛ اسرائیل کو نہيں معلوم کہ کیا حزب اللہ کے پاس اس قسم کے آلات ہیں یا نہیں! اور اب اسرائیلی حکام تباہ شدہ ڈرون کے ٹکڑوں سے استفادہ کرکے اس سلسلے میں اپنی معلومات مکمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یدیعوت آحارونوت نے مزید لکھا: اسرائیلی حکومت اس ڈرون کی اپنی فضاؤں میں داخل ہونے سے حیرت زدہ اور پریشان ہے اور تضادگوئی میں مبتلا ہوچکی ہے۔ لیکن علاقے کے حالات دھماکہ خیز ہیں اور چھوٹا سا اقدام بھی بڑی آگ بھڑکنے کا سبب بن سکتا ہے چنانچہ اسرائیل اس اقدام کا جواب فوجی اقدام سے نہيں دے سکتا۔ ایک اعلی صہیونی سیکورٹی اہل کار نے یدیعوت کو بتایا کہ بت سے اسرائیلی فضا میں مذکورہ ڈرون کو نشانہ بنایا گیا ہے تل ابیب نے ڈرون کی تیار کے سلسلے میں ایران اور حزب اللہ کی فنی قوت جاننے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور اس موضوع کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ دشمن کی طرف سے ڈرون کے داخلے کا کیونکر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ ڈرون کا فلسطین میں داخلہ، صہیونیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا اور اب گویا صہیونی ریاست کو کچھ عرصہ ڈرون کے داخلہ کا سد باب کرنے کے لئے دفاعی نظامات تیار کرنے کا مشن ملا ہے۔صہیونیوں نے ہفتے کے روز ایک نامعلوم ڈرون صحرائے نقب میں ڈیمونا جوہری تنصیبات سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر، نشانہ بنا کر تبہ کیا تھا۔ یہ ڈرون لبنان کے ساتھ شمالی سرحدوں سے بحیرہ روم میں داخل ہوا اور وہاں سے فلسطین میں داخل ہو اور 30 منٹ تک فلسطین میں پرواز کرتا رہا اور ڈیمونا جوہری تنصیبات کے راستے میں صہیونی فضائیہ کے طیاروں کے میزائل کا نشانہ بن کر تباہ ہوا۔
کیا مقبوضہ فلسطین میں گرایا جانے والا ڈرون ایرانی تھا؟صہیونی ذرائع کے ساتھ ساتھ مغربی ذرائع بھی حیرت زدہ اور پریشان ہیں کوئی نہیں جانتا کہ ڈیمونا سے 30 کلومیٹر کے فاصلے میں مارگرایاجانے والا ڈرون کس ملک کا تھا؟ ایرانی تھا یا نہیں؟اطلاعات کے مطابق گذشتہ سال کے آخر میں ایران کے الیکٹرانک وارفئیر فورسز سے امریکہ کے الٹرا ماڈرن ڈرون آرکیو 170 کے کمانڈ سسٹم کو ہیک کرکے اس کو ایران میں اتارا اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو ڈیکوڈ کیا گیا ہے اور اس میں موجودہ پورا ڈیٹا ہی اتارا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ خاص خاص مقامات کی نگرانی کے لئے ایران میں داخل ہوا تھا۔ گوگل کے کے منیجنگ ڈائریکٹر ایرک سمتھ نے اس زمانے میں سی این این سے کہا تھا کہ یہ اندیشہ پہلے سے ہی موجود تھا کہ ایران کوڈڈ سافٹ ويئر کو ڈیکوڈ کرے کیونکہ ایرانی سائبر سائنسز میں عجیب قسم کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی وجوہات کا ہمیں علم نہيں ہے۔ آرکیو 170 کو صحیح و سالم اتارے جانے کے واقعے کی اہمیت کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ صدر اوباما نے ذاتی طور پر ایران سے یہ ڈرون واپس کرنے کی درخواست کی۔اس ڈرون کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں حتی کہ ایک مہینہ قبل سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف نے شاہد 129 الٹراماڈرن ایرانی ڈرون کی تیاری کا اعلان کیا جو مسلسل چوبیس گھنٹے پرواز کرسکتا ہے اور نگرانی کے علاوہ فوجی اور جنگی مشن پر بھی جاسکتا ہے، میزائل فائر کرسکتا ہے اور بم گرا سکتا ہے۔ پھر اس ہفتے کے آغاز پر نیوز ایجنسیوں نے ایک خبر دی کہ ایک نامعلوم ڈرون مقبوضہ فلسطین میں غاصب یہودی ریاست کی ایٹمی تنصیبات "ڈیمونا" سے 30 یا چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر گرایا گیا ہے۔ صہیونی ریاست کے ریڈیو نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے پس پردہ قوت کا نام لینے سے گریز کیا ہے یا پھر انہیں واقعی معلوم نہيں ہے کہ یہ ڈرون کس نے بھیجا ہے؟ ریڈیو اسرائیل نے کہا کہ "یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ڈرون غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فضاؤں میں داخل ہوگیا ہے اور اس کا مشن معلوم جمع کرنا تھا"۔ ایران میں صرف سپاہ پاسداران کے کوارڈی نیٹر جنرل کے نائب نے اس خبر کے بارے میں بعض سوالات کا جواب دیا ہے گوکہ انھوں نے اس ڈرون کے ایرانی یا غیر ایرانی ہونے کے حوالے سے مغربی اور صہیونی تبصروں پر رد عمل ظاہر نہیں کیا اور کہا: اس سلسلے میں دو موضوعات قابل غور ہیں: ایک یہ کہ ممکن ہے یہ سب کچھ نفسیاتی کاروائی ہو اور دوسرے یہ کہ اسرائیل کے اس دنیا میں متعدد دشمن ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر پھر یہ ڈرون فلسطین میں حقیقتاً داخل ہوا ہو اور یہ سب صہیونی تشہیری اور نفسیاتی جنگ کا حصہ نہ ہو تو مانی ہوئی بات ہے کہ صہیونیوں کی آہنی گنبد اور پیٹریاٹ طیارہ شکن یا میزائل شکن پروگرام میں ابھی تک متعدد خامیاں موجود ہیں کیونکہ ایک ڈرون کم چوڑائی والی سر زمین میں 100 کلومیٹر تک پرواز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا طیارہ شکن نظام بہت ہی کمزور ہے۔ بریگیڈیئر جنرل جمال الدین آبرومند نے مزید کہا: گذشتہ سال بھی جب غزہ پٹی سے فلسطینی مجاہدین نے کئی میزائل صہیونیوں کی جانب فائر کئے اور وہ نشانے پر لگے تو ہاآرتص نامی صہیونی اخبار نے آہنی گنبد کی تضحیک کرتے ہوئے لکھا: "آہنی گنبد سورہی ہے"۔ لیکن اب ایک ڈرون فلسطین میں 100 کلومیٹر تک داخل ہوا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی آہنی گنبد ہی نہیں سوئی صہیونی ریاست ہی الیکٹرانک وارفئیر کی گہرائیوں سے ناواقف ہے اور اس ڈرون کی مقبوضہ سرزمین میں داخلے سے صہیونی ریاست کی کمزوری مزید اعلانیہ ہوچکی ہے۔
صہیونی ریاست ڈرون کے فلسطین میں داخلے سے بد حواستزویری امور کے فلسطینی ماہر کا کہنا تھا کا صہیونی ریاست کے سیاسی اور فوجی حکام ابھی تک جاسوسی ڈرون کے 1948کی مقبوضہ سرزمین میں داخلے کی وجہ سے ابھی تک بدحواس ہوگئی ہے۔اطلاعات کے مطابق تزویری امور کے فلسطینی ماہر "خلیل شاہین" نے کہا ہے کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ جاسوسی ڈرون کس نے مقبوضہ فلسطین میں بھجوایا تھا کیونکہ جو ممالک ڈرون بھجواتے ہیں وہ ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں لیکن بھجوانے والے کا مقصد صہیونیوں کو بدحواس کرنا تھا اور وہ اس کام میں کامیاب بھی ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حماس اور جہاد اسلامی نے جاسوسی ڈرون بھجوانے میں اپنے ممکنہ کردار کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا: اس جاسوسی ڈرون نے 1948 کی مقبوضہ سرزمین تک طول عرصہ طے کیا اور پھر ایک سو کلومیٹر تک 1948 کی مقبوضہ سرزمینوں کے اندر پرواز کرتا رہا جس کی وجہ سے صہیونی فوجی اور سیاسی حکام بدحواسی کی کیفیت سے دوچار ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو اس مشن کے مقاصد جاننے کی کوشش کررہے ہیں وہ تصور کرتے ہیں کہ یہ ڈرون ایران اور حزب اللہ نے بھجوایا ہے۔شاہین نے کہا: اسرائیل مختلف وجوہات کی بنا پر 1948 کی مقبوضہ سرزمین میں ڈرون کے داخلے سے تشویش میں مبتلا ہے اور ان وجوہات میں سے ایک بہت اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ڈرون انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی پیداوار تھا اور اسرائیل کو یقین ہے کہ کہ کوئی بھی ڈرون اتنا طویل فاصلہ سیٹلائٹ کی مدد کے بغیر طے نہیں کرسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کو یقین ہے کہ جو ملک اتنا طاقتور طیارہ اتنے طویل فاصلے پر مشن کےلئے بھجوا سکتا ہے جو ایک گھنٹے تک اسرائیل کے اوپر پرواز کرسکے وہ اس طیارے کو بموں اور میزائلوں سے لیس کرکے بھی بھجواسکتا ہے اور ڈیمونا ایٹمی تنصیبات سمیت صہیونی ریاست کے اہم اور تزویری مراکز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ہفت روزہ المنار: اسرائیل کا اپنے راڈار سسٹم کی کمزوری کا اعتراف / ڈرون بئر السبع کی فضا میںفلسطینی ہفت روزہ نے لکھا کہ صہیونی ریاست نے نامعلوم ڈرون کے مقبوضہ سرزمین میں داخلے کے بعد اعتراف کیا ہے کہ اس کا راڈار سسٹم کمزور ہے۔ اطلاعات کے مطابق فلسطینی ہفت روزہ المنار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی حکام مقبوضہ علاقوں میں نامعلوم ڈرون کی پرواز کے بارے ميں تحقیقات کررہے ہیں اور ڈرون کے نقطہ آغاز و پرواز اور اس کے مقاصد اور بھیجنے والے ملک یا قوت کے بارے میں بارے میں متضاد آراء کا اظہار کررہے ہیں۔بغیر پائلٹ کے یہ طیارہ "بئرالسبع" نامی شہر کے قریب "دریجات" نامی گاؤں کے اوپر سے گذرا اور 1948 کی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا چنانچہ اسرائیلی فوج نے اس کو نہایت خطرناک دراندازی سے تعبیر کیا اور صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف نے اس کے بارے میں تحقیقات کا عمل اپنے ہاتھ میں لیا جو اس واقعے کی اہمیت کی علامت ہے۔ انھوں نے کہا: تحقیق کے لئے طیارے کے باقیات کو جمع کیا گیا اور بعض حکام نے کہا کہ یہ ایران اور حزب اللہ کا کام ہے، بعض نے کہا کہ یہ طیارہ غزہ سے آیا ہے جبکہ بعض دوسروں نے کہا کہ یہ طیارہ مصر کے جزیرہ نما سینا سے آیا ہے۔ المنار نے اسرائیل کی فضائی مصنوعات میں اپنے ایک ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ طیارہ ایرانی ہے اور حزب اللہ نے اس کو فلسطین میں بھیج دیا ہے اور اسرائیل کے راڈار سسٹم کو عبور کرگیا ہے اور ساحل کی طرف سے بحیرہ روم میں اڑتا رہا ہے اور مقبوضہ فلسطین میں عسقلان کے علاقے کے گرد گھوم کر بئر السبع کے علاقے میں اس کا سراغ لگایا جاسکا ہے۔ المنار نے لکھا ہے کہ بعض صہیونی ذرائع نے اس کاروائی کو ایک اشتعال انگیز اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ نے یہ طیارہ بھیج کر ہمیں پیغام دیا ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں اس کو کمزور نہ سمجھا جائے؛ اور ایک صہیونی ماہر نے کہا ہے کہ حزب اللہ کو اس الزام سے بری الذمہ قرار نہيں دیا جاسکتا کیونکہ 2006 کی 33 روزہ جنگ میں اس نے دھماکہ خیز مواد سے لیس ڈرون فلسطین بھجوا کر اپنی صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ صہیونی دعوی: ڈرون ایرانی تھاصہ