خبرگزاری بین المللی اهل بیت(ع) ـ ابنا | جنوبی ایشیا کے جغرافیائی انتشار کے اس منظر پر، جہاں ہر حرکت پر گہری نظر رکھی جاتی ہے اور ہر خاموشی حقائق بیان کرتی ہے، ہندوستان اور پاکستان کے حالیہ تنازع میں ایران کا سوچا سمجھا موقف ایک تزویراتی سفارتکاری کا شاہکار نظر آتا ہے۔ ایسے حال میں، جب کہ عالمی توجہ دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ممالک کی غیر مستحکم سرحدوں پر مرکوز تھی، ایک پرسکون، باوقار اور تاریخی طور پر دونوں کے ساتھ تعلقات میں منسلک اہم کھلاڑی نے مہارت سے کشیدگی کی لہر کو راہنمائی فراہم کی۔ ایران نے شور نہیں مچایا، دھمکیاں نہیں دیں یا کسی فریق کی جانبداری نہیں کی۔ بلکہ اس نے خطے کی پرسکون اور دانشمندانہ سفارتکاری پر انحصار کیا، جو شدید اشتعال کے دوران بھی سوچ سمجھ کر 'ضبط نفس کی قدیم ہنر' کی طرف واپسی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس مخصوص دور میں ایران کے موقف کو سمجھنے کے لئے، سب سے پہلے اس کے منفرد نقطہ نظر کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے۔ ایران جو جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان اور پاکستان کے قریب واقع ہے اور دونوں ممالک کے ساتھ ثقافتی، تاریخی اور معاشی تعلق رکھتا ہے۔ لیکن ایسے حال میں کہ دہلی کے ساتھ اس کے تعلقات بنیادی طور پر لین دین، تیل، تجارت اور چابہار جیسے منصوبوں کے گرد گھومتے ہیں، اسلام آباد کے ساتھ اس کے تعلقات ایک گہری چیز میں جڑے ہوئے ہیں: مشترکہ عقیدہ، سلامتی کے تحفظات اور سرحدی قربت جو مسلسل بات چیت اور اعتماد کا تقاضا کرتی ہے۔
حالیہ تنازعات، دیرینہ کشیدگی اور نئی تحریکات کے عروج پر، سرحدی لفاظیوں اور عسکری پسندی میں تشویشناک اضافے کا مشاہدہ کیا گیا۔ میڈیا قیاس آرائیوں سے بھرا ہؤا تھا، ماہرین "سرخ لکیروں" پر بحث کر رہے تھے، اور سوشل میڈیا ممکنہ جنگ کے لئے جذبات بھڑکا رہا تھا۔ تاہم، اس طوفان کے درمیان، ایران نے انتباہی بیانات دہرانے سے گریز کیا اور اس کے بجائے، تہران نے الفاظ کے ساتھ ایک محتاط بیان جاری کیا جس میں امن اور گفتگو کی ضرورت پر زور دیا گیا، اور اسی اثناء میں دونوں دارالحکومتوں کے ساتھ خفیہ رابطے بھی قائم کئے۔ یہ سفارتی باریک بینی بہت سے تجربہ کار علاقائی مبصرین کی سمجھ سے ـ بھی ـ بالاتر تھی۔
ایران نے دیگر ممالک کے برعکس، ـ جو اکثر معاشی مفادات یا جغرافیائی-سیاسی اثرورسوخ کے لئے جلدبازی میں کسی طاقت کے ایک بلاک سے منسلک ہو جاتے ہیں، ـ غیرجانبدار راستہ اختیار کیا جس میں ہمدردی اور حکمت شامل تھی۔ پاکستان کے لئے یہ رویہ صرف اطمینان بخش ہی نہیں تھا بلکہ دہائیوں کے دوران تشکیل پانے والے اعتماد کی علامت تھا۔ تہران نے ہندوستان کے پاکستان مخالف تزویراتی بیانیوں کو بین الاقوامی فورمز میں مسترد کر دیا، اور اسلام آباد کو ایک پرسکون مگر اہم اعتبار بخشا، ایسا اعتبار جو جانبداری نہیں بلکہ خلوص اور انصاف کی بنیاد پر قائم ہے۔
مگر یہ خیال کرنا غلط ہوگا کہ ایران کا تناؤ کم کرنے کا رویہ منفعلانہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق، پردے کے پیچھے ایرانی سفارتکار آمد و رفت میں مصروف تھے: محتاط پیغام رسانی کر رہے تھے، ضبط نفس کی تائید کر رہے تھے، اور موقع محل دیکھ کر ثالثی کی پیشکش دے رہے تھے۔ ان کا وہ خاص اعتماد، جو ایک غیر جانبدار مگر بااثر علاقائی کردار کی حیثیت سے قائم تھا، ان کے الفاظ کو وزنی اور پر اثر بنا رہا تھا جو کم ہی کسی دوسرے کو حاصل ہو سکتا تھا۔
لیکن ایران کے کردار کو اس کے وسیع تر عالمی نظریے سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ایک ایسے ملک کے لئے جو دہائیوں سے مغرب کی پابندیوں اور فوجی دھمکیوں کا سامنا کرتا آیا ہے، تہران نے یہ سبق سیکھا ہے کہ بقا اور عزت احتیاط سے ملتی ہے، نہ کہ جلدبازی اور جذباتی ردعمل سے۔ اس بحران کے دوران ایران کا سوچا سمجھا رویہ، ایرانی فلسفے کے ایک وسیع تر تصور کی عکاسی کرتا ہے: پائیدار اثر و رسوخ زور و جبر سے نہیں، بلکہ اعتماد سے حاصل ہوتا ہے؛ اشتعال دلانے کے بجائے سکون بخشنے کی صلاحیت سے، ملامت کرنے کے بجائے نصیحت کرنے کے ہنر سے۔
ایران کے متوازن کر دینے والے اقدام ـ یعنی اقتصادی طور پر ہندوستان سے تعامل کرنے جبکہ پاکستان کے ساتھ اپنی تزویراتی گہرائی برقرار رکھنے ـ میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی ضرورت ہے۔ تہران سمجھتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں استحکام کسی ایک طاقت کے خلاف دوسرے کی حمایت کرکے حاصل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ علاقائی توازن، بات چیت، شراکت اور باہمی احترام کے فروغ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ پاکستان کے لئے، اس بحران کے دوران ایران کا رویہ ایک پرسکون مگر قابل اعتماد دوستی کی تصدیق کرتا ہے۔ ایسا ملک جو توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا، لیکن اہم لمحات میں مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ شور شرابے والی دوستی نہیں جس کی اکثر و بیشتر مفاد پرست اتحادیوں کی طرف سے نمائش لگائی جاتی ہے، بلکہ ایک پڑوسی کی نرم یقین دہانی ہے جو جنگ کے خطرات اور امن کے اخراجات کو سمجھتا ہے۔ ایران کا ـ طوطے کی طرح ـ بغیر سوچے سمجھے، دشمنانہ بیانیوں کی تکرار سے ـ گریز، ثالثی کی پیشکش اور اہم فریقین کے ساتھ پس پردہ تعامل، سب اس کے اس عزم کی نشاندہی کرتا ہے، کہ وہ علاقائی استحکام اور اس میں پاکستان کے لئے جائز مقام کا خواہاں ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ اس تنازع کے دوران ایران کے رویے نے جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات کو بھی واضح کیا۔ جبکہ دیگر ممالک اپنی توجہ دوسری جانب مرکوز کر چکے ہیں اور اپنے لئے نیا کردار تلاش کر رہے ہیں، ایران نے خود کو جنوبی ایشیائی معاملات میں رکاوٹ نہیں بلکہ ایک پل کے طور پر پیش کیا۔ پاکستان کے تناظر میں، یہ پل محض سفارتکاری سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد، بلوچستان کے ساتھ سرحدی سلامتی، اور خطے میں بیرونی بالادستی کے باہمی ردعمل تک پھیلا ہؤا ہے۔
علاوہ ازیں، ایران نے اس تنازع کے دوران ایسے اقدامات کئے جنہوں نے جنوبی ایشیا کے تناؤ کو اپنے تزویراتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والی طاقتوں کو نرم لیکن واضح جواب دیا۔ تہران نے اس اختلاف کو بین الاقوامی بنانے یا اسے غیر متعلقہ مذاکرات کے لئے بطور اوزار استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک اصول کو برقرار رکھا ہے جو بہت سے دیگر ممالک نے کب کا ترک کر دیا ہے اور وہ یہ کہ: علاقائی مسائل کو علاقائی حل کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ بیرونی نسخوں کی۔ یہی نقطہ نظر ایران کو جنوبی ایشیا کے ابھرتے ہوئے تزویراتی ڈھانچے میں ایک اہم آواز بنا دیتا ہے۔
تاہم، ایران کی خارجہ پالیسی چیلنجز سے خالی نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے مسلسل بدلتے اتحاد، ملکی معاشی مشکلات اور بیرونی دباؤ ہر روز اس کی مضبوطی کو آزماتے ہیں۔ مگر یہی شدید دباؤ ہے جس نے ایران کی سفارتی صلاحیتوں کو نکھارا ہے، جس کے بدولت وہ بحرانوں کو جارحیت سے نہیں بلکہ توازن کے ساتھ سنبھال پاتا ہے۔
نتیجتاً، ہندوستان اور پاکستان کے تازہ تنازع میں ایران کا کردار شورشرابے سے بھرپور تو نہیں تھا، لیکن انتہائی اہم ضرور تھا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ سفارت کاری، جب باہمی احترام اور تزویراتی دانش میں جڑی ہو، تو وہ تیزی سے عسکریت پسندی کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا میں بھی، دنیا میں قیام امن کے لئے کی ایک طاقت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے لئے، تہران کے رویے نے اس نکتے کی یاد دہانی کرائی کہ عالمی سیاست کے ہنگامہ خیز ماحول میں، خاموش اتحادی اب بھی موجود ہیں: اصول پرست، محتاط اور نہایت اہم۔
ایسے وقت میں جب کہ جنوبی ایشیا اپنے مستقبل کی راہ متعین کر رہا ہے، ایران جیسے علاقائی اداکاروں کا کردار زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گا۔ اور شاید، حالیہ بحران کی گونج میں، ہمیں ایک ابدی حقیقت یاد دلائی جائے: کہ کبھی کبھار، کمرے میں سب سے پرسکون آواز ہی وہ ہوتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نویسنده: آیلا ریڈ Ayla Reid
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ