18 مئی 2025 - 20:01
ہند-پاک کشیدگی کے آئینے میں مودی کے لیے سبق / اخبار قومی آواز

دونوں ملکوں کے رہنما اپنی قوم کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیت انہی کی ہوئی۔ چونکہ عوام نے انہیں غیر مشروط حمایت دی تھی، اس لیے وہ ان کے دعووں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے لیکن حقائق انہیں شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم اس سچائی سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ اس نظریاتی لڑائی میں بی جے پی اور اس کی نظریاتی ماں آر ایس ایس کو واضح شکست ہوئی ہے۔ ان کا قوم پرستی کا نظریہ ناکام ہو گیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | ہندوستانی آخبار 'قومی آواز':

ہندوستانی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کی باتوں نے مذہبی منافرت میں گھرے ہندوستان کو اس کی اصل پہچان یاد دلائی۔ یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں بلکہ نظریات کی بھی تھی، جس میں ہار سنگھ پریوار کے حصے آئی

“میں یہ صاف کرنا چاہتی ہوں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور اس کی فوج آئینی اقدار کی عکاس ہے۔” ہندوستانی فوج کی ترجمان کرنل صوفیہ قریشی کے یہ الفاظ جنگی شور تھمنے کے بعد بھی طویل عرصے تک گونجتے رہیں گے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو حالیہ ہندوستان-پاکستان تنازع کے دوران سننے کو ملے لاتعداد بیانات میں سب سے زیادہ اہم اور بامعنی ہیں۔

جلد ہی بی جے پی لیڈر اپنے پرتشدد اور فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کے شور میں ان الفاظ کو دبانے کی کوشش کریں گے لیکن ہمیں ان باتوں کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یہ جملے ثابت کرتے ہیں کہ ہندوستان اپنے حریف پاکستان پر برتری صرف ایک صورت میں ثابت کر سکتا ہے، وہ یہ کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔

اب جبکہ جنگ ٹل گئی ہے، سوال یہ ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا؟

دونوں ملکوں کے رہنما اپنی قوم کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیت انہی کی ہوئی۔ چونکہ عوام نے انہیں غیر مشروط حمایت دی تھی، اس لیے وہ ان کے دعووں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے لیکن حقائق انہیں شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

ہم اس سچائی سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ اس نظریاتی لڑائی میں بی جے پی اور اس کی نظریاتی ماں آر ایس ایس کو واضح شکست ہوئی ہے۔ ان کا قوم پرستی کا نظریہ ناکام ہو گیا۔

ہندوستان پاکستان سے اس لیے بہتر نہیں کہ وہ اب عملی طور پر ایک ہندو ریاست بن چکا ہے، بلکہ اس لیے کہ ہندوستان کے آئینی نظریے کی بنیاد سیکولرزم ہے۔ ایک جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے اور دوسری زبان سے – زبان جو خیالات اور نظریات کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب دو ملک لڑائی میں الجھتے ہیں، تو وہ اسے صرف عسکری نہیں بلکہ نظریاتی جنگ میں بھی تبدیل کرتے ہیں۔ ہر فریق یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے نظریات دوسرے سے بہتر ہیں اور دنیا کی حمایت اسی نظریے کی جیت سے مشروط ہے۔ جیسے روس نے یوکرین پر حملہ کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ یوکرین نازی نظریات کو فروغ دے رہا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جدید دور میں مذہب اور بے دینی کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟ اور ان اصطلاحات کے مفاہیم کیا ہیں؟ پچھلے دس دنوں میں زبان اور خیالات کی جو جنگ لڑی گئی، اس میں ہندوستانی فوج بولتی رہی جبکہ سیاسی اشرافیہ خاموش رہا لیکن خارجہ سیکریٹری وکرم مسری، فوجی ترجمان صوفیہ قریشی اور ویومیکا سنگھ نے جو زبان استعمال کی، وہ 22 اپریل سے پہلے اور بعد میں ہندوستانی سیاست کے سرکردہ رہنماؤں کی زبان سے بالکل مختلف بلکہ متضاد تھی۔

جھڑپ کے تیسرے دن جب پوچھا گیا کہ کیا ہندوستانی فوج نے مساجد کو نشانہ بنایا، تو کرنل قریشی نے جواب دیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ انہوں نے اس الزام کا براہ راست جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کسی بھی مذہبی علامت کو نشانہ نہیں بناتا اور کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کر سکتا۔

یہ الفاظ صرف پاکستان کے لیے نہیں تھے۔ یہ پیغام وزیراعظم اور ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے لیے بھی تھا۔ صرف وہی نہیں، ان کے تمام حامیوں کے لیے بھی جو انہیں اس امید پر منتخب کرتے رہے ہیں کہ وہ ہندوستان کے سیکولر کردار کو بدل کر اسے ایک ہندو راشٹر بنا دیں گے۔

2019 کے انتخابات کے بعد بی جے پی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ 2014 کے بعد سے ’سیکولر‘ لفظ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے خوش ہو کر کہا تھا کہ 2019 کے انتخابات میں کوئی بھی پارٹی سیکولرزم کا نقاب اوڑھ کر عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ مودی کے بعد پارٹی کے دوسرے سب سے بڑے لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ نے 2017 میں کہا تھا کہ ’سیکولر‘ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔

2023 میں جب پارلیمنٹ میں آئین کی کاپیاں تقسیم کی گئیں، تو ان سے ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ الفاظ غائب تھے۔ ان الفاظ کو عدالتی راستے سے آئین سے نکالنے کی کوششیں کئی بار کی جا چکی ہیں۔ خود نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ آئینی ڈھانچے کا نظریہ مقدس نہیں اور اسے بدلا جا سکتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کئی بار واضح کر چکا ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار تو ہے لیکن وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتی۔ سیکولرزم اسی بنیادی ڈھانچے کا ایک لازمی حصہ ہے، جسے دھنکھڑ ہٹانا چاہتے ہیں۔

آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کو سب سے زیادہ جس تصور سے نفرت ہے، وہ سیکولرزم ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو سب سے زیادہ نفرت پنڈت نہرو سے ہے کیونکہ وہ ہندوستان کو ایک سیکولر جمہوریہ بنانے کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ یاد ہوگا کہ جب ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی سے ناطہ توڑ کر کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملایا تو بی جے پی لیڈروں نے طنز کیا کہ وہ ’سیکولر‘ ہو گئے ہیں۔ مہاراشٹر کے اس وقت کے گورنر نے بھی طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ ٹھاکرے اب ’سیکولر‘ بننا چاہتے ہیں۔ بی جے پی حامی سیکولر لفظ کو تضحیک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

2014 کے بعد بی جے پی حامیوں نے ’سیکولر‘ لفظ کو بگاڑ کر ’سِکولر‘ کہنا شروع کر دیا، تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ سیکولر لوگ بیمار ذہنیت رکھتے ہیں یا سیکولرزم بذات خود ایک بیماری ہے۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی کے رہنما دعویٰ کرتے تھے کہ وہی حقیقی سیکولر ہیں۔ لال کرشن اڈوانی نے اقلیتوں کے حقوق کے حامیوں پر حملہ کرنے کے لیے ’سوڈو سیکولرزم‘ (نام نہاد سیکولرزم) کی اصطلاح ایجاد کی۔ وقتاً فوقتاً سیکولرزم پر حملے کیے جاتے رہے یا اس کے مفہوم کو مسخ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ مودی نے کہا کہ چونکہ ان کی سرکاری اسکیموں سے سب کو فائدہ ہوتا ہے، اس لیے وہ سیکولر ہیں۔ یہ کہنا سیکولرزم کے اصل جذبے اور اس کی روح کے قتل کے مترادف ہے۔

سیکولرزم کا مطلب ہے سیاسی حقوق میں برابری۔ ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کو، چاہے ان کی تعداد کتنی بھی ہو، برابر کے سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ سیکولرزم کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر مذہب کے لوگ سیاست میں یکساں شرکت کر سکیں۔ سیاسی شرکت کا مطلب صرف ووٹ ڈالنے کا حق نہیں، بلکہ یہ اس وقت مکمل ہوتی ہے جب ہر مذہب یا برادری کے افراد کو یقین ہو کہ وہ بھی ملک کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔

بی جے پی کے اہم نظریہ ساز دین دیال اپادھیائے اور ان سے قبل ایم ایس گولوالکر ایسے ہندوستان کے حامی تھے جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو سیاسی حقوق حاصل نہ ہوں۔ گجرات میں انتخابی مہم کے دوران مودی نے یہ کہہ کر ہندوؤں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ اگر کانگریس جیت گئی تو احمد پٹیل وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔ کسی نے، حتیٰ کہ کانگریس نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ احمد پٹیل کو گجرات کا وزیراعلیٰ بننے کا حق کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ اسی طرح آسام میں بھی ہندوؤں کو ڈرایا گیا کہ اگر بی جے پی کو اکثریت نہ ملی تو بدر الدین اجمل وزیراعلیٰ بن جائیں گے۔ کیا اجمل کو صرف اس لیے آسام کی نمائندگی کا حق نہیں کہ وہ مسلمان ہیں؟

مودی بار بار راہل گاندھی کو ’شہزادہ‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے ملائم سنگھ یادو کو ’مولانا ملائم‘ کہہ کر طنز کیا جاتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان الفاظ کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔ 2002 میں جب چیف الیکشن کمشنر جے ایم لنگدوہ نے گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے انتخابات کی تاریخیں بدلنے کا فیصلہ کیا، تو اس وقت کے وزیراعلیٰ مودی نے ان کا پورا نام ’جیمز مائیکل لنگدوہ‘ لے کر ان کی عیسائیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی — گویا انہوں نے انتخابات صرف اس لیے ملتوی کیے کہ وہ مسیحی تھے۔ سونیا گاندھی پر بھی ان کے عیسائی پس منظر کی بنیاد پر حملے کیے گئے۔

گزشتہ گیارہ سالوں سے اسکولوں کی کتابوں اور نصاب سے مسلم شناخت کی ہر علامت کو ختم کرنے یا مٹانے کی مہم جاری ہے۔ شہروں، قصبوں اور سڑکوں کے نام بدل کر ان کی ہندوکاری کی جا رہی ہے۔ سیکولرزم کو غیر ملکی نظریہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوششیں دہائیوں سے جاری ہیں لیکن آج وہی سیکولرزم ہندوستان کے لیے نظریاتی ڈھال بن گیا ہے۔ مودی کی زبان کو مثالی ماننے والے یہ سوال ضرور کریں گے، کیا آج کی حکومت نے اپنے بدصورت، نفرت انگیز اکثریتی چہرے کو چھپانے کے لیے سیکولرزم کا نقاب پہن لیا ہے؟

بقلم: اپوروانند

(مضمون نگار اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں ہندی پڑھاتے ہیں۔ بشکریہ: https://thewire.in)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha