اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حماس عہدیدار سامی ابو زہری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کو مضحکہ خیز اور غیر معقول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے غیر مناسب خیالات خطے میں آگ بھڑکا سکتے ہیں۔
پاکستان میں حماس کے ترجمان خالد قدومی نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ
دوبارہ بنے گا اور پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر اٹھے گا، فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی
سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ خالد قدومی کا کہنا تھا کہ اللہ کی مدد سے ہم نے اسرائیل کو
شکست دی ہے، اسرائیلی فوج کا غزہ میں وجود نہیں ہوگا۔
بین الاقوامی رد عمل:
برطانیہ اور فرانس سمیت کئی یورپی ممالک نے ٹرمپ کے بیان پر منفی رد
عمل ظاہر کیا ہے اور اس بیان کو بین الاقوامی قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے امریکی صدر کے بیان پر
ردعمل میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان پر ہمیں دھچکا لگا، مشرق وسطیٰ
میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔
امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی کہا کہ غزہ پر امریکی حملہ ہزاروں
امریکی فوجیوں کے قتل اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں کی جنگ کا باعث بنے گا، ٹرمپ
کے بیان کا مقصد توجہ حقیقی کہانی سے ہٹانا ہے۔
کرس مرفی کا کہنا تھا کہ اصل کہانی یہ ہے کہ ارب پتیوں نے عام لوگوں
سے لوٹ مار کرنے کے لئے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔
اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر بائیڈن انتظامیہ سے استعفیٰ دینے والے
سابق امریکی پالیسی مشیر طارق حبش نے کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے کی
ٹرمپ کی تجویز نسل کُشی کی توثیق اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم
نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ پر طویل عرصے کے لئے
قبضہ کرے گا، غزہ کے رہائشیوں کو مصر اور اردن منتقل کیا جائے گا اور غزہ کی تعمیر
نو کے ساتھ وہاں ہزاروں نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھاکہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امن چاہتا ہے اور
وہ اس معاملے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
امریکی صدر کے بیان پر سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں
کہا گیا کہ سعودی عرب کا واضح اور دو ٹوک موقف ہے کہ دو ریاستی حل کے بغیر اسرائیل
کو تسلیم نہیں کریں گے، کوئی دوسرا شخص ہمارے بیان کی تشریح نہیں کر سکتا۔
نکتہ:
حالات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی علمی سلطنت ناکارہ اور
ناکام بن چکی ہے اور جواباز امریکی صدر اس کو سنبھالا دینے کی اپنی سی کوششیں کر
رہا ہے جو یقینا ناکام ہوگی، اور ٹرمپ کے ان اقدامات کو "ایک زوال یافتہ عالمی
طاقت کی سنبھلنے کی ناکام کوشش" ہی کہا جا سکتا ہے۔
فلسطینی بھی 16 مہینوں تک امریکہ اور صہیونی ریاست کی ایسی ہی کوششوں
کے خلاف ڈٹ گئے ہیں اور انہیں شکست دے چکے ہیں چنانچہ جو کچھ وہ جنگ میں حاصل نہیں
کر سکے ہیں، سازشوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس کے نتیجے میں نقصان ضرور
ہوگا لیکن شکست کا بدنما داغ پھر بھی صہیونیوں اور امریکیوں کے ماتھے پر سجے گا۔
ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110

