21 جنوری 2025 - 21:55
غزہ میں جنگ بندی؛ صہونیوں کے غم و غصے، اداسی اور ناامیدی پر مبنی اہم اعترافات / دلچسپ رپورٹ / نکتے + تصویر +ویڈیوز

صہیونی چینل i14: کون یقین کر سکتا تھا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے ڈیڑھ سال، ہم حملہ آور کے سامنے تعظیم بجا لائیں گے اور سب کچھ اس کے حوالے کریں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غزہ کی جنگ بندی کے بارے میں مختلف قسم کے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہم یہاں کچھ صہیونیوں کے خیالات کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں جو انتہائی دلچسپ اور پڑھنے کے قابل ہیں:

عبرانی اخبار معاریو (Maariv)

صہیونی اخبار، معاریو نے لکھا:

15 مہینوں میں سب پر عیاں ہؤا کہ غزہ کی جنگ اسرائیل کے لئے ایک عظیم لا حاصل تزویراتی رسوائی ہے۔ حماس نے ہمیں فرسودگی سے دوچار کر دیا ہے۔

ریڈیو اسرائیل کا ایڈیٹر میناشے امیر (Menashe Amir):

طویل عرصے سے غاصب ریاست کے ریڈیو فارسی کے ایڈیٹر اور صہیونی وزارت خارجہ سے منسلک، میناشے امیر نے کہا:

جنگ کے آغاز پر نیتن یاہو نے جن مقاصد کا اعلان کیا تھا ان میں سے ایک بھی حاصل نہیں ہؤا اور یہ جنگ بندی حماس کے لئے عظیم فتح اور اسرائیل کے لئے عظیم شکست تھی۔

اسرائیلی اخباری ویب گاہ والّا کے نیر کپنس (Nir Kipnis) نے کہا:

شکست کا یہ ڈراؤنا خواب برسوں تک اسرائیلیوں کے ذہنوں میں باقی رہے گا۔

گیورا آئلینڈ (Giora Eiland)

شمالی غزہ کے شدید محاصرے اور یہاں کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے لئے انہیں قحط اور فاقوں سے دوچار کرنے کے لئے ناکام منصوبہ "جنرلز پلان" (Generals’ Plan) تیار کرنے والے جنرل گیورا آئلینڈ (Giora Eiland)، جس نے اس شکست کی تلخی کو دوسروں سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے، کہتا ہے:

حماس فاتح ہوئی اور اسرائیل کو المناک شکست ہوئی۔ غزہ کی جنگ ایک عظیم شکست ہے کیونکہ اس جنگ کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔

جنرل گاڈی شامانی (Gadi Shamni)

اسرائیلی فوج کے سابق جنرل، گاڈیو شامانی نے کہا:

اس جنگ میں اسرائیلی ریاست کو شکست ہوئی ہے کیونکہ اس کے پاس جنگی مقاصد اور اہداف اور ان کے حصول کے لئے ضروری وسائل اور اوزاروں کے سلسلے میں کوئی شفاف تزویراتی حکمت عملی نہیں تھی۔ یہ صرف جنگ بندی صرف فوجی شکست کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ہماری قیادت کی بدترین شکست کا نتیجہ ہے۔

یوسی یہوشوا (Yossi Yehoshua) کی چیخیں

عبرانی چینل i24 کے تجزیہ کار یوسی یہوشوا نے چلا چلا کر اعتراف کیا:

اسرائیل کو شکست ہوئی؛ ہماری بڑی فوج، تمام تر وسائل اور ہتھیاروں کے ساتھ، 15 مہینوں تک لڑنے کے باوجود، کامیاب نہیں ہو سکی۔ وہ شخص شدید غلطی سے دوچار ہے جو سوچتا ہے کہ ٹرمپ معجزہ کرے گا! وہ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ چون حماس غزہ میں ہے اور "غزہ" "حماس" ہی کا نام ہے۔

چینل i14:

صہیونی چینل i14 نے کہا:

کون یقین کر سکتا تھا کہ 7 اکتوبر کے حملے کے ڈیڑھ سال، ہم حملہ آور کے سامنے تعظیم بجا لائیں گے اور سب کچھ اس کے حوالے کریں گے۔

ڈیوڈ ہرسٹ (David Hearst)

مڈل ایسٹ آئی (Middle East Eye) کے ایڈیٹر انچیف ڈیوڈ ہرسٹ نے کہا:

یہ اسرائیل کے لئے عظیم ترین شکست ہے، تل ابیب کے پاس یہ تلخ سمجھوتہ قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، اور [آخری نہیں بلکہ] اسرائیل کے ڈراؤنے خوابوں کا سرآغاز ہے۔

یونی بن میناخیم (Yoni Ben-Menachem)

اسرائیلی صحافی اور یروشلم سینٹر فار پبلک افیئرز (JCPA) میں سیکورٹی افیئرز کے تجزیہ کار یونی بن میناخیم نے X نیٹ ورک پر لکھا:

فلسطین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم "محمد ضیف کے سپاہی ہیں"، یہ غزہ کا حال ہے ایک سال جنگ کے بعد۔

صہیونی نامہ نگار عامیخائے شیلو (Amichai Shilo)

عامیخائے شیلو نے کہا:

ہم نے حماس کو غزہ میں نابود نہیں کیا، ہم نے حماس کو مغربی کنارے میں نابود نہیں کیا، ہم نے حماس کو شام میں نابود نہیں کیا، ہم نے فتح تحریک کو مغربی کنارے میں نابود نہیں کیا، ہم نے حزب اللہ [لبنان] کو نابود نہیں کیا، ہم نے انصار اللہ یمن کو نابود نہیں کیا، ہم نے ایران کے جوہری پروگرام کو نابود نہیں کیا، ہم نے مغربی کنارے میں اسلحہ [فلسطینی عوام سے] اکٹھا نہیں کیا۔

ایک مکمل نقصان

اگلا المیہ آ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکتے:

1۔ غزہ میں نافذ العمل ہونے والی جنگ بندی کے بعد کچھ لوگوں نے صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی "آزادانہ" نسل کشیوں، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم اور لاکھوں فلسطینیوں کے شہید اور زخمی ہونے جیسے حقائق کی طرف اشارہ کرکے اس حقیقت کا انکار کیا کہ "فلسطینی قوم اور فلسطینی مقاومت اور غزہ کے مظلوم اور بہادر عوام ـ بالخصوص حماس ـ نے اس جنگ میں فتح حاصل کی ہے"، لیکن وہ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں کہ مقاومتی تحریک کا مقصد غاصب اور جارح ریاست کو کامیابی سے روکنا ہوتا ہے اور جارح کی عدم کامیابی مقاومتی تحریک کی فتح سمجھی جاتی ہے، گوکہ غزہ کی جنگ بندی کے تمام تر نتائج ابھی عیاں نہیں ہوئے ہیں؛ حماس اور دوسری مقاومتی تحریکوں نے معرکۂ طوفان الاقصیٰ میں مغربی تہذیب کے بھیانک چہرے کو نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونیت کے نحیف پیکر پر ناقابل تلافی ضرب لگائی ہے اور صہیونی ریاست کو تقریبا مکمل طور پر مفلوج کر دیا تھا جس کو پاؤں پر کھڑا رکھنے ـ اور طوفان الاقصیٰ کے حقیقی نتائج منظر عام پر آنے سے روکنے، ـ کے لئے جنگ جاری رکھی گئی؛ چنانچہ طوفان الاقصی کے ثمرات بہت زیادہ وسیع ہیں اور اگلے ایام میں ان ثمرات کے منظر عام پر آنے کا بہت امکان ہے جس کے بعد حیرت زدہ لوگ مزید حیرت زدہ ہونگے:

"إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ؛ [1]

غیب اللہ سے مخصوص ہے تو انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں"۔

غزہ میں مقاومتی تحریکوں کی کامیابی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا صہیونی ریاست کو جنگ بندی نافذ ہونے کے اگلے لمحات میں ہی پورے غزہ پرحماس کے مکمل کنٹرول کا عینی مشاہدہ کرنا پڑا؛ جبکہ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ جنگ بندی کے اگلے دن حماس نامی کوئی چیز روئے زمین پر موجود نہیں ہوگی۔ اس نے حماس کے خاتمے اور غزہ میں خائن عرب حکمرانوں اور مغرب کی مدد سے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے نعرے لگائے تھے، چنانچہ معرکۂ طوفان الاقصیٰ اگر صہیونیوں کے زوال کی طرف پہلا قدم تھا تو یہ جنگ بندی اس سے بھی بڑا قدم دکھائی دے رہا ہے، بڑے بڑے صہیونی مستعفی ہو رہے ہیں، لگتا ہے کہ اگلے دنوں اس سے بھی بڑی خبریں آپ کی منتظر ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110



[1]۔ سورہ یونس، آیت 20۔