اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، پاکستانی ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی
کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ انٹر نیٹ یا کسی سافٹ ویئر کا
استعمال، جس سے غیر اخلاقی یا غیر قانونی امور تک رسائی مقصود ہو شرعاً ممنوع ہے، حکومت و ریاست کو شرعی لحاظ سے اختیار ہے
کہ وہ برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرے، لہٰذا غیر
اخلاقی اور توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنے یا محدود کرنے کے لئے اقدامات
کرنا، جن میں وی پی این کی بندش شامل ہے، شریعت سے ہم آہنگ ہے اور کونسل کی پیش
کردہ سفارشات و تجاویز پر عمل در آمد ہے، لہٰذا ان اقدامات کی ہم تائید و تحسین
کرتے ہیں، اور ریاست کی طرف سے وی پی این (VPN) بند کرنے کا اقدام قابلِ تحسین ہے، وی پی این کا استعمال اس نیت
سے کہ غیر قانونی مواد یا بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جائے، شرعی لحاظ سے
ناجائز ہے، حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے ذرائع اور ٹیکنالوجیز
کے استعمال پر مؤثر پابندی عائد کی جائے جو معاشرتی اقدار اور قانون کی پاسداری
کو متاثر کرتے ہیں۔
ان خیالات کا
اظہار چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹرراغب حسین نعیمی نے ایک سوال جواب
میں کیا۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ ’کیا وی پی این (VPN) کا استعمال شرعی اعتبار
سے جائز ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب اسے بلاک شدہ یا غیر قانونی ویب سائٹس تک
رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے؟
انہوں نے مزید
کہا کہ وی پی این (VPN) ایک تکنیکی ذریعہ ہے جس کے ذریعے صارفین اپنی اصل شناخت اور مقام
کو مخفی رکھ سکتے ہیں۔
مولانا طارق جمیل
کا رد عمل
مشہور دینی
اسکالر مولانا طارق جمیل نے علامہ نعیمی کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے
کہ وی پی این حرام ہے تو پھر موبائل فون بھی حرام ہے۔
بین الاقوامی
شہرت یافتہ پاکستانی اسلامک اسکالر مولانا طارق جمیل نے اسلامی نظریاتی کونسل کے
فتوے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وی پی این حرام ہے تو پھر موبائل
فون کا استعمال بھی حرام ہے۔
مولانا طارق جمیل
نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ کون سی شرعی کونسل نے یہ فتویٰ دیا
ہے؛ لیکن اگر وی پی این حرام ہے تو پھر تو موبائل بھی حرام ہے کیونکہ اس میں تو وی
پی این کے بغیر ہی دیکھنے کے لیے اتنی چیزیں ہیں۔
مولانا طارق جمیل
نے یہ بھی کہا کہ میرے خیال میں وی پی این کو حرام قرار دینا درست نہیں ہے بلکہ یہ
تنگ ذہنی اور تنگ نظری ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی
اے کی جانب سے بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ وی پی این بلاک کئے جانے کے بعد اسلامی
نظریاتی کونسل نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کو حرام قرار دے دیا ہے۔
اسلامی نظریاتی
کونسل کا یہ فتویٰ سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ:
یہ فیصلہ کرنا
علمائے اسلام کا کام ہے کہ ان دو علماء میں سے کس کی بات شریعت سے زیادہ قریب ہے
گو کہ کچھ اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے، لیکن امت کا آج کا مسئلہ فلسطین اور
عالم اسلام پر یہودی ـ نصرانی یلغار ہے۔
نکتہ یہ ہے کہ پاکستان
وی پی این کی حمایت اور مخالفت میں تو فتوے آنے لگے ہیں اور ایک بے فائدہ اور بے
ثمر بحث چھڑ گئی ہے جس میں اب ہر کوئی اپنا نظریہ پیش کرے گا چاہے وہ عالم ہوں یا
جاہل، لیکن اس وقت عالم اسلام کو درپیش اصل اور بنیادی مسئلہ عالم اسلام پر یہودی
صہیونیوں اور عیسائی صہیونیوں کی یلغار ہے جو پورے مغربی ایشیا میں گریٹر اسرائیل
کے قیام کے لئے راہیں ہموار کر رہی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی کونسل اور کسی بھی
اسکالر کی طرف سے کوئی فتویٰ نہیں آ رہا ہے کیونکہ ان کے دماغ میں صہیونیوں نے یہ
غلط تصور بھر دیا ہے کہ یہ ایران اور اسرائیل کی جنگ ہے، یہاں تک کہ بعض پاکستانی
اخبارات نے اپنی ویب گاہوں پر ایک سیکشن کھول دیا ہے جس کا عنوان ہے "ایران ـ
اسرائیلی تنازعہ" اور غزہ اور لبنان کی خبریں اسی سیکشن میں درج کی جاتی ہیں۔
کاش مولوی حضرات کچھ اس مسئلے کی طرف بھی توجہ دیتے کیونکہ لگتا ہے کہ دیر ہو رہی
ہے اور وہ امت اور دین اسلام کے بچاؤ میں اپنا حصہ ڈالنے سے مکمل طور پر غافل ہیں۔
وہ غافل ہیں کہ اس حوالے سے ان سے ضرور پوچھا جائے گا اور ان کا یہ تغافل اور یہ
تجاہل عارفانہ امت کی سیہ بختی کا سبب بن رہا ہے؛
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110