23 اکتوبر 2024 - 07:45
افسانوی کمانڈر یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد کس سمت جا رہا ہے؟

شاید روئے زمین پر رہنے والے 5 فیصد انسان صہیونیوں کے حامی ہوں۔ لگتا ہے کہ اس بار ہالی ووڈ بھی ان کے بدصورت چہرے کی تزئین و آرائش نہیں کر سکے گا۔۔ بہرحال صہیونی ریاست کے خلاف لڑنے والے عظیم جہادی سورما یحییٰ السنوار کی شہادت کے ساتھ ہی صحافتی اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ کیا طوفان الاقصیٰ کے معمار کی شہادت کے بعد، صہیونیوں کی پوزیشن بہتر ہوگی؟ کیا مذاکرات اور جنگ بندی کا وقت آن پہنچا ہے؟ اور آخری سوال یہ کہ ان کی شہادت کے بعد خطے کے حالات کس سمت جائیں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ اس سوال کا جواب کہ یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد خطے کے حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ چونکہ مقصد عظیم ہے اور حق اور باطل کے محاذ واضح ہو چکے ہیں، اور ایک طرف تمام شیاطین اور دوسری طرف دنیا کے مظلومین قرار پا چکے ہیں، لہذا اس جنگ کا انجام ابھی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانیت سوز جرائم انجام دینے کے باعث آج دنیا میں شاید 5 فیصد انسان بھی صہیونی ریاست کے حامی نہیں ہوں گے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے 90 فیصد سے زیادہ انسان مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ یوں عالمی رائے عامہ یا نرم جنگ میں فاتح واضح ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو بھی خدا، رسول خدا ص اور مومنین کو اپنا سرپرست بناتا ہے، اس کی فتح یقینی ہے۔ (مَنْ یَتَوَلَّ الله وَ رَسُولَهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ الله هُمُ الْغَالِبُونَ)۔

حماس کے سربراہ شہید یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد یہ سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ کیا طوفان الاقصیٰ آپریشن کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے ناطے ان کی شہادت صہیونی ریاست کی برتری کا باعث بنے گی؟ کیا اب جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے؟ نیز یہ کہ خطے کے حالات کیا سمت و سو اختیار کریں گے؟ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے درج ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے:

1)۔ سب سے پہلے یہ نکتہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اس وقت اسلامی مزاحمتی بلاک اور غاصب صہیونی ریاست میں جو جنگ جاری ہے وہ خطے کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اب تک اتنی بڑی سطح پر جنگ انجام نہیں پائی تھی۔ اس جنگ کے بے مثال ہونے کی وجہ جنگ میں شامل فریقوں کی تعداد بھی ہے اور جنگ کی نوعیت بھی ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں پیجر دھماکے انتہائی منفرد نوعیت کے تھے۔

2)۔ جس قدر ایک مقصد عظیم ہوتا ہے فطری طور پر اسے حاصل کرنے کے لیے زیادہ قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جب مقصد غاصب صہیونی ریاست کی نابودی ہے ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک عظیم مقصد ہے۔ لہذا جنرل قاسم سلیمانی، سید حسن نصراللہ، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار جیسی عظیم شخصیات کی شہادت اگرچہ انتہائی افسوسناک اور دل دکھا دینے والی بات ہے لیکن جب ہم مقصد کی عظمت کو دیکھتے ہیں اور یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان بزرگ شخصیات نے اس عظیم مقصد کے لیے جان قربان کی ہے تو زیادہ عجیب محسوس نہیں ہوتا۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ یہ بزرگ شخصیات مقصد اور اس کی عظمت کو پہچانتے تھے لہذا انہوں نے خود کو شہادت کے لیے تیار کر رکھا تھا اور اسلامی مزاحمتی بلاک "اسرائیل نامی سرطانی غدے" کے خاتمے کے لیے یہ قربانیاں دے رہا ہے۔ ان بزرگان کی شہادت اگرچہ بھاری ہے لیکن عجیب نہیں، عجیب تو یہ ہے کہ ایسی شخصیات بستر بیماری پر فوت ہوتیں۔

3)۔ اسلامی مزاحمت کی اہم شخصیات کی شہادت ممکن ہے عارضی طور پر دشمن کے حوصلے بلند ہونے کا باعث بنے لیکن انہیں طویل المیعاد اسٹریٹجک کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ اسلامی مزاحمت کے تمام سربراہان اپنے جانشین تیار کر چکے تھے اور ان کی شہادت کے فوراً بعد ان کی جگہ پر ہو چکی ہے۔ ایسے ہی جیسے حزب اللہ لبنان نے فوراً اپنی تنظیم نو انجام دی اور شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے صرف دو ہفتے بعد غاصب صہیونی ریاست کے 550 افسر اور فوجیوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کے علاوہ بڑی تعداد میں ان کے ٹینک اور دیگر فوجی گاڑیاں بھی تباہ کر چکی ہے۔ اسی طرح حماس نے بھی غاصب صہیونی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد پوری طاقت سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ حال ہی میں غزہ میں ایک اسرائیل کرنل اور اس کے ساتھ کئی دیگر اعلی سطحی افسر حماس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔

4)۔ فوجی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ میڈیا جنگ اور نفسیاتی جنگ بھی چلتی رہتی ہے۔ میڈیا جنگ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے ذریعے میدان جنگ میں ہارتی ہوئی قوت کو فاتح قوت یا اس کے برعکس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ صہیونی فوج نے شہید یحییٰ السنوار کے آخری لمحات کی ویڈیو جاری کر کے انہیں ایک ہیرو بنا دیا اور خود کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ اب تک صہیونی ریاست یہی پروپیگنڈہ کرتی آ رہی تھی کہ حماس کے سربراہ سرنگ میں چھپ کر بیٹھے ہیں اور انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال بنا رکھا ہے۔ لیکن حقیقت میں شہید یحییٰ السنوار فرنٹ لائن پر دشمن سے دوبدو لڑائی میں شہید ہوئے ہیں۔ لہذا صہیونی اپنی اس حماقت کے باعث نہ صرف شہید یحییٰ السنوار کی شہادت سے نرم جنگ میں فائدہ نہیں اٹھا پائے بلکہ الٹا اپنا نقصان کر بیٹھے۔

5)۔ اس جنگ میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے مدمقابل اصل قوت امریکہ ہے۔ اس بات کے ثبوت کے لیے بہت سے شواہد پائے جاتے ہیں۔ ایک اہم ترین دلیل صہیونیوں کا بار بار اعتراف کرنا ہے کہ اگر امریکہ نہ ہوتا تو اسرائیل حتیٰ دو ہفتے بھی جنگ جاری نہیں رکھ پاتا۔ جنگی سازوسامان کی نوعیت اور مقدار، جدید ٹیکنالوجیز، پیسے، ڈالر، انٹیلی جنس، فوجی اور سیاسی حمایت کے علاوہ اسرائیل کو فراہم کی جانے والی بھاری مالی امداد۔ ہمیشہ سے جب بھی غاصب صہیونی ریاست نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے لبنان، غزہ، یمن، عراق یا ایران میں ایک اہم شخصیت کو نشانہ بنایا ہے، اس کے فوراً بعد امریکی حکام ثالثی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور سفارتکاری مہم تیز کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی یحییٰ السنوار شہید ہوئے امریکی حکام نے جنگ بندی مذاکرات کامیاب ہونے کی امید ظاہر کر دی۔

6)۔ اس سوال کا جواب کہ یحییٰ السنوار کی شہادت کے بعد خطے کے حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ چونکہ مقصد عظیم ہے اور حق اور باطل کے محاذ واضح ہو چکے ہیں، اور ایک طرف تمام شیاطین اور دوسری طرف دنیا کے مظلومین قرار پا چکے ہیں، لہذا اس جنگ کا انجام ابھی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانیت سوز جرائم انجام دینے کے باعث آج دنیا میں شاید 5 فیصد انسان بھی صہیونی ریاست کے حامی نہیں ہوں گے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے 90 فیصد سے زیادہ انسان مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ یوں عالمی رائے عامہ یا نرم جنگ میں فاتح واضح ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو بھی خدا، رسول خدا ص اور مومنین کو اپنا سرپرست بناتا ہے، اس کی فتح یقینی ہے۔

"مَنْ یَتَوَلَّ الله وَ رَسُولَهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ الله هُمُ الْغَالِبُونَ"

اور جو کوئی اللہ کو اور اس کے رسول کو اور ان لوگوں کو اپنا ولی و حاکم بنائے جو ایمان لائے ہیں تو یقینا اللہ کا لشکر ہی وہ لوگ ہیں جو غالب [و فاتح] ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: جعفر بلوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110