اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، ویبینار سے پاکستان کی گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر
کاظم میثم کا خطاب
اعوذ باللہ من الشیطن اللعین
الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز شرکائے ویبینار،
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
ان شاء اللہ آقائے احمد
اقبال کو، آقائے مفتی گلزار احمد نعیمی کو اس اہم سیشن میں ہم سنیں گے۔ معززين سے
بھی آج کے اس اہم موضوع پر گفتگو سنیں گے، مستفیض ہونگے، ان کے ذریعے ان نورانی
کلمات سے، ان کے تجزیئے اور تبصرے سے، چونکہ آپ کی طرف سے دعوت تھی تو اس سیشن کی
اہمیت کے پیش نظر میں نے مناسب سمجھا کہ کسی طور [بھی] اس سیشن کو Miss نہ کروں۔
اگرچہ میں مستفیض ہونے کے
لئے اس پروگرام کا حصہ بنا ہوں۔
جہاں تک، آپ نے طوفان
الاقصی کی بات کی، اور اس وقت جو اسرائیل کے ساتھ مزاحمتی اور مقاومتی تنظیمیں بر
سرپیکار ہیں، اس کے حوالے سے آپ نے گفتگو کرنے کا کہا۔
دیکھیں اگر ہم تاریخ اٹھا
کر دیکھیں تو اسرائیلیوں کی تاریخ انتہائی بھیانک تاریخ ہے اور جو اسرائیلیات [ہیں]
یہ ایک خاص نظریہ ہے، جس کی بیس پر ان کی dominancy ہے اور supremacy ہے۔ یہ طبقہ چاہتا ہے کہ پوری دنیا میں economically, socially, morally اور تمام حوالوں سے dominant رہیں، پوری دنیا ان کے زیر نگیں
ہو، ان کے سامنے نہ کوئی Moral value ہے نہ کوئی ethical value ہے، نہ کوئی اور چیز ان کے سامنے
معنی رکھتی ہے۔ ان کے سامنے ایک ہی چیز ہے کہ کس طرح اپنی supremacy کو قائم کریں۔ اور یہ جو نظریہ ہے
اسرائیلیوں کا "اسرائیلیات" کا، اس کو آپ اگر دیکھیں تو مجھے حیرت بھی
ہوتی ہے، اور وہ حیرت خوشگوار حیرت بھی ہے، کہ کس طرح صدیوں پر محیط ان کی پلاننگ
رہی۔ اس قوم پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، لعنتیں پڑیں، جس کے بعد، 1500سے 2000 سال
ان کی ذلت کی تاریخ ہے۔ یہ قوم دربدر کی ذلتیں اٹھاتی رہی، پوری دنیا میں یہ قوم
گھومتی رہی۔ بظاہر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ان کی acceptance پوری دنیا میں کہیں پر بھی نہیں
تھی۔ لیکن in depth اگر
دیکھیں تو ان strategy بھی
نظر آتی ہے کہ پوری دنیا میں اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے لئے بڑی planning کے ساتھ اور بڑے Organized انداز میں پوری دنیا میں اپنا اثر
و نفوذ قآئم کر چکے ہیں۔ جس میں بالخصوص عیسائی دنیا میں بھی، ان یہودیوں نے، صہیونیوں
نے بڑی زبردست پذیرائی حاصل کی ہوئی ہے۔ اثر و نفوذ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ یوں ان کی
جو دو ڈھائی ہزار سالہ جدوجہد رہی ہے، اس جدوجہد میں، ان تحاریک میں ہم دیکھتے ہیں،
کہ چرچ بھی ان کا قبضہ رہا ہے، ان کے influenced رہے ہیں، حکومتوں میں influenced رہے ہیں اور دنیا کی جو اکانومی ہے یہ بھی بہت زیادہ influenced ہے۔ یعنی عام اصطلاح میں اسرائیل،
یا یہودیت، یا دوسرے الفاظ میں صہیونیت، ـ صہیونیت زیادہ مناسب رہے گا ـ یہ طاقت
حقیقی معنوں میں بہت ہی گہری سوچ کے ساتھ، deeply
planning کرکے پوری دنیا پر اپنا اثر و
نفوذ قائم کرچکی تھی، پنجہ گھاڑا ہؤا تھا، ایک عام اصطلاح میں Root out کرنا دنیا کی طاقتوں سے، تمام sectors سے اسے Root out کرنا humanly possible ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ اور آپ یہ
بھی دیکھتے ہیں کہ یہ پوری دنیا میں گھومتے رہے کہیں ان کے لئے کوئی مسکن نہیں
ملا۔ اسی یورپ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ذریعے انہوں نے بیت المقدس کو اور اس
مقدس سرزمیں کو منتخب کیا؛ اپنے عقیدے کے مطابق بھی کیا اور یقینا اس میں عالمی
طاقتوں کی بھی بھرپور support رہی ہے۔ تھیوڈر ہرزل کی کانفرنس کے بعد اس کی implementation ہوتی ہے اور 1948ع میں ـ یعنی 76
سال قبل ـ ایک state کے
طور پر سرزمین فلسطین میں معرض وجود میں آجاتا ہے، اور معرض وجود میں آنے کے بعد
اب تک دنیا ان کو protect
کرنے کے لئے اور اس کو boost اور boom دینے کے لئے، پوری طرح، پوری طاقتیں اس کے پیچھے
کھڑی ہیں، لیکن اس عرصے میں دوسری طرف جو مستضعفین ہیں، خاص کر فلسطین کے عوام ہیں،
مظلومین ہیں، فلسطین کے عوام کی جدوجہد کی بھی یقینا ایک تاریخ ہے لیکن وہ تاریخ ایک
قسم کی کسمپرسی کی تاریخی ہے، [ان کی تحریکیں] بے یار و
مددگار ہو کر دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑی رہی ہیں۔
اس میں آپ کو حزب اللہ، امل، اسی طرح حماس سمیت دیگر چھوٹی بڑی فلسطینی تنظیمیں آپ
کو نظر آتی ہیں۔ اور ان تنظیموں میں وہ طاقتیں ۔۔۔ چھوٹی جو طاقتیں تھیں، خاص کر
انقلاب ایران سے پہلے جو طاقتیں تھیں، یہ مزاحمتی طاقتیں اور یہ مزاحمتی تنظمیں تھیں،
انہوں نے اپنے تئیں پوری کوشش کی اور کبھی کبھی عرب کی غیرت بھی جاگتی رہی، عرب
ممالک کی غیرت بھی جاگتی رہی، لیکن ان کی غیرت چھ دن سے زیادہ کام نہیں آئی، ان کی
جرات و حمیت چھ دن سے زیادہ کام نہیں آئی۔
لیکن اسلامی انقلابی ایران
کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ Geo-strategical
importance، middle east کی بہت زیادہ ہے، اس میں ایران کی
influence اس طرح رہی ہے، خواہ دنیا میں کہیں
بھی ہو، کیونکہ امام خمینی(رح) کا formula بھی یہی ہے، کہ امام خمینی(رح) نے انقلاب اسلامی کے بعد، جو دنیا
کے مستضعفین کو empower
کرنے کا یا مستضعفین کی support کرنے کی جو روش اور طریقہ اپنایا ہے کہ وہاں کے عوام کی قیادت اور
وہاں کی جماعتیں کیا چاہتی ہیں؟ جو ان کو مستضعف کیا گیا ہے، ان کی [مرضی] کیا ہے؟
یعنی ان [امام(رح)] کی interference اس طرح نہیں ہوتی تھی جس طرح ہم expect کرتے ہیں یا جس طرح دنیا کا قانون
قاعدہ ہوتا ہے جیسے اسرائیل کو کس طرح steer کرنا ہے اس کو امریکہ dictation دے دیتا ہے۔ امریکہ کی ایماء پر اسرائیل نے فیصلہ ہوتا ہے جبکہ
امام خمینی(رح) کا نظریہ یہ نہیں ہے کہ کسی بھی مستضعف کو support کرنے کے لئے [مسئلے کو] ایران کس angle سے دیکھتا ہے۔
امام خمینی(رح) کا یہ formula رہا ہے کہ [دیکھنا چاہئے کہ] اس
مستضعف قوم کا angle کیا
ہے اور optics کیا
ہے، وہ خود کس طرف جانا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سے ملحقہ یا متصل جتنی جماعتیں
ہیں، تنظیمیں ہیں ان کی کیا Duties بنتی ہیں۔ تو لہذا امام خمینی(رح) یا انقلاب اسلامی ایران نے یا
مزاحمتی تحریکوں نے اپنی Duty اور Responsibility
شاید بہت اچھے اور عمدہ انداز میں انجام دی ہے۔ نتیجے میں یہ جو ایک زمانے کا Superpower کہلانے والی طاقتیں اور ممالک اور
Sophisticated technology رکھنے والی اسرائیلی اسٹیٹ اور ان
کے پیچھے یورپ، امریکہ اور دنیا کی بڑی طاقتیں، آج غزہ کے چند نہتے مظلومین فلسطین
کے مظلومین کے سامنے
آج غزہ کے چند نہتے مظلومین
فلسطین کے مظلومین کے سامنے، یہ طاقتیں surrender کر چکی ہیں عملی طور پر؛ اس کی جو hegemony تھی خاص کر ان کے defense کی hegemony ان کی economical hegemony خاص کر ان کی moral اور نفسیاتی جو برتری تھی وہ اس
وقت مکمل طور پر برباد ہو چکی ہے۔ خاص کر iron dome کی جو کہانیاں ہوتی تھی missile
defense system کی جو کہانیاں ہوتی تھی، اور واقعی
in true sense بھی دیکھیں تو ان کا دفاعی نظام to much sophisticated تھا یعنی دنیا کی latest ترین technology تھی۔ لیکن اس کے مقابلے میں جو
جوان تھے، کبھی Paragliding سے
جاکر attack
کرتے تھے، کبھی دیسی ساختہ بموں سے حملے کرتے تھے۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا
میں technics, tactic اور
art of war جو کسی زمانے میں صحیفہ سمجھا
جاتا تھا، وہ art of war کو
فلسطین کے، غزہ کے ادھر لبنان میں حزب اللہ کے ایمان کی طاقت سے مسلح جوانوں نے وہ
ساری trend change کردی
ہے۔ اس سے یہ ہم اندازہ بھی لگا سکتے ہیں اور پوری مسلم امہ کے لئے بہت واضح اور dominant پیغام یہ ہے کہ اسلحہ سب کچھ نہیں
ہوتا، طاقتیں سب کچھ نہیں ہوتیں، اگر ایمانی طاقت ہو، اور فضائے بدر اگر پیدا کریں
تو آج بھی فرشتے یقینا اتر سکتے ہیں۔ وہ آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ کل کے واقعات آپ دیکھ
لیں، ہم دیکھ رہے ہیں۔ in shortمختصر یہ کہ اس قضیے نے جو ایک سال ہؤا، نہتے، میرے مظلوم، غزہ کے عوام نے، میرے
فلسطین کے جوانوں نے، جس طرح قربانیاں دی ہیں، یقینا عالم اسلام کو انتہائی morally high کر دیا ہے۔ اور پھر مغربی طاقتیں
جو اپنی طاقت پر، technology پر defense system پر اپنی science پر اور اپنی جدت پر فخر و مباہات
کرتی تھیں، اور اپنی hegemony قائم کی ہوئی تھیں، اس کو demolish کردیا ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اعصاب کی جنگ ہے، نفسیات کی جنگ
ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایمان کی جنگ بھی ہے۔
الحمد للہ، غزہ کے فلسطین
کے مسلمانوں اور مستضعفین، لبنان کے مستضعفین، یمن کے چند بے سرو سامان اور بے
سہارا مظلومین جو ہیں، اس وقت ہم دیکھیں تو دنیا کی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں ہیں،
الحمد للہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
دیکھئے:
- شہید سید حسن نصر اللہ کی شہادت اور طوفان الاقصی کی سالگرہ کے موقع پر ویبینار -1