17 جون 2024 - 15:50
دس ذو الحجۃ الحرام عید الأضحیٰ یا قربانی کی عید؛ ایک نئے زاویئے سے

عرفات (سرزمین معرفت)، مشعر (مقام شعور و آگہی) اور منیٰ (آرزوؤں کی سرزمین اور عشق تک پہنچنے کے مقام) پر وقوف کے بعد عید الضحیٰ کا مرحلہ آن پہنچتا ہے۔ یہ دنیاوی وابستیوں اور قیود سے رہائی اور آزادی کی عید ہے۔ رہائی ہے اس ۔۔۔۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

اس دن حاجی اپنے وجود کے اسماعیل کو قربان کرتا ہے یعنی ہر اس چیز سے تعلق توڑ دیتا ہے جس سے اس نے اپنی خواہشیں باندھ رکھی ہیں تا کہ پرواز کے لئے تیار ہوجائے۔

یہ مسلمانوں کی دوسری بڑی عید ہے عید فطر کے بعد، یہ عید الضحیٰ ہے، عید قربان ہے، بڑی عید یا بکرا عید ہے جو بھی ہے پاک ترین عیدوں میں سے ایک ہے وہ عید جب انسان اپنے وجود کو جلا کر اس سے پیدا ہونے والی راکھ سے دوبارہ برآمد ہوتا ہے، دوبار متولد ہوتا ہے۔ یہ ان دلوں کی قربت کی عید ہے جو قرب الٰہی پر فائز ہوئے ہیں، عید الضحیٰ قربان، ایک نئے دن اور ایک نئے انسان کی ولادت کا دن ہے۔

اور اب تم ایک منیٰ میں ہو ایک ابراہیم ہو اور اپنے اسماعیل کو قربانگاہ میں لائے ہو؛ لیکن کون ہے تمہارا اسماعیل؟ کیا ہے تمہاری حیثیت؟ تمہاری آبرو؟ تمہارا کاروبار؟ تمہارا عہدہ اور منصب؟ تمہاری دولت؟ تمہارا مقام رہائش؟ اور تمہاری جائیداد؟

ان سب کو تم خود ہی جانتے ہو۔ اب تمہیں یہ سب کچھ بھی اور جو کوئی بھی ہے، منیٰ میں قربانی کے لئے لانا پڑے گا، تمہیں انتخاب کرنا پڑے گا۔ اس کی کچھ نشانیاں ہی تمہیں بتانا ممکن ہے۔

جو کچھ تمہیں ایمان کی راہ میں کمزور کرتا ہے، جو کچھ تمہیں "رہنے" کو "جانے" پر ترجیح دینے کی دعوت دیتا ہے، جو کچھ تمہیں اپنی "ذمہ داری" کے سلسلے میں شک و تذبذب میں ڈال دیتا ہے اور ابھی تک تمہیں اسی حالت میں رکھے ہوئے ہے، وہ جس کی لگن تمہیں "پیغام" نہيں سننے دیتی، کہ تم حقیقت کا اعتراف کرسکو، وہ جو تمہیں "فرار" کی دعوت دیتا ہے، وہ جو تمہیں "مصلحت پسندانہ تاویل و توجیہ" کی طرف کھینچ لیتا ہے، اور اس کا عشق تمہیں اندھا اور بہرا کر دیتا ہے؛ اس سے رہائی حاصل کرو۔ تم ابراہیم ہو اور اسماعیل کی محبت تمہیں ابلیس کا بازیچہ بنانا چاہتی ہے۔

تم شرف کی بلند چوٹی پر ہو اور سراپا فخر و فضیلت ہو، تمہاری زندگی میں صرف ایک چیز ہے جس کے حصول کے لئے بلندیوں سے پستیوں میں اترتے ہو، اس کو نہ کھونے کی کوشش میں اپنی تمام ابراہیمانہ حصول یابیوں کو کھو دیتے ہو، وہ تمہارا اسماعیل ہے، تمہارا اسماعیل ممکن ہے کہ ایک شخص ہو، ایک شیئے ہو یا ایک کیفیت ہو، ایک وضع یا حتیٰ کہ ایک کمزور نقطہ (Weak Point)!

لیکن اسماعیل فرزندِ ابراہیم تھا، سن رسیدہ مرد، ایک صدی پر محیط کشمکش اور حرکت و جدوجہد سے بھرپور زندگی، سب بے وطنی اور جنگ و جہاد اور کوشش اور قوم کے جہل اور نمرود کے ستم کے ساتھ مسلسل جھگڑوں، بت پرستی اور خرافہ پرستی اور ستارہ پرستی اور زندگی کی شدت کا مسلسل سامنا کرنے کے بعد۔ ایک حریت پسند نوجوان ایک متعصب اور بت پرست اور بت تراش مرد کے گھر میں، جو سرپرست ٹہرا تھا ابراہیم کا! اور اس کے گھر میں ایک بانجھ، متعصب اور اشرافی عورت بحیثیت شریک حیات: سارہ!

اور اب رسالت توحید کے بھاری بوجھ تلے، شرک کے جور اور جہل کے نظام میں، اور ایک صدی تک "لوگوں کو روشن اور آزاد کرنے کی ذمہ داری" کی سختیاں برداشت کرنا، "عصرِ ظلمت میں ظلم کی عادت پانے والی قوم کے ساتھ"، بوڑھا ہوچکا ہے اور بالکل تنہا اور نبوت کی بلند چوٹی پر بھی آخر کار ایک بشر ہی کے طور پر باقی رہا ہے اور اپنے عظیم خدائی مشن کی انتہا پر صرف "ایک بندہ خدا"، ایک بیٹے کا باپ بننا چاہتا ہے، مگر بیوی بانجھ ہے اور خود بھی بوڑھا ہے 100 سال سے اوپر کا، آرزومند ضرور ہے مگر زیادہ پرامید نہیں ہے، حسرت اور مایوسی اس کی جان کو کھائے جارہی ہے۔ 

خدا اس رسول امین اور وفادار بندے کے بڑھاپے، مایوسی، تنہائی پر ترس کھاتا ہے جس نے اپنی پوری عمر اس کی راہ میں کام کرکے گذار دی ہے اور ایک سارہ کی سیاہ فام کنیز "ہاجر" سے اس کو ایک ایک فرزند عطا کرتا ہے؛ وہ بھی ایک بیٹا! اسماعیل؛ اسماعیل ابراہیم کے لئے، ایک باپ کے لئے صرف ایک بیٹا ہی نہیں ہے، ایک عمر انتظار کی انتہا کی حیثیت رکھتا تھا، ایک صدی محنت اور رنج و مشقت کی پاداش تھا، ایک مہم جویانہ زندگی کا ثمرہ تھا، ایک بوڑھے باپ کا اکلوتا نوجوان بیٹا اور ایک خوبصورت نوید، ایک تلخ نا امیدی کے بعد۔

اور اب باپ کی آنکھوں کے سامنے ـ آنکھیں جو سفید ابرؤوں اور بھنؤوں تلے خوشی سے چمک رہیں تھیں ـ محبت اور مہربانی کی بارش اور باپ کے عشق کی آفتاب کے سائے تلے، جس کی جان اس کے وجود سے وابستہ ہے، فخر کرتا ہے اور باپ، ایک باغبان کی مانند جو اپنی حیات کے وسیع و عریض اور جلے ہوئے ریگستان میں، گویا اپنی آنکھیں اپنے نونہال پر جمائے ہوئے ہے، گویا اس کے اگنے اور نشوونما پانے کا مشاہدہ کر رہا ہے، اور عشق کی شفقت اور امید کی حرارت کو اپنی جان کی اتہاہ گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔

ابراہیم کی طویل صعوبتوں اور خطروں سے بھرپور زندگی کے یہ ایام، جو زندگی کے آخری ایام ہیں، اسماعیل کا باپ ہونے کی لذت میں بسر ہورہے ہیں۔ بیٹا جس کے آنے کے لئے باپ نے 100 سال انتظار میں کاٹے ہیں اور وہ وقت آیا ہے جس کی توقع باپ کو ہرگز ہرگز نہ تھی!

اسماعیل، اب ایک برومند نہال بن چکا ہے، جانِ ابراہیم کی جوانی، ابراہیم کی پوری زندگی کا واحد ثمرہ، ابراہیم کا پورا عشق، پوری امید اور پورا پیوندِ لذت ابراہیم کے لئے! مگر ابراہیم خوشی کے ان ایام اچانک ایک صدا سنتا ہے:

"اے ابراہیم! اپنے دو ہاتھوں سے چھری اسماعیل کے گلے پر پھیر دو!

کیونکر ہو سکتا ہے کہ الفاظ کے ذریعے اس باپ پر اس الٰہی پیغام سے طاری ہونے والی  وحشت کی توصیف کی جاسکے؟ 

خدا کا خاضع بندہ ابراہیم، اپنی طویل عمر میں پہلی بار خوف و وحشت سے کانپتا ہے، رسالت کا فولادین ہیرو پگھلتا ہے، اور تاریخ کا عظیم بت شکن، ٹوٹ جاتا ہے، پیغام کے تصور سے، وحشت زدہ ہوجاتا ہے لیکن، فرمان، فرمان الٰہی ہے۔ جنگ! سب سے بڑی جنگ، جنگ اپنے اندر، جہاد اکبر! تاریخ کی عظیم ترین جنگ کا فاتح اب آشفتہ حالی اور لاچارگی کا شکار! جنگ، "خدا اور اسماعیل کے درمیان" ابراہیم کے اندر۔ 

"کَرَپان" یا "کَرَپَن" ، مہرپرستوں کے مسلک (یا میتھرازم Mithraism) کے علماء کا طبقہ تھا، یہ لوگ گائے یا بیل کی قربانی دیتے تھے اور قربانی کی اصطلاح بھی ان ہی (کَرَپان یا کَرَپَن) سے لی گئی ہے۔

گویا قربانی کی عید کی جڑیں ماقبل تاریخ میں پیوست ہیں۔ ابتدائی انسان فطرت کے ادراک سے عاجز ہے، خداؤں کا تَرَحُم پانے کے لئے حیوانات اور انسانوں کی قربانی دیتا ہے۔ یہ رسم تمام اقوام اور ادیان میں مختلف ناموں سے، موجود رہی ہے۔ اس طویل ترین انسانی رسم کو اسلام میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

مختلف دینی احادیث میں منقول ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں ایک بیٹا عطا ہؤا جس کا نام انھوں نے اسماعیل رکھا اور وہ ان کے لئے بہت عزیز اور گرامی تھا۔ لیکن کافی عرصہ بعد جب اسماعیل نوجوانی (یا ادھیڑ) عمر کے مرحلے میں تھے، خدا کی طرف کئی بار خواب کی صورت میں ایک پیغام نازل ہؤا اور بغیر دلیل بتائے حکم دیا گیا کہ اسماعیل (علیہ السلام) کو قربان کریں۔

انھوں نے طویل اندرونی کشمکش کے بعد آخرکار اپنے اپنی آنکھوں کے تارے کی طرف سے مخلصانہ موافقت حاصل کرنے کے بعد، انہیں لے کر اس مقام پر پہنچتے ہیں جس کا تعین خدا نے خود کیا تھا اور ابراہیم اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری کرتے ہیں لیکن قربانی کرتے وقت خداوند متعال نے نے ابراہیم کو اس امتحان میں کامیاب اور سربلند پاتے ہیں تو ایک بکرا یا مینڈھا ان کے لئے بھجوا دیتا ہے تا کہ ابراہیم ذبح کریں اس کو۔

فرمان خداوندی کی تعمیل کی راہ میں ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ ایثار اور یہ عشق، حجاج کے لئے ابدی فریضہ بن گیا کہ وہ آکر اسی دن اور اسی مقام پر قربانی دیں اور اس ذریعے سے یتیموں اور غرباء و مساکین کے لئے خوراک فراہم کریں۔ اس دن مستحب ہے کہ عید الضحیٰ کی نماز پڑھی جائے۔ نماز عید طلوع آفتاب سے ظہر تک پڑھی جا سکتی ہے اور دو رکعتوں پر مشتمل ہے۔

اس عید سے جو معنی پہلی نگاہ میں نظر آتے ہیں، ان تغیرات پر مشتمل ہیں جو انسان اپنی ظاہری صورت یا فطرت کے مناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ ظاہری آرائش جو نیا لباس پہننے کا موسم اور فطرت کی بہار ہے، اسی بنا پر عید کہلاتی ہے۔ 

امیر المؤمنین (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ جس دن انسان گناہ کی آلودگی سے دوچار نہ ہو وہ عید کا دن ہے کیونکہ بھونڈا پن انسانوں کے درمیان نزاع کا سب سے بڑا سبب ہے اور انسانوں کے اندرونی اور بیرونی سکون کو غارت کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو عید یعنی سکون، شادمانی اور سرور کے منافی ہے۔

دوسری طرف سے علم و معرفت کی جانب انسان کا سفر ہمیشہ سرور و نشاط کے ساتھ توأم ہے؛ خاص طور پر جب انسان ایک نئے معنی کو کشف کر دیتا ہے، ایک ناقابل بیان ابتہاج و سرور کی کیفیت اس کے وجود کا احاطہ کرتی ہے، یہ تازہ لمحہ عید کہلاتا ہے۔ 

بقول مولانا جلال الدین بلخی رومی: 

خويش فربه مي‌نماييم از پي قربان عيد

كان قصاب عاشقان بس خوب و زيبا مي‌كشد

[ہم] اپنے آپ کو چاق و فربہ کرتے ہیں عید کے دن قربان ہونے کے لئے

کیونکہ وہ عاشقوں کا، قصاب بہت خوب اور خوبصورتی سے، مار دیتا ہے

محبوب کے راستے میں قربان ہونا اور اپنے وجود کو اس کی راہ میں قربان کرنا، اہم ترین عمل ہے۔  

ان تمام تعریفوں میں عید، انسان کے لئے پائی جاتی ہے، یعنی ہم خاص حالات و کیفیات میں مبارک (با برکت) ہونے اور نو و تازہ ہونے کا احساس کرتے ہیں لیکن یہ تر و تازگی، یہ جدت کو ہمارے اپنے بارے میں بیان ہونے سے قبل، اس کے خالق و مالک یعنی خداوند عالم کی نسبت بیان کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ "بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ" ہے اور اپنی ذات با برکات کو "فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ" کے عنوان سے متعارف کرا چکا ہے اور دوسری طرف سے یہ طراوت اور تازگی پورے ملک و ملکوت میں جاری و ساری ہے۔ لہٰذا خداوند بزرگ و مبارک سے ہر لمحہ مبارک ہونے کا مزہ محسوس کیا جاسکتا ہے، اسی بنا پر اگر عید ہے تو اس کا تعلق خدا سے ہے نہ کہ بنی آدم سے۔ اور یہ معنی عید کی دوسری تعاریف میں آنے والے معانی سے قدرے مختلف ہے؛ یہ ایک جوہری فرق ہے وہ یہ کہ اس تعریف میں محور و اساس رب متعال کی ذات با برکات ہے۔

 قربانی فداکاری، جان نثاری اور ایثار و قربانی اور محبوب کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کا رمز و راز اور معبود کے سامنے سر تسلیم مطلق  کی آخری حد ہے؛ یعنی اے رب متعال جس طرح کہ میں اس قربانی کا خون تیری راہ میں بہاتا ہوں، بغیر کسی تامل کے، تیرے دین کے تحفظ اور تیرے آسمانی فرامین کے نفاذ کی راہ میں اپنی جان کی بازی لگانے اور اپنا خون تیری بارگاہ میں جاری کرنے کے لئے تیار ہوں۔

جس وقت ایک حاجی کے ہاتھوں منیٰ کے مقام پر ایک جانور کو قربان کیا جاتا ہے قربانگاہ میں "بِسْمِ اللَّه وَاللَّهُ اكْبَرُ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ" کے روحانی نغمے کی گونج سنائی دیتی ہے جو دلوں میں دو یکتا پرست بندوں، دو مخلص بندگان خدا ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی یاد تازہ کرتی ہے۔

 بوڑھے والد، نورانی اور ملکوتی انسان جس کے پروقار اور پرسکون چہرے سے روحانی عظمت و جلالت کے آثار نمایاں ہیں، اپنے نوجوان اور خوش صورت فرزند کی بالین پر کھڑے، آستین چڑھاتے ہیں اور ایک تیز چھری اللہ کے غیبی حکم کی اطاعت کرتے ہوئے، اس کے گلے پر رکھ دیتے ہیں۔

بیٹا خوف و خطر کے بغیر، تسلیم و رضا کی حالت میں، بابا سے عرض کرتا ہے:

"يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ؛ اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے"۔

اور آخرکار ابراہیم(ع) اس عظیم امتحان و آزمائش سے سرخرو ہوکر عہدہ برآ ہوجاتے ہیں اور خدا کی راہ میں فداکاری اور اخلاص کے اس مرتبے پر فائز ہوتے ہیں کہ خداوند قدوس کا ارشاد ہوتا ہے:

"وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ؛ ۔ اور ہم نے ایک 'عظیم قربانی' سے اس کا فدیہ دیا"۔

چنانچہ خداوند متعال نے اس توحیدی یاد کی تکریم و تعظیم کی خاطر مقرر فرمایا ہے کہ ہر سال حج کے موسم میں حجاج منیٰ کے مقام پر ایک بکرا، بیل یا اونٹ ذبح کریں تا کہ وہ تابندہ اور پائندہ نظارہ نور کی مانند ہمیشہ کے لئے انسان کی تاریخ میں چمکتا رہے اور ان دو مخلص بندوں (ابراہیم اور اسماعیل) کی قربانی اور جان نثاری کی یاد انسانیت کے شرف و فضیلت کی نمائش کی ابدی دستاویز ٹہرے۔

لہٰذا مسلمانان عالم پر فرض ہے کہ عید کے دن عمومی اجتماعات بپا کریں، نماز عید ادا کریں اور خطبے پڑھ کر اس عید میں اس عظیم شرکت کی خبر دنیا والوں تک پہنچائیں اور اپنے اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے استکبار اور کفر و نفاق کے دلوں میں خوف و ہیبت ڈال دیں۔ ایک دوسرے کو غزہ جیسے عظیم مصائب کی یاددہانی کرائیں، اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی کی مذمت کریں، اور یاد رکھیں کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی عملی حمایت مسلمانوں کی عمومی ذمہ داری ہے، اور کسی بھی بہانے پہلے تہی کرنے سے ان کے کندھوں سے یہ ذمہ داری اتر نہیں جاتی۔

متعدد روایات میں مذکور ہے کہ عید الضحیٰ کے دن قربانی دو تاکہ بھوکے اور مساکین پیٹ بھر کر گوشت کھائیں؛ وہ جو مہینوں تک اپنے بال بچوں کے لئے گوشت خریدنے سے عاجز ہوتے ہیں، اس مبارک دن کو ـ جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے عید قرار دیا ہے اور بہت ہی مبارک دن ہے ـ خوش ہوجائیں اور کسی کا احسان برداشت کئے بغیر پیٹ بھر کر حلال گوشت تناول کریں۔

اور ہاں! یہ گھمنڈ، غرور اور تکبیر کا دن ہرگز نہیں ہے بلکہ تکبیر کا دن ہے، ایک جیتی جاگتی اور بولتی تکبیر، مستحکم اور جاندار و شاندار تکبیر کا دن، ایسی تکبیر جس کی گونج ظالموں اور جابروں کے محلات پر لرزہ طاری کرتی ہے اور ستم زدہ انسانوں کو شادماں کرے؛ ایسی تکبیر جو دشمنوں کو اسلام پر وار کرنے سے نا امید کر دے؛ اور ظالموں اور جابروں کو بدر و خیبر کی یاد دلا دے، ایسی تکبیر جو پوری امت کے سینوں سے اٹھے اور ان کی زبانوں پر جاری ہوجائے اور واضح کر دے کہ کسی مسلمان کی تکبیر کی صدا کسی اور مسلمان کی تکبیر سے مختلف نہیں ہے اور یہ تکبیر گناہ کو حلال نہيں کرتی اور مسلمان کا گلا کاٹتے ہوئے تکبیر کی صدا اٹھانا توہین ہے دین رحمت کی اور جفا ہے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر آؤ مل کر تکبیر کا نعرہ لگائیں تاکہ میرا دشمن، وہی دشمن جو تیرا بھی دشمن ہے، سمجھ لے کہ ہم ایک ہیں، تکبیر کی صدا اٹھا دیں فلسطین اور غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کی خاطر، ان کا خدا، تیرا خدا اور میرا خدا ایک ہے، ہم سب کا رسول ایک ہے اور کتاب ایک ہے اور قبلہ ایک ہے اور ہماری عید ایک ہے جب ہم عہد کرتے ہيں کہ آج اگر قربت رب کی خاطر جانوروں کی قربانیاں دے سکتے ہیں تو کل دین خدا اور کتاب خدا اور قبلہ کے دفاع کے لئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ دعا کریں اہل غزہ کو یہود و نصاریٰ کی بے شرمانہ سازشوں اور مسلمان حکمرانوں کی شکم پرستی اور بے شرمانہ خاموشی سے نجات ملے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110