7 جون 2024 - 21:05
طوفان الاقصی غاصب صہیونی ریاست پر کاری ضرب

صہیونی حکمرانوں نے غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کے بعد اعلان کیا کہ وہ تین اہم اور بنیادی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں: الف) حماس کا مکمل خاتمہ، ب) غزہ پر فوجی قبضہ اور ج) جنگ بندی کے بغیر اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی۔ لیکن اب تک وہ ان میں سے ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ | رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے 3 جون امام خمینی رح کی برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے طوفان الاقصی آپریشن اور مسئلہ فلسطین کے مستقبل پر اس کے اثرات کے بارے میں اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے کہا: “طوفان الاقصی آپریشن غاصب صہیونی ریاست پر فیصلہ کن ضرب تھی۔ حضرت امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ وہ خود میدان عمل میں حاضر ہو کر اپن حق حاصل کریں اور صہیونی ریاست کو پسپائی پر مجبور کر دیں۔ فلسطینیوں نے طوفان الاقصی میں دشمن کو دیوار سے لگا دیا ہے اور اس کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ طوفان الاقصی نے دشمن کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ غاصب صہیونی ریاست کی وحشیانہ جارحیت دراصل اپنے منصوبوں پر پانی پھر جانے کے بعد غصے میں ردعمل ہے۔” اس خطاب میں 5 اہم اور بنیادی نکات پائے جاتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

1۔ طوفان الاقصی، اسلامی مزاحمت کی تاریخ کا اہم موڑ

طوفان الاقصی فوجی آپریشن محدود اثرات کا حامل واقعہ نہیں تھا جس کے اثرات محدود حد تک اور عارضی ہوں بلکہ یہ اقدام مغربی ایشیا خطے، عالم اسلام اور بین الاقوامی نظام کے حالات میں ایک “اہم موڑ” تصور کیا جاتا ہے۔ طوفان الاقصی فوجی آپریشن نے غاصب صہیونی ریاست پر جو کاری ضرب لگائی ہے وہ یقیناً اسلامی مزاحمت کی تاریخ میں نیا باب کھل جانے کا باعث بنے گی۔ طوفان الاقصی فوجی آپریشن کے بعد والے حالات اور زمانے کے بارے میں تجزیہ و تحلیل اور پیشن گوئی واشنگتں اور تل ابیب کیلئے اس قدر ہولناک اور ڈرا دینے والی ہے کہ وہ اس کے بارے میں اظہار خیال نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

2۔ طوفان الاقصی کا نظریاتی پہلو

اسلامی مزاحمت نے غاصب صہیونی ریاست کے خلاف بے شمار فوجی کاروائیاں انجام دی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ طوفان الاقصی فوجی آپریشن، حکمت عملی اور فوجی مہارت کے لحاظ سے صہیونی ریاست کے خلاف اسلامی مزاحمتی کاروائیوں کی تاریخ کا پیچیدہ ترین اور بے عیب ترین فوجی آپریشن شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح طوفان الاقصی آپریشن کے نظریاتی پہلو سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ غاصب صہیونی ریاست نے اس عظیم شکست کا بدلہ لینے کیلئے 7 اکتوبر2023ء کے بعد اب تک غزہ میں فلسطینیوں کی قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن وہ اپنی شکست کا ازالہ نہیں کر پائی۔ ان آٹھ ماہ کے دوران غاصب صہیونی ریاست کی شکست کی اصلی ترین وجوہات میں سے ایک اسلامی مزاحمت اور طوفان الاقصی آپریشن کے نظریاتی پہلو کو نہ سمجھ پانا ہے۔

3۔ دنیا بھر میں صہیونیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ

صہیونی حکمرانوں نے غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کے بعد اعلان کیا کہ وہ تین اہم اور بنیادی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں: الف) حماس کا مکمل خاتمہ، ب) غزہ پر فوجی قبضہ اور ج) جنگ بندی کے بغیر اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی۔ لیکن اب تک وہ ان میں سے ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ ان اہداف کے حصول میں ناکامی اور غزہ میں خون کی ہولی کھیلنے کے باعث صہیونی ریاست ایک طرف تو میدان جنگ کی مغلوب طاقت بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف بین الاقوامی تعلقات عامہ کی تاریخ میں پہلی بار اس کے غیر قانونی اور ناجائز ہونے کے بارے میں عالمی اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں وسیع پیمانے پر یونیورسٹی طلبہ کی اسرائیلی مخالف احتجاجی تحریک کا آغاز اور دنیا کے پانچ براعظموں میں صہیونیوں کے خلاف بڑھتی نفرت اسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔

4۔ کیسویں صدی میں صہیونیوں کا روڈ میپ ناکام ہو جانا

طوفان الاقصی آپریشن نے اکیسویں صدی میں صہیونیوں کے روڈ میپ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ یہ روڈ میپ دو بنیادی عناصر پر استوار تھا: الف) صیہون دشمنی کو یہود دشمنی کے مساوی قرار دے کر نظریاتی اور نرم جنگ کے میدان میں غاصب صہیونی ریاست کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرنا اور ب) غزہ اور مغربی کنارے کو نابود کر دینا اور حتی اردن کے کچھ علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کر لینا تاکہ نیل سے فرات تک کے علاقے کو اسرائیل میں شامل کر کے گریٹر مڈل ایسٹ کا مقدمہ فراہم کیا جا سکے۔ امریکہ اور یورپی یونین ان دو پہلووں پر مشتمل اس خطرناک روڈمیپ کے اجرا میں صہیونیوں کے اصل حامی تھے۔ طوفان الاقصی آپریشن نے ان دونوں پہلووں میں صہیونی روڈ میپ کو شکست سے روبرو کیا اور اس کے حامیوں کو ناکام بنایا ہے۔

5۔  اپنی شکست پر غصے کی حالت میں ردعمل

طوفان الاقصی آپریشن میں غاصب صہیونی ریاست کو اسٹریٹجک، نظریاتی اور نرم جنگ کے میدان میں شدید شکست برداشت کرنا پڑی جبکہ اس کے بعد غزہ پر فوجی جارحیت میں بھی شکست کا سامنا کرنے پر صہیونی ریاست کو اب تک بھاری تاوان ادا کرنا پڑا ہے۔ اب صہیونی ریاست کے پاس صرف دو راستے بچے ہیں: ایک یہ کہ اپنی ہمہ جہت شکست قبول کر کے اس کے وسیع تر منفی اثرات کو قبول کر لے اور دوسرا جنگ جاری رکھنے پر اصرار کے ذریعے اپنی شکست کے نقصانات میں مزید اضافہ کرتا چلا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں راستے غاصب صہیونی ریاست کے زوال اور حتمی نابودی کی جانب بڑھنے پر منتج ہوں گے۔ ایسے حالات میں ہر وقت سے زیادہ غاصب صہیونی ریاست میں بے چارگی اور مایوسی کی علامات دکھائی دے رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: ڈاکٹر محمد مہدی ایمانی پور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110