اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
لگتا ہے کہ اب جبکہ غزہ پٹی پر غاصب صہیونی ریاست کے حملوں کے شہداء کی تعداد 10000 سے بڑھ گئی ہے اور یہ ریاست اب تک کوئی بھی فوجی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، تو امریکیوں نے مختلف النوع جھوٹی افواہیں اخبارات و جرائد کے توسط سے شائع کروانا شروع کی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا صرف ایک دن قبل کہا کہ امریکیوں کے طرف سے موصول ہونے والے خفیہ پیغامات موصول ہو رہے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ واشنگٹن غزہ میں جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف سے امریکی وزارت خارجہ کا ترجمان اس بات کو جھٹلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے اسرائیل پر اس حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا! جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افواہ پھیلانے کے ساتھ ساتھ مقاومت غزہ کے حامیوں کو ورغلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، تاکہ زیادہ بہتر انداز سے صہیونیوں کی مدد کر سکیں۔
واشنگٹن کی جھوٹی تشہیری مہم کہتی ہے کہ غزہ کی جنگ کے سلسلے میں بنیامین نیتن یاہو اور جو بائیڈن کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے، اور ان افواہوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ واشنگٹن کو جنگ اور نسل کُشی کے نتائج و اثرات سے بری الذمہ قرار دیا جا سکے!
اسی اثناء میں ـ جبکہ غزہ پر جارحیت کے حوالے سے بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان اختلافات کی افواہیں امریکی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہیں ـ ہم عملی میدان میں ایسے واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جو نہ صرف ان افواہوں کے جھوٹے پن کو آشکار کر دیتے ہیں بلکہ ان واقعات سے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان مکمل ملی بھگت، گٹھ جوڑ اور ہم آہنگی نیز اس جنگ میں امریکہ کے براہ راست کردار کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔
کل ہی کی بات ہے کہ امریکہ کی مرکزی کمانڈ نے اعلان کیا کہ "اوہایو جوہری آبدوز" مشرق وسطیٰ میں پہنچ گئی ہے تا کہ جیرالڈ فورڈ اور آیزن ہاور نامی طیارہ بردار بحری جہازوں سے جا ملے! امریکہ نے جو جنگی جہاز علاقے کے پانیوں میں بھجوائے ہیں، ان کا مقصد پہلے ہی، غزہ پر جارحیت میں صہیونی ریاست کی معاونت، بیان کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110