16 اپریل 2022 - 11:19
امام حسن مجتبیٰ ؑکی سخاوت و بردباری : ایک تعارف

اسلامی منابع میں امام حسن ؑ کو بخشنے والا اور کشادہ دل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اسی لئے آپ ’’کریم‘‘ ، ’’سخیّ‘‘ اور’’جواد‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔منابع میں آبا ہے کہ آپ نے دو دفعہ اپنی پوری جمع پونجی خدا کی راہ میں بخش دی اور تین دفعہ اپنی جائداد کا نصف حصہ غریبوں میں تقسیم فرمایا۔

بقلم برکت حسین پرہ
ریسرچ اسکالر، شعبہ ایجوکیشن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حسن بن علیؑ امیر المومنین علی بن ابی‌ طالبؑ و حضرت فاطمہؑ کے بڑے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔[1]آپ کا نسب بنی ‌ہاشم اور قریش تک جا ملتا ہے۔ عربی زبان میں ’’حَسَن‘‘نیک اور اچھائی کے معنی میں آیا ہے اور یہ نام آپ کے نانا نے آپ کیلئے انتخاب کیا تھا۔ بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے یہ نام خدا کے حکم سے رکھا تھا۔[2,3] ۔حسن اور حسین عبرانی زبان [4]کے لفظ ’’شَبَّر‘‘ اور ’’شَبیر‘‘(یا شَبّیر)،[5] کے ہم معنی ہیں جو حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام ہیں۔[6] اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔[7] آپؑ کی کنیت ’’ابو محمد‘‘ اور ’’ابو القاسم‘‘ ہے۔[8] آپ کے القاب میں مجتبی (برگزیدہ)، سَیّد (سردار) اور زَکیّ (پاکیزہ) مشہور ہیں۔[9] آپ کے بعض القاب امام حسینؑ کے ساتھ مشترک ہیں جن میں ’’سیّد شباب اہل الجنۃ‘‘، ’’ریحانۃ نبیّ اللہ‘‘[10]اور ’’سبط‘‘ہیں۔[11] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے: ’’حسن‘‘ اسباط میں سے ایک ہیں۔[12] آیات و روایات کی رو سے ’’سبط‘‘ اس امام اور نَقیب کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کی نسل اور خدا کی طرف سے منتخب ہو۔یعقوبی کے بقول حسن بن علیؑ شکل و شمائل اور سیرت میں رسول خداؐ سے بہت زیادہ شباہت رکھتے تھے۔ [13,14]
امام کی بردباری : اسلامی منابع میں آپ کی بردباری کی وجہ سے آپ کو ’’حلیم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔[15] بعض اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ مروان بن حکم جو آپ کا سرسخت دشمن ہونے اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کے پہلو میں دفنانے نہ دینے کے باوجود آپ کی تشییع جنازہ میں شرکت کر کے آپ کی تابوت کو کاندھا دیا۔ جب اس حوالے سے اس پر اعتراض کیا گیا کہ تم زندگی میں انہیں تنگ کرتے تھے ابھی کیوں ان کے تابوت کو کاندھا دے رہے ہو تو اس نے کہا میں نے ایک ایسی شخصیت کو تنگ کیا ہوں جس کی بردباری پہاڑ کی مانند تھی۔[16] کہا جاتا ہے کہ شام کے ایک باشندے نے جب امام حسنؑ کو دیکھا تو آپ کی شان میں گستاخی کی۔ جب وہ شخص خاموش ہوا تو امام حسن مجتبیؑ نے اسے سلام کیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: لگتا ہے کہ تم اس شہر میں اجنبی ہو۔ تمہاری جو بھی خواہش ہو میں اسے پورا کرونگا۔ اس پر وہ شخص روتے ہوئے کہنے لگا خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے سپرد کرنا ہے (یعنی وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ امام حسنؑ پیغمبر اکرمؐ کے فرزند ہیں اور خدا کو معلوم تھا کہ نبوت کو کس خاندان میں قرار دینا تھا)۔ [17]
ہم اکثر اس نایاب گوہر سے محروم ہیں۔ ہمارے گھروں میں اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تو تو میں میں ہوتی رہتی ہے۔ والدین بچوں کی بات برداشت نہیں کر پاتے اور بچے والدین کی۔ اسی طرح معاشرے میں ہم اپنی جھوٹی شان و شوکت کو برقرا رکھنے میں اخلاقی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اگر ہم امام کی اس سیرت طیبہ کو صرف ۵ فیصدی اپنے طرز عمل میں اپنائے تو یقین کرے ہماری زندگی کے بہت سارے سماجی مسائل اپنے آپ حل ہو جائے گے۔ آج رمضان کا مہینہ ہے ۔ عزیزان اگر ہم کوشش کرے کہ اپنے گھریلوں کاموں میں اپنے بہنوں، بیٹیوں، اور ماؤں کا تھوڑا ہاتھ بٹائیں۔ اس سے نہ صرف ہماری خواتین کی عزت نفس بڑھ جائے بلکہ معصومین ؑ کی روایات کے مطابق یہ جہاد میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہماری خواتین گھر والوں کے لئے سحر ی اور افطاری کی تیاری میں مشکل سے نماز پڑھ پاتی ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا تو دو ر کی بات ہے۔ آپ میری بات سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن یہ کہنا ضرور چاہوں گا کہ گھریلوں کام میں ہاتھ بٹانا معصومین ؑ کی سنت و سیرت میں ہے۔ امام علی ؑ اکثر جناب فاطمہ الزاہرا ؑ کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ جب کائنات کے امام اس کام کو اپنا فرض سمجھتے تھے تو ہم کیوں ننگ و عار محسوس کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہے کہ اس سے ہمارے عزت میں کمی آجائے گی۔ عزیزان قرآن مجید بہار قرآن کا مہینہ ہے۔ ماشااللہ آپ سب کم سے کم دو تین یا ایک ختم قرآن تو کرتے ہی ہوں گے۔ کیاخواتین کو حق نہیں کہ وہ بھی اس شہر اللہ میں اللہ کے کتاب کی تلاوت کرے۔ لہذا ہمیں اپنے اندر برباری لانے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر کے انا اور ضد کو چھوڑ کر صرف زبان سے صلوات ادا کرنا محبت اہلبیت نہیں ۔ بلکہ ا ن کی سیرت کو اپنا آیئڈل مان کر اسی تربیت پر اپنے نفس کی تربیت کرنا ہی محبت اہلبیت ہے۔ امام حسن مجتبیٰ کی پوری زندگی بربادری اور حلم سے بھری ہوئی تھی۔ وہ اپنے گھروالوں، غلاموں اور کنیزوں حُسن سلوک سے پیش آتے تھے۔
امام کی سخاوت: اسلامی منابع میں امام حسن ؑ کو بخشنے والا اور کشادہ دل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اسی لئے آپ ’’کریم‘‘ ، ’’سخیّ‘‘ اور’’جواد‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔[18]منابع میں آبا ہے کہ آپ نے دو دفعہ اپنی پوری جمع پونجی خدا کی راہ میں بخش دی اور تین دفعہ اپنی جائداد کا نصف حصہ غریبوں میں تقسیم فرمایا۔[19]مناقب ابن شہر آشوب میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی شام سفر کے دوران معاویہ نے بہت سارا مال آپ کی خدمت میں بھیجا۔ جب آپ معاویہ کے پاس سے باہر تشریف لائے تو ایک خادم نے آپ کے جوتے کی مرمت کی۔ امام نے وہ سارا مال اس خادم کو بخش دیا۔[20]لوگوں کی مالی مدد کے حوالے سے بھی مختلف واقعات نقل ہوئی ہیں، اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپ دوسروں کی حاجت روائی کیلئے اعتکاف اور طواف کو ناتمام چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور اس کام کی علت بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث کی طرف اشارہ فرماتے تھے جس میں آپؐ نے فرمایا: جو شخص کسی مؤمن بھائی کی ضروریات پوری کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو سالوں سال خدا کی عبادت میں مشغول ہے۔[21]کہا جاتا ہے کہ ایک دن مسکینوں کے قریب سے آپ کا گذر ہوا جو خشک روٹی کے ٹکڑے کھا رہے تھے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو آپ کو دعوت دی تاکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر تناول فرمائے۔ آپ گھوڑے سے نیچے آئے اور ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ساتھ غذا تناول فرمایا اور سب سیر ہو گئے۔ اس کے بعد ان مسکینوں کو اپنی دولت سرا آنے کی دعوت دی اور انہیں کھانا اور لباس عطا فرمایا۔[22]نیز منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ کے کسی خادم سے کوئی خطا سر زد ہونے کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق قرار پایا۔ اس خدمتکار نے امام حسنؑ سے کہا: ’’و العافین عن الناس‘‘ اس پر آپؑ نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ خدمتکار نے مزید کہا:’’و الله یحب المحسنین‘‘ امام حسن مجتبی نے فرمایا: میں نے تمہیں خدا کی راہ میں آزاد کر دیا اور تمہاری مزدوری کے دو برابر تمہیں بخش دیتا ہوں۔[23]
اوپر دیئے گئے حقائق کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ تربیت کا اخلاقی پہلو ہی در اصل انسانی پہلو ہے۔ امام کی حیات طیبہ اور ان کے اخلاق حسنہ کو مد نظر رکھ کر ہمیں اپنے گھریلوں تربیت کے اصول ترتیب دینے پڑے گے۔ کیونکہ تعلیم و تربیت میں سیرت ائمہ ؑ کے اطلاق سے ہی ہم گوہر انسانیت سے سر شار ہوسکتے ہیں۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ کم سے کم ہر امام کی ایک ایک اخلاقی پہلو یا خصوصیت پہ عمل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ یہی چیز آگے جاکے ہمارے مستقبل کے لئے سرمایہ نجات کا پیش خیمہ ہے۔ خصوصاً اس حوالے سے والدین کی بڑی ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ خود کو اور اپنی اولاد کو سیرت اہلبیت سے آشنا کرے۔ کیونکہ اہلبیت کی سیرت میں قرآن و تعلیمات الہیٰ کے اصول عملاً کارفرماں نظر آتے ہیں۔ ہر امام نے اپنے اپنے زمانے اور حالات کے اعتبار سے ان تعلیمات پر قرآن کی روشنی میں عمل کی ہے۔ اگر اہلبیت کے مصائب پہ صرف رونا کافی ہوتا ہے تو پھر کوفی و شامی سب سے زیادہ رونے والے تھے۔ مصائب پہ رونا اپنی جگہ درست ہے لیکن معرفت کے ساتھ رونا ہماری زندگی کی تاریکیوں کو اجاکے میں بدل دے گی۔ لہذا رونے کے ساتھ ساتھ اہلبیت کی سیرت پہ عمل کرنا اور ان کی شان و فضیلت کو درک کرنا حقیقی عزادار اور محب اہلبیت کی پہچان ہے۔ خداوند ہم سب کو سیرت اہلبیت ؑ پہ چلنے کی توفیق عطا کرے۔
ماخذ:
1. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۔
2. ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۳۔
3. ابن حنبل، المسند، دار صادر، ج۱، ص۹۸، ۱۱۸؛ کلینی، الکافی، بیروت ۱۴۰۱، ج۶، ص۳۳ـ۳۴
4. ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۳، ص۳۹۷؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ص۲۴۴۔
5. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۳۹۳؛ زبیدى، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۴۔
6. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۱۷۱۔
7. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۹۶۸م، ج۶، ص۳۵۷؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، بیروت، ج۲، ص۱۰۔
8. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۴۴، ص۳۵۔
9. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۹۔
10. ابن صباغ مالکی، الفصول المہمۃ، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۷۵۹۔
11. قندوزی، ینابیع المودۃ، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۱۴۸۔
12. ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
13. ری شہری، دانشنامہ امام حسین، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۷۴-۴۷۷۔
14. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۲۶.
15. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۴؛ اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۱۶۔
16. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۴۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۹۔
17. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
18. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶۷؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ۳۵۴۔
19. ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۹۔
20. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۶؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
21. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۹؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۹۰۔
22. ابن شہر آشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۱۸۔
23. اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۲۳۔
24. ویکی شعیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242