اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

20 نومبر 2018

5:22:47 PM
917444

کرس ہیجز:

ڈونلڈ ٹرمپ ایک شکست خوردہ جمہوریت کی پیداوار/ امریکی ڈھانچہ زوال کا شکار

جس معیار کے مطابق بھی حساب و کتاب کریں، لگتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس ملک میں دولت اور آمدنی کے لحاظ سے معاشرتی طبقات کے درمیان عدم مساوات دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امریکی دانشور  کرس ہیجز (1) کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ڈھانچہ زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ تنہائی اور خودکشی نے وبا کی صورت اختیار کی ہے۔ صارفیت (2) نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔
جس معیار کے مطابق بھی حساب و کتاب کریں، لگتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ ایک بیمار معاشرہ ہے۔ اس ملک میں دولت اور آمدنی کے لحاظ سے معاشرتی طبقات کے درمیان عدم مساوات دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ امریکہ کا شمار دنیا کے صاحب ثروت ممالک کے زمرے ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ان ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں نوزائیدہ بچوں کی موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے بڑی عمر کے افراد کے درمیان بھی غربت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کا نظام بھی ناقص اور ناکافی ہے اور متوقع عمر کا رجحان کمی کی جانب ہے۔ ریاست ہائے متحدہ میں اسلحہ کے ذریعے قتل عام اور قیدیوں کی شرح تمام ممالک سے زیادہ ہے۔
امریکہ کے ڈھانچے تباہی اور شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی اداروں میں ایک گہرا اعتقادی بحران جاری و ساری ہے۔ یہاں بڑی بڑی کمپنیوں کو مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل رہتی ہے اور یہ کمپنیاں ماحولیات کو مکمل طور پر تباہ کررہی ہیں۔ تنہائی اور خودکشی کے رجحانات نے وبائی صورت اختیار کرلی ہے، صارفیت نے جمہوریت اور بامعنی اور بامقصد شہریت اور شراکت داری کی جگہ لے لی ہے۔ منافرت پھیلانے والے سفید فام گروہوں اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے حالیہ چند عشروں میں سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا یا زخمی کیا ہے۔ امریکہ کے اشرافیہ (3) افراد اور دانشور و سیاستدان عوام سے مکمل طور پر دور اور ان کی رسائی سے خارج ہیں اور عوامی مطالبات سے لا تعلق ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک دیوالیہ جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن یہ ثقافتی اور تہذیبی بیماری اور یہ مرض ڈونلڈ ٹرمپ کا پیدا کردہ نہیں ہے؛ گوکہ ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا امریکہ کے تمام مسائل اور مشکلات کی علامت ہے جو انسانی ہیئت میں مجسم ہوئی ہے؛ لیکن وہ ہماری سماجی بیماری کی ایک نشانی ہے اور اس بیماری کا اصل سبب نہیں ہے۔
کرس ہیجز پولیٹزر انعام (4) یافتہ صحافی ہیں جنہوں نے امریکہ کی سماجی اور ثقافتی بیماریوں کے بارے میں تحقیق کے سلسلے میں کئی برسوں سے مختلف قسم کے معاشروں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی کتاب "امریکہ: الوداعی سیاحت" (5) میں امریکی معاشرے میں گذشتہ کئی عشروں سے انجام پانے والے غلط اقدامات کا جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے ہم امریکیوں کو اس مقام پر پہنچایا گیا ہے کہ کہ کروڑوں امریکی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے لئے ٹرمپ جیسے مطلق العان شخص کو ووٹ دیتے ہیں!
کیا امریکہ کو نجات دلانا ممکن ہے؟ کیا جمہوریت میں امریکی تجربہ ناکام ہوچکا ہے؟ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ آج عیسائی فاشیت (6) اور کمپنیوں کی مادر پدر آزاد طاقت امریکی سپنے (7) کی ویرانی اور عوامی مفادات اور مصلحتوں کی نابودی کے لئے متحدہ ہوچکی ہیں؟ کیا امریکی عوام جمہوریت اور زیادہ صحتمند معاشرے کی بازیابی کے لئے اٹھیں گے؟
ہیجز مذکورہ بالا نئی کتاب کے علاوہ کئی دوسری اور بہت زیادہ بکنے والی کتب کے خالق اور انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی کاوشوں میں "وہم کی سلطنت: خواندگی کا خاتمہ اور سٹہ بازی کی فتح" (8)، "لبرل طبقے کی موت" (9)، "جنگ وہ طاقت ہے جو ہمیں بامعنی بنا دیتی ہے" (10)، "امریکی فاشسٹ: دائیں بازو کے عیسائی اور امریکہ کے خلاف جنگ" (11) اور "تباہی کے دن اور بغاوت کے دن"، (12) جیسی کتابیں شامل ہیں۔
ہیجز نیویارک ٹائمز، (13) کرسچئین سائنس مانیٹر، (14) اور این پی آر (15) کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت ٹروتھ ڈگ (16) نامی اخباری اور تجزیاتی ویب سائٹ کے قلمکاروں میں شامل ہیں۔
انٹرویو لینے والا: چاؤنسی ڈی ویگا (17)
انٹرویو دینے والا: کرس ہیجز
انٹرویو کا متن:
س: ڈونلڈ ٹرمپ تقریبا دو برسوں سے صدر ہیں، اس عرصے میں حالات توقع سے بہتر ہوئے ہیں یا بد تر؟
جواب: حالات بد تر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے مکمل جنگجو اور نفرت انگیز شخصیت رہا ہے۔ لیکن حتی میں اس تصور کے باوجود میں بھی یہ پیشنگوئی کرنے سے عاجز تھا کہ وہ اس قدر برا ہوگا۔ وہ بھی اور موجودہ صورت حال بَگ ٹُٹ اور ٹرمپ مکمل طور پر بے لَگام ہے۔ آپ ـ ریاست ہائے متحدہ میں سیاسی مباحثے کو کمزور کرنے سمیت ـ تفاعلی جمہوریت (18) کے لئے جو بھی معیار مد نظر رکھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے حقیقتاً زوال اور تنزلی کی اس رفتار کو تیزتر کردیا ہے۔ وہ یوں کہ اس نے بڑے سرمایہ داروں کے ٹیکس میں کمی کردی، کوئلے اور رکازی یا حیاتیاتی ایندھن (19) کی دوسری قسموں کو قوانین و ضوابط کی قید سے آزاد کیا، عوامی اراضی کے استعمال کو مجاز قرار دیا، سرکاری تعلیم و تربیت پر حملہ کیا، ماحولیات کے تحفظ کے ادارے کو ناکارہ بنا دیا اور ملکی عدالتوں کو وفاق پرَست انجمن (20) کے نظریہ پردازوں (21) سے بھر دیا؛ یا یوں کہئے کہ مسٹر ٹرمپ کے آنے کے بعد صورت حال بہت زیادہ خوفناک ہوچکی ہے۔
س: ڈونالڈ ٹرمپ کی ظہور پذیری اور ان لوگوں کا برسراقتدار آنا جن ہی وہ نمائندگی کررہا ہے، میرے خیال میں حیران کن نہيں ہونا چاہئے تھا۔ یہ بحران کئی عشروں سے تشکیل پا رہا تھا؛ اس کے باوجود سرمایہ داروں اور کمپنیوں سے وابستہ امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپزم کے ساتھ بدستور ایک حیران کن اور غیرمتوقعہ واقعے کے طور پر پیش آرہے ہیں۔ زیادہ تر ذرائع ابلاغ ٹرمپ اس کی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے نمائندگی کے سلسلے میں حقائق بیان کرنے کی طرف راغب نظر نہیں آرہے ہیں۔
جواب: متعدد دہائیوں سے یہ صورت حال بن رہی اور تشکیل پا رہی تھی۔ میرے خیال میں ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ابلاغی سرگرمیوں کا محرک وہی محرک ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کو مال کمانے اور پیسہ بنانے کی ترغیب دلاتا ہے اور ٹرمپ ایک ایسے غیر صحتمند اور بیمار تفریح کا حصہ ہے جس نے اس وقت ابلاغیات کی جگہ لے لی ہے۔ مثال کے طور پر آپ سٹارمی ڈینیل (22) اور اس کے وکیل سے متعلق مسائل کو دیکھ لیں، یہ خبریں نہیں ہیں۔ یہ سطحی تشہیرات کا تبادلہ ہے۔ یہ ایک قسم کی تفریح ہے۔ یہ عمل کمپنیوں کی دولت کا خزانہ بھرنے کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سی این این (23) نے گذشتہ سال سب سے زیادہ آمدنی کمائی: ایک ارب ڈالر۔ یہ عمل منافع کمانے کے لئے اچھا ہے، ٹیلی وژن کی درجہ بندی (24) کے لئے بھی اچھا ہے لیکن صحافت کے لئے اچھا نہیں ہے۔ یہ اعمال در حقیقت منافع پرستی کے چہرے پر نقاب کے مترادف ہیں۔ دیکھ لیں ان لوگوں کو جو کیبل ٹیلی ویژن چینلز کے لئے نیوز پروگرام تیار کرتے ہیں، دیکھ لیں یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ یہ پروگرام سیاسی میدان کے اشرافیہ کے مفاد کے لئے بنائے جاتے ہیں: پرانے اور مستحکم بنیادوں پر استوار سیاستدان یا سیاستدانوں کے لئے، ایک سابق جرنیل یا کئی سابق جرنیلوں کے لئے جو اسلحہ اور فوجی سازوسامان بنانے والی بڑی امریکی کمپنی "ریتھیون کمپنی" (25) یا دوسری کثیرالقومی دفاعی کمپنیوں کے لئے کام کررہے ہیں؛ جاسوسی اداروں کے سابق سربراہ یا سربراہوں کے لئے، سی آئی اے (26) کے سابق سربراہ جان او برینن (27) کے لئے، جو ان دنوں ایم ایس این بی سی (28) کا تنخواہ دار شراکت دار ہے۔
یہ مقرر شدہ وکالت کرنے والوں کی تصدیق شدہ آوازیں ہیں جنہوں نے امریکہ میں کمپنیوں کی بغاوت (29) کو عملی جامہ پہنایا ہے جس کے بارے میں وہ ابھی تک اس کے بارے میں بیان بازیاں کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد جو واقعہ رونما ہوا وہ ان کے لئے ایک بڑا غیر متوقعہ واقعہ تھا، کیونکہ وہ عملی طور پر ریاست ہائے متحدہ میں زندگی بسر نہیں کررہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایسے ملک میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کو [نیویارکر (30) کے مطابق] ثروتستان (31) کہنا چاہئے۔ یہ مراعات یافتگان ان تمام بلاؤں اور مصیبتوں سے پوری طرح محفوظ ہیں جو انھوں نے نولبرل (32) اور صنعتی انہدام کاری (33) پر اصرار کرکے امریکہ اور پوری دنیا پر مسلط کی ہیں۔
وہ معاشرے ـ اور بالخصوص مزدور طبقے کے ـ اس غیظ و غضب کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں جو امریکی معیشت اور وسیع سطح پر امریکی معاشرے کے نظم و ترتیب میں ان کے اقدامات سے جنم لینے والی خلل اندازی کے نتیجے میں ابھرا ہوا ہے۔
آپ کے پاس ایک ڈیموکریٹ جماعت ہے جو ہر وقت ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی (34) یا جان پوڈسٹا (35) کے ایمیل پیغامات یا ویکی لیکس (36) یا روس کے بارے میں مسلسل بولے جارہی ہے، بغیر اس کے کہ اصل موضوع کے پر غور کرے جو کہ وہی وسیع اور ناقابل یقین سماجی عدم مساوات ہے۔ ڈیموکریٹ جماعت بھی اس عدم مساوات کا ایک سبب ہے اسی بنا پر اس کے بارے میں بولنے سے گریز کرتی ہے۔ ڈیموکریٹ جس قدر بھی اپنے آپ کو یقین دہانی کرائیں کہ ٹرمپ آخرکار اندر ہی سے پھٹ کر دھماکے سے اڑ جائے گا، اور جس قدر بھی اس بات پر یقین کرنا چاہیں کہ روس دو سال قبل کی صدارتی انتخابات کا اصلی قصوروار ہے، صورت حال مزید خطرناک ہوجائے گی۔ ڈیموکریٹ اصلی اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دیئے بغیر روس جیسی بیرونی طاقتوں کو شیطان کی صورت میں مجسم کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ بنیادی مسئلہ وہ ہے جو امریکی تاریخ میں دولت کی اعلی طبقوں کی طرف عظیم ترین منتقلی کا سبب بنا ہوا ہے اور کمپنیوں کی بنیاد پر قائم زر پرست اشرافیہ کے ایک گروہ کو جنم دے چکا ہے جو اس نقطے پر امریکہ کے سنہری دور (37) کے اشرافیہ سے بدتر ہیں۔
س: اس صورت حال میں تفریح اور کھیل تماشوں کا کیا کردار ہے؟
جواب: سیاسی انتخابات ایک قسم کی تفریح میں بدل چکے ہیں۔ سیاسی افراد اپنی تیار کردہ  شخصیت کے ساتھ، مشہور اشخاص (38) میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اور سیاست کا مقصد ہمیں اس طرح سے تیار کرنا ہوتا ہے کہ کسی نامزد امیدوار کے بارے میں کس طرح کا احساس پیدا کریں۔
یہ عمل ٹرمپ سے پہلے، مدتوں سے جاری ہے۔ ایسی بنا پر آپ کے پاس این بی سی (39) جو اپرینٹس (40) کے عنوان سے ٹرمپ کے لئے ایک افسانوی تصویر کی تخلیق کرتا ہے۔ ٹرمپ اس پروگرام کے ذریعے اپنے آپ کو نیویارک میں تعمیرات کے شعبے کے ارب پتی ٹھیکدار کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے لیکن وہ در حقیقت ان افراد میں سے ہے جو ٹیلی ویژن کی پیداوار ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ حقائق کو ٹیلی ویژن کیمرے کے عدسوں سے دیکھتا ہے اور اسی ذریعے سے وہ وہ امریکی معاشرے کے اس زمانے کی روح کے ساتھ رابطے میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس طرح اس معاشرے کی زبان میں بات کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بیشتر تخمینوں کے مطابق روزانہ 4 یا 5 گھنٹے ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ کر ٹویٹر پر پیغامات نشر کرتا ہے۔ اسی بنا پر، جی ہاں! ٹرمپ ایک علامت اور ایک نشانی ہے، اور نہ ایک بیماری (مرض)۔ وہ ایک شکست خوردہ جمہوریت کی پیداوار ہے۔ سیاسی نظریہ پرداز اور فیلسوف شیلڈن وولین (41) نے اس موضوع اپنی کتاب "انکارپوریٹڈ جمہوریت" (42) نامی کتاب میں اس کی وضاحت کی ہے۔
وولین نے واضح کیا ہے کہ کوئی امریکہ میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو معتبر انداز سے جمہوری صورت میں باقی ہو۔ جو کچھ باقی ہے وہ یہ تفریح (43) ہے جو سیاست کے شعبے میں داخل ہوئی ہے۔ یہ ہیرا پھیری "تعلقات عامہ کی صنعت" اور اس نظام کے ذریعے انجام پاتی ہے جو [دو بڑی جماعتوں کے سوا] تیسری جماعتوں اور باغی امیدواروں کے میدان میں آنے کا سد باب کرتا ہے۔ اہم سیاسی اور معاشرتی مسائل کو غیر اہم بنا کر بھلا دیا جاتا ہے۔ وسیع سطح پر ذرائع ابلاغ اور رائج ثقافت کی تیار کردہ [تولید کردہ] رضامندی، معمول اور معیار بن چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جذبات و احساسات پر اثر انداز ہونے اور انہیں میدان عمل میں بالواسطہ طور پر بروئے کار لانے کا گُر جانتا ہے۔
س: ڈونلڈ ٹرمپ طرز زندگی کے لئے مارکہ اور برانڈ بناکر بازارکاری کرنے (44) کا استاد ہے۔ یہ مہارت اس کو ایک واضح اور مربوط پیغام تیار کرنے کا امکان فراہم کرتی ہے۔ ہلیری کلنٹن کے پاس عوام کو دینے کے لئے کوئی مربوط اور معقول پیغام نہیں تھا۔ اس کی داستان اور ذمہ دار ٹیکنوکریٹ حکومت کے سلسلے میں اس کی پیغام رسانی بيزار کُن تھی اور اس کی یہ روش تماشا گریوں اور مضحکوں پر مشتمل ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی کیمپین کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ ڈیموکریٹ سیاستدان اس مسئلے کو کیوں نہیں دیکھ سکے؟
جواب: ہلیری کلنٹن کی اپنی تاریخ ہے اور اسی وجہ سے اس کو ایک سیاسی برانڈ میں تبدیل کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ ایسی سیاستدان ہے جس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ڈیموکریٹ جماعت کے نعروں کو "کتے کی سیٹی" میں تبدیل کردیا اور "نظم و قانون" (45) کے مسئلے کو ریپبلکن (جماعت کے) سیاستدانوں سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مسٹر اور مسز کلنٹن نے جیسی جکیسن (46) کے بنائے ہوئے "قوس قزح اتحاد" (47) کو نیست و نابود کیا۔ اوباما کی طاقت یہ ہے کہ وہ ایک وہ ایک انجانا شخص تھا اور ایک خالی سلیٹ، جس پر "امید اور تبدیلی" (48) کا نعرہ لکھا جا سکتا تھا۔ ایسا ہی سلوک بہت دشوار تھا۔ علاوہ ازیں، میری رائے یہ ہے کہ ہلیری کلنٹن کا انتخابی مہم بامعنی سیاسی تجاویز سے بالکل خالی تھی۔
اوباما نے کہا کہ 2016 کے صدارتی انتخابات کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ "ہلیری کام کو تمام کرسکتی ہے" اور عوامی رابطہ مہم شروع کرکے مختلف اجتماعات منعقد کرنے میں مصروف ہوئے۔ ڈیموکریٹس نے ہلیری کو ایک "عورت کے طور پر" برانڈ بنایا اور عورت کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ سارے کام سراسر کھوکھلے تھے تھے؛ یہ ایک ردی سیاست (پالیسی) تھی۔ یہ ایک سیاسی نمائش اور ایک سیاسی روش تھی جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے داخلے کے لئے راستہ ہموار کیا۔
سوال: سنہ 1990 کی دہائی میں کے بعد ریپبلکن جماعت تیزی سے دائیں بازوں کی استبدادی اور مطلق العنان اور نہایت خطرناک جماعت بن گئی۔ آمرانہ، دائیں بازو اور خطرناک بن گئی اور ڈیموکریٹس نے بھی بعض آزاد امیدواروں کو اپنے آپ سے ملانے کی کوشش میں کچھ غلط اقدامات کئے جس کی وجہ سے دائیں بازو کی طرف ریپبلکنز کا رجحان مزید بڑھ گیا اور ڈیموکریٹس ایسی پوزیشن میں آٹہرے جہاں سے وہ ریپبلکنز کو گھیرنے عاجز و قاصر آگئے۔
جواب: واقعہ یہ ہوا کہ ڈیموکریٹ جماعت بل کلنٹن کی بدولت ریپلکن جماعت بن گئی اور کلنٹن کی اس غلطی کی وجہ سے "یہ ریپبلکن جماعت" اب تک دائیں بازو کی طرف مائل ہوچکی ہے؛ وہ پاگل ہوگئے۔ ٹرمپ ہی پورا سبب نہیں تھا۔
سواال: مجھے ابھی تک امید ہے کہ امریکہ مین احتساب ہو۔ اور ان لوگوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا جنہوں نے ٹرمپ اور ریپلکن جماعت کو اقتدار تک پہنچایا۔ لیکن میں تاریخ کے طالبعلم کے طور پر نہیں سمجھتا کہ کبھی ایسا کچھ بھی ہوگا!
جواب: میری خواہش ہے کہ سوچ لوں کا احتساب ہوگا لیکن حقائق اس خواہش و آرزو کے برعکس ہیں۔ میں نے اور میرے جیسے دوسرے افراد ـ جو عراق پر امریکی جنگ کی مخالفت کررہے تھے اور ہم حق بجانب بھی تھے، لیکن ہم سب کو سیاسی عمل سے نکال باہر کیا گیا۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس جنگ کے لئے مرحبا کے نعرے لگائے ـ جارج واکر بش کے فائدہ مند احمق جیسے تھامس فریڈمین وغیرہ ـ آج بھی اپنے عہدوں پر ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بات بالکل غیر اہم ہے کہ انھوں نے غلطی کی ہے، کیونکہ انھوں نے بالکل وہی کچھ کیا ہے جو انہیں کرنا تھا؛ یعنی اپنے بائیں بازو کے نقادوں کو بے اعتبار کرنا۔ میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی اس اہم مسئلے کو اہمیت نہ دے کہ یہ افراد کئی مرتبہ غلطیوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ غلطی کرتے ہیں اور غلطی دہراتے ہیں اور اگلے دن اسی جگہ آپ کے سامنے موجود ہیں۔
سوال: آپ "گہری ریاست" (49) جو ٹرمپ کے دور میں اور روسی اسکینڈل کی بنا پر ابھر آئی ہے، کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس لحاظ سے واضح طور پر تمام امریکی انتظامیوں میں اس پالیسی کا تسلسل موجود ہے، لیکن اس سازش کی طرح بھی نہیں ہے جس کا دعوی ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے کیا ہے۔
جواب: اہم اور بڑے مسائل میں انتظامیہ کی ہر چیز اگلی انتظامیہ تک جاری رہتی اور سرایت کرتی ہے۔ استعماری جنگوں کی توسیع، شہری آزادیوں پر حملہ، بینکوں کو مالی امداد کی فراہمی اور وال اسٹریٹ کی پشت پناہی، اجتماعی گرفتاریاں، بےروزگاریاں اور جزوی ملازمتیں (50) وغیرہ۔ ڈیموکریٹس اور ریپلکنز کے درمیان فرق یہ ہے کہ ڈیموکریٹ اشرافیہ نسل پرستوں کے عنوان سے شہرت کے خواہاں نہیں ہیں۔ لیکن بنیادی معاشی، سیاسی اور استعماری و سامراجی  مسائل میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ ریپلکنز میں بش خاندان کے افراد سمیت اعلی رتبے کے افراد بھی تھے جنہوں نے کلنٹن کو ووٹ دیا۔ یہ سب ایک ایسی چیز کی مثالیں ہیں جو ڈیموکریٹس اور ریپلکنز کے درمیان پائی جاتی ہے جس کو سگمنڈ فرائڈ (51) نے "چھوٹے اختلافات کی نرگسیت" (52) کا نام دیا تھا۔ [یعنی یہ چھوٹے اختلافات دو جماعتوں میں پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے دو جماعتیں اقتدار کو ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تا کہ کوئی "نامحرم" بیچ میں نہ آئے جو ان دونوں سے اختلاف رکھتا ہو]۔
سوال: اس بحران کا ایک پہلو یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ وہ ایک کارٹون ہے، ایک ایک پیش بیانی اور پیش خبری (53) ہے۔ کروڑوں امریکی اس کے انتخاب پر مجبور ہوئے؟ کیا وہ مشہور اشخاص (54) کی ثقافت کے اس حصے کے ادراک کی قوت سے محروم تھے؟ کیا یہ "ما بعد از جدیدیت" (55) کے زمانے کی بےلگامی نہیں جس میں لوگ سمجھتے ہیں کہ "رئیلٹی ٹی وی" (56) حقیقت ہے؟
جواب: آپ کی بات بالکل صحیح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ تصوراتی اور افسانوی مخلوقات اور شخصیات ہیں لیکن چونکہ یہ تصوراتی مخلوقات شدت کے ساتھ قائل کردینے والی ہیں۔ وہ ایسی تصوراتی مخلوقات ہیں جو بہت زیادہ قائل کردینے والی ہیں؛ وہ رکے بغیر برقی آلات و وسائل کے ذریعے پھیل جاتے ہیں؛ بہت سے لحاظوں سے مسلسل اور نہیں رکنے والے اور ہمارے لئے ان لوگوں سے زیادہ واقعی (57) ہیں جو ہمارے پڑوس میں رہتے ہیں۔ ہم ان تصوراتی مخلوقات کے ساتھ جذباتی تعلق قائم کرتے ہیں اور یہی صورت ابلاغیات تک آگے چلی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت مشہور اشخاص کو پروان چڑھاتی ہے۔ خبر ایک منی ڈرامے میں تبدیل ہوچکی ہیں جس میں اسٹار یا ہیرو (58)، ایک ولن (59) اور کچھ معاون اداکار ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر ٹرمپ کے حوالے سے، آپ کو ایسے اشخاص کا سامنا ہے جو گوشت و خون کے بنے ہوئے انسان ہیں، لیکن وہ کچھ اس طرح سے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں کہ گویا کارٹون ہیں۔ بدقسمتی سے، یہ ایک ثقافتی مشکل اور تہذیبی مخمصہ ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو ہم فیس بک اور دوسری سماجی ابلاغیاتی ویب گاہوں پر لوگوں کی اپنی زندگی کے بارے میں پیش کردہ خیالی بیانات کی کیفیت اور انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال: ٹرمپ نے ـ میرے بیان کے مطابق "ٹرمپ لینڈیا" (60) کے باشندوں کے بارے میں ـ جزوی تحریری ہیئت (61) کو جنم دیا ہے۔ دھوکا کھا کر ٹرمپ کو ووٹ دینے والے گنوار دیہاتی سفید فاموں کے بارے میں لکھنا بہت آسان ہے؛ تو شکاگو، گرینویچ اور نیویارک کے امیر سفید فاموں کے بارے میں کہانیاں کہاں جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا؟ آپ کی کتاب ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں غالب روایات اور اس قضیئے کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے؛ آپ کیا سمجھے ہیں؟
جواب: مرکزی [ٹرمپزم سے متعلقہ] کمپنیوں سے وابستہ ذرائع ابلاغ ان شہریوں کو حیوانیاتی نمونوں (62) کے طور پر دیکھتے اور جانچتے ہیں۔ میری نئی کتاب در حقیقت ایسی رو بہ زوال تہذیب و ثقافت میں موجود ان مخمصوں کی مرض شناسی (63) پر ایک نظر ہے، جو موجودہ صورت حال کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
جو کچھ اس وقت ہم امریکہ میں دیکھ رہے ہیں یہ ہے کہ جب ایک تہذیب اور ایک ثقابت بیمار ہوجاتی ہے تو کس طرح کے رویے اختیار کرتی ہے؟ میں نے اپنی کتاب میں "جوّا بازی"، "سان فرانسسکو (64) بی ڈی ایس ایم گروپوں"، (65) "تیار رہنے والوں"، (66) اور "بقا پسندوں" (67)  اور منافرت پھیلانے والے سفید فام گروپوں" (68) کی مثالوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مؤخر الذکر موضوع بہت اہم ہے، کیونکہ نفرت پھیلانے والے گروپ ہمیشہ ایک بیمار معاشرے کی پیداوار ہوتے ہیں۔ نیز میں نے امریکہ کے غیر صنعتی علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ میں نے انڈرسن انڈیانا (69) کا سفر کیا اور وہاں کی کاریں بنانے کے کارخانے کے مزدوروں کی تنظیم کے تمام پرانے اراکین سے ملا ہوں۔
بل کلنٹن نے "آزادانہ تجارت کے شمالی امریکی معاہدے" "نفتا" (70) پر دستخط کئے اور سنہ 2006ع‍ تک جنرل موٹرز کے تمام کارخانے (71) مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ یہ کارخانے عملی طور پر ایک خالی احاطے میں تبدیل ہوچکے ہیں، کیونکہ کارخانے میکسیکو کے شہر مونترئی (72) میں منتقل ہوچکے ہیں جہاں مزدوروں کے ہر گھنٹے کے حساب سے تین ڈالر اجرت دی جاتی ہے، اور انہیں اس اجرت کے علاوہ کوئی امدادی رقم نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس متحدہ ملازمت میں مصروف عمل ہوکر آپ ایک گھنٹے میں 25 سے 30 ڈالر تک آمدنی کما سکتے تھے، سبکدوشی کے ایک منصوبے کے تحت آپ گھر خرید سکتے تھے، اور اگر آپ کے گھر میں ایک تنخواہ دار شخص ہوتا تو آپ کی زندگی آرام و سکون سے گذر سکتی تھی اور آپ اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے کالج بھیج سکتے تھے؛ لیکن اب اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ اس نقصان نے بہت سی مشکلات کو جنم دیا ہے اور اس طبقے کے لوگوں کے لئے سماجی مسائل کا سبب بنا ہے۔
اور انڈرسن کے مزدوروں کا کیا بنا؟ ان میں سے اکثر نے برنی سینڈرز (73) کو ووٹ دیا تھا لیکن جب حقیقی انتخابات کی باری آئی تو انھوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ بہت سی چیزیں تھیں جن کا الزام [انتخابی مہم کے دوران] ہلیری کلنٹن پر دھرا گیا تھا نیز "نفتا" کو مورد الزام ٹہرایا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی فنا ہوچکی تھی۔
میرا خیال ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کو "قابل اصلاح نسل پرست" قرار دینا کسی طور پر بھی ایک تعمیری عمل نہیں ہے، گوکہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ افراد قابل اصلاح ہوں۔ یہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ آپ جب کسی بھی والمارٹ اسٹور میں داخل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ہم یہاں آئے ہیں تاکہ ہر گھنٹہ کام کے عوض 15 سے 20 ڈالر تک کی اجرت دیں" تو آپ کو مختلف سیاسی رویوں اور رجحانات کے حامل بے شمار افراد کا سامنا کرنا پڑے گا جو آپ کے ہاں اس اجرت کے لئے نام لکھوانے آئیں گے۔ ہمیں پلٹ کر ایک بار پھر "طبقات"، "زرپرست اشرافیہ" (74) اور "طبقاتی جنگ" کے ادراک کی طرف پلٹنا پڑے گا۔
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ہم تاکید کریں کہ ہمیں غیر ملکیوں سے بیزاری، نسل پرستی، ہوموفوبیا اور اس قسم کے دوسرے رجحانات کی تصدیق یا حمایت نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن "طبقے" کو حائل لکیر ہونا چاہئے۔ ان خاص قسم کے ثقافتی مسائل پر مرکوز ہونا ممکن نہيں ہے۔ ان خاص ثقافتی مسائل پر مرکوز نہيں ہوا جاسکتا۔ کیونکہ حقیقت میں ان مسائل پر ارتکاز نچلے معاشی طبقات کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کرکے ایک دوسرے لڑاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو مقتدر بھنیے (75) چاہتے ہیں۔
سوال: کیا ہمیں امریکہ میں "طبقے" اور "نسل" کے تعلقات کے بارے میں بات کرنے کے لئے مزید پیچیدہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا؟
جواب: نسل اور طبقے کے درمیان بہت قریبی تعلق ہے۔ امریکہ میں روایتی طور پر افریقی نژاد امریکی تھے جو ہمیشہ سے طبقاتی درجہ بندی میں سب سے پست اور نچلے طبقے میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ پلٹ کر ڈیٹرائٹ میں گاڑیاں بنانے کے کارخانوں پر ایک نظر ڈالیں، تو افریقی نژاد امریکی وہ تھے جو سب سے آخر میں بھرتی کئے گئے، اور سب سے پہلے برخاست کئے گئے اور انہیں ہمیشہ پیشہ بدلنا پڑا ہے اور بدترین، خطرناک ترین اور سب سے کم اجرت والے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لیکن ہم نے طبقے کی زبان کو پوری طرح ترک کردیا ہے۔ اور "شناخت کی سیاست" (76) کے سلسلے میں میری ایک ناامیدی یہ ہے کہ، ڈیموکریٹ جماعت ہے جو شمولیت اور ثقافتی کثرتیت کی بات کرتی ہے، بطور مثال اوباما کے ساتھ، جو گوکہ سیاہ فام تھا لیکن وہ اسی سلطنت کا انتظام چلا رہا تھا۔ یہ غریب افریقی نژاد امریکیوں کو بااختیار بنانے کے لئے نہیں تھا۔ یہ [نظام] دائیں بازو اور ٹرمپ کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ڈیموکریٹس بظاہر غیر سفید فام باشندوں (77) اور خواتین کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن یقینا ایسا ہے نہیں۔
سنہ 2008ع‍ کے بعد سے، امریکی آبادی کا جو حصہ مالی لحاظ سے سب سے زیادہ نقصانات سے دوچار ہوا ہے وہ صرف افریقی نژاد امریکی ہیں، نہ کہ سفید فام مزدور یا کوئی اور۔ تین چوتھائی افریقی نژاد امریکیوں کے لئے اس ملک میں زندگی کی صورت حال اس وقت (1965ع‍) سے بدتر ہے جب مارٹن لوتھر کنگ (78) نے سلما (ریاست آلاباما [79] کا شہر سلما [80]) میں جلوس نکالا تھا۔ سیاہ اشرافیہ کے ایک فرد کو شریک کار بنایا گیا۔ جو کچھ شہری حقوق تحریک کے دوران جان لیوس (81) نے کیا، بہادرانہ اور اہم تھا۔ جان لیوس اس وقت بالکل مختلف شخصیت کا مالک ہے، اگرچہ وہ اپنی اس شخصیت سے باہر، بھاری قدموں کے ساتھ ہلیری کلنٹن اور ڈیموکریٹ انتظامیہ کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔
سوال: "تنہائی" (82) کا زوال پذیر امریکی معاشرے میں کیا کردار ہے؟
جواب: اس بیمار امریکہ میں تنہائی بہت ہی بنیادی مسئلہ گردانا جاتا ہے۔ ایک صارفیت زدہ معاشرے کی تشکیل میں سماجی کاٹ چھانٹ اور اجزاء میں تقسیم (83) کا عمل ملحوظ رکھا گیا ہے۔ ایک لا متناہی تنہائی کا علاج ممکن نہیں ہے۔ آپ کو مسلسل صارف رہنا ہوگا۔ سرمایہ داری اور صارفیت بیہودگی اور عبثیت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اس صورت حال میں اپنی ضرورت کی نئی مصنوعات اور تجربات کو پورا کرنے سے عاجز ہے۔
اگر آپ کا کسی برادری اور کسی اجتماع سے تعلق نہیں ہے اور اگر آپ اکیلے اور تنہا ہیں، تو آپ ان بڑی کمپنیوں کا شکار ہونے کی زیادہ استعداد رکھتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی نسل [نئی نسل] کے ساتھ ہمارا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس نسل کے افراد بہت زیادہ وقت اسکرینوں کے سامنے صرف کردیتے ہیں، لیکن آخرکار تنہا اور اکیلے رہ جاتے ہیں؛ اور یہ عینا وہی جگہ ہے جہاں کمپنیوں کی ریاست آپ کو چاہتی ہے۔
ہمیں صرف آمنے سامنے اور دو بدو رابطوں کے ذریعے مستحکم اور با دوام تعلقات قائم کرکے، مزاحمتی تحریکوں کی تعمیر نو کا کام انجام دینا ہوگا۔ یہ حقیقی تعلقات قائم کرنے کا واحد ممکنہ راستہ ہے۔
سوال: امریکہ میں جمہوری تجدید کا منصوبہ کس طرح نظر آئے گا؟
جواب: یہ بہت حد تک "اسٹینڈنگ راک" (84) کی طرح نظر آئے گا۔ وہاں آپ کے پاس مقامی قیادت تھی جس میں روحانی عنصر نمایاں تھا۔ میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے۔ ان کو کچل دیا گیا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ کون تھے؛ ان کا تعلق وہیں سے تھا جہاں سے وہ آئے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر غیرمتشددانہ سول نافرمانی کے بادوام اقدام سرانجام دیئے۔ اور یقینا ہم نے [2011 کی وال اسٹریٹ کے خلاف شروع ہونے والی تحریک میں] ریاست کو دیکھا ۔۔۔ اور ہمیں یاد ہے یہ ریاست ان دنوں اوباما کے زیر انتظام تھی ۔۔۔ اور ریاست نے بےانتہا اور بےمثل درندگی اور سفاکی کے ساتھ اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ 700 افراد کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، حملہ آور کتوں کو بھیڑ کا پیچھا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا، ہجوم کو منتشر کے لئے آبی توپوں کو استعمال کیا گیا جس میں مرچوں کا اسپرے بھر دیا جاتا تھا، لوگوں کو مارا پیٹا گیا، مسلسل دراندازی اور نگرانی جاری رکھی گئی۔
جب رد عمل اس قسم کا ہوگا تو آپ جانتے ہیں کہ مزاحمت اور احتجاج مؤثر جیسے حربے مؤثر اور کارگر ہیں۔  آپ ریاست کے رد عمل کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کس طرح مؤثر ہوسکتے ہیں۔ وہ عورتوں کی ریلیوں کو زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس طرح کا مارچ ان کے لئے خطرے کا باعث نہیں بنتا۔ یہ "قبضے" (85) کی طرح ہے۔ ریاست میسوری (86) کے شہر فرگوسن (87) میں انجام پانے والی مزاحمت بہت شاندار تھی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ہمیں جانا چاہئے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں سے رابطے میں نہ ہوں تو ہم کبھی بھی نہیں جیتیں گے۔ اگر ہم الگ الگ اور افراد کی صورت میں ہونگے تو وہ ہمیں ایک ایک کرکے اٹھائیں گے۔ ہمیں اجتماعی تحریکوں کی ضرورت ہے۔
سوال: امریکہ ایک سطحی (88) جمہوریت ہے جہاں اشرافیہ اور سیاستدان عوامی خواہشات اور آرزؤوں کو لائق توجہ نہیں سمجھتے۔ روایتی احتجاجی روشیں ـ بطور مثال خواتین کی ریلیاں ـ ملکی سیاست اور پالیسیوں پر اثرانداز نہيں ہوتیں۔ امریکہ
جواب: امریکہ کی حکمران اشرافیہ اس طرح کی سیاسی سرگرمیوں کو اپنے لئے یک حفاظتی صِمام (89) اور ایک قسم کی کھوکھلی علامتیت (90) سمجھتی ہے۔
ہمیں انہیں ڈرانا ہوگا؛ اور یہ وہی کام ہے جو "اسٹینڈنگ راک" کے عوام نے انجام دیا، کیونکہ انھوں نے پائپ لائن کو بند کردیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا، امریکی اشرافیہ اور منتخب حکام بھی، تقریبا مکمل طور پر امریکی عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اور ان کی خواہشات کی نمائندگی نہیں کرتے؛ اور ان کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ ہم بالکل غیر متعلق اور نامربوط ہیں۔ حکمران اشرافیہ کو کوئی پروا نہیں ہے کہ ہم [اکثر امریکی باشندے] کیا چاہتے ہیں۔ ان کو حتی یہ بات بھی کوئی اہمیت نہيں رکھتی کہ ہم کرتے کیا ہیں، سوائے اس کہ ہم انہیں خطرے میں ڈالنے کی کوئی سبیل تلاش کریں؛ اور یہی وہی کام ہے جو ہمیں کرنا چاہئے اور انہیں خطرے میں ڈالنا چاہئے۔ ہمیں ایسے راستوں کو تلاش کرنا چاہئے جن کا ہم نے جنوبی افریقہ میں "نسلی عصبیت" (91) کے خلاف "عدم تعاون" کی حکمت عملی میں مشاہدہ کیا۔ ہمیں کمپنیوں کی طاقت و اقتدار کے طریق کار اور میکنزم میں خلل اور رکاوٹ ڈالنے کے راستے تلاش کرنا ہونگے۔ میں واشنگٹن میں خواتین کے مارچ کے ساتھ تھا۔ یہ مارچ اسکول کے ایک چھٹی کے دن کی طرح تھا۔ جو چیز اس مارچ کی طرف مائل کررہی تھی کہ مجھے معلو ہوا تھا کہ ڈیموکریٹ جماعت کی سابق راہنما "ڈیبی ویزرمین شولٹز" (92) کو وہاں تقریر کرنا تھی۔
سوال: اس لمحے کونسی چیز آپ کو زیادہ امید دلا رہی ہے؟ کونسی چیز ہے جس سے آپ زیادہ خوفزدہ ہیں؟
جواب: میں ہر چیز سے زیادہ ماحولیات کی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہوں۔ گھڑی ٹک ٹک کررہی ہے اور ہمارے پاس زیادہ وقت باقی نہيں ہے۔ اگر عالمی درجہ حرارت میں دو درجے سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوجائے تو ہم بہ آسانی ایک قسم کی رد عمل کے حلقے میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا کرتے ہیں، سب کچھ ختم ہے۔ موسمیاتی سائنسدان بھی ہمارے اس موقف سے اتفاق کریں گے۔ اور نظام کی اس طرح کی شکست و ریخت یقینی طور پر کمپنیوں کے ـ پہلے سے مستحکم کردہ استبدادی اور ڈسٹوپین (93) نظام کے ـ ٹھونسے جانے کا محرک ہے۔
جو چیز میرے لئے سب سے زيادہ امید بخش ہے یہ ہے کہ جتنا کہ وقت گذرتا ہے، میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو مزید، مضحکہ خیز اور احمقانہ نولبرل نظریئے کے خریدار نہيں ہیں۔ نولبرل نظریہ کمپنیوں اور مقتدر بھنیوں کی لالچ کا جواز پیش کرنے کے لئے بروئے کار لایا گیا ہے۔

مقتدر بھنیوں اور کمپنیوں کی اشرافیہ کو کسی قسم کی اندرونی یا بیرونی روک ٹوک کا سامنا نہیں ہے۔ لہذا وہ انسانوں کے گوشت و خون سے مزید منافع کمانے اور پیسہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ لیکن آحرکار وہ الٹے اور قہقرائی سفر کی طرف دھکیلے جارہے ہیں اور میں صرف امید رکھتا ہوں کہ جلدی یا بدیر ایسا ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاؤنسی ڈی ویگا سالون (www[.]salon[.]com) کی ہیئت تحریریہ کے رکن قلمکار ہیں۔ ان کے مضامین Chaunceydevega[.]com پر بھی دستیاب ہیں۔ وہ ایک ہفتہ وار ٹی وی پروگرام چاؤنسی ڈی ویگا شو کے میزبان بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 source : yon.ir/LxJ2l
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ Chris Hedges (Christopher Lynn Hedges) ۔۔۔ کرس ہیجز امریکی صحافی، پريسبيٹيريَن کلیسا میں خادم دین اور پرنسٹن یونیورسٹی کے جزو وقتی استاد ہیں۔
2۔ Consumerism
3۔ Pulitzer Prize
٭ Elites
4۔ America: The Farewell Tour
5۔ Christian fascism
6۔ American dream
7۔ Empire of Illusion: The End of Literacy and the Triumph of Spectacle
8۔ Death of the Liberal Class
9۔ War is a force that gives us meaning
10۔ American Fascists: The Christian Right and the War on America
11۔ Days of Destruction, Days of Revolt
12۔ New York times
13۔ The Christian Science Monitor
14۔ National Public Radio [NPR]
15۔ Truthdig[.]com
16۔ Chauncey Devega
17۔ Functional democracy
18۔ Fossil fuels
19۔ Federalist society
20۔ Ideologues
21۔ Stormy Daniel
22۔ Cable News Network [CNN]
23۔ Rating  اور Ranking
24۔ Raytheon Company
25۔ Central Intelligence Agency [CIA]
26۔ John Owen Brennan
27۔ MSNBC [Microsoft and the National Broadcasting Company]
28۔ Corporate coup
29۔ New Yorker
30۔ Richistan
31۔ Neo-liberalism
32۔ Deindustrialization
34۔ James Brien Comey Jr
35۔ John Podesta
36۔ WikiLeaks
37۔ Gilded age
38۔ Celebrities
39۔ National Broadcasting Company [NBC]
40۔ Apprentice
41۔ Sheldon Sanford Wolin
42۔ "کمپنی" (یا کارپوریشن) میں بدلی جمہوریت: انتظام شدہ جمہوریت اور الٹی استبدادیت کا بھوت (Democracy Incorporated: Managed Democracy and the Specter of Inverted Totalitarianism)
43۔ Entertainment
44۔ Marketing
45۔ Law and order
46۔ Jesse Jackson
47۔ Rainbow coalition
48۔ Hope and change
49۔ Deep state
50۔ Underemployments
51۔ Sigismund Schlomo Freud ۔۔۔ (پیدائش 6 مئی 1856ء، وفات 1939ء)  
52۔ Narcissism، اردو میں: نرگسیت یا عشق ذات ۔ خود پرستی ۔ خود پسندی؛ فارسی میں: خود شیفتگی۔
53۔ Projection
54۔ Celebrity culture
55۔ Postmodernism
56۔ Reality television
57۔ Real
58۔ Star OR Hero، خیر کا کردار
59۔ Villain، شر کا کردار
60۔ Trumplandia
61۔ Subgenre
62۔ Zoological specimens
63۔ Pathology
64۔ San Francisco
65۔ ٭۔ اسیری اور بندش، نظم و ضبط (یا غلبہ)، سادیت، اور ماسوکزم یا جِنسی کَج روی، (Bondage, discipline (or domination), sadism, and masochism [BDSM])
66۔ Preppers
67۔ Survivalists
68۔ White hate groups
69۔ Anderson Indiana
70۔ North American Free Trade Agreement [NAFTA]
71۔ General Motors [GM] factories
72۔ Monterrey
73۔ Bernie Sanders
74۔ Oligarchy
75۔ Oligarchs
76۔ Identity politics یا شناخت کی سیاست ایک سیاسی طرز فکر اور منطق پر مشتمل ہے جس میں ملک، ریاست یا دیگر سیاسی اکائیوں کے مکمل اور بنیادی مفاد کو چھوڑ کر گروپوں کے مفادات اور مقاصد کو فروغ دینے پر زور دیا جاتا ہے۔ ان گروپوں کی شناخت ذات پات، مذہب، جنس، نظریات، قومیت، ثقافت، زبان، تاریخ، کاروبار یا دیگر کسی علامت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس گروپ کے حوالے سے شناخت کی سیاست کی جا رہی ہو اس گروپ کے تمام اراکین ایسی سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوں یا اس کی حمایت کرتے ہوں۔
77۔ People of color
78۔ Dr. Martin Luther King, Jr
79۔ Alabama
80۔ Selma
81۔ John Lewis
82۔ Loneliness
83۔ Atomization
84۔ 84۔ سٹینڈنگ راک انڈین ریزرویشن [Standing Rock Indian Reservation] شمالی ڈکوٹا (North Dakota) اور جنوبی ڈکوٹا (South Dakota) کی ریاستوں میں واقع ہے۔
85۔ Occupy  یا “Occupy Wall Street” Movement of 2011
86۔ Missouri
87۔ Ferguson
88۔ Superficial
89۔ Safety valve
90۔ Symbolism
91۔ Apartheid
92۔ Debbie [Deborah] Wasserman Schultz
93۔ 93۔ افلاطون نے یوٹوپیا (Utopia) یعنی مثالی ریاست جس میں سب کچھ اپنے مقام پر عدل و انصاف اور امن و استحکام اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ اس کا متضاد ڈِسٹوپیا (Dystopia) ہے جس کے معنی ناکام اور دیوالیہ ریاست کے ہیں جس میں بدعنوانی، بد مزاجی بد اخلاقی، بدامنی، عدم استحکام ہو [گوکہ بدعنوانوں، قاتلوں، غداروں اور چور اچکوں کے لئے شاید ڈسٹوپیا ہی یوٹوپیا ہے یا یوں کہئے کہ ڈسٹوپیا تمام غلط کاریوں میں مگن افراد، دہشت گردوں، چوروں، استحصالیوں اور استعماریوں کی جنت اور مطلوبہ شہر ہے؛ جس میں عام انسانوں کو غارت کرکے، اور ان کا امن و امان اور آرام و سکون غارت کیا جاتا ہے اور چور طبقے کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔

مترجم؛ فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱۰