اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

9 نومبر 2017

8:07:33 AM
865659

شہادت ایک ایسی فضیلت ہے جسے ہر فضیلت پر برتری حاصل ہے اور وہ بھی ایسی شہادت کہ جس میں حسین علیہ السلام نے اپنی تمام ہستی کو فنا فی اللہ کر دیا۔ ایسا کون سا ظلم و ستم نہ تھا جو اس امام معصوم پر ظالموں نہ ڈھایا ہو۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔

بقلم: صابرہ جعفری

خداوند عالم نے انسان کی تخلیق کے آغاز میں ہی جس انسان کو اس روئے زمین پر بھیجا وہ کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ خلیفہ الہی اور آنے والے دوسرے تمام انسانوں کا رہنما اور ہادی تھا جیسا کہ خود پروردگار عالم کا ارشاد ہے ’’انی جاعل فی الارض خلیفہ‘‘ تاکہ کوئی بھی انسان کل قیامت کے دن یہ شکوہ نہ کر سکے کہ خدایا میں تو ہدایت کے حصول کے آمادہ تھا لیکن تیری طرف سے کوئی ہادی نہ تھا یہی وجہ ہے کہ پروردگار عالم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے اور ان کے بعد ہدایت کا سلسلہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی صورت میں انشاء اللہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

خدا کی یہ برگزیدہ ہستیاں در حقیقت خدا کے صفات و کمال کا مظہر اور جلوہ گاہ الہی ہیں۔ لہذا اگر ہمیں خداوند عالم کی قربت حاصل کرنا ہو گی تو پہلے ہمیں ان ہستیوں کی معرفت حاصل کرنا پڑے گی تاکہ ان کے وسیلہ سے خدا کا قرب حاصل ہو سکے ’’وابتغوا الیہ الوسیلہ‘‘۔ انبیاء کے سلسلے کی آخری کڑی مرسل اعظم ہیں جو قیامت تک باقی رہنے والے دین کے ساتھ مبعوث ہوئے پھر اس دین کی حفاظت کے لیے امامت کے سلسلے کا آغاز مولائے کائنات علی بن ابی طالب کے ذریعے ہوا۔

پیغمبر اکرم نے دین الہی کی نشر و اشاعت اور لوگوں کی ہدایت کے لیے بے حد تکلیفیں اٹھائیں یہاں تک کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد آپ کے لائے ہوئے دین میں تحریفوں کا آغاز ہو گیا نئی نئی چیزیں دین میں داخل کی جانے لگیں دینی تعلیمات کو ان کے حقیقی وارثوں سے لے کے بجائے لوگ دوسروں کی طرف رجوع کرنے لگے۔ دین کو انہیں تحریفوں سے بچانے کے لیے معرکہ کربلا وجود میں آیا جہاں زہرا(س) کے لال، رسول کے نواسے اور سلسلہ امامت کی تیسری کڑی نے دین کی راہ میں اپنی جان اور اپنے خاندان والوں کی قربانی پیش کی۔ اس راہ وہ ستم سہے اور ظالموں نے وہ ستم ڈھائے جس کی مثال اس سے قبل ملی نہ قیامت تک مل سکے گی۔ ظالموں کی کوشش تھی کہ دین اسلام کو جڑ سے مٹا دیا جائے لیکن قربانی حسین(ع) نے یزیدیت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا اور امام حسین(ع) کے لہو کی کشش نے انسانوں کے دلوں کے اندر ایسے گہرے اثرات چھوڑے کہ ابھی حسین(ع) کی شہادت کو چالیس ہی دن ہوئے کہ صحابی رسول جابر بن عبد اللہ انصاری کہ جو نابینا ہیں عطیہ عوفی کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے بیس صفر کو اربعین کے روز کربلا پہنچ جاتے ہیں۔ روایتوں کے مطابق، جابر بن عبد اللہ انصاری امام عالی مقام کے پہلے زائر ہیں جب کربلا پہنچے نہرفرات پر گئے، غسل کیا، غسل کرنے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ نواسہ رسول کی قبر کی طرف بڑھتے جاتے ہیں قبر پر پہنچنے کے بعد قبر پر ہاتھ رکھا اور بیہوش ہو گئے اب جو ہوش میں آئے تو تین مرتبہ کہا’’ یاحسین، یاحسین، یاحسین‘‘۔ جابر کا بیہوش ہونا، جابر کا مدینہ سے اٹھ کر کربلا آجانا، یہ سب چیزیں ان کی بصیرت اور معرفت پر دلیل ہیں۔ اس لئے کہ جس قدر بصیرت اور معرفت زیادہ ہو گی اسی قدر انسان اپنے امام کا عاشق اور امام کے مقصد کو سمجھ سکتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اگر انسان کو یہ توفیق حاصل ہو جائے کہ وہ اربعین کے روز اپنے مولا و آقا حسین بن علی مرتضیٰ(ع) کے حضور میں شرفیابی حاصل کرے تو زیارت کے اندر موجود معرفتی نکات اور پہلو ذہن میں رکھے تاکہ وہ زیارت کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اپنی تربیت بھی کرتا جائے لہذا ہم اپنی اس مختصر سی تحریر میں زیارت اربعین کے سلسلے میں محترم زائرین کے لئے چند ایک معرفتی نکات کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں:

زیارت کے پہلے فراز میں انبیائے الہی پر درود و سلام کے ساتھ ان کے القاب کی طرف اشارہ ہے جیسے ابراہیم خلیل اللہ، موسی کلیم اللہ، عیسی کلمۃ اللہ، محمد (ص) حبیب اللہ۔ گویا زائر کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ دیکھو جس کی زیارت کا تہمیں شرف حاصل ہوا ہے یہ کوئی معمولی ہستی نہیں بلکہ فرزند حبیب الہی، تمام انبیاء کی مجموعہ صفات کے وارث ہیں بلکہ تمام انبیائے الہی کی مجموعہ صفات و کمالات کا مرکز و محور ہیں۔ لہذا ان کی زیارت کے لئے تمہیں اپنی معرفت میں اضافہ کرنا ہو گا۔ زیارت کے ضمن میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی خاندانی اصالت اور شرافت کی طرف اشارہ ہے ’’اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَشْھَدُ ٲَنَّہُ وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ‘‘ ۔ اور یہ وہ نکتہ ہے کہ جس کی جانب خود امام حسین علیہ السلام بھی بارہا متذکر ہوتے رہے ہیں اور امام سجاد علیہ السلام نے بھی یزید کے دربار میں حاضرین دربار کو متوجہ کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ زائر جب امام پر دور یا نزدیک سے سلام بھیجے تو اس کی توجہ اس جانب ہونا چاہیے کہ اس کا سلام کس نوعیت کا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سلام جو وہ امام معصوم پر بھیج رہا ہے اس کے معنیٰ کیا ہیں۔ سلام کے معنیٰ ہیں سلامتی، امن و امان۔ یعنی زائر یہ ذہن میں رکھے کہ مولا و آقا جو چیزیں آپ کو آزار و اذیت پہنچاتی ہیں جیسے گناہ، جھوٹ، غیبت، جاہ و مقام یا مال و دولت کی محبت، یا ہر طرح کا گناہ میں ان سے دور رہ کر آپ کے امن و سکون کا باعث بنوں گا۔ چونکہ آپ امام معصوم ہیں اس سلام کے ذریعے میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں اس سلام کے بعد تمام گناہوں سے پرہیز کروں گا۔ اور اس سلام کو اس انداز میں اپنے آقا کے حضور میں پیش کریں کہ اپنے قلب کو توجہ کے آنسو کے ذریعے پاک کریں۔ اور یہیں پر گویا زائر انفرادی وظیفہ شناسی کے ساتھ ساتھ اپنے اجتماعی چہرے کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ میری یہ جنگ نہ صرف اپنے گناہوں سے ہے بلکہ میں ولایت مداری میں تسلیم محض کا جذبہ رکھتا ہوں۔ اور اپنے آقا و مولا حسین بن علی کی طرح دنیا کے ہر طاغوت سے ٹکرانے کی جرئت رکھتا ہوں اور جب بھی امام وقت نے صدائے استغاثہ بلند کی تو اپنے آقا حسین کی طرح ظلم و ظالم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ میدان میں حاضر ہوں گا۔

دوسرے فراز میں امام صادق علیہ السلام اس طرح سے فرماتے ہیں کہ خدایا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیری ولی اور تیرے ولی کے فرزند اور پسندیدہ بندے کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی یہاں پر امام صادق علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کی برتری اور عظمت کو نمایاں کرتے ہوئے ایک خاص نکتے کی جانب زائر کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی چیز کے توسط سے عزت و مقام اور مرتبہ کو حاصل کرتا ہے لیکن دیکھیں امام صادق اس طرح سے مخاطب ہیں خدایا وہ تیرے ولی کا بیٹا، تیرا برگزیدہ اور تیرے برگزیدہ ولی کا بیٹا ہے۔ یہ سارے فضائل ایک طرف لیکن ’’ٲَکْرَمْتَہُ بِالشَّھَادَۃِ‘‘ تو نے حسین(ع) کو عزت و برتری عطا کی شہادت کے ذریعے۔

شہادت ایک ایسی فضیلت ہے جسے ہر فضیلت پر برتری حاصل ہے اور وہ بھی ایسی شہادت کہ جس میں حسین علیہ السلام نے اپنی تمام ہستی کو فنا فی اللہ کر دیا۔ ایسا کون سا ظلم و ستم نہ تھا جو اس امام معصوم پر ظالموں نہ ڈھایا ہو عصر عاشور کو دیکھیں اصحاب و انصار کی شہادت، بچوں کی شہادت، پیاس، اور پیاس کی بھی ایسی شدت کہ اپنے شیعوں کو وصیت کی کہ اے شیعوں جب بھی ٹھنڈا پانی پینا میری پیاس یاد کر لینا۔ پھر بھی عجیب انداز ہے سر سجدہ الہی میں ہے اور ’’رضاً بقضائہ و تسلیما لامرہ‘‘ گنگنا رہے ہیں۔ اور پھر عصر عاشور کے بعد کی غربت۔ رسول کے نواسے کو کربلا کی گرم خاک پر بے گور و کفن چھوڑ دیا اور آپ کے جسم اقدس پر گھوڑے دوڑائے گئے یہاں تک کہ سینے کی پسلیاں اور ہڈیاں برابر ہو گئیں۔ ہماری جانیں فدا ہو جائیں اس امام مظلوم پر۔

تیسرے فراز میں امام صادق علیہ السلام زائر کی توجہ ایک اور اہم مسئلہ کی جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’بَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَھَالَۃِ، وَحَیْرَۃِالضَّلالَۃِ‘‘۔(اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے)

یہ وہ عظیم مقصد تھا جس کے لیے اتنی عظیم قربانیاں ایک صبح سے عصر تک پیش کی گئیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دور میں یزید نے دین کا اصلی چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا تھا وہ علی الاعلان شراب پیتا تھا اور جوا کھیلا کرتا تھا۔ بلکہ معاد و قیامت جیسے مسلمہ اعتقادات کا مسخرہ کیا کرتا تھا۔ اور وہ یہ سب خود کو خلیفۃ المسلمین کہہ کر انجام دیتا تھا۔ لہذا امام حسین علیہ السلام نے عالم بشریت کو رہتی دنیا تک بیدار کرتے ہوئے یہ بتایا کہ خلیفۃ المسلمین وہ ہوتا ہے جسے پیغمبر خلیفہ بنائے اور منصوص من اللہ ہو جسے لوگ انتخاب کر لیں وہ خلیفہ خدا نہیں ظالم و جابر حکمران ہوا کرتا ہے۔ ضرورت ہے امام علیہ السلام کی پیروی میں ہم آج بھی زمانے کے ایسے طاغوتوں سے دنیا کو آگاہ کریں جو جوانوں کو دنیا کی بیہودہ باتوں میں الجھا کر خود عیش و نوش میں غرق ہیں اور جوانوں کو ان کی حقیقی دنیا سے دور کر کے انہیں بے معنی زندگی کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ اور حقیقی شناخت سے دور کر رہے ہیں۔ حقیقی شناخت تو یہ ہے کہ انسان خود کو پہچانے کہ وہ کون ہے اس کا کیا مقام ہے کس نے بھیجا ہے اور کس ہدف کے تحت بھیجا ہے؟۔ اپنی قدر و منزلت کو پہچانے، اپنے رب کو پہچانے اور دنیا میں حقیقی اقدار کو پہچانے۔ اپنے وقت کے امام کی معرفت حاصل کرے ورنہ یہ بصیرت کی کمی ہی تھی جو کربلا کے وجود میں آنے کا باعث بنی۔

پھر قاتلین امام حسین(ع) کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ملعون افراد جو اس عظیم گناہ کے مرتک ہوئے وہ کون سی ایسی خاص وجوہات تھیں؟ سب سے پہلی وجہ جس کی طرف امام صادق علیہ السلام نےاشارہ کیا وہ یہ تھی کہ یہ وہ لوگ تھے جو دنیا پرست تھے ’’ وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَیْہِ مَنْ غَرَّتْہُ الدُّنْیا ۔۔۔ وَ شَرَیٰآخِرَتَہُ بِالثَّمَنِ الْاَوْکَسِ ‘‘۔ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے میں بیچ دیں اور اپنی آخرت کے لئے گھاٹے کا سودا کیا۔ دنیا کی محبت ان کے دلوں پر ایسی قابض ہو چکی تھی کہ انہیں دنیا کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ دنیا کی ظلمتوں کے پردے نے ان کی آنکھوں کو ایسا تیر و تار کر رکھا تھا کہ وہ نور امامت کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ عمر سعد ملعون کو ملک ری کی لالچ اور کچھ دوسرے شیطان صفت افراد کو اپنی جانوں کا ڈر و خوف نے امامت کے دفاع سے محروم رکھا۔ اس قدر دنیا کی محبت میں غرق تھے کہ دیکھ رہے ہیں کہ حسین بن علی وہ حسین ہیں کہ فاطمہ زہرا کے لال، علی مرتضیٰ کے جگر کے ٹکڑے اور مرسل اعظم کے فرزند ہیں یہ وہ حسین ہیں جنہیں رسول اپنے دوش پر بٹھایا کرتے تھے لبوں کا بوسہ لیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنے شکموں کی آگ کو بجھانے کے لیے جہنم کی آگ سے سودا کر لیا۔

خوارزمی مقتل الحسین میں لکھتے ہیں حتی جب شمر ملعون آپ کے سینے مبارک پر سوار تھا اور قتل کا ارادہ رکھتا تھا اس وقت امام حسین علیہ السلام مسکرائے اور کہا کیا تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو کیا تم مجھے پہچانتے ہو واقعا کائنات نے ایک عجیب منظر دیکھا اہل زمین نے ایسے ہادی کو بھی دیکھا اور ایسے ملعون کو بھی دیکھا۔ جہاں ہادی اپنے قاتل کو اپنی زندگی کے آخری لمحے میں بھی ہدایت کرنے پر مصر ہے اور یہ شیطان پرست دنیا کی محبت میں گرفتار ہادی کی ہدایت کے نور سے نہ صرف فیضیاب نہ ہو سکا بلکہ نور ہدایت کو محسوس نہ کر سکا۔ خدا کی بے شمار لعنتیں ہوں شمر ملعون اور اس کے پیروکاروں پر۔

اور زیارت کے آخری فرازوں میں زائر اپنے مولا و آقا سے تجدید بیعت کرتا ہوا نظر آتا ہے ’’اَللّٰھُمَّ إنِّیٲُشْھِدُکَ ٲَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاہُ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداہُ بِٲَبِی ٲَنْتَ وَ ٲُمِّی یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ‘‘ خدایا تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ پر فدا ہوں آپ پر اے فرزند رسول خدا!۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲