اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

8 اکتوبر 2016

3:50:58 PM
784285

چھٹی محرم کے مصائب

قاسم بن حسن (ع) کی شہادت کا واقعہ

امام (ع) کا دل اپنے بھائی کی یادگار کے لئے تڑپ اٹھا اور پوچھنے لگے: ’’پیارے بیٹے! تم موت کو کس طرح محسوس کرتے ہو؟‘‘۔ جناب قاسم نے شجاعت کے ساتھ جواب دیا: ’’اَحلی مِنَ العَسَلِ‘‘ ـ چچا جان: موت شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
عاشور کی رات، تاریخ بشریت کی حیرت انگیز رات ہے؛ ایسی رات جو مختلف ادوار میں بہت سارے انسانوں کے لیے تکرار ہوتی ہے، ایسی رات جس میں کئی انسان خیر و شر اور کفر و ایمان کے دو راہے پر کھڑے ہوتے ہیں، اور کتنے ایسے لوگ ہیں جو اس رات سے پہلے کفر کے خیمے میں اپنا پڑاؤ ڈالے ہوتے ہیں لیکن ایک رات میں سوسالہ راستہ طے کر جاتے ہیں اور بیابان کفر سے نکل کر وادی حق و حقیقت میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ لیکن کتنے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے غلط فیصلے کی بنا پر راہ حق و حقیقت سے پلٹ جاتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی رات یعنی شب عاشور، امام حسين (ع) نے اپنے قریبی اصحاب و انصار کو اپنے قریب بلایا اور خدا کی حمد و ثناء اور پیغمبر اسلام پر درود و سلام کے بعد فرمایا: ’’فانی لا اعلم لی اصحابا اوفیٰ و لا خیرا من اصحابی۔۔۔ حق یہ ہے کہ میں اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور بہتر اصحاب نہیں جانتا۔( یعنی جیسے باوفا اصحاب مجھے ملے ایسے کسی کو نہیں ملے ۔ اس لشکر کا سروکار مجھ سے ہے اور ان کا جھگڑا مجھ سے ہے اور میرا معاملہ ان کے ساتھ کل جنگ اور کارزار پر منتج ہوگا۔ پس میں اپنی بیعت آپ کی گردن سے اٹھاتا ہوں اور اجازت دیتا ہوں کہ مجھے ترک کردیں۔ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر چلے جائیں...‘‘۔
امام (ع) کا خطاب مکمل ہوا تو ابتداء میں حضرت اباالفضل العباس سلام اللہ علیہ، اور ان کے بعد دیگر بنی ہاشم اور ان کے بعد اصحاب و انصار اٹھے اور کہا: ’’ہم آپ کے بعد کس لئے زندہ رہیں اے فرزند رسول خدا(ص)؟ خدا کی قسم اگر ہم بار بار مارے جائیں اور زندہ ہوجائیں پھر بھی آپ کی نصرت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔

امام )ع) نے جب یہ الفاظ سنے تو فرمایا: ’’میں کل قتل کیا جاؤں گا اور آپ لوگ بھی میرے ہمراہ مارے جائیں گے‘‘۔
یہ وہ مقام تھا جہاں انسانی کرامت کی انتہا ظاہر ہوئی اور اصحاب و انصار اور خاندان کے افراد نے یقینی شہادت کی خبر سن کر رد عمل کے طور پر کہا: ’’خدا کا شکر و سپاس جس نے ہمیں آپ کی نصرت کی توفیق عطا فرمائی اور آپ کے رکاب میں شہادت عطا کرکے ہمیں عظمت و عزت بخشی‘‘۔
امام (ع) نے اصحاب و خاندان پر اتمام حجت اور ان کی مستحکم بیعت سے مطمئن ہونے کے بعد ان کے حق میں دعا فرمائی اور فرمایا: ’’اپنے سر اٹھائیں اور روضہ رضوان میں اپنے مقام کا مشاہدہ کریں‘‘۔ اس طرح ان سب نے چشم بصیرت کے ذریعے اپنے اخروی مقام و منزلت کا مشاہدہ کیا۔
’’قاسم بن الحسن‘‘ امام حسن مجتبي (ع) کے بڑے بیٹے تھے جو نو رسیدہ نوجوان تھے،  وہ بھی اس مجلس میں حاضر تھے اور شوق و شیدائی کے ان مناظر کا مشاہدہ کررہے تھے، انہوں نے اپنے عمِّ بزرگوار سیدالشہداء علیہ السلام سے دریافت کیا: ’’کیا میں بھی آپ کے انصار و اصحاب کے ہمراہ شہادت پاؤں گا‘‘۔ امام (ع) کا دل اپنے بھائی کی یادگار کے لئے تڑپ اٹھا اور پوچھنے لگے: ’’پیارے بیٹے! تم موت کو کس طرح محسوس کرتے ہو؟‘‘۔ جناب قاسم نے شجاعت کے ساتھ جواب دیا: ’’اَحلی مِنَ العَسَلِ‘‘ ـ چچا جان: موت شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔
دادن جان، گر بہ رہ رھبر است
از عسل ناب مرا خوش تر است
جام اگر جام شھادت بُوَد
مرگ، بہ از روز ولادت بُوَد
ترجمہ: جان دینا اگر رہبر اور امام کی راہ میں ہو تو یقینا شہید سے زیادہ شیریں ہے۔ جام اگر جام شہادت ہو تو کتنا بہتر ہے روز ولادت ہی موت آجائے۔
 امام (ع) نے رقّت و شفقت کے ساتھ فرمایا: ’’چچا تم پر قربان ہو! ہاں تم بھی ایک ’’مصیبت عظمیٰ‘‘ سہنے کے بعد شہید کئے جاؤ گے‘‘، اس کے بعد فرمایا: میرا شش ماہہ علی اصغر بھی شہید کیا جائے گا‘‘۔ ہاشمی نوجوان کی غيرت اور مردانگی جوش میں آئی اور عرض کیا: ’’کیا دشمن ہمارے خیموں تک بھی آئیں گے اور شیرخوار اصغر کو بھی شہید کردیں گے؟!‘‘ امام(ع) نے جواب دیا: ’’چچا تم پر قربان ہو! شامی دشمنوں میں سے ایک فاسق شخص علی اصغر(ع) کو میری آغوش میں ہی شہید کرے گا اس حال میں کہ وہ رو رہا ہوگا اور اس کا خون میرے ہاتھوں پر جاری ہوجائے گا"۔

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اور جناب قاسم دونوں رونے لگے اور ان کے ساتھ ساتھ اصحاب و انصار کے مجمع میں بھی قہرام مچ گیا۔ آل رسول کے رونے کی آواز خیام سے آسمانوں تک جا پہنچی۔

لیکن وہ ’’مصیبت عظمیٰ‘‘ جس کی خبر امام نے اپنے بھتیجے کو دی وہ کیا ہے؟ شاید جناب قاسم کی شہادت کی کیفیت امام علیہ السلام کی مراد ہی ہوسکتی ہے اور جب ہم کیفیت شہادت کو دیکھتے ہیں تو ’’مصیبت عظمیٰ‘‘ کے معنی بھی واضح ہوجاتے ہیں...

بعض مؤلفین نے روایت کی ہے کہ جب علی اکبر (ع) میدان کارزار میں جاکر جام شہادت نوش کرگئے تو قاسم بن حسن(ع) خیمہ گاہ سے باہر آئے۔

جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی کی نشانی کو دیکھا جو جنگ کے لئے باہر آئے ہیں تو انہیں اپنے سینے سے لگایا؛ دونوں اتنا روئے – شاید علی اکبر(ع) کی شہادت کا غم ستا رہا تھا – اتنا روئے کہ ان کی حالت غیر ہوگئی۔

ھر دو بریدند دل از بود و ھست

ھر دو گشودند بہ یکبارہ دست

ھر دو ربودند از سر ھوش ھم

ھر دو فتادند در آغوش ھم

رفت از تن، تاب و ز سر، ھوششان

سوخت وجود از لب خاموششان

ترجمہ: دونوں ایک دوسرے کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے، دونوں نے باہیں پھیلا کر ایک دوسرے کو آغوش میں لیا اور اتنا روئے کہ بے ہوش ہو گئے، بدن سے تاب تحمل ختم ہو گیا اور غشی طاری ہو گئی اور ان کا وجود خاموشی اور غم فرقت میں جل گیا۔

آنسو تھم گئے تو قاسم نے اپنے چچا سے اذن جہاد مانگا۔

ای عمو سینہ ای من تنگ بود

شیشہ ام منتظر شنگ بود

نیزہ کو؟ تاکہ ز من سینہ درد

تیر کو؟ تاکہ بہ اوجم ببرد

ترجمہ: اے عمو جان میرا سینہ دل تنگی کر رہا ہے، میرا شیشہ پتھر کی انتظار کر رہا ہے، وہ نیزہ کہاں ہے جو میرے سینے کو چاک کر دے؟ وہ تیر کہاں ہے جو مجھے بلندی پر لے جائے؟

امام (ع) نے اجازت نہیں دی تو جناب قاسم امام کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور التماس کرنے لگے حتی کہ امام علیہ السلام نے اجازت دی۔ اجازت ملتے ہی قاسم میدان جنگ میں اترے۔

تاریخی دستاویزات نے دشمن کے ایک سپاہی کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک نوجوان لڑکا خیموں سے باہر آیا جس کا چہرہ چاند کے ٹکڑے کی طرح چمک رہا تھا اس نے ہم پر حملہ کیا جبکہ اس کے چہرے سے اشک روان تھے اور رجز پڑھ رہا تھا وہ کہہ رہا تھا:

ان تنکرونی فانا ابن الحسن

سبط النبی المصطفی المؤتمن

هذا حسین کالاسیرالمرتهن

بین اناس لا سقوا صوب المزن

ترجمہ: اگر تم مجھے نہیں جانتے تو جان لو کہ میں ہوں حسن مجتبی(ع) کا بیٹا اور فرزند ہوں سبط نبی مصطفی(ص) کا جن کا لقب "امین" ہے یہ حسین(ع) ہیں تمہارے درمیان ایک گروی لئے ہوئے اسیر کے مانند، ایسے لوگوں کے درمیان جن کو اللہ تعالی کبھی بھی جزائے خیر نہیں دے گا۔

پس قاسم کمسنی اور چھوٹے جسم کے باوجود مردانہ وار لڑے اور یزیدی لشکر کے کئی پہلوانوں کو واصل جہنم کیا یہاں تک کہ یزیدی لشکر نے مل کر ان کو گھیرے میں لے لیا اور ان میں سے ایک نے قاسم پر شمشیر کا کاری وار کیا۔ قاسم بن حسن چہرے کے بل زمین پر گرے اور مدد کے لئے آواز دی: ’’يا عماہ!‘‘، ( چچا جان مدد کو آئیے)۔۔

پس امام (ع) نے سر اٹھا کر شکاری باز کی طرح میدان کی طرف نظر ڈالی اور غصیلے شیر کے مانند تیزی سے یزیدیوں پر حملہ آور ہوئے اور قاسم کے قاتل پر تلوار کا وار کیا، اور اس کا ہاتھ کہنے سے جدا کردیا۔ اس نے درد سے ایک چیخ ماری تو یزیدی لشکر کے سپاہی میدان میں دوڑے تاکہ اسے امام سے چھڑائیں۔ ان دشوار حالات میں امام علیہ السلام اور یزیدی لشکر کے درمیان گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی جبکہ قاسم زمین پر پڑے تھے اور گھوڑوں کی ٹاپوں تلے پس رہے تھے۔۔۔ اور شاید یہ وہی ’’مصیبت عظمیٰ‘‘ تھی جس کی پیشین گوئی امام (ع) نے فرمائی تھی۔

جب دھول بیٹھ گئی تو لوگوں نے دیکھا کہ امام علیہ السلام قاسم(ع) کے جسم بے جان کے پاس بیٹھے ہیں اور اپنا سینہ ان کے سینے سے لگا کر انہیں زمین سے اٹھا رہے ہیں اور خیموں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جبکہ قاسم کے پیر ـ شاید گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہڈیاں چور ہو جانے کی وجہ سے ـ زمین پر کھنچے جارہے ہیں؛ اور امام فرمارہے ہیں: ’’یہ قوم قیامت کے روز خدا کی رحمت سے دور ہو اور تیرا جد امجد نبی اکرم (ص) ان کے دشمن ہوں‘‘۔

کاش نمی دید عمو پیکرت

تاببرد ھدیہ بر مادرت

کاش نمی دید تنت کاین چنین

جان دھی و پای زنی بر زمین

دیدہ بہ روی عمو انداختی

صورت او دیدی و جان باختی

ترجہ: کاش تمہارے چچا تمہارے جسم کو نہ دیکھتا تاکہ اسے تمہارے ماں کے لیے تحفہ لے جائے، کاش تمہارے بدن کو اس حالت میں نہ دیکھتا کہ تم زمین پر ایٹریاں رگڑ رگڑ کر جان دو، تم اپنے چچا کے چہرے نگاہ ڈالی اور اپنی جان دے دی۔

اور پھر امام علیہ السلام نے زیر لب فرمایا: «خدا کی قسم تیرے چچا کے لئے بہت دشوار ہے کہ تو اسے مدد کے بلائے لیکن وہ تیری مدد کے لئے نہ آسکے اور تجھے دشمن کے نرغے سے نجات نہ دلا سکے...».

الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲