اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

7 اکتوبر 2016

3:03:28 PM
784043

پانچویں محرم کے مصائب

عبد اللہ بن حسن(ع) کی شہادت کا واقعہ

امام حسین(ع) نے اپنے زخمی بھتیجے کو آغوش میں لیا اور سینے سے لگا کر ان کے کان میں کہا: "پیارے بھتیجے! صبر کرو اور خدائے بزرگ و برتر کو صدا دو تا کہ وہ تمہیں تمہارے صالح آباء و اجداد سے ملحق فرمائے"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔

کربلا میں بعض روایات کے مطابق امام حسن علیہ السلام کے دو بیٹے جناب قاسم اور عبد اللہ اور بعض کے مطابق تین بیٹے یعنی جناب قاسم اور عبد اللہ کے علاوہ ابوبکر بن حسن(ع) بھی شہید ہوئے ہیں۔
آج کی رات اور آنے والی کل کی رات ہم سردار جوانان جنت، سبط اکبر پیغمبر(ص) حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے مہمان ہیں چونکہ ان دو بیٹوں جناب قاسم اور عبداللہ کا تذکرہ کریں گے۔ دونوں نے اپنے چچا اور زمانے کے امام، حسین بن علی علیہماالسلام کے رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔
 عبداللہ بن حسن(ع) امام حسن مجتبی(ع) کے چھوٹے اور نابالغ فرزند تھے جو خاندان رسول(ص) کے دیگر افراد کے ہمراہ کوفہ کی جانب آئے تھے کہ انہیں کربلا لے جایا گیا تھا۔
 عاشورہ (دس محرم الحرام) کی صبح سے لے کر عصر تک، ابتداء میں اصحاب امام حسین(ع) اور ان کے بعد اہل بیت کے افراد ایک ایک کر کے یا دستوں کی صورت میں میدان کارزار میں جاتے رہے اور جام شہادت نوش کرتے رہے؛ آخر کار وہ وقت بھی آن پہنچا جب فرزند رسول(ص) ہزاروں مسلح دشمنوں کے درمیان تن تنہا رہ گئے۔ اور گاہے گاہے صدائے استغاثہ بلند کرتے رہے ’’ھل من ناصر ینصرنی؛ ھل من مغیث یغیثنی؛ ھل من ذابّ یذب عن حرم رسول اللہ(ص)؟‘‘کیا ہے کوئی ناصر جو میری نصرت کو آئے؟کیا ہے کوئی مدد کرنے والا جو میری مدد کرے؟ کیا ہے کوئی دفاع و تحفظ کرنے والا جو رسول اللہ کے خاندان کا تحفظ کرے؟
’’شمر بن ذی الجوشن‘‘ لعین نے کام تمام کرنے کی غرض سے پیدل فوج لے کر فرزند رسول(ص) پر حملہ کیا؛ آپ(ع) کو گھیرے میں لیا اور چاروں طرف سے امام(ع) پر حملہ کیا۔
عبداللہ بن حسن مجتبی(ع) خیموں میں سیدانیوں کے ساتھ تھے مگر ان سے اپنے چچا کی تنہائی اور بے بسی نہ دیکھی گئی، اچانک خیموں سے باہر نکلے، ثانی زہراء(س) نے اپنے بھتیجے کو پکڑنا چاہا اور انہیں میدان کارزار میں جانے سے باز رکھنے اور اپنے بھائی حسن مجتبی(ع) کی یادگار کو یزیدی بھیڑیوں کا شکار ہونے سے بچانے کی کوشش کی؛ لیکن عبداللہ نے کہا: ’’نہیں، خدا کی قسم میں اپنے چچا کو تنہا نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ عبداللہ نے اپنا ہاتھ پھوپھی کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور میدان کی طرف دوڑے اور کود امام حسین(ع) تک پہنچایا تا کہ اپنے ننھے اور کمزور سے بدن کے ساتھ اپنے مولا کا دفاع کریں۔
یہ وہ وقت تھا جب امام کو چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیر رکھا تھا ایک شقی نے آگے بڑھ کر امام پر حملہ کرنے کی غرض سے تلوار چلائی۔ عبد اللہ نے کہا: ’’یابن الخبیثۃ! اتقتل عمّی؟‘‘ اے خبیث ماں کے بیٹے! تو میرے چچا کو قتل کر رہا رہے؟ اس کے بعد عبد اللہ نے خود کو امام کے آگے ڈھال بنا دیا تاکہ تلوار کا وار راکب دوش رسول کے جسم مبارک کو نہ لگے تلوار تیز اور ضربت کاری تھی، عبد اللہ کے بازوں کو بدن سے جدا کر گئی یہاں تک کہ بازوں صرف کھال سے لٹکتا رہا۔ حسن کے یتیم  نے شدت درد سے اپنے بابا کو آواز دی: ’’وا ابتاہ...‘‘۔
اب آپ خود تصور کریں کہ امام حسین(ع) کا کیا حال ہوا ہوگا جن کے پاس بھائی حسن(ع) کی دو امانتیں تھیں قاسم اور عبداللہ، قاسم پہلے ہی شہید ہوچکے تھے اور اب عبداللہ بھی شہید ہورہے تھے اور آپ(ع) اس صورت حال کا مشاہدہ کررہے تھے۔ ایک فارسی شعر کے بقول:
اشك و خون از ديدہ‌اش بر خاك ريخت
اشك بر آن كودكِ بي‌باك ريخت
ترجمہ: امام کی آنکھوں سے اشک و خون زمین پر جاری ہواآپ (ع) نے اس نڈر بچے پر آنسو بہائے۔
امام حسین(ع) نے اپنے زخمی بھتیجے کو آغوش میں لیا اور سینے سے لگا کر ان کے کان میں کہا: "پیارے بھتیجے! صبر کرو اور خدائے بزرگ و برتر کو صدا دو تا کہ وہ تمہیں تمہارے صالح آباء و اجداد سے ملحق فرمائے"۔
شاعر نے یہ واقعہ امام حسین(ع) کی زبان حال میں یوں بیان کیا ہے:
آن برادرزادہ‌ام صد چاك شد
اين برادرزادہ‌ام بر خاك شد
آن برادرزادہ‌ام سرمست رفت
اين برادرزادہ‌ام بي‌دست رفت
ترجمہ: میرے اُس بھتیجے کے سو ٹکرے کئے گئے، میرا یہ بھتیجا بھی خاک پر گرگیا۔ میرا وہ بھتیجا عشق سے سرمست ہوکر گیا اور یہ بھتیجا بے دست ہو کر چلا گیا۔
امام حسین(ع) دست بدعا ہوئے اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا: ’’خداوندا! اگر تو نے مقدر فرمایا ہے کہ اس قوم کو ایک عرصے کے لئے زندہ رکھے تو انہیں شدید تفرقہ اور انتشار سے دوچار فرما... کیونکہ انھوں نے مجھے دعوت دی اور میری نصرت کا وعدہ دیا مگر جب ہم یہاں آئے تو ہم پر حملہ کیا اور ہمیں قتل کردیا‘‘۔
شاعر کہتے ہیں:
بستہ شد چشمش، ولي لب باز شد
آخرين نجواي شہ آغاز شد
كاي خدا گر چہ مرادت حاصل است
ديدن مرگ يتيمان مشكل است
در رہ تو ہستي‌ام از دست رفت
حيف شد، عبداللَہم از دست رفت
اين دو بر من، روح پيكر بودہ‌اند
يــادگــاران بــرادر بـــودہ‌اند
ترجمہ: مولا کی آنکھیں بند ہوئیں اور لب وا ہوئے،شہ کے آخری نجوی کا آغاز ہواکہ اے خدا! اگرچہ تیری مراد حاصل ہوئی لیکن یتیم بچوں کی موت دیکھنا مشکل ہے تیری راہ میں میری ہستی قربان ہوگئی افسوس کہ میرا عبداللہ بھی میرے ہاتھ سے نکل گیایہ دو (قاسم اور عبداللہ) میرے بدن کے لئے روح تھے یہ دونوں میرے ماں جائے (حسن(ع)) کی یادگار تھے۔
اسی اثنا لشکر یزید کے معروف تیر انداز حرملہ بن کاھل نے عبد اللہ کے ننھے سے گلے کا اپنے سہ شعبہ تیر سے نشانہ بنایا اور حسن کا یتیم، حسین کا بھتیجا چچا کی آغوش میں ذبح ہو گیا۔

الا لعنة اللہ علی القوم الظالمين ؛ و سيعلم الذين ظلموا أي منقلب ينقلبون۔

مآخذ:
۱۔ سيد بن طاووس؛ اللہوف في قتلی الطفوف ؛ قم: منشورات الرضي، ۱۳۶۴ ۔
 ۲۔ شيخ عباس قمي؛ نفس المہموم؛ ترجمہ و تحقيق علامہ ابوالحسن شعراني؛ قم: انتشارات ذوي‌القربی، ۱۳۷۸ ۔

 ۳۔ فارسی اشعار، زبان حال کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی کوئی سندیت نہیں ہے۔ ان اشعار کا مأخذ: (جزوہ آموزشي آداب مرثيہ‌خواني با عنوان طنين عشق ؛ تہيہ و تنظيم مرتضی وافي ؛ قم: انتشارات شفق، ۱۳۸۰)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲