اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

6 اکتوبر 2016

12:06:05 PM
783795

چوتھی محرم کے مصائب

جناب زینب کبریٰ(س) کے بیٹوں اور بھائیوں کی شہادت کے واقعات

حضرت عباس (ع) کے تینوں بھائی باری باری میدان جنگ میں چلے گئے اور اپنے اپنے رجز میں سب نے ’’فرزند علی (ع)‘‘ کے عنوان سے اپنا تعارف کرایا اور علوی شجاعت کے جوہر دکھلانے کے بعد جام شہادت نوش کر گئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
یوم عاشور کو جب یزیدی لشکر کے ساتھ جنگ یقینی ہو گئی تو اصحاب سید الشھداء (ع) جب تک زندہ تھے بنی ہاشم کے کسی ایک فرد کو بھی میدان میں جنگ اور شہادت کے لیے نہیں جانے دیا۔ لیکن جب اصحاب و انصار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے اور ایک ایک نے جام شہادت نوش کر لیا، تب اہل بیت پیغمبر(ص) کی باری آئی کہ وہ راہ حق میں اپنی جانوں کو قربان کریں۔
ان دشوار لمحات میں علی (ع)، جعفر طیار، عقیل، امام حسن(ع) اور سیدالشہداء (ع) کے بیٹے اکٹھے ہوئے ایک دوسرے سے گلے ملے اور الوداع کیا۔
پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ایک روایت میں ہے کہ ایک دن آپ نے قریش کے چند نوجوانوں کو دیکھا جو خوبصورت اور نورانی چہروں کے مالک تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) انہیں دیکھ کر غمگین ہوئے۔ اصحاب نے سبب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم ایک ایسا خاندان ہیں خدا نے ہمارے لئے آخرت کو پسند کیا ہے دنیا کو نہیں۔ مجھے وہ مصائب یاد آگئے جو میری امت میرے فرزندوں پر ڈھائے گی۔ میرے امتی انہیں قتل کریں گے یا انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کریں گے‘‘۔
 کربلا میں یزیدیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فرزندان رسول (ص) میں سے تین افراد عبداللہ بن جعفر طیار و زینب کبری(س) کے بیٹے اور تین افراد حضرت عباس(ع) کے سگے بھائی یعنی حضرت زینب (س) کے بھائی تھے۔
جناب زینب (س) کے بیٹے
’’عون‘‘، ’’محمد‘‘ اور ’’عبیداللہ‘‘ حضرت زینب اور عبداللہ بن جعفر کے بیٹے تھے، جو اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لئے کربلا آئے تھے۔
انھوں نے جب اپنے ماموں اور اپنے زمانے کے امام کی تنہائی دیکھی تو ایک ایک کرکے میدان کارزار میں اترے اور اپنی جانیں اسلام عزیز پر قربان کردیں۔
 ’’عون‘‘ اپنی والدہ زینب سلام اللہ علیہا کی فکرمند آنکھوں کے سامنے میدان کی جانب گئے جبکہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
ان تنکرونی فانابن جعفر
شہید صدق فی الجنان ازھر
یطیر فیھا بجناح اخضر
کفی بھذا شرفا فی المحشر
ترجمہ؛ اگر تم مجھے نہیں جانتے تو جان لو میں جعفر کا بیٹا ہوں وہی جو صدق و حقیقت کی راہ میں شہید ہوکر فردوس بریں میں چمک رہے ہیں وہی جو جنت کے اوپر سبز پروں کے ذریعے پرواز کررہے ہیں اور یہی نسب و شرف روز محشر کے لئے کافی ہے۔
جناب عون نے یزیدی لشکر کے تین سواروں اور 18 پیدل سپاہیوں کو واصل جہنم کیا اور آخرکار لشکر یزید کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے۔
ان کے بعد ان کے بھائی محمد اور عبیداللہ بھی راہ حق میں لڑتے لڑتے لشکر یزید کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
زینب (س) کے بھائی
’’ ابوالفضل العباس‘‘، ’’عبداللہ‘‘، ’’جعفر‘‘ اور ’’عثمان‘‘ امام حسین علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے چار سوتیلے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام ’’فاطمہ ام البنین(س)‘‘ تھا۔
جب حضرت ابوالفضل العباس نے دیکھا کہ اہل بیت میں سے بھی کئی افراد شہید ہوچکے ہیں تو انھوں نے اپنے تینوں بھائیوں سے کہا: ’’پیارے بھائیو! میں چاہتا ہوں کہ تم میری نظروں کے سامنے میدان کارزار میں جاؤ تا کہ میں خدا اور رسول خدا (ص) کی راہ میں تمہارے اخلاص کا مشاہدہ کروں‘‘۔
 حضرت عباس (ع) کے تینوں بھائی باری باری میدان جنگ میں چلے گئے اور اپنے اپنے رجز میں سب نے ’’فرزند علی (ع)‘‘ کے عنوان سے اپنا تعارف کرایا اور علوی شجاعت کے جوہر دکھلانے کے بعد جام شہادت نوش کر گئے۔
عثمان بن علی، جنکے بارے میں امیرالمؤمنین نے فرمایا: ’’میں نے اپنے بھائی عثمان بن مظعون (صحابی رسول اللہ (ص))  کے نام پر اپنے اس بیٹے کا نام ’’عثمان‘‘ رکھا‘‘،۲۱ سالہ نوجوان تھے۔ دشمن نے جب ان کی دلیرانہ جنگ دیکھی تو اس ہاشمی نوجوان کو قتل کرنے کے لئے تیراندازی کا سہارا لیا۔ ’’خولی‘‘ نے اپنے تیر سے ان کے پہلو کو نشانہ بنایا اور ثانی زہرا (س) کے بھائی زین سے زمین پر آ گئے، اسی حال میں ایک شقی القلب یزیدی نے ان کے مجروح جسم پر حملہ کیا اور انہیں شہید کرکے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔
ان چھے جوانوں کو شہید ہوتے ثانی زہراء زینب کبری نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کربلا کی اس شیرزن نے نصف یوم کے دوران اپنے کئی بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں اور چچازاد بھائیوں کو خاک و خوں میں ٹرپتے دیکھا اور ان کے سروں کا نوک سناں پر مشاہدہ کیا... امان از دل زینب۔۔۔
الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون
 منابع:
۱. سيد بن طاووس ؛ اللهوف في قتلی الطفوف ؛ قم: منشورات الرضي، ۱۳۶۴ .
۲. شيخ عباس قمي ؛ نفس المهموم ؛ ترجمه و تحقيق علامه ابوالحسن شعراني ؛ قم: انتشارات ذوي‌القربی، ۱۳۷۸

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲