اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

5 اکتوبر 2016

4:40:17 PM
783631

تیسری محرم کے مصائب

جناب حر کی شہادت کا واقعہ

امام علیہ السلام نے خود کو جناب حر کی لاش پر پہنچایا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے حر! یقینا تم دنیا و آخرت میں حر ہو جیسا کہ تمہاری ماں نے تمہارا نام حر رکھا ہے۔ اس کے بعد ایک کپڑے سے جناب حر کا سر باندھا جس سے خون جاری تھا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔

ترجمہ: افتخار علی جعفری
جناب حر حقیقی توبہ اور مستحکم ارادے کا پیکر
حر بن یزید ریاحی کوفہ کے ایک بہادر اور دلیر سپہ سالار تھے۔ بعض انہیں کوفہ کا شجاع ترین مرد کہتے ہیں۔ اس لقب کی اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب یہ جان لیا جائے کہ کوفہ ایک فوجی چھاونی اور اسلام کا سب سے وہ پہلا قلعہ  تھا جو اس زمانے کی سپرپاور ’’سلطنت ایران‘‘ کے مقابلے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس میں ساکن افراد کی زیادہ تر تعداد فوجیوں اور نامور سپہ سالاروں کی تھی۔
جب عبید اللہ بن زیاد کو یہ خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام عراق پہنچ چکے ہیں تو اس نے حر کو ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل لشکر کے ساتھ امام کے راستے میں بھیج دیا تاکہ آپ کا راستہ روکیں یا آپ کو دار الامارہ لے کر آئیں۔
جب حر عبید اللہ کے دربار سے باہر نکلا تو اسے پیٹھ پیچھے سے ایک غیبی آواز سنائی دی کہ کسی نے کہا: ’’ حر! خوشابحال کہ تم سعادت کی طرف جا رہے ہو!‘‘۔ حر صاحب آواز کی طرف پلٹا لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ تعجب کے ساتھ خود سے پوچھا: یہ کیسی بشارت تھی؟ اور یہ کون سے سعادت ہے جو حسین سے جنگ کے راستے میں مل رہی ہے؟!
آدھے دن کی مدت میں حر کا لشکر امام علیہ السلام کے کاروان تک پہنچ گیا۔ دھوپ کی طمازت سے لشکر پر پیاس کی شدت طاری تھی۔ امام علیہ السلام نے لشکر کو پیاسہ دیکھتے ہی اپنے اصحاب سے فرمایا: ’’اس لشکر اور اس کے جانوروں کو پانی پلاؤ‘‘۔ اس درمیان امام علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک سپاہی خود سے پانی پینے کی توانائی بھی نہیں رکھتا امام خود اٹھے  اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے پانی پلایا۔
آج امام کی اس محبت اور عطوفت کا مشاہدہ کریں اور کل عصر عاشور کو اسی لشکر کی سنگ دلی کو بھی دیکھیں۔ آج حسین(ع) نے ان کے گھوڑوں کو بھی پانی دیا کل یہ حسین(ع) کے بچوں پر بھی پانی بند کر دیں گے!
حر کا لشکر پانی پی کر سیراب ہوا، نماز کا وقت آن پہنچا۔ امام خیمہ سے باہر تشریف لائے اور ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا:’’ اے لوگو! میں خود سے تمہاری طرف نہیں آیا ہوں، تمہارے خطوط نے مجھے بلایا ہے، تمہارے بھیجے ہوئے نمائندے میرے پاس آئے اور کہا ہمارا کوئی امام نہیں ہے آپ ہمارے پاس آ جائیں۔ بہر حال اگر اپنے عہد و پیمان پر باقی ہو تو ٹھیک ہے اگر اپنے وعدے پر باقی نہیں اور میرے آنا تمہیں گوارا نہیں لگتا تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں‘‘۔
اس کے بعد حر سے پوچھا: ’’اپنے ساتھیوں کے ساتھ الگ نماز پڑھنا چاہتے ہو؟ کہا: نہیں، ہم سب آپ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے۔
امام نماز پڑھانے کے بعد اپنے خیمے میں واپس آ گئے اور حر بھی اپنے سپاہیوں کے مجمع میں چلا گیا۔ عصر کی نماز کے وقت امام پھر دوبارہ خیمے سے نکلے اور کوفیوں کی طرف رخ کر کے فرمایا: اے لوگو! اگر خدا سے ڈرو اور حق کو اس کے اہل کے سپرد کرو تو جان لو کہ خدا تم سے زیادہ راضی ہو گا۔ ہم اہل بیت(ع) خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ان جھوٹے دعویداوں کی نسبت جو اس مقام کے مستحق نہیں اور تمہارے اوپر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں بھی پسند نہیں کرتے اور ہمارے حق کو نہیں پہچانتے اور آپ کی رائے اس کے علاوہ ہے جو کچھ تم نے اپنے خطوط میں لکھا ہے اور جو کچھ آپ کے نمائندوں نے کہا ہے تو میں واپسی کا ارادہ کر لیتا ہوں‘‘۔ حر نے کہا: خدا کی قسم مجھے ان خطوط اور ان نمایندوں کی کوئی خبر نہیں۔ امام نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ اس گٹھری کو لےآو جس میں کوفیوں کے خطوط جمع ہیں۔ امام نے تمام خطوط حر کو دکھائے۔ حر نے کہا: میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جنہوں نے یہ خطوط لکھے ہیں۔ مجھے حکم ملا ہے کہ میں آپ کو زیر نظر رکھوں یہاں تک کہ عبید اللہ کے پاس لے جاوں۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب و بیبیوں سے کہا کہ سوار ہو جاو اور واپس چلو۔ لیکن حر کے لشکر نے امام کا محاصرہ کر لیا اور واپس مدینہ بھی نہیں جانے دیا۔
امام اور لشکر حر کے درمیان گفتگو کسی نتیجے پر نہیں پہنچی آخر کار امام کو سرزمین کربلا آنے پر مجبور کر دیا گیا۔
لیکن دیکھیں یہی شخص جس نے آج امام پر راستہ بند کیا کل توبہ کرنے کے بعد اس کی قسمت کس طرح بدل جاتی ہے:
صبح عاشور جب حر نے امام علیہ السلام کی صدائے استغاثہ سنی جس میں آپ نے فرمایا: ’’اما من مغیث تغیثنا لوجہ اللہ؟ اما من ذاب یذب عن حرم رسول اللہ؟ کیا کوئی مدد کرنے والا ہے جو راہ خدا میں ہماری مدد کرے؟ کیا کوئی دفاع کرنے والا ہے جو حرم رسول خدا کا دفاع کرے؟ تو حر عمر سعد کے پاس گیا اور کہا: کیا سچ میں تو اس مرد کے ساتھ جنگ کرے گا؟ عمرسعد نے جواب دیا: ہاں۔ حر نے کہا: کیوں ان کی اس بات کو نہیں مانتا جو وہ واپس جانا چاہتے ہیں؟ عمر سعد نے کہا: اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں مان لیتا لیکن عبید اللہ اس بات پر راضی نہیں۔
یہ وہ لمحہ تھا کہ حر سمجھ گئے یزیدی امام کو قتل کرنے پر مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔۔۔ حر میدان کے ایک طرف فرزند رسول اور خاندان وحی کو دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف رسول خدا کے دشمنوں کو، ایک طرف اللہ کے صالح بندے پر نگاہ تھی اور دوسرے طرف غاصب خلیفہ پر جو کھلے عام شراب پیتا اور حرام الہی کو حلال اور حلال الہی کو حرام کرتا تھا، ایک طرف عشق اور شہادت کے میدان کو دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف نفرت اور خباثت کو، ایک طرف سعادت اور خوشبختی نظر آ رہی تھی اور دوسری طرف شقاوت اور بدبختی۔۔۔
حر نے اپنا آخری فیصلہ کر لیا جبکہ حر ہزاروں سپاہیوں کے کمانڈر اور سپہ سالار تھے۔
حر اپنی سواری کو پانی دینے کے بہانے سے لشکر یزیدی سے دور اور حق و حقیقت کے خیمے سے قریب ہو رہے تھے کہ حر کے ساتھی مہاجر بن اوس نے آپ سے پوچھا: کیا ارادہ ہے؟ کیا حسین پر حملہ کرنا چاہتے ہو؟ حر نے کوئی جواب نہیں دیا، جب کہ ان کا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ مہاجر نے کہا: خدا کی قسم آج تک تجھے میں نے اس حالت میں نہیں دیکھا۔ اگر مجھ سے کوئی کوفہ کے شجاع ترین شخص کا نام پوچھتا تھا تو میں تمہارا نام لیتا تھا۔ حر نے جواب دیا: خدا کی قسم خود کو جہنم اور جنت کے درمیان دیکھ رہا ہوں اور اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا مجھے جلا دیا جائے تو بھی میں جنت پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دوں گا۔ اس کے بعد اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور امام کے قافلے کی طرف چلے گئے۔
حر جب امام علیہ السلام کے پاس پہنچے شرمندگی سے اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھ دیا اور کہا: اللھم الیک انبت فتب علی فقد ارعبت قلوب اولیائک و اولاد بنت نبیک۔ خداوندا! میں تیری طرف پلٹ کر آ گیا ہوں میری توبہ قبول کر لے اس لیے کہ یہ میں تھا جس نے تیرے بندوں کے دلوں میں دھشت پیدا کی اور تیرے رسول کی بیٹی کی اولاد کو ڈرایا۔ اس کے بعد انتہائی شرمندگی سے امام سے عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں اے فرزند رسول خدا! یہ میں تھا جس نے آپ کا راستہ روکا اور آپ کو پریشان کیا اس لیے کہ میں ہرگز یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا۔ خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ایسا ہو گا تو کبھی آپ کا راستہ نہ روکتا۔ اب میں شرمندہ ہوں اور اپنے کئے پر پشیمان ہوں خدا کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ کیا میری توبہ قبول ہو گی؟
امام نے فرمایا: ہاں، خدا تمہاری توبہ کو قبول کرے! گھوڑے سے نیچے آجاؤ۔ حر نے عرض کیا: چونکہ میں سب سے پہلا وہ شخص تھا جو آپ کے مقابلے میں آیا لہذا چاہتا ہوں سب سے پہلے آپ کی آنکھوں کے سامنے قتل ہو جاوں، شاید قیامت کے دن آپ کے نانا میری دستگیری کریں۔
امام علیہ السلام نے جناب حر کو اذن جھاد دیا۔ حر امام کے سامنے کھڑے ہوئے اور یزیدی لشکر کو مخاطب کر کے کہا: اے اہل کوفہ! تم نے اللہ کے اس نیک بندے کو دعوت دی اور جب وہ آیا تو اسے تنہا چھوڑ دیا؟! تم نے کہا کہ ہم آپ کی راہ میں جان کی بازی لگائیں گے اور جب وہ آیا تو اس پر تلواریں نکال لیں اور اس پر گھیرا ڈال لیا کہ وہ اللہ کی زمین پر کہیں بھی نہ جا سکے؟ یہود و نصاریٰ اور مجوسی فرات سے پانی پیتے ہیں لیکن تم نے اس پر اور اس کے اہل و عیال پر پانی بند کر دیا؟ خدا میدان حشر میں تمہیں سیراب نہ کرے اس لیے کہ تم نے محمد کی حرمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا۔ یزیدی فوج حر کی باتوں کو سن کر تحمل نہ کر سکی اور جناب حر پر تیروں کی بارش کر دی۔ جناب حر نے رجز پڑھنا شروع کیا اور زہیر کے ہمراہ دشمن کے لشکر پر حملہ کیا اور اتنی بہادری سے جنگ کی کہ کئی دشمنوں کو واصل جہنم کیا یہاں تک کہ سب نے مل کر جناب حر پر حملہ کر ڈالا اور انہیں شہید کر دیا۔
امام علیہ السلام نے خود کو جناب حر کی لاش پر پہنچایا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے حر! یقینا تم دنیا و آخرت میں حر ہو جیسا کہ تمہاری ماں نے تمہارا نام حر رکھا ہے۔ اس کے بعد ایک کپڑے سے جناب حر کا سر باندھا جس سے خون جاری تھا۔
ہاں، امام حسین علیہ السلام خود کو ہر ایک شہید کے لاشے پر پہنچاتے تھے اور اس کے سر کو اپنی آغوش میں رکھتے تھے لیکن قربان جائیں اس لاشے پر جس کا سر اپنی آغوش میں رکھنے والا کوئی نہ تھا وہ تن تنہا مقتل میں دم توڑ رہا تھا اور دشمن سینے پر سوار تھا۔۔۔
الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

منابع و مآخذ
ا: سید بن طاووس، اللھوف فی قتلی الطفوف، قم، منشورات الرضیٰ، ۱۳۶۴
۲: شیخ عباس قمی، نفس المھموم، ترجمہ و تحقیق علامہ ابوالحسن شعرانی، قم، انتشارات ذوی القربیٰ، ۱۳۷۸