اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ :
جمعہ

18 اپریل 2014

1:25:23 PM
603250

خواجہ نصیر الدین طوسی کون تھے؟

اور یہ جو کہا گیا ہے کہ جب مومن فقیہ مرتا ہے تو 'ثلم فی الاسلام' ایک ناقابل اصلاح اسلامی معاشرہ میں ایسا شگاف پڑجاتا ہے جو پر نہیں ہوسکتا تو وہ ہم جیسے لوگوں کے مرنے سے نہيں ہوتا جن کا کام مطالعہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے بھلا ہمارے مرنے سے اسلامی معاشرہ میں کون سا خلا پڑ جائے گا؟جو لوگ عقائد، اسلامی قوانین اور اجتماعی اصولوں کے محافظ ہیں جیسے خواجہ نصیر الدین طوسی، علامہ حلی وغیرہ اگر یہ حضرات مرجائيں تب خلا پیدا ہوتا ہے۔(امام خمینی)

س: Khawaja naseer ud din toosi kon thy...tafseel sy batain

جواب:

اہل بیت(ع) نیوز ایجسنی۔ابنا۔ محمد بن محمد بن حسن معروف بہ خواجہ نصیرالدین طوسی (٥٩٧ تا ٦٧٢ ھ ق) کا شمار چھٹی صدی ہجری میں تاریخ تشیع کے اہم اور بزرگ علماء میں ہوتا ہے ، انہوں نے علمی سلسلہ میں بہت زیادہ خدمتیں انجام دی ہیں ، شہر طوس میں ان کی ولادت ہوئی ،دینی اور دنیوی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد نیشاپور گئے اور وہاں پر سطوح عالی کی تعلیمات حاصل کیں، جوانی میں اپنے والد کی وفات اور نیشاپور پر٦١١ ہجری قمری میں مغلوں کے قبضہ کے بعدناصر الدین عبدالرحیم بن ابی منصور (متولی قھستان) کی دعوت پر قھستان کے قلعہ میں چلے گئے ،اس کے بعد قلعہ الموت میں منتقل ہوگئے اور ایران پر مغلوں کے پور ے قبضہ کے بعد ان کو اسیر بنالیا گیا اور بعد میں ہلاکو خان کے وزیر بن گئے ۔ مسلمانوں کے درمیان ان کی زیادہ شہرت ہلاکو خان کی وزرات نیز کتاب »تجرید العقائد » یا »تجرید الاعتقاد» کی تالیف کی وجہ سے ہوئی ، اس کتاب نے شیعہ عقاید کے استدلال میں بہت زیادہ اپنا اثر چھوڑا ، لہذااس کتاب پر شیعہ اور سنی علماء نے بہت زیادہ نقد، تعلیقہ اور شرحیں لکھی ہیں ۔
انہیں مختلف علوم جیسے : فقہ، اصول ، عقاید اسلامی، طبیعیات ، ریاضیات، ھیات ، حدیث وکلام پر بہت زیادہ مہارت حاصل تھی ، علوم اسلامی اور علوم بشری کو مختلف ابعاد میں گسترش دینے کی وجہ سے ان کو »استاد البشر» کے لقب سے نوازا گیا ۔
فقہ، کلام، علوم عقلی و نقلی اور طبیعیات میں ان کی تاثیر اس حد تک ہے کہ مغربی دانشور نے بھی ان کی تعریف کی ہے ان میں سے ایک جرمن کے پروفیسر »بروکلمان» ہیں جس نے ان کو »علم اوائل»(١) کے سرکردہ کہا ہے اور ان کو چھٹی ہجری کے مشہور ترین عالم کے عنوان سے خطاب کیا ہے ۔
خواجہ کو شعری ذوق بھی حاصل تھا ، انہوں نے اپنے دیوان »منازل السالکین» میں بارہ سو اشعار لکھے ہیں ۔
آپ عماد الدین حسن بن علی طبری اور محقق حلی کے ہم عصر تھے ، انہوں نے علمی مدارج طے کرنے میں بزرگ علماء او راساتید سے استفادہ کیا ہے جن کے نام یہ ہیں :
سراج الدین قمری ، قطب الدین سرخی، ابی السعادات اصبھانی ، فرید الدین نیشاپوری ، معین الدین سالم بن بدران مصری، کمال الدین موسی بن یونس بن محمد موصلی شافعی ، محمد بن حمدانی قزوینی، وجیه الدین محمد بن الحسن (جو که ان کے جد اعلی تهے) سید فضل الله راوندی (سید مرتضی علم الهدی کے شاگرد) . نورالدین علی بن محمد شیعی، نصیرالدین ابوطالب عبدالله بن حمزه طوسی، کمال الدین محمد حاسب ، قطب الدین مصری، جعفر بن حسن حلی .

خواجہ نے بہت سے مستعد شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں :
1. سید عبدالکریم بن احمد بن طاووس حلی.
2. قطب الدین محمد بن مسعود شیرازی .
3. شهاب الدین ابوبکر کازرونی .
4. ابوالحسن علی بن عمر قزوینی کاتبی .
5. حسن بن یوسف معروف به علامه حلی .
6. حسن بن علی بن داوود حلی .
7. عبدالرزاق ابن فوطی وغیره.

شہید مرتضی مطہری رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک درس خطاب میں فرماتے ہیں کہ "حالانکہ علمائے اسلام میں شیخ طوسی کے برابر کسی نے بھی دین کی خدمت نہیں کی شاید ہی ایک دو عالم ان کے مرتبے کو پہنچے ہوں"

حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہيں کہ " اور یہ جو کہا گیا ہے کہ جب مومن فقیہ مرتا ہے تو 'ثلم فی الاسلام' ایک ناقابل اصلاح اسلامی معاشرہ میں ایسا شگاف پڑجاتا ہے جو پر نہیں ہوسکتا تو وہ ہم جیسے لوگوں کے مرنے سے نہيں ہوتا جن کا کام مطالعہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے بھلا ہمارے مرنے سے اسلامی معاشرہ میں کون سا خلا پڑ جائے گا؟ یہ جب امام حسین علیہ سلام دنیا سے جاتے ہیں تو ثلم فی الاسلام ہوتا ہے۔ جو لوگ محافظ عقائد ہیں جو اسلام کے قوانین اور اجتماعی نظام کے محافظ ہیں جیسے خواجہ نصیر الدین طوسی، علامہ حلی(یہ یاد رہے کہ علامہ حلی خواجہ نصیر الدین طوسی کے ہی شاگرد تھے : زین عباس) وغیرہ جنہوں نے نمایاں اور شایان شان خدمت کی ہے اگر یہ حضرات مرجائيں تب خلا پیدا ہوتا ہے۔ (حوالہ کتاب ولایت فقیہ صفحہ نمبر 183)
انہوں نے علم کلام ، فقہ، اخلاق، نجوم، حدیث اور تاریخ میں مختلف کتابیں تالیف اور تصنیف کی ہیں جن کے نام یہ ہیں :
1. تجرید الاعقائد (تجرید الکلام یا تجرید الاعتقاد) .
2. بقاء النفس بعد بوار البدن.
3. جواهر الفرائد فی الفقه.
4. الفرائض النصیریه .
5. آداب المتعلمین .
6. رساله فی الامامه .
7. رساله فی العصمه .
8. تلخیص المحصل .
9. الجبر و الاختیار .
10. جوابات الطوسی لصدر الدین قونوی .
11. الفصول النصیریه .
12. قوائد العقائد .
13. اساس الاقتباس (فی المعانی والبیان) .
14. خلافت نامه .
15. اخلاق ناصری .
16. الاربعون حدیثا .
17. تزکیه الارواح عن موانع الافلاح .
اسی طرح مختلف موضوعات پر ان کے تقریبا 180 مقالات هیں .
انہوں نے علوم، اسلامی تعلیمات اور علوم علوی و جعفری کی ترویج میں بہت زیادہ خدمتیں انجام دی ہیں ، آخر کار شہر بغداد میں ان کا انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو امام موسی بن جعفر (علیہما السلام) کی ملکوتی بارگاہ کے پاس شہر کاظمین میں دفن کیا گیا ۔

حوالہ جات
1. سید محمد حسین حسینی جلالی ،فهرس التراث ، قم ، دلیل ما ، 1422 ق، جلد 1 ، صفحه 539
2. میرزا عبدالله افندی تبریزی ، تعلیقه امل الآمل ، قم، کتابخانه آیه الله مرعشی نجفی ، 1410 ق ، صفحه 172 ، بعد صفحه 177 .
3. آیه الله شیخ جعفر سبحانی ، موسوعه طبقات الفقهاء ، قم، موسسه امام صادق ، 1418 ق، صفحه 184 ، جلد 5 ، صفحه 131 ، و 184 ، بعد ، جلد 6 ، صفحه 47 و 69 و 175 و 289 .
4. سید محسن امین ، مستدرکات اعیان الشیعه ، بیروت ، دار التعارف للمطبوعات ، 1408 ، جلد 1 ، صفحه 86 و 87 .
5. شیخ آقا بزرک تهرانی ، الذریعه الی تصانیف الشیعه ، قم ، اسماعیلیان ، 1408 ق ، جلد 2 ، صفحه 102.
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲