اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
اتوار

17 اپریل 2011

7:30:00 PM
237330

علامہ سید محمد جواد ہادی:

قبائلی علاقوں میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں / راستہ کھلنا مسئلہ نہیں، بلکہ اسے محفوظ بنانا مسئلہ ہے

علامہ سید محمد جواد ہادی: مغویوں کی رہائی سے متعلق حکومت کہتی ہے کہ جرگہ والوں سے بات چیت چل رہی ہے اور ان کی رہائی کو جلد ممکن بنایا جائے گا لیکن حقیقیت یہ ہے کہ پاراچنار کے نمائندوں کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی ہے۔ اب ممکن ہے کہ جنگ چھڑ جائے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ کیوں کہ اب لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

علامہ سید جواد ہادی سابق سینیٹر، ملک کی معروف علمی و سیاسی شخصیت اور سابق تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی رہنما ہیں۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق پاراچنار سے ہے اور ان کا شمار پارا چنار کے مرکزی قائدین میں ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے پارا چنار کی صورت حال پر ان سے مختصر گفتکو  کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، پارا چنار گزشتہ چار سالوں سے حالت جنگ میں ہے، امن معاہدہ ہوا اس کے باوجود دوبارہ اس معاہدے کو سبوتاژ کیا گیا اور 45 افراد کو اغوا کیا گیا۔ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔؟ علامہ جواد ہادی:حکومت اور جرگے کی کوششوں سے ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت راستہ کھلا اور پاراچنار کے عوام نے آنا جانا شروع کیا، لیکن اس کے بعد دوبارہ وہی پہلے والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، قبائلی علاقوں میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جو حالات کو کنٹرول کر سکے۔ اس وجہ سے ان علاقوں میں کئی مسلح گروپس ہیں جو مسلحانہ کاررائیاں کرتے ہیں۔

جس گروپ کے ساتھ امن معاہدہ ہوا وہ کہتے ہیں کہ ہمارے مخالف گروپ نے یہ کاروائیاں کی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کاروائی اسی گروپ کی کارستانی ہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس گروپ کے کچھ مطالبات حکومت نے پورے نہیں کیے، جس کی وجہ سے یہ راستے دوبارہ غیر محفوظ بنا دیئے گئے۔

معاہدہ کرنے والے گروپ کے کچھ لوگ پکڑے گئے تھے اور کچھ مطالبات ایسے ہیں جو حکومت نے پورے نہیں کئے جس پر یہ کاروائی کی گئی۔ حقیقی صورتحال اب تک واضح نہیں ہو سکی۔

پاراچنار کے کے قائدین کی جانب سے حکومت کو ایک ہفتے کی ڈید لائن دی گئی تھی کہ اگر مغویوں کو رہا نہ کرایا گیا تو دوبارہ جنگ چھڑ سکتی ہے۔

اشیاء خورد ونوش کی قلت ہے۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس نے پاراچنار کے لوگوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔

لوگوں کی اقتصادی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ ایسی صورتحال میں سب لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، آپ کے خیال میں، ان کاروائیوں میں کونسا گروپ ملوث ہے، جو نہیں چاہتا کہ وہاں امن قائم ہو اور لوگ سکون کی زندگی گزار سکیں؟ علامہ سید محمد جواد ہادی: اس وقت قبائلی علاقے میں کئی گروپس موجود ہیں، کبھی ایک گروپ ایک معاہدہ کرتا ہے تو دوسرا گروپ اس معاہدے کو ناکام بنانے کیلئے اس طرح کی کاروائیاں کرتا ہے۔ حالیہ امن معاہدہ طالبان کے کمانڈر فضل سعید کے ساتھ ہوا تھا، جبکہ اس کے مخالف کمانڈر کا تعلق حکیم اللہ اور بیت اللہ محسود سے ہے، فضل سعید کی جانب کہا جا رہا ہے کہ حکیم اللہ گروپ کی جانب سے یہ کاروائی کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، حکومت نے ابتک کیا اقدامات کیے ہیں، دوسرا یہ کہ جو اقدامات ہوئے ہیں کیا ان سے پارا چنار کے لوگ مطمئن ہیں۔؟ علامہ سید محمد جواد ہادی: حکومت کہتی ہے کہ ہم کاروائی کر رہے ہیں اور طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کچھ لوگوں کو پکڑا ہے۔ مغویوں کی رہائی سے متعلق حکومت کا کہنا ہے کہ جرگہ والوں سے بات چیت چل رہی ہے اور جلد ان کی رہائی کو ممکن بنایا جائے گا لیکن حقیقیت یہ ہے کہ پاراچنار کے نمائندوں کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی ہے۔ چنانچہ اب ممکن ہے کہ جنگ چھڑ جائے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ کیونکہ اب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

چار سال گزر گئے لیکن اب تک کوئی اس حوالے سے ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ایک طرف لوگوں کو امن معاہدہ کر کے کہا جاتا ہے کہ وہ اب ا ٓجا سکتے ہیں لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ راستے کھلنے کے چند ہی روز بعد اس طرح کی کاروائی ہو جاتی ہے۔

راستہ کھلنا اصل مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ اُسے محفوظ بنانا ہے جس میں اب تک حکومت ناکام ہے۔ اب تک حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، مؤمنین کے لئے کیا پیغام دیں گے؟ علامہ سید محمد جواد ہادی:چار سال سے مسلسل پارا چنار کے لوگ پریشانی اور بے چینی کی کیفیت میں رہ رہے ہیں، راستے بند ہیں، بے روزگاری عام ہوتی جا رہی ہے، نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے اور بیرون ملک جانے میں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے۔ قوم نے پچھلے چار سال سے ان کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھے اور انھوں نے دشمنوں سے جنگ کی اور الحمداللہ کامیابی ملی۔

اب بھی قوم سے درخواست کرتے ہیں کہ ظلم و بربریت اب بھی باقی ہے لٰہذا اپنا تعاون جاری رکھیں، تاکہ ان مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

/110