اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ :
پیر

31 جنوری 2011

8:30:00 PM
223869

اسلام کے خلاف پالیسیوں کا تسلسل؛

صہیونی ریاست کی حمایت میں آذری وزیر خارجہ کی ہرزہ سرائی / تبصرہ

آذربائی جان کے وزیر خارجہ نے ایک کویتی روزنامے سے بات چیت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر زور دیتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت (!؟) کا دعوی کیا ہے اور کہا ہے کہ "ہم اجازت نہیں دیں گے کہ تہران باکو کو تل ابیب کے خلاف استعمال کرے!۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق آذربائی جان کے وزیر خارجہ المار محمد یاروف (Elmar Mammadyarov) نے اپنے دورہ کویت پر کویتی روزنامے "الرأی العام" سے بات چیت کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ آذربائی جان کے تعاون اور باکو ـ تہران کے تعلقات پر اس تعاون کے منفی اثرات کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیا ہے۔ س: یہ کیونکر ممکن ہے کہ باکو اسرائیل کے ساتھ اپنے قریبی روابط اور تعاون کا سلسلہ بھی جاری رکھے اور دوسری جانب سے عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کا دعوی بھی کرتا رہے؟ج: ہمارے اسلامی دنیا ـ بالخصوص ترکی اور اسلامی کانفرنس تنظیم ـ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور جب کسے مسئلے پر ہمیں اقوام متحدہ میں ووٹ دینا ہوتا ہے تو عالم عرب اور عالم اسلام کے مفاد کو سامنے رکھ کر موقف اپناتے ہیں لیکن یہ جو ہمارے تعلقات اسرائیل کے ساتھ اچھے ہیں اور اسرائیل کا باکو میں دفتر اور سفارتخانہ بھی ہے تو اس کا تعلق یہودیوں کی اس بڑی آبادی سے ہے جو آذربائی جان میں رہتے ہیں۔(!؟)۔ اور یہی بات صہیونیوں کے ساتھ ہمارے قریبی معاشی تعلقات کا سبب بھی ہے۔ایک وضاحت: آذربائی جان کی کل آبادی: 8,120,247 مسلم آبادی: 2/99 فیصدشیعہ آبادی: 85% (ویکی پیدیا)سنی آبادی (جو تمام سنی فرقوں، صوفیوں اور وہابیوں پر مشتمل ہے): تقریباً 2/14 فیصد یہودی، عیسائی، ہندو، آرتھوداکس اور کیتھولک عیسائی اور دیگر فرقی:08/00 فیصدیہودیوں کی کل آبادی (2010): 6,800بہرحال:یاروف نے تضادات سے بھرپور موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا: جہاں تک فلسطین کے مسئلے کا تعلق ہے تو ہم فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ہمارا موقف واضح طور پر فلسطینیوں کی حمایت پر مبنی ہے!؛ ابھی تک آذربائی جان نے تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ نہیں کھولا اور ہم منتظر ہیں کہ مملکت فلسطین مکمل طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم کی جائے اور فلسطین اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرے۔ سوال: آذربائی جان کے صہیونی ریاست کے ساتھ فوجی اور سیکورٹی تعلقات بھی ہیں؛ کیا یہ تعلقات پڑوسی ممالک بالخصوص ایران کے ساتھ آپ کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونگے؟ج: صہیونی ریاست کے ساتھ ہمارے سیکورٹی اور فوجی روابط کے کئے اسباب و وجوہات ہیں:1۔ جب ہم نے سوویت یونین سے آزادی حاص کی تو اسرائیل نے ہمارا ہاتھ تھاما اور دوستی کا اظہار کیا چنانچہ ہم اسرائیل کا یہ احسان کبھی نہیں بھلاسکتے!۔2۔ جب ہم نے اپنی فوج تشکیل دینا چاہے تو اسرائیل نے ہماری فوج کی تشکیل نو کی، ہمیں ہتھیار فروخت کئے اور ہماری فوج کو ہتھیاروں سے لیس کیا اور ہماری وزارت دفاع کے لئے قابل اعتماد تجارتی شریک کے طور پر سامنے آیا۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ اسرائیل کی اس کارکردگی کے پیش نظر ہم اسرائیل کی خیر سگالی کا جواب خیر سگالی سے کیوں نہ دیں؟یہاں آذری وزیر خارجہ نے اپنا لہجہ بدل کر اپنی خودمختاری جتانے کی غرض سے الرأی العام کے نمائندے سے "حق بجانب ہوکر" کہا: میں یہ بھی کہتا چلوں کہ صہیونی ریاست کے ساتھ ہمارے تعلقات ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات پر ہرگز اثرانداز نہیں ہونگے!۔ ہم اور ایران دو پڑوسی ممالک ہیں، ہمارے بیچ طویل سرحد ہے، ہماری زبان و تہذیب مشترکہ ہے اور ترکی زبان (آذری زبان) ایران میں رائج اہم زبانوں میں شماری ہوتی ہے۔ سوال: بعض اوقات دیکھا جاتا ہے جمہوریہ آذربائی جان ایران اور صہیونی ریاست کے درمیان میدان جنگ میں بدل جاتی ہے؛ اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟آذری وزیر خارجہ کا جواب قابل غور ہے:ج: ہم نہ تو ایران کو اپنی سرزمین سے غلط فائدہ اٹھانے کی اجازت دیں گے اور نہ ہی اسرائیل کو اس طرح کی اجازت دیں گے! ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ دونوں فریقوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خود منظم کریں!۔تبصرہ:آذری وزیر خارجہ کے موقف کی پیش نظر چند نکتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:1۔ آذربائی جان یورپی ہونے کی آرزو دل میں سمائے ہوئے ہے جس کے لئے سب سے پہلے اسلام کو اس ملک سے رخصت کرنے کی ضرورت ہے! اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ سات ہزار سے کم یہودیوں کو اسکول اور کالجز بنانے کی اجازت ہے، ایک فیصد سے کم وہابیوں کو ہر قسم کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ہے لیکن 85 فیصد آبادی کو حسینیہ یا مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ ان کی مساجد کو تباہ کیا جارہا ہے اور حتی مجالس فاتحہ کے انعقاد پر پابندی ہے اور انہیں ہربہانے سے جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ بہرحال اس وقت آذری حکومت ایک وفادار اور ہردم تیار سپاہی کی طرح امریکہ اور یورپ کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہے اور سامراجیوں و صہیونیوں نے آذری حکمرانوں کو ڈکٹیشن دی ہے کہ رفتہ رفتہ اور قدم بقدم عالم اسلام سے دور ہوتے جائیں تا کہ وہ بھی یورپی یونین میں شمولیت کے سلسلے میں آذری حکومت کی درخواست پر غور کریں!۔ گو کہ ترکی نے تقریباً تقریبا پچاسی برسوں تک دین اسلام کو اپنے معاشرے سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن یورپی یونین میں اس کی شمولیت پھر بھی ایک خواب کی حد سے تجاوز نہ کرسکی۔2۔ آذربائیجانی معاشرے میں یہودیوں کی آبادی 2010 کے اعداد و شمار کے مطابق آذربائی جان کی اکیاسی لاکھ آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس ملک کی 2/99 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور صرف 08/00  فیصد آبادی غیر مسلم ہے جو زیادہ تر عیسائی ہیں، دوسرے نمبر پر ہندو اور دیگر فرقے ہیں اور یہودیوں کی تعداد سب سے کم 6,800 افراد پر مشتمل ہے جبکہ بہت سے عرب اور اسلامی ممالک ایسے ہیں جن میں یہودیوں کی آبادی آذربائی جانی یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن یہودیوں کی آبادی ہرگز جارح، غاصب، خونخوار اور درندہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کا جواز فراہم نہیں کرسکتی۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ آذری وزیر خارجہ کے خیالات سادہ لوح انسانوں کو دھوکہ دینے کے لئے شاید کافی ہوں لیکن عقلمند اور دنیا کے حقائق پر نظر رکھنے والے انسانوں کے نزدیک یہ توجیہ ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ 3۔ آذری وزیر خارجہ کی ہرزہ سرائی تو دیکھئے کہ وہ ایک طرف سے صہیونی ریاست کے ساتھ قریبی تعلقات کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف سے فلسطینیوں کی حمایت کے دعویدار ہیں اور جب ہم حقیقت امر کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آذری حکومت فلسطینی اتھارٹی کے غیرقانوی بہائی ـ صہیونی صدر کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں ـ جس کے صہیونی ریاست کے ساتھ غلامانہ تعلقات اب کوئی راز نہیں رہے ہیں ـ اور آذری حکمران صہیونی ریاست کے ساتھ ابومازن کی ساز باز کی حامی ہے جبکہ وہ فلسطین کی نمائندہ حماس حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔اب یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ امن مذاکرات ایک ڈھونگ ہے اور ابومازن اور اس کے اسرائیلی اور امریکی آقاؤں کا یہ ڈھونگ اب کسی بھی حلقے میں اہم نہیں رہا اور کوئی بھی اس خطے میں ان مذاکرات کے لئے وقعت کا قائل نہیں رہا کیونکہ سب جان چکے ہیں کہ صہیونی ریاست ان مذاکرات کے بہانے اپنی بقاء کے لئے وقت لے رہی ہے اور خطے میں مزید اسلامی ممالک پر مغربی قبضے کے منصوبے بنارہی ہے۔ صہیونی ریاست فلسطین کی آزادی کا منصوبہ کیونکر قبول کرسکے گی جبکہ وہ مکہ و مدینہ اور عراق پر حکومت کرنے کے اپنے پرانے منصوبے ـ نیل تا فرات ـ پر عمل پیرا ہے اور امریکہ بھی اسی منصوبے کو "گریٹر مدل ایسٹ" کی شکل میں نافذ کرنا چاہتا ہے!؟چنانچہ عالم اسلام اس بات کو اب کوئی اہمیت نہیں دیتا کہ امریکہ اور اسرائیل کے زیر نگرانی فلسطین کی آزاد حکومت تشکیل پائے خواہ اقوام متحدہ بھی اس کو تسلیم ہی کیوں نہ کرے؟!3۔ المار یاروف نے کہا ہے کہ "جب ہم سوویت یونین سے آزاد ہوئے تو اسرائیل نے ہمارا ہاتھ تھاما چنانچہ ہم بھی کسی کی نیکی نہیں بھولا کرتے!! " تو اس سلسلے میں انہیں شاید کسی نے نہیں بتایا کہ مغربی استعمار کی اس ناجائز اولاد نے ابھی تک ایک قدم بھی کسی قوم یا کسی ملک کے فائدے میں نہیں اٹھایا اور اس کا ہر اقدام اس کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔ اس غاصب ریاست کے لئے اس سے بڑا بھی کوئی مقصد ہوسکتا ہے کہ ایک تازہ خودمختار ہونے والی شیعہ اور مسلم ریاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے اور عظیم اسلامی انقلاب کے حامل ملک ایران کے پڑوس میں اسے ایک قابل اعتماد اڈا ملے جس کے قائدین اور حکمران کسی صورت میں بھی زیرکی اور کیاست سے بہرہ مند نہیں ہیں اور بآسانی دھوکہ کھالیتے ہیں؟ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے کہنے پر ان حکمرانوں نے آج آذربائی جان کی اکثریتی آبادی کی زندگی اجیرن کردی ہے اور اسرائیل اور امریکہ کی خوشنودی کے سوا گویا ان کا کوئی ہدف و مقصد ہیں نہیں ہے۔5۔ یہ درست ہے کہ ایران اور آذربائی جان کے تاریخی اور تہذیبی و زبانی اشتراکات ہیں لیکن جو چیز زبان سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی اشتراکات ہیں اور دونوں ممالک کے عوام مسلمان اور شیعہ ہیں لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں لادینیت کا زمانہ گذرجانے کے باوجود آذری حکمران اس زمانے میں عوام کو لادین بنانے کی سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں اور مساجد و حسینیات شہید کررہے ہیں اور مسلمانوں کے دینی و مذہبی مراسمات کو طاقت استعمال کرکے جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنا رہے ہیں گو کہ انہیں اس ملک کے مسلم عوام کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا ہے۔ 6۔ آذربائی جان کے ناتجربہ کار وزیر خارجہ نے ایک طرف سے صہیونیوں کے ساتھ قریبی تعلقات کا اعتراف کیا ہے اور دوسری طرف سے دعوی کررہے ہیں کہ صہیونیوں کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ایران کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوسکتے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صہیونیوں کے ساتھ آذربائیجان کے قریبی سیکورٹی و فوجی تعلقات تمام اسلامی ممالک کی رائے عامہ پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں کیونکہ خطے کے عوام اور خاص طور پر پیروان اہل بیت (ع) صہیونیوں کو اسلام کے لئے اصلی اور ازلی و ابدی دشمن سمجھتے ہیں اور ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اور یہ نفرت ان کے نعروں سے ہویدا ہے۔ چنانچہ آذری وزیر خارجہ سمیت اس ملک کے حکمرانوں کو صرف اور صرف اپنے عوام اور علاقے کی اقوام کی صدا غور سے سننی چاہئے اور بس۔

........

/110