اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

14 جنوری 2011

8:30:00 PM
221154

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (3)

مقرر: حسن رحیم پور ازغدی مترجم: ف.ح.مہدوی

[یعنی مغربی معیاروں کے مطابق] مختلف زمانوں میں مختلف قسم کے معاشروں کے لئے حقوق الف، حقوق ب، حقوق ج اور حقوق د مد نظر رکھنے پڑیں گے [اور ان کی طبقہ بندی کرکے ہر معاشرے کے لئے اس کی اہمیت کے اعتبار سے ہی حقوق متعین کرنے پڑیں گے] یوں ہمارے پاس دنیا کے متعدد معاشروں کی تعداد کے مطابق مختلف قسم کے انسانی حقوق متصور ہونگے۔ اور ہاں!

ہم ایسی کسی بات کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے کئی افراد ہیں جو مغربی مشینریوں کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایک طرف سے انسانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور دوسری طرف سے دنیا کی سطح پر انسانی حقوق کی پولیس کا کردار بھی خود ہی ادا کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ ان کے پاس کئی ہزار ایٹمی میزائل ہیں اور ایٹم بم مار کر انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور خود ہی ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے پولیس کا کردار بھی خود ہے ادا کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اور بھی ایٹم بم بنادے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ان کا یہی کردار ہے۔ دوصدیوں کے دوران مختلف قسم کے عظیم ترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ خود ہی انسانی حقوق کی پولیس کا کردار بھی ادا کرنے کا دعوی کرتے ہیں! اب ہم میں سے بعض ان کی ان پالیسیوں کا جواب دینا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "انسانی حقوق ایک تہذیبی مقولہ اور ثقافتی زمرہ (Cultural Category) ہے؛ آپ کے انسانی حقوق یوں ہیں اور ہمارے انسانی حقوق یوں ہیں۔ لیکن یہ ایک سیاسی جواب ہے؛ ایک فلسفی جواب نہیں ہے۔

فلسفی جواب یہ ہے کہ اصولی طور پر انسانی حقوق یہاں اور وہاں، اس زمانے میں اور اُس زمانے میں، اِس قوم میں اور اُس قوم میں الگ الگ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق ایک ثقافتی زمرہ نہیں ہے بلکہ ایک فلسفی ـ اخلاقی زمرہ ہے جس کی جڑیں شریعت میں پیوست ہیں۔ ہم پوری دنیا کے لئے انسانی حقوق کا ایک ہی نظام تیار کرسکتے ہیں، کیونکہ انسان دنیا کے ہر خطے میں انسان ہی ہے اور انسان کی سعادت و شقاوت ایک ہی ہے اور سب انسانوں کا خدا بھی ایک ہی ہے؛ تاہم سوال یہ ہے کہ حقوق انسانی کا وہ نظام جو تمام زمانوں میں تمام انسانوں کے شایان شان ہے وہ توحیدی ـ اسلامی نظامِ حقوقِ انسانی ہے یا پھر مارکسسٹ ـ فاشسٹ اور لبرل نظامِ حقوقِ انسانی ہے؟ انسانی حقوق کے بارے میں اس طرح بحث ہونی چاہئے؛ نہ یہ کہ ہم کہنا شروع کریں کہ آپ کے ہاں انسانی حقوق کی تعریف یہ ہے تو ہمارے ہاں انسانی حقوق کی تعریف یہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کے ساتھ اس طرح کا ساپیکشوادی اور اضافیت پرستانہ (Relativistic) برتاؤ کرنا درست نہیں ہے۔ اور یہ بھی قابل غور ہے کہ جو لوگ ہماری طرف سے یہ بات کررہے ہیں وہ بھی شاید ان کے ہی اصولوں سے استناد کررہے ہیں!۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ انسانی حقوق ایک ثقافتی مقولہ ہے، یہ ان ہی کے اصولوں کے مطابق درست ہے لیکن ہمارے اصولوں کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ یہ بہت اہم مباحث ہیں اور دنیا میں انہیں سنجیدگی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر بحث کا فلسفہ یہ ہے کہ حقوق انسان، سیاسی حقوق، حق حکمرانی اور مشروعیت یا قانونی جواز و استحقاق کی تعریف کیا ہوگی؟ جواب یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی حقوق کے نظام کے پس منظر میں اور اس کے پس پردہ مادی (Materialistic) فلسفہ ہے یعنی اگر آپ کے خیال میں الہی شعور نے عالم و انسان اور انسان و ہستی کے درمیان کسی قسم کا با مقصد رابطہ اور کوئی آخری تعلق (Ultimate Interest) مدنظر نہیں رکھا ہے اور اگر آپ کے نزدیک عالم و انسان کے لئے کوئی مبدأ و معاد اور غایت و انجام قابل قبول نہیں ہے؛ تو آپ یقیناً عدل، آزادی، انسانی حقوق، حقوق نسوان، حقوق مردان، سیاسی حقوق اور مشروعیت یا قانونی جواز کے لئے کوئی بھی فلسفی اور استدلالی مبادیات و مبانی (Basics or Principles) پیش نہیں کرسکیں گے۔

بے شک وہ اس سلسلے میں شاعرانہ گفتگو کرسکتے ہیں اور حتی شاعری بھی کرسکتے ہیں لیکن اس سلسلے میں کوئی فلسفہ نہیں لاسکتے۔ جس طرح کہ ایک شخص مادہ پرست (Materialist) اور وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عالم میں مادی (Matter) کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اور ساتھ ہی "فداکاری" اور "معنویت" کی دعوت بھی دیتا ہے! جبکہ یہ تضاد اور تناقض ہے، کیونکہ ایک طرف سے آپ مجھے جتانا چاہتے ہیں کہ مادہ اور مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اگر آپ کی بات درست ہے اور انسان ایک منفعت طلب اور مفاد پرست حیوان ہے تو پھر یہ انقلاب، جدوجہد، قربانی، فداکاری اور ایثار و درگذر کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟ یہ شاعری تو ہوسکتی ہے لیکن فلسفہ نہیں ہوسکتا۔ صرف وہ شخص قربانی اور ایثار کی طرف دعوت دے سکتا ہے جو عالم کو محض مادہ نہ سمجھتا ہو، انسان کو ایک پست اور خودپسند مخلوق کے عنوان سے متعارف نہ کرائے بلکہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک الہی روح کا حامل متعارف کرائے۔ جو شخص انسان اور عالَم کی معنوی تعریف کرتا ہے وہ معنوی اور روحانی ہدایات دینے کا استحقاق رکھتا ہے تاہم جس منطق اور مکتب کی رائے یہ ہے کہ مادہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور کسی بھی چیز کو حسیات اور تجربات کے سوا کوئی بھی معرفت و شناخت قابل قبول نہیں ہے تو وہ کیونکر انسان کی کرامت و شرافت و آزادی اور انسانی حقوق کے تقدس کی بات کرسکتا ہے؟ اصولی طور پر یہ مکتب یہ باتیں لایا کہاں سے ہے؟ تقدس، کرامت و شرافت معنوی مفاہیم ہیں اور مادی مفاہیم نہیں ہیں۔

معرفت شناسی (Epistomology) اور وجود شناسی یا علم موجودات (Ontology) کے حوالے سے اپنے خاص قسم کے نظریات کے ہوتے ہوئے آپ کو ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں کیونکہ یہ مہملات اور تضادات ہے۔ [البتہ ممکن ہے کہ وہ ان اصطلاحات سے دھوکے اور فریب کا کام لینا چاہیں جو "ہر قیمت پر اقتدار کے حصول اور ہر قیمت پر اس کے تحفظ کے مغربی نظریئے سے مطابقت رکھتا ہے]۔

ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جو قانونی جواز یا مشروعیت، عدل، آزادی، انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کی تعریف و تشریح کرتے ہیں، کہ کیا آپ کے نقطۂ نظر سے انسان اور عالم کے درمیان کوئی حقیقی ـ کائناتی اور با معنی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اگر کوئی رابطہ نہیں ہے تو آپ کی منطق میں حقوق، عدل، آزادی اور مشروعیت کے لئے کوئی واقعی اور حقیقی معیار نہیں ہوسکتا اور آپ اس کے اثبات کے لئے فلسفی استدلال نہیں کرسکتے اور یہ مفاہیم (Concepts) عقلی استدلال (Rational Reasoning) کے لئے کوئی عقلی استدلال ممکن نہیں ہے۔ اگر ـ انسان اور عالم کے درمیان کوئی حقیقیقی ـ تکوینی (Cosmic) رابطہ ہے ـ اور ہمارے اعتقاد کے مطابق یہ رابطہ موجود ہے ـ پس ہمیں عالم اور انسان کے لئے شعور، غایت و انجام اور حساب و کتاب کا قائل ہونا پڑے گا اور ہمیں اس حقیقت کا قائل اور معتقد ہونا پڑے گا کہ عالم اور انسان کے لئے شعور بھی ہے، غایت و غرض بھی ہے اور حساب و کتاب بھی ہے۔ ہمیں فلسفی انداز سے توحیدی نگاہ ڈالنی پڑے گی تاکہ ہم حقوق اور اخلاق کے لئے فلسفی دلیل فراہم کرسکیں بصورت دیگر حقوق بھی اور اخلاقیات بھی محض قراردادی  (Conventional) اکثریتی اور عرفی ہوجائیں گی، کیونکہ اس صورت میں اس کا کوئی معیار نہیں ہے اور ان لئے استدلال نہیں کیا جاسکے گا۔ اس اصول کے مطابق ہم کہہ سکیں گے کہ "الف" کا عمل برا ہے اور کیوں برا ہے؟ یعنی ہم اس کے لئے فلسلفی استدلال کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ "الف" نامی شخص کے اعمال انسانوں کی شقاوت کا باعث بنتے ہیں۔ کیونکہ سعادت اور شقاوت ک