اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

14 جنوری 2011

8:30:00 PM
221153

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (2)

مقرر: حسن رحیم پور ازغدی ترجمہ و تکمیل: ف.ح.مہدوی

انھوں نے اس لفظ کے لئے جو مساوی مفہوم قرار دیا ہے اور آج کی عالمی سیاسیات کی بنیاد بھی وہی ہے، اس سے یہی مفہوم نکلتا ہے کہ "مشروعیت یا لیجیٹیمیسی ہر وہ چیز ہے جو اقتدار عطا کرتی ہے"۔ یعنی وہ چیز جو آپ کی قوت کو اقتدار اور استحکام میں بدل دیتی ہے مشروعیت یا قانونی جواز ہے۔

یعنی لیجیٹیمیسی وہ چیز ہے جو طبیعی اور فردی یا جماعتی قوت کو اعتباری (*) قوت یا اقتدار میں بدل دیتی ہے۔ ان کے نزدیک لیجیٹیمیسی یہی ہے۔

پولیٹیکل سائنس میں لیجیٹیمیسی سے مراد حق ہونا، حقانیت، شرعی حیثیت کا حامل ہونا اور حق پر ہونا، نہیں ہے۔ سیاسیات میں اقتدار کی روش سے بحث ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جو آپ حق و باطل کی بات کرتے ہیں "یہ علمی بات نہیں ہے"۔

وہ کہتے ہیں کہ "علمی نہیں ہے" چنانچہ ہم اب دیکھتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں "علم" کیا ہے؟

ان کے نزدیک علم ہر اس وسیلے کا نام ہے جو آپ کی مدد کرے تا کہ آپ زیادہ تیزرفتاری سے اور کم خرچ پر اقتدار حاصل کرسکیں اور اس کا تحفظ کرسکیں۔ چاہے یہ وسیلہ مکاری، دھوکہ دہی یا حیلہ گری ہو، فوجی بغاوت ہو یا پھر جمہوریت بمعنی ڈیموکریسی ہو۔

اب اگر آپ دینی یا اخلاقی اصولوں کے مطابق انہیں قانونی یا غیر قانونی کا نام دیتے ہیں یا ان ہی اصولوں کے مطابق انہیں مشروع Legitimate یا غیر مشروع Illegitimate قرار دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ان معیاروں اور ان کے لئے مصداق یابی کے اس عمل کا علم سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں ہے!۔

چنانچہ ہم خود ان سیاسیات کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔ یہ وہی علمانی (Secular) سیاست ہے جس کا مدار و محور دنیا اور جس کا دارومدار دنیا پرستی پر ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام نے دو قسم کی سیاست متعارف کرائی ہے؛ شیطانی (Evil Politics) اور عقلانی سیاست (Rational Politics) اس سیاست سے مراد عقلانیت ہے جو تربیت اور حقیقت و اخلاق و عدل سے جُڑا ہوا اور متصل ہے۔ وہاں طاقت اور دولت ہدف ہے اور یہاں یہ سب وسائل ہیں۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ سیاسیات کی دو قسمیں ہیں؛ اس کے باوجود بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ ہم سیاسیات کو اسلامی اور غیر اسلامی سیاسیات میں تقسیم نہ کریں۔

مشروعیت اور قانونی جواز مغربی سیاسیات کی تعریف کے مطابق یہ ہے کہ "یہ ہرگز طے نہیں ہے کہ حق حاکمیت (Right of Governance) کے لئے کوئی فلسفی اور برہانی دلیل (Philosophic & Demonstrarional logic) بھی ہو"۔ میں یہ نہیں کہتا کہ "ضرورت نہیں ہے کہ قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لئے کوئی برہانی اور فلسفی دلیل نہ ہو، یہ بھی نہیں کہتا کہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے لئے ایسی دلیل موجود ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے ہاں کسی حاکمیت کی مشروعیت کی کوئی برہانی یا فلسفی دلیل بھی ہو۔ لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ ہر وہ چیز جو شہریوں کی اطاعت پذیری کا سبب بنے اور اسے یقینی بنائے اور اطاعت پذیری کو فروغ دے وہی قانونی جواز اور وہی مشروعیت اور وہی لیجیٹیمیسی ہے۔

یہ عین وہی عبارتیں اور درسی متون اور سیاسیات کے میدان میں ہمارے آکادمک اور جامعاتی دروس ہیں۔

حق و باطل، عدل و ظلم، رشد و غَیّ (ہدایت و گمراہی)، کو ان مسائل میں کوئی عمل دخل نہیں دیا جاتا۔

فلسفۂ سیاست میں البتہ مشروعیت یا لیجیٹیمسی کا نسبتاً زیادہ گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ نسبتاً زیادہ فلسفیانہ انداز سے سلوک کیا جاتا ہے لیکن سیاسیات کے اندر مشروعیت کے لئے اخلاقی اور بنیادی دلیل و سبب کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر طاقت و اقتدار حاصل کرنے اور اس کا تحفظ کرنے کے میکینزم اور طاقت و اقتدار کو منظم اور ریگولرائز کرنے سے بحث ہوتی ہے؛ ان کا اس ضمن میں حکومت کو تشکیل دینے والے اجزاء و عناصر سے کوئی سروکار نہیں ہے سوائے ان امور کے جو ظاہری اور نمائشی ہیں۔

اس موضوع پر بحث نہیں ہوتی کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اطاعت کی درخواست کیوں کرے؟ کیوں؟ اس کیوں کا کا سیاسیات میں کوئی بھی مدلل اور فلسفی جواب نہیں دیا جاتا۔

کہتے ہیں اس کا سیاسیات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔

کہتے ہیں کہ یہ دینی فلسفے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا تعلق اخلاقیات سے ہے؛ سیاست میں ہم حقیقی سیاست (Real Politics) کے درپے ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاں حقیقت پسندانہ سیاست کا مطلب کیا ہے؟

حقیقت پسندانہ سیاست کا کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسی وقت کیونکر تیزرفتاری سے کم خرچ پر اقتدار حاصل کرسکتے ہیں اور اس کا تحفظ کرسکتے ہیں؟ صرف اور صرف طاقت و اقتدار کے لئے کوشش کریں اور بس۔ وہ ہمارے باتیں سن کر کہتے ہیں کہ یہ مباحث علمی نہیں ہیں، حقانیت کو الگ کرکے رکھیں؛ اور پھر اسی سیاست کو علمی اور ماڈرن سیاست کا نام بھی دیتے ہیں!۔

[مگر] اس سیاست میں کونسی چیز جدید ہے؟ [یا پھر شاید یہ سیاست آپ کے ہاں جدید ہے ورنہ ہمارے ہاں تو یہ بہت ہی پرانی ہے اور اس زمانے سے تعلق رکھتی ہے جب ہم کہتے تھے کہ حکومت الہی ہے اور مخالفین کہتے تھے کہ رسالت آپ کی حکومت ہماری؛ اور انھوں نے حکومت کو الہیت سے الگ کردیا یعنی] یہ تو وہی سیاست ہے جو معاویہ اور یزید نے نافذ کی تھی۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ اسی سیاست پر مذہب کی مہر بھی لگا دیتے تھے اور تم نے یہ مہر اس سے اٹھا دی ہے۔

ہم پوچھتے ہیں کہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ جمہوریت یا ڈیموکریسی کے بازار میں معاشیات اور سیاست کو مطلق اور سو فیصد آزاد ہونا چاہئے اور اسے فلسفی، اخلاقی اور قانونی و حقوقی اصولوں سے مقید نہیں ہونا چاہئے؟ سیاسیات میں عام طور پر مشروعیت یا لیجیٹیمیسی کو عمرانیاتی اصطلاحات (Sociological Terminlolgy) کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نقطہ نظر سے مشروعیت صرف اور صرف معاشروں میں اثر و رسوخ بڑھانے کی قوت کے عنوان سے زیر بحث آتی ہے اور اس میں قابل نفاذ اقتدار کی مقدار سے بحث کی جاتی ہے جس کے لئے دلیل پیش کرنے کی کوشش تک نہیں کی جاتی۔ لہذا سیاسیات کے میدان میں جب لیجیٹمیسی کی بات سامنے آتی ہے تو اس میں محض مقبولیت کو ملحوظ خاطر رکھا جات