اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

14 جنوری 2011

8:30:00 PM
221152

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ حاکمیت (1)

ڈاکٹر حسن رحیم پور ازغدی نے حال ہی میں جامعہ تہران کے الہیات ڈپارٹمنٹ میں "حسینی مکتب کے اصولوں کا جائزہ" کے عنوان سے منعقدہ سمینار سے خطاب کیا۔ یہاں ڈاکٹر صاحب کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے جس میں انھوں نے اہل بیت (ع) کی تعلیمات کی روشنی میں حقِ حاکمیت، حکومت اور قانونی جواز کی تشریح کی ہے۔

مقرر: حسن رحیم پور ازغدی

ترجمہ و تکمیل: ف.ح.مہدوی

 

  يزیدی آمریتیں اور جدید علمانیتیں (سیکولر قوتیں) سیاسی مشروعیت (Political Legitimacy) کو حقانیت (Rightfulness) سے الگ سمجھتی ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سید الشہداء علیہ السلام سے منقولہ بعض عبارات میں آپ (ع) نے نہ صرف اپنے زمانے کے انسانوں بلکہ ہر زمانے اور ہر مقام و جغرافیئے سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

"ہم اور اموی حکمرانوں کے درمیان رونما ہونے والا تنازعہ اقتدار کا جھگڑا نہیں ہے"۔

آپ (ع) نے تمام زمانوں کے انسانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ:

"بات یہ نہیں ہے کہ کون حاکم ہو اور کون محکوم ہو؛ یہ بنیادی بات نہیں ہے بلکہ جھگڑا دو مکاتب اور دو قسم کی سیرتوں کے درمیان ہے خواہ ان دونوں مکاتب کا رنگ مذہبی ہی کیوں نہ ہو اور دونوں مکاتب کا مدعا مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ لیبل اور نشان کی کوئی اہمیت نہیں ہے"۔

یعنی یہ کہ حکومت کے سلسلے میں دو قسم کی روشیں اور دو قسم کے مکاتب موجود ہیں۔

کسی نے سیدالشہداء (ع) سے دریافت کیا:

یابن رسول اللہ (ص)! اس تحریک سے آپ کا ہدف و مقصد کیا ہے؟

سیدالشہداء (ع) نے فرمایا:

"اریـد ان آمـر بالمعروف وانهی عن المنکر و اسیر بسیرة جدّی محمّد و سیرة ابی علی‌بن ابی طالب، میرا عزم اور میرا ہدف و مقصد وہی ہے جو میرے نانا رسول اللہ (ص) کا تھا اور جو میرے والد امیرالمؤمنین (ع) کا تھا کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا حکم دوں اور برائیوں سے منع کروں؛ میں بھی اسی مقصد سے سیاسی، سماجی اور تربیتی میدان میں اترا ہوں جس مقصد کے لئے میرے نانا اور والد اترے تھے"۔

چنانچہ بحث اشخاص و افراد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بحث خاندان، معاشرے، سیاست، اقتصاد اور نظام عدل اور قضاوت (Judiciary) کے لئے دو سیرتوں اور دو روشوں کے درمیان ہے اور ان دو روشوں اور سیرتوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے پیش کرنے کے لئے ہم ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں:

امام صادق علیہ السلام سے پوچھا جاتا تھا کہ امویوں سے اہل بیت (ع) کا جھگڑا کس بات پر ہے؟ اور علوی، حسنی اور حسینی اسلام اور اموی اسلام کے درمیان کیا فرق ہے؟

امام صادق علیہ السلام نے عمار بن احوص سے مخاطب ہوکر ان دو مکاتب کی بہترین انداز میں توصیف کرکے انہیں بہترین انداز میں الگ الگ کرکے پیش کیا اور فرمایا: ہمارے اور معاویہ کے مکاتب میں اختلاف "تربیت اور انتظام" کی بنیاد پر ہے؛

فرماتے ہیں: " فلا تخرقوا بهم، أما علمت أن امارة بني امية كانت بالسيف والعسف والجور، وأن إمامتنا بالرفق والتألف والوقار والتقية وحسن الخلطة والورع والاجتهاد فرغبوا الناس في دينكم وفي ما أنتم فيه" (1)

لوگوں پر زیادہ دباؤ نہ ڈالو اور انہیں اکتاہٹ سے دوچار مت کرو بلکہ ان کے استعداد اور ان کے ظرف و قابلیت کا لحاظ رکھو، کیا تم نہیں جانتے کہ بنو امیہ کی حکمرانی اور ان کا طرز عمل تلوار، دباؤ، ناانصافی اور حق کشی پر مبنی تھا اور طاقت اور وہ تشدد و حق کشی کے ذریعے معاشرے پر مسلط ہونا اور مسلط رہنا چاہتے تھے اور ان کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے میں "طاقت اور تشدد" کو حکومت کے حصول کا وسیلہ قرار دیا تھا اور ان کے ہاں طاقت اور اقتدار کو عدل اور تربیت کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ہمارا طرز عمل اور ہماری تربیتی روش و سیرت مہربانی، محبت، رواداری، تحمل اور الفت پر مبنی ہے، ہماری انتظامی اور تربیتی روش محبت، عشق، برادری و اخوت، نرمش اور مہربانی و متانت اور وقار و "تقیّہ" پر مبنی ہے؛ [ہاں] حتی اگر آپ حاکم بھی ہیں پھر بھی تقیّہ کرو، البتہ تقیّہ سے مراد منافقت و دھوکہ بازی، فریب کاری، چہرے اور بھیس تبدیل کرنا اور دین و حق و عدل کو اپنے مفادات پر قربان کرنا نہیں ہے؛ یہ تقیّہ نہیں ہے بلکہ تقیّہ وہ ہے جو اہل بیت (ع) نے متعارف کرایا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ:

"ماحول کو صحیح انداز سے پہچان لو اور معاشرے کی قابلیتوں اور ظرفیتوں (Capabilities & Capacities) کو پرکھو اور اسی بنیاد پر عمل کرو؛ یعنی ہر شخص سے ہر مقام اور ہر زمانے میں جس طرح چاہو، سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی رتبہ بندی اور طبقہ بندی (Classification) اور حساب و کتاب کے ساتھ اور انتظامِ بحران (Crisis Management) کے ساتھ؛ یعنی جب تم بات کرنا چاہتے ہو خواہ وہ بات حق ہی کیوں نہ ہو یہ مت کہو کہ "مجھے لوگوں سے کیا لینا دینا" بلکہ یہ بات مد نظر رکھو کہ بات "کس سے"، "کیونکر/ کیسے"، "کہاں"، (اور کیوں) کررہے ہو؟۔ اصول یہ ہے کہ بات صحیح ہونی چاہئے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ حق بات کرلینی چاہئے لیکن مذکورہ چار سوالات کا بھی جواب دینا چاہئے۔ کس سے؟ کیسے؟ کہاں؟ اور کیوں؟۔

بعض مواقع پر اگر آپ حق کی ایک بڑی ظرفیت کا مطالبہ کریں تو جن سے مطالبہ کررہے ہیں وہ پورا حق آپ کو دینے سے انکار کردیں گے؛ یعنی آپ کم از کم کو بھی نافذ نہیں کرسکیں گے۔ یہاں عقلانیت (Rationality) کی شرائط کو مد نظر رکھیں۔ تقیّہ سے مراد جدوجہد میں عقلانیت (Rationality in Struggle) اور جدوجہد کی طبقہ بندی یا زُُمرہ بندی (Rationality in Classification) ہے۔

امام صادق علیہ السلام اس روایت میں فرماتے ہیں کہ انتظام و تربیت اور حکمرانی ہماری رائے میں ـ حتی اگر آپ برسراقتدار بھی ہوں ـ ایک قسم کے تقیئے پر بھی مبنی ہے۔ یعنی یہ کہ حالات کا لحاظ رکھیں اور جس فرد یا معاشرے کو مورد خطاب قرار دیتے ہیں اس کی حالت کو بھی مد نظر رکھیں البتہ اس کا مطلب ساز باز، پسپائی اور حق و حقیقت پر مسامحت اور سمجھوتہ کرنا حقائق کو ظاہری صورت دے کر (Snow Job کرکے) راضی ہونا نہیں ہے۔

حدیث امام صادق (ع) میں دوسرا اہم اصول "حُسنُ ال