اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : iktrust . org
جمعہ

17 ستمبر 2010

7:30:00 PM
195011

توسل کیا ہے؛

آیت اللہ بشیرحسین نجفی کا انٹرویو

علامہ سیدافتخار حسین نقوی النجفی گزشتہ دنوں زیارات کے لئے عراق مشرف ہوئے۔ دوران سفر انہوں نے مرجع تقلید آیت اللہ الشیخ حافظ بشیرحسین نجفی صاحب سے توسل کے موضوع پر خصوصی انٹرویو کیا ان کے اس انٹرویو کو قارئین کے استفادہ کے لئے من وعن شائع کیا جا رہا ہے.

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: ۔ہمارے ہاں توسل کا موضوع زیادہ تر زیربحث رہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی مبارک زبان سے توسل کے سادہ معنی بیان کر دیں جو "ایاک نعبدو وایاک نستعین" سے نہ ٹکرائے اور اس کے معنی سے بھی مزاحم نہ ہو جس طرح اعمال کو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا جاتا ہے جس پر سب کا اتفاق بھی ہے۔ ہمارے ہاں ایک گروہ موجود ہے جو عوام میں یہ بات پھیلا رہا ہے کہ انبیاءعلیہ السلام کرام، آئمہ معصومین علیہ السلام اور اولیاءکرام علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لئے بطور وسیلہ قرار نہیں دیا جا سکتا لہٰذا میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس حوالے سے عوام کے لئے آپ وضاحت فرمادیں۔جواب: سورہ فاتحہ کی اس آیت میں ہمیں حکم ہوا ہے کہ ہم یوں کہیں کہ ایاک نعبدوایاک نستعین ”اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سی مدد مانگتے ہیں“اس آیت کے اس مفہوم کو ہم اس وقت صحیح طور پر اپنے اعمال اور کردار پر نافذ کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے فرمان سے باہر نہ جائیں۔خداوندکریم نے اپنے تک پہنچنے کے لئے جو خود خدا نے راستے مقرر کیے ہیں اگر ہم ان سے باہر نہیں جائیں گے تو ہم ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ کے دائرے میں ہیں اور ان سے باہر ہم نہیں گئے اور اگر ہم نے خداتک پہنچنے کے لئے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی راستہ اختیار کیایا اپنی خواہشات کی بنا پر کوئی راستہ بنایا تو یہ اس آیت سے ٹکراﺅ ہوگااور اگر ہم ان راستوں کو اسی طرح استعمال کریں جس طرح خداوندعالم نے ان کو ہمارے لیے بنایا ہے اور ان واسطوں کو بھی اسی طرح استعمال کریں جس طرح خداوندکریم نے ہمیں استعمال کرنے کا طریقہ بتایا اور حکم دیا ہے تو اس میں اس آیت کے ساتھ ٹکراﺅ نہیں ہوگا۔مثال کے طور پر انسان جب کمزور ہو جاتا ہے تو اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لیتا ہے اپنی چھڑی یا کسی ڈنڈے کا سہارا لیتا ہے یہ بھی کسی اور کا ہم سہارا لے رہے ہیں اب میں اپنے ہاتھ کا سہارا لے کر کھڑا ہورہا ہوں دیکھنے کے لئے آنکھوں کا سہارا لیتا ہوں اور بات کو سننے کے لئے کانوں کا سہارا لیتا ہوں اگر ہر مدد، ہراستفادہ اس آیت سے ٹکرائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں آنکھوں سے دیکھوں، کانوں سے سنوں، زبان سے بولوں اپنی ناک سے کوئی چیز سونگھوں، اپنے ہاتھوں اور پاﺅں کا سہارا لوں تو اس طرح یہ سب کچھ حرام ہو جائے گا۔ یعنی اس طرح تو یہ سب کچھ شرک کے زمرے میں آئے گا اور خداوندعالم کی اس آیت سے ٹکرائے گا جس آیت کو میں نے اور آپ نے عنوان قرار دیا ہے ۔انسان پانی پیتے وقت گلاس کا سہارا لیتا ہے اس طرح تو یہ سب کچھ شرک ہوگا۔ تو اس کا حل فقط یہی ہے کہ ہم استفادہ اس طریقے سے کریں جس کو خداوندعالم نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور اس راستے کو اسی طرح استعمال کریں جس طرح اس راستے کو استعمال کرنے کی اجازت خداوندکریم نے دی ہے۔تو بعینہ فی الواقع یہ استعانت خداوندکریم سے ہوگی نہ کہ کسی اور سے ہوگی۔مثلاً خدا نے مجھے ہاتھ دیئے ہیں تو میں نے ان سے استفادہ کیا ہے اگر ان ہاتھوں کو میں نے شیطان کی راہ میں استعمال کیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ سے ٹکرائے گااور اگر میں نے ہاتھوں کو اسی طرح استعمال کیا جیسے خدانے مجھے اجازت دی ہے تو اس طرح میں خدا کے راستے پر اور خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر ان کو استعمال کرتا ہوں کیونکہ اس ہاتھ میں قوت خدا کی عطا کردہ ہے تو اس لیے آپ خدا ہی کے بھروسے پر ہاتھوں کاسہارالیتے ہیں خدا ہی کے بھروسے پر ہم اپنے لیے ایک چھڑی یا ڈنڈے کاسہارا لیتے ہیں اس طرح ہم خداوندکریم کی اس آیہ کریمہ سے نہیں ٹکرائیں گے۔اسی طرح جب ہم اس دائرے کو اور وسیع کرتے ہیں کہ جب کوئی انسان اپنے کسی کام کے لئے ایک ہیلپر اور مددگار کا محتاج ہوتا ہے تووہ ہیلپر اور معاون کو بھی خدا کی طرف سے دی گئی اجازت کے تحت لیتا ہے کیونکہ خدانے مجھے اسے رکھنے کی اجازت اور توفیق دی ہے تووہ بھی اسی کے ضمن میں آجائے گا۔سوال: اللہ تعالیٰ نے جو مخلوقات بنائی ہیں ان ساری مخلوقات میں اسباب اور مسببات کا ایک سسٹم ہے اس سسٹم سے ہٹ کر تو بات نہیں ہوتی لیکن جب خصوصی طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کرنے کے لئے بات ہوتی ہے تو اس میںیہ بات آجاتی ہے اس حوالے سے توکوئی بحث نہیں کرتا وہ کہتے ہیں کہ یہ سب ٹھیک ہے کیونکہ ظاہر ہے جب آپ کاشت کاری کرتے ہیں تو ٹریکٹر کی مدد لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ یہ ساری چیزیںصحیح ہیں لیکن وہ کہتے ہیں اس بات کو اورتوسل کی بحث کو مخلوط نہ کریں اسے ہم کیسے جدا کرسکتے ہیں؟جواب: سبحان اللہ! آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔دیکھیں قرآن مجید میں آیت کریمہ ہے کہ ”واستعینو بالصبروالصلوٰة“نمازاورصبر کی تفسیر روزہ سے کی گئی ہے روزہ اس کا ایک مصداق ہے نیز ہر صبر اس آیت میں داخل ہے خدا کی نماز کو ہم وسیلہ بناتے ہیںاور نماز سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ہم خدا تک پہنچنے کے لئے نماز سے مدد طلب کرتے ہیں اور خداوندکریم نے ہمیںیہ حکم دیا ہے کہ نماز اورصبر سے مدد مانگیں کہ صبر اور نمازمیرافعل ہے یہ خدا کا فعل نہیں ہے میں جب اپنے فعل سے خدا کے حکم کے تحت اس سے مدد طلب کر سکتا ہوں تو خدا نے جو نظام بنایا ہے اس نظام کے تحت اگر میں ان کو اپنے لئے وسیلہ بناﺅں تو اس میں شرک و کفرکیسے ہوگا”ایاک نعبدوایاک نستعین“ سے اس کاٹکراﺅ نہیں ہوگا۔سوال: کیا قرآن کی کسی آیت میں انبیاءعلیہ السلام اور آئمہ معصومین علیہ السلام سے مدد لینے کی اجازت موجود ہے؟جواب: بہت ساری آیات اس بارے میں ذکر کی جا سکتی ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے کہا کہ میرے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو میرا مددگار بنائیںاور فرمایا مجھے طاقت دو تو طاقت کس سے ہوگی؟خدا سے ہوگی لیکن وسیلہ کون ہوگا؟ حضرت ہارون علیہ السلام۔ تو خدا سے طالب کیا گیا ہے کہ اے خدا تو حضرت ہارون علیہ السلام کے واسطے سے میرے بازوﺅں کو مضبوط کر دے اس کا مطلب ہے کہ جب خدا حضرت موسیٰعلیہ السلام کو طاقت دینا چاہتا ہے تو حضرت ہارون علیہ السلام کے واسطے سے دے گا ۔سوال: تو کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کہہ سکتے ہیں کہ ”یا ہارون علیہ السلام مدد“ اے ہارون علیہ السلام میری مدد کرو؟جواب: ۔جی ہاں بالکل کہہ سکتے ہیں۔جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر گئے ہیں تو حضرت ہارون علیہ السلام کو کہا کہ میرا کام تم سنبھالو میں کوہِ طور پر جا رہا ہوں ۔سوال: ۔قبلہ صاحب تو یہ سب کچھ کرنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ”کن ناصراً وخلیفتہ باذن اللہ“ بھی نہیں کہا؟جواب: جی بالکل! انہوں نے نہیں کہا کیونکہ خدا نے ہارون علیہ السلام کو ان کے لئے معین کر دیا تھا کیونکہ حضرت موسیٰعلیہ السلام نے پہلے دعا میں کہہ دیا تھا کہ مجھے اس کے واسطہ سے طاقت دو اس کومیری مدد کا ذریع بناﺅ۔ خداوندعالم نے کہا کہ تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے جب دعا قبول ہو گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کہتا ہے کہ میں ہارون علیہ السلام کے واسطے سے تمہاری مدد کروں گا ۔پس حضرت موسیٰ اس کے بعد اپنے سارے کاموں میں ہارونعلیہ السلام سے مدد مانگتے تھے اور ہارون علیہ السلام سے کہتے تھے کہ تم فلاں کام میں میری مدد کرو تو یہ عمل ”ایاک نستعین“ کے منافی نہیںہے۔سوال: جب حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے پاس آتے ہیں تو ان کے پاس میوہ جات دیکھ کر خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تواسے بھی ہم اس سلسلے میں پیش کر سکتے ہیں۔جواب: بالکل اس کو خدا کی طرف سے نعمت قرار دیا گیا ہے ........ایک دن کچھ اور میوے تھے دوسرے دن کچھ اور میوے تھے اور تیسرے دن کچھ اور میوے تھے یعنی انگور تو کل تھے آج انار پڑے ہیں مثال کے طور پر ایک دن مالٹے پڑے تھے تو دوسرے دن سیب پڑے تھے یعنی میوہ جات روزانہ تبدیل ہوتے رہے یعنی آیت میں ہے کہ جب بھی زکریا علیہ السلام جاتے تھے تواس میں نکرے کا نکرہ ہوتا ہے نکرے کے تکرار میں بیان ہو چکا ہے کہ اسم متعدد ہو جاتا ہے یعنی اگر ایک اسم ہے اور اس کے شروع میں الف لام لگا دی جائے تو اس سے مراد وہی پہلے والی حیثیت ہوئی ہے لیکن جب تو اس میں پہلے سے کچھ اور مراد ہے اور دوسرے سے کچھ اور مراد ہے ۔رسول اسلام پر جب یہ آیت نازل ہوئی ”ان مع العسر یسرا........“تو اس کا مطلب ہے ”عسر“ تو اس سے مراد دوسری دفعہ بھی وہی ہے جو پہلے تھا لیکن جہاںاسم نکرہ آیا ہے تو اس سے مراد وہ نہیں ہے جو پہلے ہے اسی لیے یہ آپ کے جدامجدرسول اسلام کی طرف نسبت دی جاتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک یسر جو ہے دو یسروں پر غالب نہیں ہو سکے گا یہ میری امت کے لئے ایک رحمت آئی ہے ”ان مع العسر یسرا،ان مع العسریسرا“ اب اس آیت میں پڑھیں کہ ”کلما دخل علیہا....“یعنی جمعہ کے دن آئے ”رزقاً “، ہفتے کو آئے تو” رزقاً“یعنی اور رزق تھا اگر وہی ہوتا تو پھر پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔جب ایک دفعہ وہی رزق آتا تھا تو اس کا سوال و جواب ہوچکا ہے بار بار نبی اللہ اس سے سوال کیوں فرما رہے تھے یعنی ہر دفعہ ایک نئی چیز دیکھتے تھے جس سے ان کے سوال کا منشا پیدا ہوتا تھا سوال کرنے کا سبب پیدا ہوتا تھا ۔جناب مریم سلام اللہ علیہا کے قصے میں ایک اور آیت ہے جس سے آپ توسل کے لئے استدلال فرما سکتے ہیں وہ یہ کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام ( تفسیر میںہے کہ وہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جو حضرت مریم علیہ السلام کے پاس آئے تھے)کیونکہ حضرت مریم علیہ السلام نے جبرئیل علیہ السلام کونہیں پہچانا کیونکہ وہ انسانی شکل میں تھے اور ایسا ہو سکتا ہے ایسا انبیاءعلیہ السلام سے بھی ہوا ہے یعنی جب فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے تو انہوں نے ان کو نہیں پہچانا۔تو جناب حضرت مریم علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کے لئے بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پہلی نظر میں جناب جبرئیل علیہ السلام کو نہ پہچانیں۔کیونکہ حضرت مریم علیہ السلام تنہا تھیں تو انہوں نے فوراً خدا سے مدد مانگی ۔یہاں پر جبرئیل علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ میں اللہ کا نمائندہ ہوں میں تمہیں ایک لڑکا دینے آیاہوں، اس جگہ جبرئیل علیہ السلام نے باذن اللہ نہیں کہا۔اس سب حالت کو دیکھ کرحضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے لیے بیٹے کی دعا مانگی کیونکہ اس حالت کو دیکھ کر انہیں رغبت پیدا ہوئی ۔تو اس میں ایک چیز آپ اور بھی کہہ سکتے ہیں کہ جیسے حضرت اذرائیل علیہ السلام جب کسی کی روح قبض کرتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ میں خدا کے اذن سے تمہاری روح قبض کرتا ہوں کیونکہ اس کو طاقت بھی تو اللہ نے ہی دے رکھی ہے اور معجزہ جو ہے وہ نہ ہمیشہ فعل خدا ہوتا ہے اور نہ ہی ہمیشہ فعل صاحب معجزہ ہوتا ہے ۔سوال: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مجھے میرے اسماءحسنیٰ سے پکارو اور معصومین علیہم السلام کا فرمان ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اسماءحسنیٰ ہیں اس جگہ اسماءحسنیٰ سے کیا مراد ہے یا ایک اورحدیث میں ہے کہ ہم اللہ کے کلمات ہیں ان میں اسما اورکلمات سے کیا مراد ہے؟ج