اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : نیوزاردو
پیر

15 جون 2009

7:30:00 PM
159425

سید منور حسن:

گلا کاٹنے والے طالبان کی کبھی حمایت نہیں کی/ اہم انکشافات

عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ان ہی قوتوں نے کی جنہوں نے ملک میں شیعہ سنی فسادات کروائے.

سوات میں حکومتی رٹ قائم کرنے والے کراچی میں حکومتی رٹ قائم کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟سوات میں طالبان کا ہوا کھڑا کرنے کا مقصد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا ہے ‘ سینئر صحافیوں سے بات چیت امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہا ہے کہ گلا کاٹنے والے طالبان کی کبھی حمایت نہیں کی ، چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی بات کی اور نہ ہی مسلح جدوجہد کو تبدیلی نظام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آج عسکریت پسندوں کو کچلنے کی بات کرنے والے بتائیں کہ جب یہ لوگ مسلح ہو رہے تھے اس وقت ان کی انٹیلیجنسی کہاں تھی ۔ ملک میں شیعہ سنی فسادات کروانے والوں نے ہی ملاکنڈ اور وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ درست فیصلے ہماری پالیسیوں کا حصہ ہونا چاہئیں اسی کے پیش نظر ’’گو امریکہ گو‘‘ مہم شروع کی ۔ سوات میں حکومتی رٹ قائم کرنے کی بات کرنے والے کراچی میں رٹ قائم کرنے کی بات کیوں نہیںکرتے ۔ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں 26 دینی جماعتوں نے فوجی آپریشن ا ور مسلح جدوجہد کی مخالفت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین کا دورہ کیا چینی حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کے عوام اور اسلامی تحریکوں سے رابطے نہیں ہیں اسی وجہ سے ہمیں دورے کی دعوت دی گئی اس طرح کے دورے اسلامی تحریکوں اور چین کے درمیان روابط قائم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سروے رپورٹس ثابت کرتی ہیں کہ پاکستان کے 87 فیصد عوام کے اندر امریکہ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملک میں خرابیوںاور دہشت گردی کی وجہ امریکہ کو سمجھتی ہے؛ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستان کو آگ میں جھونک دیا جس پر ملک بھر میں ’’ گو مشرف گو‘‘ کا نعرہ مقبول ہوا اور اسے گھر جانا پڑا ۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ’’ گو امریکہ گو ‘‘ مہم کے ذریعے امریکہ کو پاکستان سے نکالا جائے اور امریکی مداخلت ختم کی جائے۔ صحیح اور سچ کے فیصلے ہی ہماری پالیسیوں کا حصہ ہونا چاہیئے اسی کے پیش نظر ’’ گو امریکہ گو‘‘ تحریک شروع کی؛ منورحسن نے کہا کہ جو لوگ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن کی حمایت کررہے ہیں وہ ملک میں ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشنز کے نتائج ، ان کے نتیجے میںپیدا ہونے والی خرابیوں کو سامنے رکھ کر بیلنس شیٹ تیار کرنے کے بعد آپریشن کی حمایت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں طالبان کا جو ’’ہوا ‘‘ کھڑا کیا گیا ہے اس کا مقصد صرف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا ہے ۔ سوات اور دیگر علاقوں کے متاثرین کے لیے مغربی ممالک کی امداد کے ساتھ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ طالبان کو پاکستانی فوج کنٹرول نہیں کر سکے گی ۔ نیٹو کی افواج بھجوانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ دنیا میں جہاں بھی جنگیں ہوئیں ان کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا گیا ۔ آج ہم طالبان کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑرہے ہیں تو دوسری طرف امریکہ افغانستان میں آٹھ سال سے اپنی جدید ٹیکنالوجی کے باوجود شکست سے دو چار ہے اورطالبان سمیت دیگر قوتوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے ۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں محض امریکی خوشنودی کی خاطر سوات ،بونیر اوردیر کے بعد وزیرستان میں فوجی آپریشن کی باتیں ہو رہی ہیں جس کے بعد جنوبی پنجاب کی باری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی گلے کاٹنے والے طالبان کی حمایت کبھی نہیں کی۔ صوفی محمد کے نفاذ شریعت کے مطالبے کی حمایت کی تھی ۔ اگرچہ صوفی محمد نے ہتھیار نہیں اٹھائے لیکن پھر بھی اس کے طریقہ کار سے اختلاف تھا۔انہوں نے کہا کہ کچھ جماعتیں آج عسکریت پسندوں کوکچلنے کی بات کرتی ہیں مگر جب یہ لوگ مسلح ہو رہے تھے تب انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں تھیں ان کو مسلح کس نے کیا اور بے پناہ اسلحہ اور وسائل کہاں سے آئے؟ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاہور میں 26 دینی جماعتوں نے 22 نکاتی اعلامیہ جاری کیا جس میںو اضح طور پر مسلح جدوجہد اور فوجی آپریشن کی مخالفت کی گئی ہے ۔ جماعت اسلامی تنہا آپریشن کی مخالفت نہیں کر رہی۔سید منور حسن نے کہا کہ صوفی محمد کے طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس نے ثالث بننے کے بعد 2 ماہ تک سوات میں امن قائم رکھا اور تمام سکول، سرکاری دفاتر کھل گئے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ۔ لیکن نظام عدل کے نام پر جن لوگوں کے ذہنوں میں سازش تھی انہوں نے معاہدے کو آگے نہ بڑھنے دیا اور امریکی خوشنودی کے لیے پورے علاقے کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا؛ صوفی محمد رول ماڈل نہیں ان کا اپنا طریقہ کار ہے؛ عبدالستار ایدھی بھی نماز و دیگر عقائد کے بارے میں عجیب و غریب بیانات دے چکے ہیں لیکن ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح صوفی محمد کا طریقہ کار جو بھی ہو امن قائم کرنے میںا س کے کردار کو نظر انداز نہیںکیا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ سوات، بونیر اور وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ان ہی قوتوں نے کی جنہوں نے ملک میں شیعہ سنی فسادات کروائے حالانکہ شیعہ سنی فساد ملک میں کوئی ایشو نہیں اگر یہ ایشو ہوتا تو یہ لوگ گلیوں ،محلوں میں ایک دوسرے کو زندہ نہ چھوڑتے ۔ انہوں نے کہا کہ میںپورے دعوے سے کہتا ہوں کہ ا ن علاقوں میں کوئی ایک گروپ بھی از خود موجود میں نہیں آیا بلکہ اسکے ڈانڈے کہیں اورملتے ہیں اور آج جبکہ اسٹیٹ ایکٹرز ہر مقام پر غیر فعال ہو گئے ہیں تو بقول زرداری نان سٹیٹ ایکٹرز فعال ہوئے ہیں جن کے پاس اقتدار ہے وہ تعلیم ،صحت سمیت لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کے لیے بھی کردا ادا نہیں کررہے ۔ اسٹیٹ ایکٹرز کا یہ کردار ہے کہ صدر کہتا ہے کہ بھارتی فضائیہ نے غلطی سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی ۔ وزیر داخلہ پارلیمنٹ میں بیان دیتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے کیا کسی سطح پر بھارت سے احتجاج کیا گیا؟ سید منور حسن نے کہا کہ اصل مجاہدین کو بدنام کرنے کے لیے عسکریت پسند کھڑے کیے گئے جنہوں نے شرمناک کارروائیاں کرکے اسلام و جہاد کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی اور افغانستان میں روس کو شکست دینے والوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے طالبان کے ذریعے اصل قوتوں کا راستہ روکا گیا جس کی امریکہ نے بھی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ حکومتی رٹ کی بات کرتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا رٹ صرف سوات میں قائم کرنی ہے کیا ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر میں حکومتی رٹ قائم کرنے کی ضرورت نہیں جہاں ایک فسطائی جماعت نے سارا نظام تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے اور آئے روز درجنوں لاشیں گرائی جا تی ہیں ۔