اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ امریکی شہر لاس اینجلس-کیلیفورنیا، امریکہ میں تیز ہواؤں اور ہوا میں نمی کے
کم تناسب سمیت موسمی حالات میں شدت کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے جنگل کی آگ پھیل
رہی ہے اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نئے اعداد و شمار کے مطابق
اب تک کم از کم 16 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، 10,000 عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں
اور 153,000 لوگوں کو انخلا کے احکامات موصول ہو چکے ہیں۔
ماہرین موسمیات نے پیش گوئی
کی ہے کہ اس ہفتے کے آخر میں لاس اینجلس میں خشک ہواؤں کی شدت اور رفتار میں مزید
تیزی آئے گی جس سے علاقے میں آگ کی صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی۔
لاس اینجلس کے فائر چیف
کرسٹین کرولی نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ان کے محکمے کے بجٹ سے 17 ملین ڈالر کی کٹوتی اور پانی کی عدم فراہمی
کے جیسے مسائل نے فائر فائٹرز کو بے بس کر دیا ہے اور وہ آگ پر قابو پانے کی صلاحیت
نہیں رکھتے۔
آتشزدگی میں ہلاک ہونے
والے 16 افراد میں ایسے 4 سیاہ فام افراد بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں سے نکلنے کے
قابل بھی نہیں تھے۔ مقامی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ان لوگوں میں سے ایک 63 سالہ معذور
شخص اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ موجود تھا اور آگ لگنے کے وقت اپنے بیٹے کو اکیلا نہیں
چھوڑ سکتا تھا، لہذا دونوں جل کر ہلاک ہوگئے۔
اطلاعات کے مطابق، 57 مربع میل کا علاقہ راکھ کا ڈھیر بن چکا ہے۔
اب تک کے تخمینوں کے مطابق امریکہ کو لاس اینجلس کی آگ کی وجہ سے 153 ارب ڈالر کے نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اور چونکہ آگ مسلسل پھیل رہی ہے اور آگ بجھانے کا امکان نہیں آ رہا ہے چنانچہ اس نقصان میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
فاکس نیوز کے اناؤنسر جیسی
واٹرس (Jesse Watters) نے لاس اینجلس کی تباہی کو
"بائبل کی سطح کی تباہی" (Biblical level
destruction) قرار دیا۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق، بہت سارے امریکی تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ لاس اینجلس پر قہرنازل ہؤا ہے اور یہ غزہ کا انتقام ہے جو خدا امریکیوں سے لے رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ لاس اینجلس میں آتشزدگی کے نقصانات، اب تک کے پیش کردہ تخمینوں سے کہیں زیادہ ہیں لیکن ایک طرف سے بڑے شیطان کے حکام پردہ داری سے کام لے رہے ہیں اور دوسری طرف سے نقصانات کا اندازہ لگانا اس لئے بھی بہت دشوار ہے کہ آگ کے بھڑکتے شعلوں کی وجہ سے لاس اینجلس کے بہت سے علاقوں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔
110