اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ
پولیس کے مطابق یہ واقعہ
بروز اتوار اس وقت پیش آیا جب طویل انتظار کے بعد حالات سے تنگ آکر دونوں مسافر
ہنگو سے پاراچنار جا رہے تھے کہ انہیں مسلح دہشت گردوں نے اغواء کرکے نہایت بے دردی
سے قتل کردیا۔
پولیس حکام نے قتل کے بعد
دونوں مسافروں کے سر کاٹ دینے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاتلوں نے قتل کی ویڈیو
بھی جاری کی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے
والی ویڈیو میں لاشوں کے اردگرد کھڑے لوگ ہنس رہے ہیں اور ویڈیو بنا رہے ہیں۔ جبکہ
دوسری وائرل ویڈیو میں موجودہ افراد کو لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا
ہے۔
تیسری ویڈیو میں مسلح دہشت
گرد دونوں مسافروں کو اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ ذبح کرتے ہیں اور ان کے سر تن سے
جدا کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر
وائرل ہونے والی رپورٹ
پاراچنار کے ان
دو نوجوانوں کو دھوکہ دے کر شہید کیا گیا۔
اس رپورٹ کے
مطابق، "یہ دو نوجوان ہنگو میں تھے جب وہ اپنے کچھ سنی دوستوں کے وعدوں کا
شکار ہوکر شہید کئے گئے ہیں۔ ان غدار دوستوں نے ان سے کہا تھا کہ وہ انہیں بحفاظت
شیعہ علاقوں تک پہنچا دیں گے مگر وہ ان کی مکاری کا شکار ہوئے۔ انہيں معلوم نہيں
تھا کہ یہ بزدل دشمن کتنا بے ضمیر اور مکار ہے، اور ان بظاہر دوستوں نے ان کے قتل
کا منصوبہ بنایا ہے۔ چنانچہ ان غداروں نے اپنے ان مسافر دوستوں کو پہنچتے ہی دہشت
گردوں کی تحویل میں دیا جنہوں نے بے دردی سے ان کے گلے کاٹے اور انہیں شہید کر دیا"۔
۔۔۔۔۔
پولیس کے مطابق مسافروں کی
شناخت وسیم عباس اور اسحاق حسین کے ناموں سے ہوئی ہے۔ اور دونوں شہداء کا تعلق
پاراچنار کے شیعہ طوری قبیلے سے بتایا گیا ہے۔ پولیس نے ماضی کے معمول کے مطابق
تحقیقات کا اعلان کیا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ جس
مقام پر ان دو مسافروں کو شہید کیا گیا یہ وہی مقام ہے جہاں 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں
پر فائرنگ کرکے 50 کے قریب خواتین، بچوں اور بڑوں کو شہید کیا گیا تھا۔
ایم این اے حمید حسین نے
اس صورتحال کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان حالات میں محصور شہریوں سے اسلحہ جمع کرنے
کی حکومتی ضد ناانصافی پر مبنی ہے، اسلحہ جمع کرنے دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے
بہتر ہے کہ حکومت ہی ہمیں مار دے۔
کرم سے تعلق رکھنے والے ایم
این اے و پارلیمانی لیڈر ایم ڈبلیو ایم، حمید حسین اور طوری بنگش قبائل کے سربراہ
جلال حسین بنگش نے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں
کو پکڑ کر سنگین سزا دی جائے؛ امن و امان کیلئے پچھلے 15 دنوں سے کوششیں جاری ہیں
اور عین اسی وقت پر اس طرح کا واقعہ افسوناک ہے۔
راہنماوں نے مطالبہ کیا کہ
اس قسم کے واقعات سے بچنے اور پاراچنار کے لوگوں کو موجودہ صورت حال سے بچانے کے
لئے حکومت مسئلے کو غیر ضروری بہانوں سے مؤخر کیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی
ہے کہ امن کے عمل کو طول دینے کے بجائے مین شاہراہ کھول کر یہاں کے عوام کو محفوظ
بنایا جائے۔
واضح رہے کہ شیعہ اور سُنی
قبائل کے درمیان جھڑپوں کے سبب پشاور سے پاراچنار جانے والی سڑک تقریباً گذشتہ دو
مہینوں سے بند ہے جبکہ لاکھوں افراد محصور ہو رہ گئے تھے۔
کرم میں ایک جانب امن و
امان کی صورتِ حال مخدوش ہے تو دوسری جانب سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہاں کے
رہنے والوں کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔
سڑکوں کی بندش اور کشیدگی
کے باعث نقل و حمل میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے کرم میں گیس کے سلینڈر اور
جلانے والی لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
پاراچنار کے تحصیل مئیر
مزمل حسین نے ڈیلی اردو کے ساتھ فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ اکتوبر سے
اہم شاہراہ کی بندش کے نتیجے میں اپر کرم میں حالات بہت خراب ہیں؛ بازاروں میں
خوردنی اشیا، گیس سلینڈر، ایندھن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت پیدا ہوگئی
ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سخت سردی
میں ایک طرف گیس سلینڈر نایاب ہیں اور دوسری طرف جلانے کی لکڑی کی قیمتیں بھی
آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
ادھر خیبرپختونخوا میں
تکفیری دہشت گردی کا شکار ضلع کرم کے شہر پاراچنار میں راستوں کی بندش کے باعث ادویات
کی حالیہ قلت کی وجہ سے کم از کم 50 بچے شہید ہو چکے ہیں۔
ضلع کُرم کا علاقہ پارا
چنار افغانستان کے دارالحکومت کابُل سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس
کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست ،ننگرہار اور پکتیاکے ساتھ ساتھ پاکستان کے
قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔ اور جب نائن الیون
حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے لوگوں
نے کُرم میں بھی نقل مکانی کر دی۔ جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سنہ 2000 کے
وسط میں ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا تو ان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں
اضافہ ہؤا۔
پاکستان کی مرکزی حکومت
اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ صورتحال کو بہتر اور پاراچنار جانے والی
سڑک کھولنے کی کوشش تو کر رہی ہیں لیکن اب تک انہیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
ضلع کرم میں امن و امان کے
لیے قائم امن جرگے نے فریقین میں جنگ بندی تو کرا دی لیکن دو ماہ سے بند راستے
کھلوانے میں بدستور ناکام ہے۔
پاکستانی ہلال احمر کے
صوبائی چیئرمین حبیب ملک اورکزئی کہتے ہیں کہ رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے کرم
میں بسنے والے تمام قبائل کی زندگی بہت مشکل ہو چکی ہے۔
کرم سے تعلق رکھنے والے
سابق وفاقی وزیر ساجد طوری کہتے ہیں کہ امن جرگہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے اس کی وجہ یہ
ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسے مطالبات کیے جا رہے ہیں جو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے
قابلِ عمل نہیں ہیں۔
ساجد طوری کا کہنا تھا کہ
کرم کے قبائلی لوگوں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات کافی عرصے سے ہو رہے ہیں۔ تاہم حالیہ
واقعات میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے کالعدم شدت گروہ بھی ملوث ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے ماحول
میں جب ریاست دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں کرم کے عوام کی حفاظت میں ناکام رہی ہے
اسلحے کی حوالگی کی شرط رکھنا بہت غیر مناسب ہے۔
ساجد طوری نے کہا کہ حکومت
کو چاہیے کہ پہلے راستے کھلوائے، زخمیوں اور مریضوں کو منتقل کرے تاکہ اعتماد بحال
ہو جس کے بعد اسلحے کی حوالگی پر بھی بات ہو سکتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع کرم جاوید
محسود کا دعویٰ ہے کہ کوہاٹ میں ملتوی ہونے والا گرینڈ جرگہ دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے اور
مشکلات میں کمی لانے اور راستے کھولنے کے لئے اقدامات جاری ہیں۔
نکتہ:
غور کرکے دیکھئے تو پاراچنار
کے عوام کے ساتھ حکومت اور سیکورٹی اداروں کا برتاؤ بہت حد تک غزہ کے عوام کے ساتھ
صہیونی فوج کے برتاؤ سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں شیعوں کو نہتا کرکے مقامی صہیونیوں کے
حملوں کا نشانہ بنوانے کا ارادہ ہے اور وہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ غزہ اور غرب
اردن کے فلسطینی علاقے بھی محصور ہیں اور کرم کے شیعہ علاقے بھی محصور ہيں اور جن
علاقوں میں شیعہ مسافروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ان کو ہر قسم کی سہولتيں فراہم کی
جاتی ہیں جس طرح کہ فلسطینیوں کے قاتلوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں
اور انہیں فلسطینوں کے خلاف کاروائیوں کے لئے مسلح کیا جاتا ہے۔
یقین کیحئے کہ:
حکومت اور سلطنت [عدل و انصاف کے] کفر کی حکمرانی کے تحت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم و جبر کے ساتھ قائم نہيں رہتی"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110