اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ آبنا ـ کے مطابق،
پاراچنار کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں موجود ماہر اطفال ڈاکٹر ذوالفقار علی
نے ذرائع کو بتایا کہ آج شہر میں 51 بچے ادویات کی قلت سے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اکسیجن اور حرارتی وسائل
نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔
سعد ایدھی اور ضلع کرم کے زعما اور تنظیموں نے معمولات زندگی کی بحالی کے لئے حکومت سے قومی شاہراہ پر آمد و رفت کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سرکاری اداروں نے بظاہر سیکیورٹی
وجوہات کی وجہ سے پاراچنار جانے والی رابطہ سڑکیں بند کر دی ہیں جس کے باعث شہر میں
ادویات اور اشیائے خورد و نوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور غذائی امن تباہ ہو چکا ہے
اور صحت عامہ کے شعبوں میں المیہ رونما ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ 21 نومبر کو لوئر کرم میں قومی
شاہراہ پر ـ سرکاری فورسز کی حفاظت میں ـ پاراچنار سے پشاور جانے والے مسافروں کے
سینکڑوں گاڑیوں کے قافلے پر تکفیری دہشت گردوں کی فائرنگ سے 42 افراد شہید اور سینکڑوں
افراد زخمی ہوئے تھے۔ جس کے بعد قومی شاہراہ کو پہلے کی طرح بند رکھا گیا۔
اس واقعے میں ایک سوالیہ نکتہ یہ تھا کہ قافلے
کو سرکاری اداروں نے آٹھ گھنٹوں تک روکے رکھا تھا جس کے بعد ان اداروں نے راستہ کلیئر
قرار دیا اور جب قافلہ بگن سے اوچت اور مندوری کی طرف نکلا تو ان پر فائرنگ شروع
ہوئی اور ایک ایسا المناک واقعہ رونما ہؤا جس کی مثال غزہ میں نہیں ملتی۔ سوال یہ
ہے کہ قافلے کو آٹھ گھنٹے کیوں روکا گیا اور کلیئرنس دینے کا مطلب کیا تھا؟ کیا ایسا
تو نہیں تھا کہ قافلے پر حملے کا منصوبہ تھا اور قافلے کو اس لئے روکا گیا تھا کہ
کہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کو یقینی بنایا جائے؟ واضح رہے کہ اگر پاراچنار
جرگہ کے ارکان سے بریگیڈیئر کی بات چیت کی نوعیت اور صدہ میں تعینات فوجی کرنل کے
موقف کو مدنظر رکھاجائے تو مذکورہ سوالات بالکل جائز نظر آئیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110