اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا ہے کہ جب تک ضلع کرم میں اسلحہ جمع نہیں کرایا جاتا تب تک مرکزی ٹل پاراچنار شاہراہ کو نہیں کھولا جائے گا جو کہ اس بات کا ضمنی اعتراف ہے کہ شاہراہ کو مسلح افراد، دہشت گردوں یا پھر حکومت پاکستان کے بقول "خوارج" نے بند نہیں کیا بلکہ پچھلی جنگ کی طرح، حکومت اور فوج نے ہی بند کر دیا ہے۔
یہ مرکزی شاہراہ کرم کو پاکستان کے دیگر حصوں سے
ملاتی ہے اور گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے۔ اس وقت یہ شاہراہ لوئر کرم کے
علاقے بگن سے آگے پاراچنار تک پر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے اپر کرم
میں ادویات، پیٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے
حکومت کہتی ہے کہ شاہراہ کو 21 نومبر کے دن قافلے پر حملے کی وجہ سے بند کیا گیا
ہے لیکن جس علاقے میں فائرنگ ہوئی وہاں تک شاہراہ بھی بند نہیں ہے اور وہاں اسلحہ
جمع کروانے کے لئے کوئی اقدام بھی نہیں کیا گیا ہے!!
اسی روڈ پر گاڑیوں پر مختلف فائرنگ کے واقعات کی
وجہ سے حالات کشیدہ تھے اور رواں سال سات نومبر سے سکیورٹی فورسز کے گاڑیوں کے
حصار میں مسافر گاڑیوں کو پاراچنار جانے کی اجازت تھی۔
تاہم 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے اوچت میں
مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 42 افراد شہید ہوگئے تھے۔
اسی حملے کے اگلے روز 22 نومبر کو مشتعل مظاہرین
نے لوئر کرم میں بگن بازار میں دکانوں کو آگ لگا کر جلایا تھا۔
اس کے بعد شیعہ اور تکفیری سوچ کے حامیوں کے درمیان
مختلف علاقوں میں جھڑپیں جاری رہیں اور فریقین کا جانی نقصان ہؤا تاہم فریقین میں
دو ہفتوں سے فائر بندی پر اتفاق ہؤا لیکن مرکزی شاہراہ ٹل ـ جو 21 نومبر سے پہلے
بن کی گئی تھی اور مقامی لوگ راستے کی بندش کی الزام حکومت پر لگا رہے تھے اور یہ
شاہراہ اب بھی پاراچنار کے لئے بدستور بند ہے؛ اور جن علاقوں کے لوگوں نے بچوں اور
خواتین سمیت داعشی انداز سے شیعہ مسافرین کو قتل کیا تھا، چھ مہینوں کے بچے کے منہ
میں گولی ماری تھی، دوسالہ بچے کا سر قلم کیا تھا، خواتین کو درختوں سے باندھ کر
اور فائرنگ کرکے اور پھر آگ لگا کر شہید کر دیا تھا، ان کے سپلائی لائن بھی کھلی
ہے اور شاہراہ بھی کھلی ہے۔
امن جرگہ اور ڈیڈ لاک
کرم میں امن قائم کرنے کے لیے وزیر اعلی خیبر
پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر ایک جرگہ قائم کیا گیا ہے جن کی دونوں فریقین
کے ساتھ مختلف نشستیں ہوئی ہیں اور جرگے کی سربراہی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر
محمد علی سیف کر رہے ہیں۔
تاہم بظاہر ابھی تک ڈیڈ لاک برقرار ہے کیونکہ
جرگے کے سربراہ اور صوبائی حکومت کے
ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق حکومت نے دونوں فریقین کو اسلحہ جمع کرنے اور
مورچے مسمار کرنے کا کہا ہے۔
گذشتہ روز جرگہ اراکین نے بیرسٹر سیف سے ملاقات
بھی کی ہے اور بیرسٹر سیف کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ بھاری اسلحے کی
حوالگی اور بنکرز کے خاتمے کے بغیر مرکزی شاہراہ نہیں کھولی جا سکتی۔
بیرسٹر سیف نے پریس کانفرنس میں بتایا، ’بھاری
اسلحے سے میری مراد کلاشنکوف وغیرہ نہیں بلکہ اینٹی ایئر کرافٹ اسلحہ، میزائل، اور
آر پی جیز کا استعمال کیا جاتا ہے اور اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی استعمال پر
سخت کارروائی ہو گی۔‘
اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ سرکاری جرگے ـ یعنی ریاست
ـ کی شرطیں پوری ہونے تک موجودہ مسائل اور مصائب برداشت کرنا محصور پاراچناریوں کا
مقدر سمجھا گیا ہے۔ جبکہ یہ شرطیں بھی غزہ
اور لبنان میں جنگ بندی کے لئے اسرائیلی شرطوں سے بہت حد تک ملی جلی ہیں کیونکہ جس
طرح کہ اسرائیل فلسطینی اور لبنانی عوام کے تحفظات کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے، یہاں
بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ حکومت اور اس کے جرگے کو یقینا معلوم ہے کہ شیعہ عوام سے
اسلحہ لے کر اور انہیں نہتا کرکے انہیں جان بوجھ کر غیر محفوظ بنایا جا رہا ہے
جبکہ حکومت نے بھی ابھی تک اپنا جو کردار دکھایا ہے اس سے عوامے تحفظ کا عنصر
بالکل غائب ہے اور حکومت خود اس تنازعے میں ایک فریق ہے جو اب قاضی بنی بیٹھی ہے۔
ادھر جرگہ کے اراکین سے ملاقات کے دوران، اسلحے کو حکومت کے حوالگی پر فریقین کے تحفظات کے حوالے سے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ اسلحہ حوالگی پر تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ کچھ لوگ اسلحہ جمع کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے واضح الفاظ میں بتایا کہ جب تک
اسلحہ جمع نہیں کیا جاتا تو مرکزی شاہراہ نہیں کھولی جا سکتی کیونکہ ان کے دعوے کے
مطابق، سڑک کی بندش کی وجہ ہی حملے اور فائرنگ ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘ہم کوشش کرتے ہیں کہ فریقین کو
وقت دیں اور وہ رضاکارانہ طور پر بھاری اسلحہ جمع کریں لیکن اگر اسلحہ جمع نہیں
کرتے، تو پھر ہم ایک ڈیڈ لائن دے کر کارروائی کریں گے اور حکومت کا حتمی فیصلہ
ہے۔’
اسلحے کی موجودگی کے حوالے سے بیرسٹر سیف نے بتایا
کہ وہاں غیر قانونی اسلحہ موجود ہے کیونکہ کرم کا بارڈر افغانستان سے ملتا ہے اور
پہلے بارڈر پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی۔
ہسپتالوں میں کیا حالات ہیں؟
گذشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ضلعی ہسپتال کا
ایک خط گردش کر رہا ہے جس میں کہا کیا گیا ہے کہ ادویات کی قلت کی وجہ سے بچوں کی
اموات ہو رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی
گئی ہے، تاہم گذشتہ روز ایدھی فاؤنڈیشن نے ایئر ایمبولینس کے ذریعے ادویات کی کھیپ
پہنچائی۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی بھی کرم
گئے تھے اور ان کے مطابق بچوں کی اموات
نمونیا کی ادویات کی کمی کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔
فیصل ایدھی نے بتایا، ‘گذشتہ کچھ عرصے سے ہسپتال
کے وارڈز کو گرم رکھنے کی سہولت نہ ہونے اور نمونیا کی ادویات کی کمی سے 27 بچوں کی
اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔’
مقامی افراد کے مطابق ہسپتالوں میں ضروری ادویات
تو پہنچائی گئی ہے لیکن مارکیٹ میں فارمیسیوں میں ادویات کی کمی ہے اور روزانہ کی
بنیاد پر دوا لینے والوں کے لیے شدید مشکلات ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110