14 دسمبر 2024 - 10:04
شام کے ایک حصے پر "اسرائیلی" قبضے کی مذمت پر مبنی عرب لیگ کا بیان

عرب لیگ نے شام کے اندر صہیونی فوج کی پیشقدمی کو 1974 کے شام - تل ابیب معاہدے کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے / عرب لیگ کے قیام کا مقصد البتہ کچھ اور تھا!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ القاہرہ 24 سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ شام کی سرزمین کے ایک اور حصے پر غاصب صہیونی ریاست کے قبضے کا جائزہ لینے کے لئے عرب لیگ  کی کونسل کا اجلاس منعقد ہؤا۔

اس اجلاس میں عرب لیگ نے شام کی تبدیلیوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک قرار داد منظور کی ہے۔

اس قرار داد میں بفرزون اور اس سے ملحقہ علاقوں، جبل الشیخ، القنیطرہ اور دمشق کے مضافاتی علاقوں میں صہیونی فوج کی پیشقدمی کی مذمت  کی گئی ہے اور اس اقدام کو شام اور اسرائيلی ریاست کے سنہ 1974ع‍ کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

عرب لیگ کی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ 1974 میں منظور ہونے والی سلامتی کونسل کی قرار داد 350 کے مطابق جنگ بندی معاہدہ بدستور قائم اور معتبر ہے، چنانچہ یہ معاہدہ شام کی موجودہ سیاسی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوگا۔

عرب لیگ نے شام کے فوجی اور غیر فوجی مراکز پر صہیونی ریاست کے مسلسل حملوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جولان کی پہاڑیاں سرزمین شام کا حصہ ہیں اور ان کی یہ حیثیت ہمیشہ قائم رہے گی۔ 

عرب لیگ کا فلسفۂ وجود

عرب لیگ کی تشکیل کا ایک سبب اور اس کے وجود کا فلسفہ یہ تھا کہ عرب ثقافت، زبان اور مذہب کے اعتبار سے ہم مسلک اور مسلمان تھے اور شام سے فرانسیسی افواج کے انخلاء کے بعد فلسطین کی آباد سرزمین پر اسرائیل کی یہودی ریاست قائم ہوئی تو یہ دوسرا عرب لیگ کے قیام کا دوسرا سبب تھا اور پروگرام یہ تھا کہ رکن ممالک اسرائیل کا راستہ روکنے اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ صہیونی جارحیتوں سے نمٹنے کے لئے آپس میں عملی تعاون کریں گے، لیکن آج جب مغرب-ترکیہ-اسرائیل نے پورے شام کو ایک دہشت گرد ٹولے کے ذریعے روند ڈالا ہے اور اسرائیل نے شام کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کے کم از کم 500 فوجی اور سائنسی مراکز ـ اور بری، بحری اور فضائی فوج ـ کو تہس نہس کر دیا ہے تو عرب لیگ ایک ہفتہ بعد جاگ گئی ہے اور دشمن سے نمٹنے کے بجائے بیان بازی کرنے لگی ہے۔ ادھر فلسطین پر 14 مہینوں سے صہیونی جارحیت جاری ہے، فلسطینیوں کو بھوکوں مارا جا رہا ہے، اور عرب اور مسلم حکمرانوں نے صہیونی جارحیتوں کو "ایران-اسرائیل" تنازعہ قرار دے کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے جان چھڑاتی آئی ہے لیکن اب جبکہ ایران شام میں موجود نہیں ہے اور شام پر مغربی-عبرانی-صہیونی حمایت یافتہ تکفیریوں کا قبضہ ہے اور صہیونی پھر بھی اس سرزمین کو نیست و نابود کر رہے ہیں اور ان کا اگلا ہدف گریثر اسرائیل بنانا اور مصر، اردن، شام، عراق اور سعودی عرب کے اس وہمی ریاست میں شامل کرنا ہے، تو شاید ان کا خواب اڑ گیا ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110