اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

11 دسمبر 2024

9:31:19 AM
1512928

رہبر انقلاب نے فرمایا: اس میں شک و شبہہ نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ شام میں وقوع پذیر ہؤا ہے، مشترکہ امریکی ـ صہیونی منصوبے کا نتیجہ ہے۔ / ہم شام کی حکومت کو ضروری معلومات فراہم کرتے رہے تھے؛ نہیں معلوم کہ یہ رپورٹیں اعلیٰ حکام تک پہنچی بھی تھیں یا نہیں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق عوام کے مختلف طبقات کے ہزاروں افراد در تہران میں حسینیۂ امام خمینی(رح) میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی امام سید علی الحسینی الخامنہ ای (مد ظلہ العالی) سے ملاقات کی۔ اور آپ نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

شام کے لئے امریکی اور صہیونی منصوبہ سازی

اس میں شک و شبہہ نہیں کرنا چاہئے کہ جو کچھ شام میں وقوع پذیر ہؤا ہے، مشترکہ امریکی ـ صہیونی منصوبے کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں! شام کے ایک پڑوسی ملک نے اس منصوبے کے نفاذ میں اعلانیہ کردار ادا کیا اور اب بھی ادا کر رہا ہے ـ اس کو سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ـ لیکن اصل سازشی عامل اور اصل منصوبہ ساز سازشی عامل، اور اصل آپریشن روم امریکہ اور صہیونی ریاست میں ہے۔ ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں جو کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔

مقاومت [و مزاحمت] کا دائرہ پورے خطے میں پھیل جائے گا

مقاومت یہ ہے، محاذ مقاومت یہ ہے: جتنا دباؤ بڑھاؤگے، یہ زیادہ مستحکم ہوجاتی ہے، جس قدر کے ظلم و جرم روا رکھو گے، اس کا عزم پختہ تر ہوجاتا ہے۔ تم جتنا اس سے لڑو گے، اس کا دائرہ وسیع تر ہوجائے گا اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ کی قوت و قدرت سے، مقاومت کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ، پورے خطے پر چھا جائے گا۔

اس نادان اور مقاومت کے معنی سے بے خبر تجزیہ کار کو ـ جو سمجھتا ہے کہ مقاومت کمزور ہو گئی ہے، ایران بھی کمزور ہو جائے گا، سمجھنے کی کوشش کرے کہ بحول اللہ و قوتہ اور بإذن الله تعالیٰ ایران طاقتور ہے اور اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوگا۔

شام کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرایا جائے گا

البتہ یہ یلغاری، جن کے بارے میں میں کہا، ہر کسی کے اپنے اغراض و مقاصد ہیں، ان کے اہداف بھی مختلف ہیں۔ کچھ شمالی شام میں اور کچھ جنوبی شام میں کچھ علاقوں پر قابض ہونا چاہتے ہیں، امریکہ بھی خطے میں اپنا ٹھکانہ مضبوط کرنا چاہتا ہے، یہ ان کے اہداف و مقاصد ہیں اور وقت بتائے گا کہ ان شاء اللہ وہ کسی بھی مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہونگے۔

شام کے مقبوضہ علاقے شام کے غیور نوجوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوجائیں گے؛ شک نہ کرنا، یہ واقعہ رونما ہوگا؛ امریکہ کا ٹھکانہ مضبوط نہیں ہوگا، اللہ کی توفیق سے اور اس حول و قوت سے امریکہ بھی محاذ مزاحمت کے ہاتھوں خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔ 

داعش کی ریشہ دوانیوں کے وقت شام میں ایران شام میں کیوں حاضر ہؤا

داعشی فتنے کے مسئلے میں؛ داعش یعنی بدامنی پھیلانے والا بم؛ داعش سے مطلب یہ تھا کہ وہ عراق کو بدامنی سے دوچار کرنا چاہتی تھی، شام کو بدامنی سے دوچار کرنا چاہتی تھی، خطے کو بدامنی کے بھنور میں دھکیلنا چاہتی تھی، اور اس کے بعد اصل نقطے اور اصل ہدف ـ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران ـ کی طرف آنا چاہتی تھی، اسلامی جمہوریہ ایران کو بدامنی سے دوچار کرنا چاہتی تھی۔ یہ اصل اور حقیقی ہدف تھا۔ یہ داعش کے معنی ہیں۔

ہم حاضر ہوئے، ہماری فورسز ایران میں بھی اور شام میں حاضر ہوئیں، جس کی دو وجوہات تھیں اور سبب مزارات مقدسہ کی حرمت کا تحفظ تھا۔ کیونکہ وہ معنویتوں اور دین و ایمان سے دور تھے اور مزارات مقدسہ سے دشمنی رکھتے تھے، وہ مزارات کے انہدام کا ارادہ رکھتے تھے، آپ نے سامرا میں دیکھ لیا کہ انہوں نے امریکیوں کی مدد سے سامرا کے گنبد مطہر کو ویران کر دیا، بعدازاں وہ یہی کچھ نجف میں دہرانا چاہتے تھے، کربلا میں دہرانا چاہتے تھے، کاظمین میں دہرانا چاہتے تھے، دمشق میں دہرانا چاہتے تھے، داعش کا مقصد یہ تھا۔ ایسی صورت حال میں ایک غیور مؤمن اور محب اہل بیت(ع) نوجوان اس طرح کے اعمال کو برداشت نہیں کر سکتا، اور اس طرح کے کسی کام کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ ایک سبب تھا۔ ایک دوسرا سبب امن و سلامتی کا مسئلہ تھا۔ ذمہ دار افراد بہت تیزی سے بھانپ گئے، صحیح موقع پر سمجھ گئے کہ اگر اس بدامنی کا راستہ ان مقامات پر نہ روکا جائے، تو یہ فتنہ سرایت کرے گا، یہاں بھی آئے گا، ہمارے بڑے ملک کے ہر گوشے پر بدامنی کا سایہ پھیل جائے گا۔ فتنۂ داعش سے جنم لینے والا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں تھا۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "خدا کی قسم جو قوم اپنے گھر میں دشمن سے لڑے گی، ذلیل ہوگی۔" [1] تو دشمن کو اپنے گھر تک مت پہنچنے دو۔ چنانچہ ہماری فورسز چلی گئیں، ہمارے نامی گرامی جرنیل چلے گئے، ہمارے شہید عزیز سلیمان اور ان کے ساتھ اور رفقائے کار چلے گئے، نوجوانوں کو عراق میں بھی اور شام میں بھی ـ پہلے عراق میں اور بعدازاں شام میں ـ منظم کیا، اسلحے سے لیس کیا، ان کے اپنے نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے داعش کے مقابلے میں اور داعش کی کمر توڑ دی، اور غالب و فاتح ہو گئے۔ شام اور عراق میں ہماری حاضری کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ اپنے ڈویژنوں کو وہاں لے جائیں، [اور وہ] ان کی فوجوں کی جگہ، [لڑیں]۔

جو کچھ ہماری فورسز کر سکتی تھیں، اور انجام دے چکیں، مشاورت کا کام تھا، مشاورت کا کیا مطلب ہے؟ مشاورت کا مطلب اہم مرکزی اور بنیادی ہیڈکوارٹرز اور اڈے قائم کرنا، تزویراتی حکمت عملیوں کا تعین کرنا، تدبیروں اور روشوں کا تعین کرنا، اور بوقت ضرورت میدان میں اترنا۔ لیکن سے اہم وہاں کے اپنے نوجوانوں کی عام لام بندی تھی، البتہ ہمارے نوجوان بھی، ہمارے بسیجی بھی، مشتاق تھے اور جانے پر اصرار کرتے تھے، اور ان میں سے بہت سارے چلے گئے۔

دشمن کے جرائم مقاومت کے مشن کی حقانیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے ہیں

استکبار کے گماشتے شام کے واقعات سے خوش ہیں، اس تصور سے کہ مقاومت کی حامی شامی حکومت کے گرنے سے محاذ مقاومت مزید، کمزور پڑ گیا ہے۔

یہ شدید غلطی میں ہیں؛ جو لوگ تصور کرتے ہیں کہ محاذ مقاومت کمزور ہو گیا ہے، وہ مقاومت اور محاذ مقاومت کے حوالے سے صحیح ادراک نہیں رکھتے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ محاذ مقاومت اصولا ہے کیا؟

محاذ مقاومت ایک سخت آلہ (اور ہارڈویئر) نہیں ہے جو ٹوٹ جاتا ہے یا ڈھا جائے کا نابود ہوجائے۔ مقاومت ایک ایمان ہے، ایک تفکر ہے، ایک قلبی اور حتمی عزم و ارادہ ہے، مقاومت ایک مکتب ہے، ایک اعتقادی مکتب ہے۔ جو چیز کچھ لوگوں کے ایمان کو تشکیل دیتی ہے وہ دباؤ آنے سے کمزور نہیں ہوتی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو جاتی ہے۔

محاذ مقاومت کے ارکان اور محاذ مقاومت کے عناصرِ [ترکیبی] خباثتوں کو دیکھ کر زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے اور محاذ مقاومت کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے۔

مقاومت ایسی چیز ہے؛ جب وہ دشمن کے بہیمانہ جرائم کو دیکھتے ہیں، تو وہ لوگ جو تذبذب کا شکار تھے کہ مزاحمت کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے، وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ستمگر، اور ظالم اور جابر کے سامنے سینہ سپر ہونے کے سوا، انسان اپنی راہ پر گامزن نہیں ہ سکتا؛ چنانچہ اسے اب کھڑا ہونا چاہئے، اسے اب مقاومت و مزاحمت کا راستہ اپنانا چاہئے۔ مقاومت یہ ہے۔

آپ حزب اللہ لبنان کو دیکئھے، جو مصیبت حزب اللہ پر وارد ہوئی، کیا حزب اللہ لبنان کو پیش آنے والا سانحہ، ایک مذاق تھا؟ حزب اللہ سید حسن نصراللہ جیسی ہستی سے محروم ہو گئی، کیا یہ کوئی چھوٹی چیز تھی؟ [صہیونی ریاست پر] حزب اللہ کے حملے، حزب اللہ کی طاقت، اور حزب اللہ کا بھاری گھونسا پہلے سے زیادہ طاقتور ہو گیا۔ اس کو دشمن سمجھ گیا اور اسے تسلیم کر لیا۔

مقاومت کی وسعتیں پورے خطے پر چھا جائیں کی اور ایران مزید طاقتور ہوجائے گا

انھوں نے نقصان پہنچانے کے بعد سمجھ لیا کہ اب وہ سرزمین لبنان میں داخل ہو سکیں گے، حزب اللہ کو فلاں مقام تک پیچھے دھکیل سکیں کے، اور دریائے لیتانی تک پیش قدمی کریں گے، لیکن وہ نہیں آ سکے؛ حزب اللہ کھڑی ہوگئی اور پوری قوت سے ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ انہوں نے آکر کہہ دیا کہ "جنگ بندی"۔ مقاومت یہ ہے۔

غزہ کو دیکھ لیجئے، اب ایک سال اور چند مہینوں سے وہ غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔ انہوں نے یحیی سنوار سمیت غزہ کی نمایاں شخصیات کو قتل کر دیا، شہید کر دیا، انہوں نے یہ نقصان پہنچایا لیکن اسی اثناء میں لوگ کھڑے ہو گئے۔ ان کا وہم تھا کہ اگر لوگوں پر دباؤ لائیں تو وہ خود ہی حماس اور جہاد اسلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ لیکن بات برعکس ہو گئی اور لوگ پہلے سے زیادہ، حماس، جہاد اسلامی اور دوسری مجاہد فلسطینی تنظیموں کے حامی بن گئے۔

مقاومت یہ ہے، محاذ مقاومت یہ ہے: جتنا دباؤ بڑھاؤگے، یہ زیادہ مستحکم ہوجاتی ہے، جس قدر کے ظلم و جرم روا رکھو گے، اس کا عزم پختہ تر ہوجاتا ہے۔ جتنا اس سے لڑو گے، اس کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ کی قوت و قدرت سے، مقاومت کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ، پورے خطے پر چھا جائے گا۔

ایک نادان اور مقاومت کے معنی سے بے خبر تجزیہ کار ہی سمجھتا ہے کہ مقاومت کمزور ہو گئی ہے، ایران بھی کمزور ہو جائے گا، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ بحول اللہ و قوتہ اور بإذن الله تعالیٰ ایران طاقتور ہے اور اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوگا۔

ایک سوال اٹھایا جاتا ہے، کہ یہ بیان جو شام کے مسائل کے بارے میں دیتے ہیں، تو کیا ان چند برسوں میں ہم شام میں موجود تھے یا نہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ: سب جانتے ہیں کہ ہم وہاں حاضر تھے، شہدائے حرام، دفاع حرم کے شہداء، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم وہاں حاضر تھے۔ ہم نے شام کی مدد کی، لیکن ہماری شام کی مدد سے قبل ایک حساس مرحلے میں شام نے ہماری بہت اہم مدد کی تھی۔ بہت سوں کو اس کی خبر نہیں ہے۔ 

شہید سلیمانی کی طرف سے شامی کی عوامی رضاکار فورس متحرک کرنے کی کہانی

[آٹھ سالہ] دفاع مقدس کے بیچوں بیچ ـ جس وقت سب کے سب صدام کے لئے کام کر رہے تھے اور ہمارے خلاف کام کر رہے تھے ـ شامی حکومت نے آکر ہمارے حق میں اور صدام کے خلاف ایک فیصلہ کن اور تقدیر ساز اقدام سرانجام دیا اور وہ یہ تھا کہ اس نے اس پائپ لائن کو بند کر دیا تھا جو عراق کا تین بحیرہ روم اور یورپ منتقل کرتا تھا اور اس کی آمدنی صدام کی جیب میں آتی تھی۔ دنیا میں شور مچ گیا کیونکہ شام نے تیل کی فروخت کا سلسلہ جاری نہیں رہنے دیا۔

شام خود بھی تیل کی اس ٹرانزٹ پائپ لانے سے منافع کما رہا تھا اور اسے رقم ملتی تھی۔ اس نے اپنی اس آمدنی کو نظرانداز کر دیا، اور اسے اس کا معاوضہ بھی ملا اور اسلامی جمہوریہ نے اس خدمت کو بلا معاوضہ نہیں چھوڑا۔ [یعنی یہ کہ] پہلے انہوں نے [ہماری] مدد کی۔

شہید سلیمانی نے خود شامی نوجوانوں میں سے کئی ہزار افراد کو تربیت دی، انہیں مسلح کیا، منظم کیا اور انہیں تیار کر دیا اور انہوں نے (یعنی شامی نوجوانوں نے] ثابت قدمی دکھائی۔

بعد میں صورت حال یہ ہوئی کہ خود شامی فوجی حکام نے مسائل پیدا کئے، مشکلات پیدا کیں، اس چیز کو نظرانداز کیا جو ان کے فائدے میں تھی، بدقسمتی سے۔ اور داعشی فتنے کی آگ بجھ جانے کے بعد۔ کچھ فورسز پلٹ آئیں، اور کچھ لوگ وہاں رہ گئے۔

ان ہی [حالیہ] مسائل میں وہاں موجو تھے، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، اصل جنگ اس ملک کی فوج کو لڑنا چاہئے تھی۔ اس ملک کی فوج کے ساتھ ہی دوسری جگہوں سے آنے والی بسیجی [رضاکار] فورس لڑ سکتی ہے۔ اگر فوج نے کمزوری دکھائی، تو وہ بسیجی کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ یہ سب کچھ ہؤا بدقسمتی سے۔

جب استقامت کی روح [اور عزم و حوصلہ] ماند پڑ جائے، [یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے]۔ یہ مصائب جو اس وقت شام پر سایہ فگن ہیں، ـ جو خدا جانے، کب تک جاری رہیں گے کب ہوگا جب شام کے نوجوان ان شاء اللہ میدان میں آئیں گے اور ان مصائب سے نمٹ لیں گے ـ ان سب کا سبب وہی کمزوریاں ہیں جو شامی فوج نے دکھا دیں۔

ہم  نے کئی ماہ قبل شامی حکام کو ضروری انتباہات دیئے تھے، انٹیلی جنس رپورٹیں دی تھیں

 

شام کا واقعہ ہمار لئے، ہم سب کے لئے، ہمارے ذمہ داروں کے لئے، سبق کا حامل بھی ہے اور عبرت کا حامل بھی۔ اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔

اس واقعے کا ایک سبب غفلت ہے، دشمن سے غفلت؛ جی ہاں! اس واقعے میں دشمن نے انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ عمل کیا، لیکن انہیں [یعنی شامی حکومت اورافواج کو] واقعے سے قبل ہی اسے بھانپ لینا چاہئے تھا، کہ یہ دشمن اقدام کرے گا اور تیزرفتاری سے عمل کرے گا۔

ہم نے ان کی مدد کی تھی۔ ہماری انٹیلی جنس مشینری نے کئی ماہ قبل خبردار کرنے والی رپورٹیں شامی حکام کو منتقل کی تھیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ رپورٹیں اعلیٰ حکام تک پہنچی بھی تھیں یا نہیں بلکہ بیچوں بیچ لاپتہ ہو گئی تھیں! لیکن ہمارے انٹیلی جنس حکام نے انہیں بتایا تھا اور ستمبر اکتوبر اور نومبر میں تسلسل کے ساتھ رپورٹیں دی تھیں۔

دشمن سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دشمن کو حقیر [اور کمزور] نہیں سمجھنا چاہئے، دشمن کی مسکراہٹ پر کبھی بھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ کبھی دشمن میٹھے لب و لہجے سے، انسان کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتا ہے، لیکن اس نے خنجر اپنے پیچھے چھپا رکھا ہوتا ہے اور موقع کی تلاش میں ہے۔ 

لوگوں کو تشویش میں ڈالنا [اور خوفزدہ کرنا]، جرم ہے

کچھ لوگوں کی پوری ہمت اتنی سی ہے کہ لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، حقائق کی اس انداز سے تصویرکشی کرتے ہیں کہ لوگوں کو خوفزدہ کر دیں۔ اگر کوئی اپنے تجزیئے یا بیان میں اس طرح سے اظہار خیال کرے جو عوام کو تشویش میں مبتلا کرنے کا سبب بنے، اور ملک کے اندر کسی کو بھی ایسا کچھ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ یہ جرم ہے اور ایسے افراد سے نمٹا جانا چاہئے۔

مسلح افواج کے کمانڈروں کی رہبر انقلاب سے درخواست: ہمیں لبنان اور شام جانے کی اجازت دی جائے

ہماری مسلح افواج اور مسلح اداروں کے اعلیٰ کمانڈر مجھے خط لکھتے ہیں [اور درخواست کرتے ہیں] کہ ہم لبنان کے قضیے، حزب اللہ کے قضيے میں ہمارا تحمل اور ہماری برداشت جواب دے گئی ہے، ہمیں اجازت دیجئے کہ چلے جائیں [لبنان]۔ آج ملت ایران اپنی فوج اور سپاہ پاسداران پر فخر کرتی ہے۔

اس کا موازنہ کیجئے اس فوت سے جو صبر و تحمل کھو بیٹھی ہے اور میدان جنگ سے بھاگ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے طاغوت [یعنی پہلوی بادشاہ] کے دور میں ہماری فوج کا بھی یہی حال تھا؛ وہ بھی دشمنوں کے حملے کے مقابلے میں، اور غیر ملکیوں کے مقابلے میں، فوجیوں نے مختلف جنگوں ـ بالخصوص دوسری [عالمی] جنگ ـ میں ڈٹ کر مقابلہ نہیں کیا، اور ان کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوئے۔ دشمن آ گیا اور اس دن تہران تک پر قبضہ کر لیا۔ جب استقامت نہیں کرتے، نتیجہ یہی ہوگا۔ ثابت قدمی اور استقامت کی ضرورت ہے۔

ہم [شام] کی حالیہ صورت حال میں بھی تیار تھے، فوجی حکام میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے شامیوں کے لئے تمام تر ضروری وسائل کو تیار کر لیا ہے، ہم جانے کے لئے تیار ہوئے۔ فضائیں بند تھیں، زمین بند تھی۔ صہیونی ریاست اور امریکہ نے شام کی فضاؤں کو بھی بند کر دیا اور زمینی راستوں کو بھی، [وسائل پہنچانا اور فورسز کا داخلہ] ممکن نہیں مسائل یہ ہیں۔ اگر اس ملک کے اندر کا عزم و حوصلہ اپنے حال پر باقی رہتا، اور وہ دشمن کے مقابلے میں کچھ بولنے کے لائق رہتے، دشمن ان کی فضاؤں کو بند نہیں کر سکتا تھا، زمینی راستوں کو بھی بند نہیں کر سکتا تھا، اور ان کی مدد کی جا سکتی تھی۔

یقینا شام کے غیور نوجوان اٹھیں گے اور کامیاب ہونگے

سب جان لیں، یہی صورت حال قائم جاری نہیں رہے گی؛ یہ کہ ایک ٹولہ آجائے اور دمشق اور دوسری جگہوں پر خوشیاں منائے اور ناچیں، لوگوں کے گھروں میں دراندازی کریں، صہیونی ریاست بھی آکر بمباری کرے، ٹینک لے کر آئے، توپ لے کر آئے، یہ صورت حال جاری نہیں رہے گی؛ یقینی امر ہے کہ شامی نوجوان اھ کھڑے ہونگے، جانفشانی کریں گے، جانبازی کریں گے، جانوں کا نذرانہ دیں گے، لیکن اس صورت حال پر غلبہ پائیں گے۔ جیسا کہ عراق کے غیور نوجوانوں نے ایسا ہی کرکے دکھایا۔ گوکہ ممکن ہے کہ شام میں اس کام پر کافی عرصہ لگ جائے لیکن نتیجہ قطعی اور حتمی ہے۔

عراق کے غیور نوجوان ہمارے پیارے شہید کی راہنمائی، کمانڈ اور تشکیل و تنظیم کے تحت دشمن کو اپنی گلیوں اور سڑکوں سے نکال باہر کیا، اپنے گھروں سے مار بھگایا ورنہ تو امریکی عراق میں بھی یہی کچھ کرنا چاہتے تھے۔

محاذ مقاومت کو اپنی کامیابی سے بھی مغرور نہیں ہونا چاہئے، ناکامیوں اور شکستوں سے مایوس بھی نہیں ہونا چاہئے۔ کامیابی ہے [تو] شکست بھی ہے، انسانوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اس میں کامیابیاں ہیں، ناکامیاں [بھی] ہیں؛ گروپوں اور جماعتوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، اس میں کامیابی ہے اور ناکامی [بھی] ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی مسئلے میں، ایک لمحے کے لئے بھی انفعالیت سے دوچار نہیں ہوئی

ایک دھارا [اور ایک گروہ] ایک روز بر سر روزگار ہے، اور ایک دن روزگار سے الگ ہے، حکومتیں بھی اسی طرح ہیں، ممالک بھی اسی طرح۔ زندگی میں نشیب و فراز ہے، انسان نشیب و فراز سے اجتناب نہیں کر سکتا، جو کچھ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم بلندیوں پر ہیں تو ہمیں مغرور نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ غرور جہل کو جنم دیتا ہے۔ انسان کا مغرور ہونا، بذات خود انسان کو غفلت سے دوچار کر دیتا ہے۔ جب ہم تنزل [کے نقطے] پر پہنچتے [اور ناکام ہوتے] ہیں تو ہمیں اداس، مایوس اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے۔

اسلامی جمہوریہ کو ان چالیس اور کچھ برسوں میں بہت سارے بڑے اور سخت واقعات و حوادث کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بڑے واقت۔ نوجوانوں نے وہ دن نہیں دیکھا۔ اسی تہران میں اپنے گھروں میں بیٹھے تھے تہرانی عوام، صدام کا سوویت ساختہ مگ-25 ہمارے سروں کے اوپر آتا تھا، اگر شرافت سے کام لیتا اور بمباری نہ بھی کرتا تو کم از کم لوگوں کو خوفزدہ کر دیتا تھا، اور ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ نہ ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لئے کوئی دفاعی نظام تھا، نہ ہی ہمارے پاس اس کا امکان تھا، ہمیں ان کا سامنا کرنا پڑا۔

اسلامی جمہوریہ کو ان مختلف النوع واقعات اور ان تلخ حوادث کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن ان واقعات میں کبھی بھی اسلامی جمہوریہ انفعالیت (Passiveness) سے دوچار نہیں ہوئی۔ انفعالیت کو مؤمن سے کبھی بھی سرزد نہیں ہونا چاہئے۔ انفعالیت کبھی اصل واقعے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ انفعالیت یعنی یہ کہ انسان دیکھتا رہے اور اس احساس تک پہنچے، کہ وہ کچھ بھی کرنے کا قابل نہیں ہے، اور یوں، تسلیم ہو جائے۔ یہ انفعالیت ہے۔ چنانچہ کامیابیوں اور پیشقدمیوں میں غرور سم [اور سنکھیا] ہے اور ناکامیوں اور مشکلات و مسائل میں، انفعالیت سَمّ ہے۔  

۔۔۔۔۔۔

رہبر انقلاب کے خطاب کے وہ نکات ـ جن کا ابتدائی طور پر پورا متن دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ـ ترجمہ نہیں ہو سکا تھا ذیل میں ملاحظہ کیچئے:

- شواہد سے معلوم ہؤا ہے کہ شام کی ایک پڑوسی حکومت نے دہشت گردوں کے شام پر حملے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے مگر کمانڈ روم امریکہ اور صہیونی ریاست میں ہے اور پراجیکٹ ان ہی کا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو انہوں نے دوسرے ممالک کی طرح خاموش رہنے کے بجائے، شام کے سینکڑوں فوجی مراکز، ہوائی اڈوں، تحقیقاتی مرکز، سائنسی مراکز اور یونیورسٹیوں پر بمباریاں کرکے اس بحران میں مداخلت کیوں کی؟

- امریکہ نے دہشت گردوں کے قبضے کے پہلے دن شام کے پچھتر نقاط پر بمباری کی۔ صہیونیوں نے سینکڑوں ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اپنے ٹینکوں کو دمشق کے قریب پہنچایا۔ اور امریکہ ـ جو کئی ممالک میں چھوٹے سے سرحدی مسئلے پر شدید رد عمل ظاہر کرتا ہے ـ نہ صرف اسرائیل کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ اس کی مدد بھی کر رہا ہے۔ کیا شام کے مسئلے میں ان کی مداخلت کا ثبوت نہیں ہے؟

- حالیہ ایام میں شام کے مختلف علاقوں ـ بالخصوص زینبیہ کے لوگوں ـ کے لئے امدادی سامنا بھیجا جا رہا تھا، لیکن صہیونیوں نے زمینی راستے بند کر دیے اور امریکی اور صہیونی طیاروں نے فضا کے راستے اس امداد کی ترسیل کو ناممکن بنا دیا۔ اگر وہ پراجیکٹ کے اصل مالک و منتظم نہیں ہیں، اور اگر فلان دہشت گرد شامی گروپ کی آڑ میں شام کے خلاف جنگ نہيں لڑ رہے ہیں، تو امداد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟

- مقاومت کی جڑیں اقوام کے ایمان اور یقین میں پیوست ہیں، مقاومت کا مطلب امریکہ اور ہر دوسرے تسلط پسند ملک کے مقابلے میں مزاحمت و استواری اور امریکہ سے وابستگی اور اس کی غلامی کی مخالفت ہے؛ اقوام کے لئے عقیدہ بہت اہم ہے اور یہی اعتقاد و یقین حالیہ مہینوں میں فلسطین کے لئے خطے اور پوری دنیا کی اقوام کی وسیع حمایت اور صہیونیوں سے عالمی نفرت کا سبب بن گیا ہے۔

- غاصب صہیونیوں نے ریاست 75 سال سے فلسطین کو غصب کر لیا ہے؛ اس مسئلے کو اس طویل عرصے میں یادوں سے مٹ جانا چاہئے تھا، مگر آج فلسطینی کاز پر ملت فلسطین اور خطے کی دوسری قوموں کی استقامت غصب کے ابتدائی برسوں کے مقابلے میں دسوں گنا بڑھ گئی ہے اور مقاومت کے اوپر اقوام ملت کے مشترکہ یقین و اعتقاد نے اس شعلے کو مزید بھڑکا دیا ہے۔

- آج صہیونیوں کے ساتھ تعاون اور یکجہتی نے اقوام عالم کے نزدیک سرخ لکیر کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور صہیونیوں اور ان کے حامیوں اور اتحادیوں کو جان لینا چاہئے کہ اللہ کی سنت کے مطابق، جرائم اور مظالم کامیابی کا باعث نہیں بنتے اور آج یہ الہی سنت اور تاریخی تجربہ غزہ، دریائے اردن کے مغربی کنارے اور لبنان میں دہرائی جا رہا ہے۔

- شام اور عراق میں ہمارے فوجی مشیروں اور فورسز کی موجودگی کا ایک مقصد داعش سے نمٹنا تھا۔ ہمارے ذمہ دار افراد بہت تیزی سے بھانپ گئے، صحیح موقع پر سمجھ گئے کہ اگر اس بدامنی کا راستہ ان مقامات پر نہ روکا جائے، تو یہ فتنہ سرایت کرے گا، یہاں بھی آئے گا، ہمارے بڑے ملک کے ہر گوشے پر بدامنی کا سایہ پھیل جائے گا، اور پارلیمان پر حملے، حضرت سید احمد بن موسی شاہ چراغ(ع) کے حرم پر حملوں اور کرمان میں دہشت گردانہ دھماکے اس امکانی خطرے کے عملی ثبوت تھے۔

- شام میں ہماری موجودگی مشاورت کی حد تک تھی، ہم وہاں کی فوج کی جگہ نہيں لڑنا چاہتے تھے، کیونکہ یہ کام معقول بھی نہیں تھا اور رائے عامہ بھی اسے قبول نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ وہاں ہماری موجودگی مشیروں کی حد تک تھی یا پھر کچھ رضاکار بسیجی ضرورت کے وقت وہاں چلے گئے۔

- شہید سلیمانی کے کارہائے نمایآں میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں نے ہزاروں شامی نوجوانوں کو تربیت دی، انہیں مسلح کیا، منظم کیا اور انہیں تیار کر دیا؛ لیکن بدقسمتی سے، شامی حکومت نے ان رضاکار گروپوں کی تحلیل کر دی۔ اور فتنۂ داعش کی آگ بجھنے کے بعد ہمارے زیادہ تر مشیران شام سے واپس آگئے۔

- یقینی امر ہے کہ کسی بھی مقام پر موجودگی کا لازمہ وہاں کی حکومت کی حمایت اور منظوری ہے، جیسا کہ ہم عراق اور شام میں وہاں کی حکومتوں کی درخواست پر، حاضر ہوئے اور اگر وہ درخواست نہ دیں تو راستہ بند ہے اور مدد کا امکان میسر نہيں ہوگا۔

۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔

110

۔۔۔۔۔


1۔ فَوَاللَّهِ مَا غُزِيَ قَوْمٌ قَطُّ فِي عُقْرِ دَارِهِمْ إِلا ذَلُّوا؛ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 37۔

دیکھئے:
تصویری رپورٹ | رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای سے ہزاروں افراد کی ملاقات