اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، انصار اللہ یمن کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی
نے کہا: امریکہ اقوام عالم کو اپنے ممنوعہ ہتھیاروں کے لئے 'تجربہ گاہ کے چوہے'
سمجھتا ہے۔
انصار اللہ یمن
کے قائد سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے (جمعرات 5 دسمبر 2024ع کو) اپنے خطاب
میں کہا:
- صہیونی دشمن غزہ پر اپنے
وحشیانہ حملوں کا سلسلہ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
- غزہ میں صہیونی دشمن کے
ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کُشی ایسا جرم ہے جس کا
ایک انتہائی محدود جغرافیائی علاقے میں ارتکاب کیا جا رہا ہے۔
- صہیونی دشمن
غزہ میں امریکی ساختہ ایسے ہتھیار استعمال کر رہا ہے جو انسان کو بدن کو بھاپ میں
تبدیل کر دیتے ہیں۔
- صہیونی دشمن ممنوعہ
ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کے لئے انہیں غزہ میں [مسلم ـ سنی مسلمانوںوں!] کے خلاف
بروئے کار لا رہا ہے۔
- غزہ میں مظلوم فلسطینی
عوام کی ٹھونسی ہوئی فاقہ کشی میں ہر روز شدت آ رہی ہے۔
- صہیونی دشمن
غزہ کے عوام کو بھوکا پیاسا رکھ رکھنے کو ـ فلسطینی مسلمانوں کے کی نسل کُشی کے لئے ـ ہتھیار کے طور
پر استعمال کر رہا ہے۔
- صہیونی دشمن مساجد اور
عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
- صہیونیوں کا
ایک خطرناک ترین اور بدترین جرم قرآن کی بے حرمتی ہے۔
- صہیونی دشمن
مساجد میں قرآن پاک کی بے حرمتی کرتا ہے، یہودی غاصبین قرآن کریم کو پھاڑ دیتے ہیں
اور نذر آتش کرتے ہیں۔
- صہیونی دشمن انتہائی
بھیانک اور بے شرمانہ انداز سے قرآن کریم کے پھاڑنے اور نذر آتش کرنے کی تصاویر
اور ویڈیوز بنا کر وائرل کر دیتے ہیں۔
- صہیونی دشمن نے اس ہفتے
25 سے زیادہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
- غزہ پر صہیونی جارحیت کے
نتیجے میں شہداء، زخمیوں اور اسیروں کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی
ہے۔
- صہیونی دشمن مختلف النوع
جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے جو درحقیقت اسلام کے ساتھ اس کی تاريخی دشمنی کا اظہار
ہے۔
- امریکہ امریکہ اقوام
عالم کو اپنے ممنوعہ ہتھیاروں کے لئے 'تجربہ گاہ کے چوہے' سمجھتا ہے۔
- دریائے اردن
کے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے خلاف بھی صہیونی دشمن کے جرائم اور مظالم کا سلسلہ
جاری ہے۔
- مجرمانہ اقدامات کےحوالے
سے امریکہ اور صہیونیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، فلسطینیوں کے مصائب امریکیوں کے
لئے اہمیت نہيں رکھتے، وہ غزہ میں چند صہیونیوں کی قید کو برداشت نہیں کرتے مگر صہیونیوں
کو پوری امت مسلمہ پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
- جو کچھ امریکہ کے لئے اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے
کہ امت کی طرف سے ایسا کوئی رد عمل سامنے نہ آئے جو صہیونی ریاست کو متزلزل کر دے۔
- دشمنان اسلام کی کوشش یہ
ہے کہ ہم ان کے ان معاندانہ اور ظالمانہ اقدامات کی حقیقت کو بھول جائیں۔
- ان تمام تر مظالم اور تلخ حقائق کے باوجود بڑے
اسلامی اور عرب ممالک نے خاموش تماشائی بن کر دشمنان اسلام کے سامنے خاموش تماشائی
بر کر معذرت خواہانہ اور منفعلانہ موقف اپنایا ہؤا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ: سید
عبدالملک بدرالدین الحوثی نے ابتدائے جنگ سے اب تک امت مسلمہ کو جگانے کی کوشش کی
ہے اور لگتا ہے اس آنکھیں کھولنے والے خطاب کا مقصد بھی یہی ہے، لیکن امت کو غلامی
کی لت پڑ چکی ہے، اور بیداری کی کسی بھی تحریک کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
شام پر عبرانی-اردوگانی یلغار سے اس حقیقت کا عملی ثبوت فراہم ہو چکا ہے، اور جو
ممالک اور اقوام غزہ پر ڈیڑھ سالہ صہیونی-مغربی یلغار پر ہلی تک نہیں، وہ آج دہشت
گردوں کی صف میں کھڑے آ رہی ہیں اور جن کا اسلام یہودی کی یلغار کے موقع پر ان کے
سینوں میں دبکا ہؤا تھا وہ آج فلسطینی کاز کے ایک بڑے تاریخی حامی "شام"
کے خلاف یلغار کے موقع پر جاگ اٹھا ہے۔ اور جو اردوگان صہیونیوں کی زبانی کلامی
مذمت کرتے ہوئے غزاویوں کے قتل کے لئے صہیونیوں کو ہتھیار اور ایندھن فراہم کرتا
تھا، وہ آج علی الاعلان صہیونی ریاست کا تزویراتی شریک کے طور پر شام پر جارحیت کی
قیادت کر رہا ہے!!! ایسی جارحیت کہ جس کا نتیجہ فلسطینی کاز کی مکمل نابودی،
مقاومت اسلامی کی کمزوری اور مزید ڈیڑھ دو سو سالوں تک امت کی تاریخی غلامی جاری رہنے
کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔۔۔ تو کیا پھر بھی عالم اسلام کی بیداری کی امید کی
جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت
حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110