اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق صہیونی حکام اور تحزیہ کاروں نے پارسین ٹی وی نامی ٹیلی گرام چینل کے نشر کردہ ذیل کی ویڈیو میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں اپنی بے بسیوں کا رونا رویا ہے جو کچھ یوں ہے:
ہمارے پاس اس تھکی ماندہ
فوج کے ساتھ، جنگ بندی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
صہیونی چینل کان کا نامہ
نگار:
ہم سیاسی لحاظ سے بھی اور
عسکری لحاظ سے بھی جنگ بندی پر مجبور ہوئے، موسم سرما آگیا، اور ہمارے گولہ بارود
کا ذخیرہ ختم ہونے کو ہے۔
صہیونی فوجی ریڈیو کے نامہ
نگار دورون کدوش:
فوج کے اندر سب جنگ بندی کے خواہاں تھے، اس لئے کہ اسلحہ ختم ہونے کو تھا، اور اسرائیلی فوجیوں پر حزب اللہ کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ ہمارے فوجی اسے برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔
[دورون کدوش وہی شخص ہے جس نے اعتراف کیا ہے کہ فوجی سینسر کے شعبے نے اس کو شام میں شروع ہونے تکفیری دہشت گردی کے حوالے سے جھوٹی خبریں اور رپورٹیں بنانے اور تکفیریوں کی کامیابیوں کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کی ہدایت کی ہے]۔
سابق صہیونی وزیر جنگ آویگدور
لیبرمین:
یہ ایک وقتی جنگ بندی ہے
پانچ یا چھ سال کے عرصے کے لئے، جس کے بعد چوتھی جنگ شروغ ہوگی اور فرق صرف یہ
ہوگا کہ اگلی جنگ میں حزب اللہ کے پاس ڈرون طیاروں کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ ہو گئی
ہوگی۔
غاصب فوج کا سابق کمانڈر یائیر
گولان:
ہم انتہائی تھکی ہاری فوج
کے ساتھ اس منصوبے تک پہنچے، اور سبب یہ تھا کہ سیکورٹی اداروں نے نیتن یاہو کو
رپورٹ دی تھی کہ "ہمیں اس جنگ بندی کی اشد ضرورت ہے"۔
ویڈیو کی تفصیل:
- یہاں حالات یہ ہیں کہ صرف سیاسی
نہیں ہیں بلکہ آپریشنل اور عسکری صورت حال نے بھی ہیں اس سمجھوتے کی طرف دھکیل دیا۔
- ہم موسم سرما میں داخل ہوئے اور
امریکہ بھی کافی عرصے سے ہماری ضرورت کا پورا گولہ بارود ہمیں فراہم نہیں کر رہا
ہے۔ وسیع پیمانے پر اسلحے کی ترسیل پر پابندی پائی جاتی ہے جس کے بارے میں زیادہ
نہیں بولنا چاہئے۔
- فوج کے اندر کے لوگ سمجھوتے کے
خواہاں تھے۔ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی منفی نکات بھی تھے اور سمجھوتے میں بہت ساری
برے خلاؤں کا سامنا ہے جو کم نہیں ہیں مگر اس میں مثبت نکات بھی ہیں، جیسا کہ،
گولہ بارود اور ریزرو فوجیوں کے مسئلے کا سامنا ہے جو جنگ کے دباؤ کی وجہ سے عاجز
ہو گئے ہيں اور مزید جنگ نہیں لڑ سکتے اور فوج کے کندھوں پر بوجھ ہیں۔ اور پھر ہمیں
اپنی توجہ غزہ اور اپنے یرغمالیوں کی واپسی پر پر اپنی توجہ مرکوز کرنے بھی ضرورت
ہے
- حالات بہت پیچیدہ ہیں، ایک طرف
سے اسلحے کی عدم ترسیل کی دمکیا آ رہی ہیں، اور دوسری طرف سے بین الاقوامی اقدامات
ہمیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ فی الوقت یہ واقعہ ہماری سلامتی کی ضمانت نہیں دے گا،
اور یہ حزب اللہ نہیں جس کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، بلکہ اسرائیل کو دباؤ کا
سامنا ہے۔ حزب اللہ کے ساتھ جنگ کو اس انداز سے اختتام پذیر نہیں ہونا چاہغے تھا؛
میں کنیسٹ (یہودی پارلیمان) کا رکن ہوں اور اگر کابینہ میں وزیر ہوتا تو اس
سمجھوتے کے خلاف ووٹ دے دیتا۔
- حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مختصر
عرصے کے لئے عارضی جنگ بندی ہے، پانچ یا چھ سال تک کے لئے، جس کے بعد لبنان کے
ساتھ چوتھی جنگ کا آغاز ہوگا۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ اس بار پانچ یا چھ سالہ عرصے میں،
حزب اللہ کے پاس 40000 ڈرون طیارے ہونگے۔
- یہ جنگ بندی ایک عارضی سمجھوتہ
ہے جس کے دلائل بھی واضح ہیں۔ ہم ایک انتہائی خستہ حال فوج کے ساتھ اس سمجھوتے تک
پہنچے ہیں، کیونکہ سیکورٹی اداروں نے وزیر اعظم کو اطلاع دی تھی کہ "ہمیں جنگ
بندی کی اشد ضرورت ہے"۔ لیکن میرے خیال میں اس سے بہت بہتر جنگ بندی کا امکان
بھی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
