اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ غاصب یہودی ریاست نے لبنان پر بھاری جنگ مسلط کی، پہلے پیجرز دہشت گردی کا اہتمام کیا، پھر قائدین
اور کمانڈروں کو دہشت گردانہ انداز سے شہید کر دیا، جنگ شروع ہوئی تو حزب اللہ نے
ایک ہی ہفتے میں اپنی طاقت بحال کر دی۔ اب لبنان میں بظاہر عارضی جنگ بندی ہوئی ہے
وہ بھی نیتن یاہو کی درخواست پر، جو لبنان میں جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتا رہا
اور اس نے اسی وجہ سے اپنے وزیر جنگ ـ جنگی مجرم ـ یو آف گالانت کو لبنان میں جنگ
جاری رکھنے کی مخالفت پر، برطرف کردیا اور اس کے بعد آنے والے وزیر جنگ نے دوٹوک
الفاظ میں کہہ دیا کہ لبنان میں جنگ بندی کبھی بھی نہیں ہوگی۔ نیتن یاہو ہر دہشت
گردانہ کاروائی کے بعد اپنی فتح کا جشن مناتا رہا اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز
سے بھی لبنانی قائدین کے قتل کے احکامات جاری کرتا رہا لیکن اب
"جوبائیڈن" کے اعلان پر جنگ بندی قائم ہو چکی ہے۔
جنگ بندی کے بعد
صہیونی وزیر اعظم کے موقف میں "فتح" کے ہم معنی الفاظ تو نظر نہیں آئے
مگر اس نے اپنی شکست کے ہم معنی الفاظ بنانے کی کافی کوشش کی اور مغالطہ بازی کا
سہارا لیا تاکہ اس کی خیالی فتح پر مبنی دعوؤں کی ناکامی کا کوئی جواز فراہم کر
سکے مگر بات نہیں بنی۔ نیتن یاہو نے پھر بھی لبنان میں اپنی فوجی نقل و حرکت جاری
رکھنے کے حق کے بارے میں بات کی مگر اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ سمجھوتے میں
لبنان کو کسی بھی اسرائیلی حملے کا جواب دینے کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔
لبنانی پارلیمان میں "مقاومت سے
وفاداری" بلاک کے رکن سید حسن فضل اللہ نے المیادین چینل سے بات چیت کرتے
ہوئے کہا: لبنان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہوکسٹین نے بیروت کو سمجھوتے
کا مسودہ پیش کیا، جس میں اچھی خاصی تبدیلیاں اور اصلاحات کی گئیں، اور اس کی
بنیاد پر جنگ بندی اور معاندانہ اقدامات کے خاتمے کا سمجھوتہ حاصل ہؤا۔
یوں لبنان کی
اسلامی مقاومت نے صہیونی دشمن کے عزائم کو مسترد کیا اور میدان میں اپنے مجاہدین
کی استقامت سے جنگ بندی کے سمجھوتے میں ترامیم کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ سمجھوتہ
جو حاصل ہؤا در حقیقت صہیونی دشمن کی شکست اور تسلیم کا سمجھوتہ کہلانا چاہئے۔
نیز صہیونی ریاست لبنان کو سمجھوتے کے نفاذ پر
نگرانی کے لئے برطانیہ اور جرمنی کو متعلقہ کمیٹی میں رکنیت دلانے پر مجبورکرنے میں
بھی ناکام ہوئی۔
چنانچہ اس سمجھوتے
میں حزب اللہ اور لبنانی حکومت کو بالادستی حاصل ہوئی، لبنان نے سمجھوتے میں ترمیم
کے حوالے سے صہیونی تجاویز کو مسترد کر دیا اور یوں نیتن یاہو کا یہ مطالبہ بھی - کہ
لبنان کے جنوب اور فلسطین کے شمال میں ایک بفر زون قائم کیا جائے، - نظر انداز کیا
گیا۔ یہ نیتن یاہو کا اہم ترین مطالبہ تھا۔ لبنانی حکومت اور حزب اللہ نے اس نکتے پر زور دیا
کہ سمجھوتہ اقوام متحدہ کی 2006 والی قرارداد 1701 کے مطابق ہونا چاہئے چنانچہ صہیونیوں
کا یہ مطالبہ بھی ناکام رہا کہ: حزب اللہ کو دریائے لیتانی کے اس پار تک پسپا ہونا
چاہئے
نیتن یاہو کی یہ خواہش خاک میں مل گئی تو اس نے
دیوانہ وار حملے کئے اور جنگ بندی کے لئے مقررہ وقت سے قبل جنوبی لبنان، بقاع اور ضاحیہ
سے لے کر بربور، النویری، خندق الغمیق، بلاطہ اور منطقۃ الحمرا پر دیوانہ وار بمباریاں
کیں اور اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ دریائے لیتانی کے ساحل پر، دیر میماس میں واقع
گرجاگھر کی بے حرمتی کے موقع پر تصاویر اتاریں اور خوش رہیں!
اس سے زیادہ
ڈرامائی صورت حال مقبوضہ فلسطین میں جاری رونما ہوئی ہے۔ نیتن یاہو کو امریکہ کی
جانب سے جنگ بندی کے باضابطہ اعلان سے قبل، اعلان کرنا پڑا کہ اسرائیل نے اس
سمجھوتے کو تسلیم کر لیا ہے۔ اور یوں وہ اپنے حامی صہیونیوں، انتہاپسند دائیں بازو
کی انتہاپسند جماعتوں اور عام یہودی آبادکاروں کی طرف سے ہی شدید تنقید، مذمتوں،
احتجاجات اور تضحیک کا نشانہ بنا۔ ان سب کا متفقہ موقف یہ تھا کہ "جنگ بندی
کا سمجھوتہ قبول کرنا حزب اللہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے"۔
وہ شاید صحیح
بھی کہہ رہے کیونکہ جنگی قوانین کہتے ہیں کہ جو فریق میدان جنگ میں، جنگ بندی کی تجویز
دے، وہ میدان کا شکست خورد اور ناکام فریق ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر اس سے پہلے شہید
سید حسن نصراللہ اور ان کے جانشین شیخ نعیم قاسم نے بھی تاکید کی تھی: "میدان
کی بات آخری بات ہوگی اور ہم دیکھیں گے کہ کس کی چیخ و پکار کی صدائیں سنائی دیتی
ہیں"۔
صہیونی ریاست حزب اللہ کو کمزور کرنے اور اس کی عسکری قوت کے خاتمے میں ناکام
ہو گئی، صہیونی فوجی جنگ سے تھک گئے اور آٹھ ہفتوں تک لڑنے کے باوجود لبنان میں
کوئی فتح حاصل نہیں کر سکے، صہیونی فوج کو بھاری مالی اور جانی نقصانات کا سامنا
کرنا پڑا اور اس کی تسخیرناپذیری کے افسانے باطل ہو گئے۔ حزب اللہ پر غلبہ پانے کا
تصور باطل ہو گیا اور معلوم ہؤا کہ صہیونیوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہے اور لبنان کے
محاذ پر صہیونی فتح کا کوئی بھی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے والا ہے۔ ادھر بین
الاقوامی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو اور اس کے سابق وزیر جنگ یوآف گالانت کو جنگی
مجرم قرار دیا اور ان کی گرفتاری کا حکم سنا دیا، غزہ کی 14 مہینوں پر محیط جنگ
میں صہیونیوں کو رو سیاہی اور قتل و غارت کے سوا کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی
اور صہیونی قیدیوں کو رہا نہیں کرایا جا سکا۔ ٹرمپ کے نعروں اور دعوؤں کے باوجود،
صہیونیوں کو خدشہ لاحق ہے کہ ممکن ہے کہ وہ اسرائیل کی اس طرح سے مدد نہ کرے جس
طرح کہ بائیڈن اس کی مدد کرتا رہا ہے۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جن کی رو سے صہیونی وزیر
اعظم کو حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں زہر کا پیالہ پینا پڑا اور جنگ بندی کی درخواست
دینا پڑی۔
حالانکہ مقاومت
میدان میں ہے، اس کے مجاہدین بدستور مقاومت اور مزاحمت کر رہے ہیں، ایک جنگی اصول کہتا ہے کہ
جو فریق جنگ کے میدان میں جنگ بندی کا طالب ہؤا، وہ شکست کھا گیا ہے اور ناکام ہو
چکا ہے، چاہے وہ اپنی ناکامی کو بھی الفاظ میں لپیٹ کر پیش کرے۔ نیتن یاہو ہار گیا، بری طرح ہار گیا بہتر یہی ہے
کہ وہ اپنی شکست کا اعتراف کرے۔
۔۔۔۔۔
بقلم: قیس زعفرانی
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔
110


