اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے حزب اللہ کی انتظامی شوریٰ کے شہید سربراہ سید ہاشم
صفی الدین کی شہادت کے حوالے سے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ شہید صفی الدین ایک
حقیقی مبلغ عالم و فاضل، آگاہ اور بامقصد شخصیت کے مالک تھے۔
انھوں نے سید ہاشم صفی
الدین سے مخاطب ہوکر کہا: آپ سید حسن نصر اللہ کے بازو تھے، اور ان افراد میں سے
تھے جو ہر وقت میدان میں حاضر تھے، ہم آپ کو کھو گئے مگر آپ فاتح و کامیاب ہو گئے۔
انھوں نے حزب اللہ کے
تعلقات عامہ کے انچارج شہید محمد عفیف النابلسی کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
انہیں راہ قدس میں شہید ابلاغیات کا لقب دیا۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا:
الحاج عفیف ابلاغیات کی علامت تھے، انتہائی محنتی انسان تھے، وسیع علم و دانش کے
حامل تھے اور وسیع النظر تھے اور ان کی نگاہی تزویراتی نگاہ تھی۔ محمد عفیف نے اپنے
ابلاغیاتی اقدامات سے دشمن کو رسوا کرنے اور مقاومت کی کامیابیوں اور حصول یابیوں
کو اجاگر کرنے نیز دشمن کے بہتانوں اور الزامات کا جواب دینے کے حوالے سے اہم خلاؤں
کو پر کر دیا۔
بیروت پر حملہ تل ابیب پر
حملے کے مترادف
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل
نے کہا: الحاج محمد عفیف نے دشمن کو غضبناک کر دیا اور دشمن ان سے خائف ہؤا اور
انہیں شہید کر دیا۔ انہوں نے الحاج عفیف کے جسم کو شہید کر دیا لیکن وہ مقاومت و
مزاحمت کی روح کو قتل نہیں کر سکتے۔ دشمن نے محمد عفیف کو رأس النبع ـ اور حتیٰ مار الیاس اور البلاط
نامی گلی میں، یعنی بیروت کے قلب ـ میں شہید کر دیا، چنانچہ انیں تل ابیب میں اس
کا جواب ملنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
انھوں نے کہا: ہم لبنان کے
دارالحکومت "بیروت" کو دشمن کے حملوں سے نجات نہیں دلا سکتے، چنانچہ دشمن
کو اس کی قیمت تل ابیب کے قلب میں دینا پڑے گی۔
انھوں نے کہا: جن لوگوں نے
شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت پر تعزیتی پیغامات دیئے، اور جن لوگوں نے نئے
سیکریٹری جنرل کے انتخاب پر تہنیتی پیغامات دیئے، ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
حزب اللہ استحکام کی حالت میں ہے
سیکریٹری جنرل حزب اللہ نے
کہا: ہم غزہ کی حمایت اور پشت پناہی پر اصرار کرتے ہیں اور لبنان کی صورت حال کو
بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے باعث فخر ہے کہ ہم ان معدودے چند شرافت مندوں میں سے ہیں جو عراق، یمن اور ایران کے ساتھ مل کر غزہ کی حمایت کر
رہے ہیں جبکہ باقی دنیا [بے حسی کی انتہاؤں پر] صرف دیکھ رہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ
ہمیں پہنجنے والے نقصانات دردناک ہیں، لیکن ہمارے پاس انتہائی شجاع اور بہادر
مجاہدین کی اچھی خاصی تعداد ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا: ہم
نے قبل ازیں بائیڈن اور میکرون کا منصوبہ اس لئے قبول کیا تھا کہ اس کے ذریعے جنگ
بندی کا امکان تھا، لیکن انہوں نے ہمارے سیکریٹری جنرل کو قتل کر دیا۔ حزب اللہ کو
تقریبا 10 دن تک حیرت کی صورت حال سے دوچار رہی؛ لیکن اس کے بعد تمام شعبوں میں
حالات معمول پر آگئے اور حزب اللہ دوبارہ اپنی سلامتی اور استحکام حاصل کرنے میں
کامیاب ہو گئی۔
انھوں نے کہا: لبنان کے
خلاف صہیونیوں کی دو ماہہ جنگ کا نتیجہ مقاومت کی افسانوی ثابت قدمی کی صورت میں
برآمد ہؤا ہے۔ مقاومت دشمن کو نیست و نابود کرنے اور اس کو لبنانی علاقوں پر قبضہ
کرنے سے روکنے کے لئے کوشاں ہے اور ہم نے جاری جنگ میں اس حوالے سے استقامت اور
شجاعت کے نئے کارنامے رقم کئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: یہ میدان
جنگ ہے جو بولے گا۔ ہمارے پاس طویل عرصے تک جنگ لڑنے کی صلاحیت ہے۔ اسرائیل ہمیں
شکست دینے اور اپنی شرطیں ہم پر مسلط کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔ ہم مرد میدان ہیں۔
جنگ بندی کے لئے ہونے والے
مذاکرات کے لئے اپنی شرائط کا اعلان کر چکے ہیں
سیکریٹری جنرل حزب اللہ نے
مزید کہا: ہم نے جنگ بندی کے لئے ہونے والے مذاکرات میں پیش کردہ تجاویز کا مسودہ وصول
کیا اور اس کا جائزہ لیا۔ اپنے مد نظر نکات کا اعلان کیا۔ پارلیمان کے سربراہ جناب
نبیہ بیری نے بھی کچھ نکات پیش کئے ہیں جو ہمارے نکات سے موافقت اور مطابقت رکھتے
ہیں۔ ہم نے ان آراء اور نکات کو امریکی ایلچی کے سپرد کر دیا ہے اور تمام نکات کا لفظ
بلفظ جائزہ لیا جا چکا ہے۔ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ فی الحال سمجھوتے کے مندرجات اور
اپنی آراء کے بارے میں اظہار خیال نہ کریں۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا:
مذاکرات دشمن کی جارحیت کے مکمل خاتمے اور لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کی بنیاد پر
انجام پا چکے ہیں۔ یعنی دشمن کو لبنانی حدود کی خلاف ورزی، لبنانی عوام کے قتل اور
مختلف حیلوں بہانوں سے ـ جب بھی چاہے ـ لبنان میں داخل ہونے کا حق حاصل نہیں ہے۔
غاصبوں کو توقع ہے کہ جو کچھ وہ میدان میں حاصل نہیں کر پائے ہیں، وہ مذاکرات کی
میز پر حاصل کریں؛ اور یہ محال ہے اور ناممکن۔
سیکریٹری جنرل حزب اللہ
لبنان نے کہا: ہم نے خود کو ایک طویل جنگ لڑنے کے لئے آمادہ کر لیا ہے، ہمارے
مذاکرات بمباریوں اور گولہ باریوں کے سائے میں انجام نہیں پاتے کیونکہ اسرائیل بھی
ہماری بمباریوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ ہمارا فیصلہ جنگ میں مسلسل شدت لانے پر مبنی
ہے اور یہ جنگ مذاکرات کے ساتھ ساتھ جاری رہے گی۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا:
ہمارا فیصلہ ہے کہ ان دو خوبصورت نتائج اور دو بھلائیوں (إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ)
میں سے ایک کو حاصل کر لیں: فتح یا شہادت۔ میں میدان جنگ میں اپنے مجاہدین اور
ہماری حمایت کرنے والے عوام کو سلام کرتا ہوں۔ اس طرح کی حمایت مقاومت کے استحکام
کا سبب بنتی ہے اور اس کو چیلنجوں کے مقابلے میں طاقتور بنا دیتی ہے۔ ہمیں دو
راستوں کا سامنا ہے ایک تلوار کا راستہ ہے اور دوسرا ذلت کا راستہ ہے، ہیہات منا
الذلہ (دور ہو ہم سے ذلت)۔
مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار
دشمن کی سنجیدگی پر ہے
سیکریٹری جنرل نے آخر میں
کہا: ہم میدان جنگ میں جم کر رہیں گے، اور دشمن کے خلاف جہاد کریں گے، اس کی قیمت
خواہ کچھ بھی ہو؛ اور یقینا دشمن کے لئے بھی اس جنگ کی قیمت بہت بھاری ہوگی۔ دیکھئے
جب دشمن اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کامیاب ہو
چکے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار غاصب ریاست کے جواب اور نیتن یاہو کی
سنجیدگی پر ہوگا۔ میں پھر بھی زور دے کر کہتا ہوں کہ مذاکرات جارحیتوں کے مکمل
خاتمے اور لبنان کی علاقائی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ پر استوار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110