2 نومبر 2024 - 06:52
شہید سید ہاشم صفی الدین امامینِ انقلاب کے تربیت یافتہ تھے / مقاومت اسلام کے لئے عزت کا باعث بنتی ہے، آیت اللہ رمضانی

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے شہید سید ہاشم صفی الدین کی یاد میں منعقدہ مجلس فاتحہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: سید ہاشم صفی الدین امامینِ انقلاب کے تربیت یافتہ تھے، وہ حقیقی معنوں میں ولایت فقیہ پر یقین رکھتے تھے، اپنے آپ کو ولایت کا سپاہی سمجھتے تھے اور رہبر انقلاب سے بہت متاثر تھے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب اللہ لبنان کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ شہید حجت الاسلام و المسلمین سید ہاشم صفی الدین کی تکریم اور راہ مقاومت کے شہیدوں کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے کی غرض سے، روز جمعہ مورخہ یکم نومبر 2024ع‍ کی شام کو شہر قم کے حرم مطہر سیدہ معصومہ(س) کے شبستان امام خمینی(ع) میں، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی اور منسلک اداروں کی جانب سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی، آیت اللہ رضا رمضانی نے اس تقریب کے خصوصی مقرر کے طور پر خطاب کرتے ہوئے شہید سید ہاشم صفی الدین کے حالات زندگی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس شہید نے اپنی دینی تعلیم حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں مکمل کی اور 30 سال کی عمر میں شہید سید حسن نصراللہ کی دعوت پر حزب اللہ لبنان کے بااثر راہنماؤں کے حلقے میں شامل ہوئے وہ 31 سال کی عمر میں حزب اللہ کی مشاورتی کونسل کے رکن تھے۔ وہ حزب اللہ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے اور عرصہ دراز سے حزب اللہ کی انتظامی شوری (یا ایگزیکٹو کونسل) کے سربراہ تھے۔

شہید سید ہاشم صفی الدین امامینِ انقلاب کے تربیت یافتہ تھے

آیت اللہ رمضانی نے کہا: شہید سید ہاشم صفی الدین جہاد اور مقاومتی تحریکوں کے باہمی اتحاد کے حامی تھے، اور حقیقی معنوں میں مجاہد فی سبیل اللہ تھے؛ الٰہی آداب سے متصف تھے۔ وہ اپنی تربیت میں بھی اور دوسروں کے ساتھ تعامل کے وقت بھی ان آداب کا لحاظ رکھنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ شہید سید ہاشم صفی الدین امامینِ انقلاب کے تربیت یافتہ تھے۔ یہ شہید حقیقی معنوں میں ولایت فقیہ پر یقین رکھتے تھے، اپنے آپ کو ولایت کا سپاہی سمجھتے تھے اور رہبر انقلاب سے بہت متاثر تھے۔

انھوں نے کہا: اسلام اس وقت اپنا کردار ادا کرتا ہے جب شریعت کی پابندی پائی جاتی ہو۔ شریعت مؤمن انسانوں کو راستہ دکھاتی ہے۔ اگر شریعت کو تمام فردی اور سماجی جہتوں میں مان لیں، تب ہی اسلام کردار ادا کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ـ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و الہ) کے وصال کے بعد ـ اسلام کی نسبت آراء اور رویے مختلف ہیں۔ علوی اسلام اور اموی اسلام اور عباسی اسلام میں فرق ہے۔ اموی اور عباسی اسلام میں صرف اسلام کے کچھ ظواہر ہی پائے جاتے تھے۔

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے دین میں تحریفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلام کی نسبت جامع نگاہ کو معرض وجود میں آنا چاہئے۔ آج ہمیں شریعت سے دور ہونے کے لئے اسلام میں تحریفات کا سامنا ہے۔ احادیث میں بیان ہؤا ہے کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جب اسلام کو الٹ پلٹ دیا جائے گا اور اسلام میں سے صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا۔ ہرگاہ شریعت سے دوری اختیار کی جائے، اسلام کے اثرات کم ہوجاتے ہیں۔ مغرب میں لبرل اسلام کا خیرمقدم کیا جاتا ہے کیونکہ لبرلزم کے سانچے میں ڈھلا ہؤا اسلام میں کچھ استحسانات (اور مصلحت پسندیوں کی بنیاد پر احکام دین سے عدول کرنے) کو  یا یہ کہ اسلام کو ایک متشدد دین کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے، اور یہ اسلام کے لئے سب سے بڑا دھچکا ہے۔ 

مقاومت اسلام کے لئے عزت کا باعث بنتی ہے

انھوں نے کہا: دین اسلام میں ایک خطرناک تحریف "رحمانی اسلام" متعارف کرانا ہے جو مطلق رحمت پر مبنی ہے۔ رحمانی اسلام کا نتیجہ ایک مطلق اور بے قاعدہ امن و مصالحت ہے۔

انھوں نے مزید کہا: منور الفکر دانشور (Intellectuals) قرآن کریم کی 400 آیات کریمہ کو ایک طرف رکھ لیتے ہیں جن کا تعلق جہاد سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ) رحمت کی خاطر مبعوث ہوئے، آپ(ص) کے انتظام و انصرام کی بنیاد رحمت پر رکھی گئی۔ اسی الٰہی رحمت کی بنیاد پر ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا برتاؤ اخلاقی تھا اور آپ(ص) دعوت کے پہلے 13 برسوں میں ـ اصحاب کے اصرار کے باوجود ـ جنگ کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ آپ(ص) اپنے خُلق و مدارات کے واسطے سے ایک جاذبہ (اور کشش) پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور لوگوں کو متاثر کیا اور اللہ نے  خُلقِ نبوی(ص) کی تعریف کی۔ ہم ان تمام امور کو تسلیم کرتے ہیں لیکن مطلق العنان افراد اور جابر قوتوں سے نمٹنے کے لئے عقل و فطرت کے مطابق عمل کرنا پڑتا ہے۔ 

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے کہا: مقاومت و مزاحمت اسلام کے لئے عزت و عظمت لاتی ہے۔ اسلام میں جہاد و مقاومت دین کے تحفظ اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے ہے۔ اللہ نے جہاد کو واجب کیا تاکہ وہ دین اسلام کا ناصر و مددگار ہو۔ دین و دنیا کی آبادی جہاد سے ممکن ہے اور جہاد ظالموں کے خلاف جدوجہد کا نام ہے۔ مقاومت ظلم اور تسلط پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے واجب ہوئی ہے۔ مقاومت صرف اللہ کے راستے میں اور دین و شریعت نفاذ کے لئے ہو ورنہ دین کمزور پڑ جائے گا۔ یہ اسلام وہ مکتب ہے جس سے دشمن خوفزدہ ہیں۔ ایسا اسلام ظالموں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اور ایسا اسلال کبھی بھی تل ابیب کو تسلیم نہیں کرتا۔

آیت اللہ رمضانی نے دنیا میں طاقت کا توازن بگڑنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کسی زمانے میں طاقت کا توازن مغرب اور مشرق کے درمیان تھا لیکن آج طاقت کا یہ موازنہ اسلام اور استکباری نظام کے درمیان ہے۔ مقاومت کی جغرافیائی حدود پھیل چکی ہیں اور لبنان، عراق، یمن، فلسطین، ہی تک نہیں بلکہ شمالی امریکہ تک بھی پہنچ گئی ہیں، حتی کہ مقاومت کا ادب (literature of resistance) بھی مسلمانوں کی حدود سے آگے پہنچ گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ مغربی طلباء کس انداز سے فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

انھوں نے مزید کہا: دشمنوں کے مقابلے میں واحد راہ کُشا (اور راستہ کھولنے اور مشکل حل کرنے والا) نسخہ، مقاومت و مزاحمت ہے اور ظالموں کے ساتھ مذاکرات لاحاصل ہی رہتے ہیں۔ یاسر عرفات نے اسرائیل کو تسلیم کیا لیکن دیکھ لیجئے کہ صہیونیوں نے ان کے کیا سلوک روا رکھا۔ صہیونی قوم بدترین اور نسل پرست ترین قوم ہے اور وہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے پابند نہیں ہیں۔

مقاومت (و مزاحمت) قرآن کا تصدیق کردہ نظریہ ہے

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے مقاومت کو تصدیق شدہ قرآنی نظریہ قرار دیا اور واضح کیا کہ مقاومت پر اللہ کا رحم و کرم ہے۔ مقاومت عین رحمت ہے اور اگر مقاومت ہو تو افراد اللہ کے رحم و کرم سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ "رحمانی اسلام" کے بہانے جہادی آیات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ شریعت کی چھٹی کرنے کے ہم معنی ہے۔ جبر و ستم اور ظلم و جارحیت سے نمنٹے کی زبان صرف اور صرف مقاومت ہے، دشمن مقاومت و جہاد کی زبان کے سوا، کوئی زبان نہیں سمجھتا اور اگر ہم قدم بھر پسپائی اختیار کریں تو وہ دس قدم پیش قدمی کرتا ہے۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) مقاومت کا قائد تھے اور ان کے بعد امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے یہ قیادت سنبھالی اور شہید سید حسن نصر اللہ اپنے آپ کو ان کا سپاہی سمجھتے تھے۔

انھوں نے آخر میں کہا: شہید سید ہاشم صفی الدین نوعمری سے ہی مقاومت سے آشنا ہو گئے۔ یہ شہید مقاومت کے سربراہوں میں سے ایک تھے، لیکن انتہائی اخلاقی شخصیت کے مالک تھے۔ شہید سید ہاشم صفی الدین ایک عظیم مجاہد تھے جو کبھی بھی دشمن سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ غاصب صہیونیوں نے شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کو شہید کرنے کے لئے دسوں ٹن بم گرائے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ سید حسن نصراللہ کا مکتب زندہ ہے اور روز بروز فروغ پا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110